افسانہ بھوک — ڈاکٹرحمیرہ سعید

Share

افسانہ
بھوک

ڈاکٹرحمیرہ سعید
صدرشعبہ اردو
ین .ٹی.آر ڈگری کالج محبوب نگر- تلنگانہ

ماں مجھے بھوک لگی ہے ’’جیسے ہی ماں نے دروازہ کے اندر قدم رکھا میں نے بے تابی سے کہا۔
’’ٹھیرجا بیٹاابھی کچھ پکاتی ہوں‘‘میری ماں نے اپنی تھیلی میں جھانکتے ہوئے درد بھری آواز میں کہا ۔
پتہ نہیں ماں دکھی بھی تھی یا نہیں لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتاتھا کہ سارا درد انہوں نے اپنی آواز میں سمودیا ہے
’’ماں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے‘‘ مجھے رونا آرہاتھا ۔دو وقتوں سے بھوکا تھا پیٹ کا خالی کنواں دہک رہاتھا۔

یہ بھوک بھی انسان کوکتنابے بس اور لاچار کردیتی ہے۔ میرا توبھوک سے بہت قریبی رشتہ ہے ۔جب سے ہوش سنبھالاتب سے ایک یہی تووفادار ساتھی ثابت ہوئی۔ جس نے کبھی مجھ سے منہ نہ موڑا ۔پیدا ہوا تو غریبی میں‘بچپن میں کمزوری اورلاغری کی وجہ سے ماں کبھی پیٹ بھردودھ بھی نہ پلاسکی۔ بچپن کی اس بھوک نے رونے کے فن سے واقف کروایاتھا۔ کچھ بڑا ہوا توکھلونوں کی بھوک نے رونے کے فن سے آشنا کیاتھا۔ کچھ بڑا ہوا تو کھلونوں کی بھوک نے مجھ میں مایوسی کاایک اور وصف پیدا کردیا۔ جب دوسرے بچوں کا ماں کا دلار پاتے دیکھتا تو بڑی حسرت سے میرا دل بھی چاہتا کہ میں ماں کے آنچل میں چھپ جاؤں۔ لیکن میری ماں ‘پتہ نہیں کس مٹی کی بنی تھی ۔ممتا کاایک عکس بھی میں اس کے چہرے پر ڈھونڈنہیں پاتا۔ مجھے اپنی ماں سے محبت نہیں تھی کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میری بھوک کوبڑھانے کی ذمہ دار وہی ہے۔دوسرے معنوں میں مجھے اپنی ماں سے چڑ سی ہونے لگی تھی کیونکہ مجھے لگتاتھا کہ اگر وہ مجھے پال نہیں سکتی ‘میری بھوک نہیں مٹاسکتی توپھرمجھے جنم کیوں دیا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے چودہ سالہ وجود او رایسے خیالات تواس میں میرا کوئی قصورنہیں ‘بھوک انسان کوتلخ بنادیتی ہے۔
’’بیٹا کھالے‘‘ میلی ساڑی کے پلو سے پسینہ پونچھتی میری ماں نے برتن میرے آگے رکھا۔کنکی اورپتلی سی دال کودیکھ کرمجھے کوفت ہوئی ۔چاول کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مجھے کبھی اچھے نہیں لگتے تھے ۔ لیکن بھوک‘ بھوک کااحساس۔ میں برتن پرٹوٹ پڑا۔ ابھی سیرہوکر کھابھی نہ پایاتھا کہ ماں نے ایک نئی فکر میں مبتلاکردیا۔بیٹا مرزا صاحب نے مجھے کام دلادیا ہے۔یہاں سے چار میل دورایک بنگلہ بن رہا ہے۔ وہاں انہوں نے مجھے کام پر لگادیا ہے ۔شام تک ہم وہیں جاکر جھونپڑی بنالیں گے‘‘
کیا؟ مجھے جھٹکا لگا۔ یہاں سے جانے کا خیال’’ نہیں میں ماں میں نہیں جاؤں گا‘‘ میں ضد کرنے لگا ۔میں اس جگہ کو چھوڑنے کا تصورنہیں کرسکتا۔کیونکہ میں یہیں تعلیم حاصل کررہاتھا ۔ہمارے جھونپڑے کے پاس ہی ایک مسجد تھی جہاں بچے تعلیم حاصل کرنے آیا کرتے تھے ۔میں اپنی جھونپڑی کے باہر بیٹھا حسرت سے انہیں تکاکرتاتھا۔تب ایک اوراحساس جاگا۔ شائد میرے چہرے پراس کا اثر تھا کہ مرزا صاحب نے جو اس مسجد کے امام تھے ۔مجھے بھی پڑھانے کے لئے لے گئے۔ ایک صاف کرتادیا ‘بستہ ‘تختی اور کتابیں دیں ۔زندگی کے سات سالوں میں شائد میری یہ ایک خواہش پوری ہوئی تھی ۔پیار‘دولت اور غذا توکبھی ٹھیک سے نصیب نہ ہوئی‘ اس لئے جب علم حاصل کرنے کا موقع ملا توجی جان سے اس کے حصول میں جٹ گیا۔ لیکن اب ماں یہ کیا کہہ رہی ہے؟ یہاں سے جانا پڑے گا ہرگز نہیں‘انسان کب تک اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹتا رہے گا۔ آخر میں بھی انسان ہوں ۔۔۔۔!
’’ماں میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گا‘‘ میں رونے لگا‘ پتہ نہیں کیوں بات بات پر میرے آنسونکل آتے تھے’’کیا کہہ رہے ہوبیٹا:’’کیوں نہیں جاؤگے؟‘‘ہم یہاں کتنی مشکل سے زندگی گذاررہے ہیں۔میں کیا کرو‘ کچھ کام یہاں ملتا نہیں اور تجھے کھانا بھی نہیں کھلاپاتی ‘توکہتا ہے ناکہ مجھے بہت کھانا چاہئے۔ توبیٹا وہاں ہمیں پیسے ملیں گے۔ اور توپیٹ بھرکھاسکے گا ماں مجھے تسلی دے رہی تھی لیکن مجھے اب پیٹ بھرکھانے کی پرواہ نہیں کیونکہ بارہ سال سے بھوک برداشت کرنا میری عادت بن چکی تھی۔ مجھے اپنی ماں پرغصہ آیا۔ کیا مائیں اولاد کی خواہشوں کواجاڑ دیتی ہیں پھر ماں کا رتبہ اتنا بلند کیوں بنایاگیا میں نے اچانک فیصلہ کرلیا ۔ماں تو چلی جا میں ہرگز یہاں سے نہیں جاؤں گا اور تومیری فکر مت کرو ویسے بھی تیرے ساتھ رہ کر مجھے کونسا سکھ ہے جو تیرے بعد دکھ میں بدل جائے گا ۔میری ماں کوشاید بہت تکلیف ہوئی وہ رونے لگی بیٹا مانتی ہوں میں ٹھیک طرح سے تیری پرورش نہیں کرپائی۔ بیٹا عورت بہت مجبور ہوتی ہے بہت مجبور‘پتہ ہے تجھے میری زندگی میں کیا کیا کچھ ہوا‘ پیدا ہوئی تو سات بھائی‘ بہن پہلے ہی دنیا میں آچکے تھے ۔باپ مزدور تھا چودہ سال کی عمر میں دوسری بہنوں کی طرح میری بھی شادی تیرے باپ سے کردی گئی۔ تیرا باپ بنڈی پرمیوہ بیچاکرتاتھا جیسی تیسی گذررہی تھی کہ جب توچھ ماہ کاتھا تیرا باپ سڑک حادثہ میں مرگیا۔ مجھ پر پہاڑ ٹوٹ پڑا لیکن تیرے لیے مجھے جیناتھا ۔کام کے لئے باہر نکلنا پڑا ۔یہ جھونپڑا ہی میرے لئے سب کچھ ہے۔ مرزا صاحب کواللہ اچھارکھے ۔انہوں نے روکھی سوکھی کاانتظام کیا اور پھراب کام بھی دلایا ۔بیٹا یہ سب کچھ تجھے خوش رکھنے کے لئے ہی توکرنا چاہتی ہوں۔
ماں کی داستاں دکھ بھری تھی میں سمجھتاتھا کہ وہ بے حس اور خود غرض ہے لیکن اتنا احساس ہونے کے باوجود بھی میں یہ جگہ نہیں چھوڑنا چاہتاتھا کیونکہ اگریہاں سے چلاگیا تو میں علم کی بھوک میں جلتا رہوں گا۔ میں نے فیصلہ کرلیا ‘میں نے کہا ماں کیا تونہیں چاہتی کہ میں پڑھ لکھ کر اچھا آدمی بنوں ۔۔۔اور میں تو تجھ سے ملنے آیا کروں گا ۔ماں توکیا اتنا بھی نہیں کرسکتی۔ میرے سمجھانے پروہ آنسو ضبط کرتی دوسری صبح چلی گئی ابھی کچھ دن بھی نہ گذرے کہ میری ملاقات ایک ایسے آدمی سے ہوئی جو کچھ غلط دھندہ کرتاتھا وہ مجھے امیر بننے کا لالچ دے کر غلط کام کروانے لگا’’ نئی بھوک‘‘ نے میرے اندر جنم لیا۔ میں تعلیم کی بھوک کو بھول کر اس نئی بھوک کومٹانے میں جٹ گیا۔ پہلی بار مجھے لگا کہ میری بھوک مٹ رہی ہے ۔میں دوہاتھوں سے پیسہ بٹورنے لگا ۔ماں کومیرے کاروبار پرشک ہوگیا تھا وہ مجھے روکنے ٹوکنے لگی۔لیکن میں کہا سننے والاتھا وہ صدمے سے مرگئی۔میرے وجود کا ایک حصہ خالی ہوگیا‘لیکن دولت کی ہوس نے اس احساس کوبھی مٹادیا۔ اب میں ایک امیر آدمی بن گیا ہوں‘ ہونا تویہ چاہئے تھا کہ دولت مند ہونے کے بعد مجھے سکون ملتا لیکن اب تومیں اور بے کل ہوگیا ہوں میرے پاس کوئی اپنا ہی نہیں ہے۔رشتوں کی بھوک کا احساس بڑھا توایک دولت مند لڑکی سے شادی کی۔ میری بیوی بھی خوش تھی کہ سوسائٹی میں اس کی ناک اونچی تھی لیکن مجھ میں یہ بے کلی کیوں ہے؟مجھے اپنی ماں سے محبت نہیں تھی ‘لیکن آج اس کی عظمت محسوس کرتا ہوں‘ مجھے بیوی اوربچے توملے لیکن پیار نہیں مل سکا ۔ان کے نزدیک دولت ہی سب کچھ ہے اب میرا بوڑھا وجود انہیں کھٹکنے لگا ہے۔ ان کے پاس میرے لئے وقت ہی نہیں جبکہ میرا بوڑھا وجود یہ چاہتا ہے کہ زندگی بھر جتنی تکلیفیں اٹھاکر میں نے غلط راستوں پر چل کریہ مقام حاصل کیاتھا میرا بھی کوئی خیال کرے ۔مجھے بھی سب وقت دیں۔ عمر کے آخری حصہ میں ایک نئی بھوک کا احساس ہورہا ہے۔ میری زندگی بھی کتنی عجیب ہے۔ بچپن ہی سے میں کسی نہ کسی بھوک میں مبتلا رہا اورعمر کے آخری دورمیں بھی مجھے سچے رشتوں کی طلب ہے شاید میری یہ بھوک کبھی ختم نہ ہوگی۔

Share
Share
Share