حیاتِ نو کا شاعر:اقبال خلشؔ
ابراہیم افسر
موبائل: 09897012528
میں ہوں شاعر مجھے اقبال خلشؔ کہتے ہیں
تم نے لوگوں سے مرا نام سُنا تو ہوگا
برِ صغیرکے ادبی اُفق پرکہنہ مشق شاعر اقبال حسین خاں تفضل حسین خاں بالمعروف اقبال خلشؔ اکوٹوی(پ:1950)کا نام ادبی وشعری محفلوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔اسی لیے ادبی حلقوں میں ان کا نام بڑے ادب و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ادبی سرگرمیوں کے علاوہ سماجی خدمات کے فرائض کو انجام دینا موصوف کا شیوہ ہی نہیں وصفِ خاص ہے۔ان کی شاعری کو سرحدوں میں قید کرنا شاعری اور شاعر دونوں پر ستم زنی کرنے کے مترادف ہوگا۔کیوں کہ شاعر کا پیغام اوردرد وغم اپنا ذاتی نہیں ہوتا بل کہ وہ پوری بنی نوع انسانی کی ترجمانی اپنی شاعری میں کرتا ہے۔شاعری دلوں کو جوڑنے کا کام بہ خوبی کرتی ہے ۔یک بارگی اگر ہم اموصوف کے نام اور تخلص دونوں پر غور کریں تو ان کا اعتراف (اقبال) اوراضطراب(خلش)کسی ادبی سنگم سے کم نہیں ہے۔اس بارے میں انہیں کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔
جب سُلگتا ہوں ،اندر اندر ہی
چین آتا ہے شعر کہہ کر ہی
پیشِ نظر شعری مجموعہ ’’یہ خلش یہ سوزِ آ گہی‘‘بھی اس کی عمدہ مثال ہے۔موصوف کے اس مجموعے سے قبل چار شعری مجموعے ’’اثاثہ1992ء‘‘،’’خلش باقی ہے2010ء‘‘،’’کشتی سمندر میں(ترتیب)2010ء‘‘اور نعتوں پر مشتمل مجموعہ’’سراجِ مُنیر2013ء‘‘منظر عام پر آکر قارئین سے دادِ تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ موصوف کے تین شعری مجموعے ’’یہ خلش کہاں سے آتی ہے‘‘،’’نگارِ خلش‘‘اور ’’رحمتہ اللعالمین (نعتیہ شاعری)‘‘بھی زیرِ ترتیب ہیں۔
اقبال خلشؔ کا پانچواں شعری مجموعہ’’یہ خلش یہ سوزِ آ گہی‘‘2014ء میں مہاراشٹر اسٹیٹ اُردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوا۔اس مجموعے میں ایک حمد اور ایک نعت کے علاوہ غزلوں کی کل تعداد 137ہے۔مجموعے کی کل ضخامت 160؍صفحات پر محیط ہے۔خلشؔ صاحب نے اس مجموعے کا انتساب اپنے فرزندانِ سعادت و اطوار جمیل احمد خاں اور شکیل احمد خاں کے نام منسوب کیا ہے ۔کیوں کہ موصوف کی علالت میں ان دونوں حضرات نے جس خندہ پیشانی اور عاجزی و انکساری سے خدمت کی وہ لائقِ تحسین ہے۔انھیں کی بدولت یہ مجموعہ قارئین کی نذر ہوا۔
اس موقع پر میں یہ عرض کر دوں کہ اقبال خلشؔ کو شاعر ی کا ذوق اُس وقت ہوا جب اِن کی عمر محض بیس یا اکیس برس کی تھی۔یہ عمر عنفوانِ شباب کے عروج کی ہوتی ہے۔اس دور کو شاعری کا شوق کہیں یا کچھ اور ؟قاری مجموعہ کلام پڑھ کر بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔گھریلو حالات کے سبب خلشؔ صاحب صرف بارہویں جماعت تک ہی تعلیم حاصل کر سکے ۔عہدِ جوانی میں مشاعروں میں جانا اور استادشاعروں سے مشورۂ سخن کرنا ان کا اوڈھنا اور بچھونا بن گیا تھا۔لیکن زیادہ دنوں تک یہ سلسلہ نہ چل سکا ۔موصوف نے ذاتی طور پر شعری مشق کو ترجیح اور اولیت دی ۔اس شعری مشق کے بارے میں یہ خود کہتے ہیں۔
یہاں نہ آئے ،جسے علم و فن کی پیاس نہیں
یہ کار گاہِ سخن ہے ، کوئی کلاس نہیں
ہے اس کے سر پہ ،رِدائے علامت و تمثیل
نظر نہ پھیر ،غزل میری بے لباس نہیں
اور اس شعری کاوش میں ان کا اقبال ہمیشہ بلند رہا۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے زمانے بھر کے غم کو خلش جانا اور اسی کو اپنی شناخت کا ذریعہ بنایا۔یہاں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ موصوف ایک کسان ہیں اور تا عمر کھیتی باڑی میں مصروفاور ہمہ تن گوش ر ہے ۔لیکن ان کی شاعری اور زندگی کی جو بات ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہے وہ ان کی سادگی اور سادہ مزاجی ہے۔موصوف تقریباً پانچ برسوں سے بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے ہیں لیکن شعر و سخن کی محفلیں بستر پر ہی جواں ہیں۔موصوف بیماری کی حالت میں بھی غزل کہہ رہے ہیں۔
جب یہ سُنا،کہ وقت بڑا تیز گام ہے
ہم یوں چلے،کہ وقت کی رفتار گر گئی
دریائے عمر پار کیا تو پتا چلا
رخصتِ سفر کی گھڑی تو اُس پار گئی
اقبال خلشؔ صاحب ادارۂ ادب اسلامی کے با ضابطہ رُکن تو نہیں لیکن مہا راشٹر ادبِ اسلامی کی ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔اس وجہ سے ان کی شاعری میں اسلامی ادب کا رنگ ہمیں جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے۔حلقہ ادبِ اسلامی کی صحبتوں کے اثر کو انھوں نے قبول کیا اوراپنی غزلوں میں قرآنی آیات، قصوں اور حکایات کابھی خوب استعمال کیا ۔ان تلمیحات کے استعمال سے غزلیں اور پُر کشش ہو گئی ہیں۔قاری ان واقعات کو جب پڑھتا ہے تو اس کو اپنا ماضی ،حال اور مستقبل (اسلامی تاریخ کے حوالے سے)ان اشعار میں نظر آتا ہے۔وہ بار بار ان اشعار میں اپنی پہچان تلاش کرنے کی کوشش اور جستجو کرتا ہے۔ملاحظہ کیجیے ایسے ہی کچھ اشعار
اس نے اپنے پیغمبر ،ہم کو انعام کیے
ہم نے سولی پر لٹکائے، یا نیلام کیے
ہم نے دلوں کو فتح کیا،تاریخ بتاتی ہے
تم نے صرف علاقے جیتے،قتلِ عام کیے
مجھ کو بھی معلوم نہیں ، مفہوم پرندے
میں قرآن سناتا ہوں ،تو جھوم پرندے
مجاہد کو شہادت میں خوشی معلوم ہوتی ہے
یہ ایسی موت ہے جو زندگی معلوم ہوتی ہے
حسابِ روزِ محشر کے تصور سے لرزتا ہوں
مجھے ہر سانس اپنی آخری معلوم ہوتی ہے
یہ عزم ہے کہ پڑھیں لَاَ اِلَہَ اِلاَّ اللہ
سکوتِ دشت میں ،ہم ہی کوئی شگاف کریں
جیسا کہ میں پہلے ہی تحریر کر چکا ہوں کہ اقبال خلشؔ صاحب کا آبائی پیشہ کھیتی باڑی ہے۔اس کا اثر ہمیں ان کی شاعری میں جا بجا دیکھ سکتے ہیں۔انھوں نے استعارے کے طور پر قدرتی مناظر کو اپنے اشعار میں خوب سے خوب تر طریقے سے استعمال کیا ہے۔ان استعارات میںآب و ہوا،چرند پرند ،پنچھی،نیل گگن ،نشیمن ،پنجرہ،دانا پانی وغیرہ کے استعمال نے شعر کے حسن کو دو بالا کر دیا ہے۔اس مقام پر خلش ؔ صاحب ECOLOGYکے نمائندے نظر آتے ہیں۔ الغرض !ان کی شاعری ہمیں قدرتی مناظر کی ترجمان نظر آتی ہے۔آج جب ہمارے چاروں طرف قدرت کے مناظر ہماری نظروں سے اوجھل اور غائب ہوتے جا رہے ہیں تو ایسے پُر آشوب ماحول میں قدرت اور اس کے حسن کو اپنی شاعری میں استعمال کرنا کسی معجزے سے کم نہیں۔میں تو اقبال صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اپنی شاعری سے قاری کو قدرت کے فطری مناظر سے رو برو کرایا۔انھوں نے مولوی اسماعیل میرٹھی اور افسر میرٹھی کی روایت کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔قدرتی مناظر سے قاری کوروبرو کراتے ہوئے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
جی چا ہے تو ساری دنیا گھوم پرندے
سرحد کیا ہے ، تجھ کو کیا معلوم پرندے
آب و ہوا ہوتی جائے ، مسموم پرندے
ہم دونوں ہو جائیں گے، معدوم پرندے
سُن لے گا تو انسان ، پنجرہ لے آئے گا
میٹھی باتیں مت کر اے معصوم پر ندے
پنچھی کیا جو گھبرا جائے اونچائی سے
ہمّت ہے تو ، نیل گگن کو چوم پرندے
ہجرت کر جائیں تو ان کو دوش نہ دینا
دانا پانی سے بھی ہیں ، محروم پرندے
جانے کس نے ان کا نشیمن توڑ دیا
واویلا کر تھک بیٹھے ، مظلوم پرندے
اُردو شاعری میں غزل واحد صنفِ سخن ہے جس میں شاعروں نے سب سے زیادہ طبع آزمائی کر اپنی فکری جہت کو ارتقا کے ساتھ وسعت دی۔ساتھ ہی اپنے خیالات کو گہرائی و گیرائی ،اظہارِ تنوع اور صنّاعہ سحر کاری سے خوب سے خوب تر سنوارااور سجایا۔غزل کو جتنا آسان سمجھا گیا یہ اُتنی ہی مشکل ثابت ہوئی ۔لا تعدا اشعار مہمل کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔صرف لفاظی کرنا کوئی شاعری نہیں۔مولانا حالی ؔ نے مقدمہ شعر و شاعری میں شاعری پر خوب بحث کی ۔گذشتہ صدی میں کلیم الدین احمد،رشید حسن خاں اور محمد حسن عسکری نے ایسے شاعروں کے کلام پر تنقیدیں کیں جن میں صرف اور صرف لفاظی کی گئی ہے۔ترقی پسند نقادوں اور شاعروں نے ان مذکورہ بالاحضرات کو اینٹی غزل بھی قرار دیا ۔لیکن ان ناقدصاحبان کے نظریات کی بدولت ہمیں صاف ستھرے کلام سے الحاقی کلام کو علاحدہ کرنے میں مدد ملی۔زیادہ تر شاعر بھی اپنے گفتگوِ انداز کو شاعری کے قالب میں ڈھال کر قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔تاکہ قاری اس کے کلام سے لطف اندوز ہو سکے۔لیکن یہی کلام اس کی رسوائی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔اور کبھی کبھی ایک شعر کے سہارے ہی گم نام شاعر شہرت کے بام و عروج تک پہنچ جا تا ہے۔اُردو ادب میں ایسے بہت سے شاعر گزرے ہیں جنہوں نے صرف ایک دو شعر کی بدولت اپنا نام جلی حرفوں میں لکھایا۔اقبال خلشؔ نے بھی اپنے اپنے اندازِ گفتارکے ساتھ ایک مقطع میں انھیں کلمات کو دہرایا ہے جن سے اچھے اور بُرے کلام میں واضح فرق محسوس کیا جا سکے۔
کسی کی شاعری بکواس لگتی ہے خلشؔ صاحب
کسی کی گفتگو بھی شاعری معلوم ہوتی ہے
یہی انداز ان کے اس مطلع میں بھی بیان کیا گیا ہے
میرؔ ہی سجتا ہے یہ کہتا ہوا
’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘
شاعری کا انداز قدیم ہو کہ جدید لیکن شرط یہ ہے کہ وہ شاعری سچی اور حقیقت پر مبنی ہو ۔قاری کے فکر و احساس میں وہ تموج پیدا کرنے والی ہو ،زندگی کی سچی ترجمان ہو۔ایسی شاعری جلد ہی دنیائے ادب میں اپنا مقام بنا لیتی ہے اور شاعر اپنے کلام سے پہچانا جاتاہے۔شعری اظہار کا تخیل جتنا پختہ اور بالیدہ ہوگاشعر اُتنا ہی وزن دار اور اثر دار ہوگا۔اقبال خلشؔ بھی دنیائے ادب میں اپنے منفرد لب و لہجے کہ وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔مشکل بات کو سیدھے سادے انداز میں پیش کرنے کا ہنر انھیں بہ خوبی آتا ہے۔اسی سبب بسترِ مرگ پر ہونے کے باوجود ان کی شعر فہمی اور تخلیقیِ غزل یا توسیعِ سخن میں نیا پن اورپینا پن آ گیا ہے۔انھوں نے جو بھی کلام کہا ہے اس میں ان کی ذاتی مشق کا حصہ زیادہ نمایاں ہے۔انھوں نے اپنے آس پاس کے واقعات کو شاعری میں پیش کیا ہے ۔ ایسا شاعر اپنے کلام میں روایتوں کا رنگ بھر کر قاری کی فہم و ادراک کے نئے باب وا کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔یہ شاعری کی بھٹّی کی دھیمی آنچ ہی ہے جو کسی بھی شاعر کو کندن بنا تی ہے ۔شعر کی اندرونی ہیئت اور غزل کی داخلی کیفیت کو خلشؔ صاحب نے اپنی شاعری میں برتا ہے۔عصری مسائل ومعلومات سے آگہی بھی شاعری کا ایک اہم جز ہے۔اس معاملے میں موصوف کھرے اُترتے ہیں۔اپنے تخلیقی کمالت سے یہ ایسی دنیا آباد کرنا چاہتے ہیں جہاں رنگ ،نسل گورے کالے ،چھوٹے بڑے،امیر غریب میں کوئی امتیاز نہ ہو اور سب کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو۔اسی لیے انھوں نے اپنی شاعری میں روز مرّہ کی زبان کے استعمال کے ساتھ ساتھ عام محاوروں کو بھی اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔یہی رنگ ان کی شاعری کو کلاسیکی شاعری کے زمرے میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔اقبال خلشؔ کی شاعری میں قدیم اور جدید دونوں طرح کے رنگ نمایاں ہیں ،اس سے ان کے اشعار میں تازگی اور نئے پن کا احساس ہوتا ہے۔
خلشؔ یہ مصر کا بازار ہو نہیں سکتا
یہاں تو آدمی بکتا ہے چار آنے میں
اب شاعری بھی سرخئ اخبار ہو گئی
جو جانتے تھے شعر کے آداب گُم ہوئے
کپڑوں کا ذکر چھوڑیئے پکوان بھی نہیں
اب کے تو عید آئی، محرّم نہیں گئے
ہے التجاِ ،غرورسے یا رب بچائیو
اپنی انا سے آج بہت ڈر لگا مجھے
کسی غیور کو،مغرور کیوں سمجھتے ہو
وہ کر و فر تو نہیں صرف مان چاہتا ہے
ترے محل سے ،مرے جھونپڑے میں آنے تک
وفا کی باس ، پہنچ ہی گئی زمانے تک
اقبال خلشؔ کا شعری مجموعہ ’’یہ خلش یہ سوزِ آ گہی‘‘معنوی اعتبار سے بھی معنی خیز ہے۔اس میں شاعر نے اپنے دل کے جذبات کو صفحۂ قرطاس پر قاری کے سامنے رکھا ہے۔میں فراق گورکھ پوری کے لفظوں میں (جو انھوں نے اختر الایمان کی شاعری کے بارے میں کہے تھے)تو یہ نہیں کہوں گا کہ ’’خلشؔ صاحب نے ناگفنی کو اپنے اندر سمو لیا ہے‘‘بل کہ یہ ضرور کہوں گا کہ انھوں نے’’ اپنے اندر انسانیت کے درد‘‘ کو سمو لیا ہے۔تبھی تو انھیں اضطراب اور اجتناب اور اجانب سے گہرا لگاؤ ہے۔ان کی شاعری میں قاری کودوسرے افراد سے اخوت و ہمدردی کا پیغام ملتا ہے۔انسان کی زندگی میں ایسے بھی لمحات آتے ہیں جب وہ اپنی ذات کو اکیلا اور تنہا پاتا ہے۔انھیں لمحوں میں اس پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے اور شاعری اسے عزیز لگنے لگتی ہے۔کیوں کہ شاعری میں اسے اپنے غم کا علاج ملتا ہے۔یہی شاعر کے کام یاب ہونے کی ضمانت ہے۔اقبال خلشؔ نے اس جہاں میں درد سے کراہ رہے لوگوں کے زخموں پر اپپنی شاعری سے مرہم لگایا ہے۔
روایتوں کی پاس داری ،مفکرانہ انداز غموں کی طرف داری اور عام لفظوں میں خاص بات کہنے کا انداز اقبال خلشؔ کا طرۂ امتیاز ہے۔اس سے شاعر کا مقام و مرتبہ بلند و بالا ہوتا ہے۔اس طرح شاعر کی فکری جہت اور پروازِ تخیل میں نئے رنگ نظر آتے ہیں ساتھ ہی لب و لہجے میں تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ اقبال خلش ؔ کی مجموعے کی ورق گردانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ’شعری مشق ‘پر زیادہ زور دیا ہے۔وہ قدما سے بھی فیض یاب ہوئے ہیں اور حالاتِ حاضرہ پر بھی وہ نگاہ بنائے ہوئے ہیں۔عام واقعے کو شعری قالب میں ڈھالنا ان کے لیے آسان کام ہے۔دوستوں سے متعلق اشعار بھی اس مجموعے میں کتنی ہی غزلوں کو جلا بخش رہے ہیں۔حق بات کہنا ان کی فطرت میں شامل ہے۔اجتماعیت پر وہ خاصا زور دیتے ہیں۔ان کی غزلوں میں عشقیہ اشعار کی بھی کوئی کمی نہیں۔دراصل غزل اور عشق دونوں کو ہم معنی مانا جاتا ہے ۔اقبال خلشؔ نے بھی عشقیہ اشعار سے اپنے دل کے جذبات کو قاری کے سامنے رکھا ۔
کسی کی جھیل آنکھوں پر،تصدق ا ستعارہ بھی
سخنور نام اُن آنکھوں کا نینی تال رکھتے ہیں
زلیخائیں ترستی ہیں ،مگر یوسف نہ آ ئے گا
نہ جانے کس خوشی میں مصر کا بازار زندہ ہے
بہت چاہا کہ اس کو شعر کا قالب عطا کر دوں
غزل کے دائرے میں اس کا پیکر ہی نہیں آیا
یہ حسن کے اشارے ،کنائے بھی خوب ہیں
اچھا ہوا کہ عشق ہے غماز آشنا
اگر وہ سنگ نہ پھینکے تو آئے کیوں پتّھر
جو خود ہی شیشہ بدن ہے اُٹھائے کیوں پتّھر
ایک بات میں یہاں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اقبال خلشؔ جدید ٹکنا لوجی سے بھی بھر پور استفادہ کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں زمانے سے قدم سے قدم ملا کر چلنا ان کی عادت میں شمار ہے۔شوسل میڈیا(فیس بُک اور واٹس اپ) پر ان کے ادبی و ثقافتی گروپ بنے ہوئے ہیں۔اس طرح ان کی شاعری کا دائرہ وسیع سے وسیع تر(ہندوستان اور ہندوستا ن کے باہر) ہوا ہے۔نئی نسل کے ساتھ ساتھ نیا قاری بھی ان کی شاعری سے محظوظ ہو رہا ہے۔یعنی انھوں نے ترقی کے جدید آلات سے اپنا رشتہ استوار کیا ہوا ہے۔راقم الحروف بھی ان کی شاعری ،نام کام اور مقام سے شوسل میڈیا (خاص کر واٹس اپ کے ان کے ذاتی گروپ ’بزمِ ادب اور ثقافت ‘)کے ذریعے ہی متعارف ہوا تھا۔یہ اکیسویں صدی کے قاری کی خوش نصیبی ہے کہ موبائل اور کمپیوٹر کے ذریعے ہم جیسی چاہیں اور جس شاعرکی چاہیں شاعری پڑھ اور سُن سکتے ہیں۔ساتھ ہی وہ اپنی حقیر سی رائے کو اپنے محبوب شاعر کے سامنے پیش کر نے کا موقع مل جاتاہے۔اس طرح شاعر اور قاری ایک دوسرے کے خیالات سے فوراً رو برو ہو جاتے ہیں۔آخر میں اقبال خلش صاحب کو اس مجموعے کی آمد پر مبارک باد انھیں کے شعر سے دینا چاہتا ہوں ۔
میری شناخت فن ہی بنائے گا اے خلشؔ
پہچان ہو تو نامِ سلف کے بغیر بھی
***
ابراہیم افسر
وارڈ نمبر۔1،مہپا چوراہا
نگر پنچایت سِوال خاص ،ضلع میرٹھ،یو پی
پِن ۔250501،
M.9897012528
۔۔۔۔۔۔
One thought on “حیاتِ نو کا شاعر: اقبال خلشؔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم افسر”
اقبال خلش صاحب ہمارے عہد کے نمائندہ شعراء میں شمار ہوتے ہیں. ابراہیم افسر صاحب نے بہت اچھا اور مفصل مضمون لکھا ہے اقبال خلش صاحب کی شاعری کی مختلف جہتوں کی بازیافت کی مزید کوششیں کی جانی چاہئیں.