گورنمنٹ پوسٹ گریجو ایٹ کالج جھنگ میں
نامور افسانہ نگار حنیف باوا کا ،افسانہ شناسی،
پر خصوصی لیکچر
رپورٹ:ابنِ عاصی
گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج جھنگ کے شعبہ اردو نے نامور افسانہ نگارحنیف باوا کو اپنے ہاں ،افسانہ شناسی، پر لیکچر کے لیے مدعو کیا۔جس میں ایم اے اردو پارٹ ون اور ٹوکے طلبا ء طالبات اور اساتذہ نے ذوق و شوق سے شرکت کی ۔نظامت کے فرائض نوجوان شاعر پروفیسر عصمت اللہ خان سیال نے انجام دئیے۔سٹیج پر پروفیسر ڈاکٹر صادق حسین گوہر(صدر شعبہ اردو)،پروفیسر ڈاکٹر عمران ظفر،پروفیسر ڈاکٹر مختار حر،پروفیسرغلام شبیر اسد،پروفیسر نثار احمد مگھیانہ اور ابنِ عاصی موجو دتھے۔جب کہ حنیف باوا کاتعارف پروفیسر غلام شبیر اسد اور ابنِ عاصی نے پیش کیا۔
پروفیسرغلام شبیراسد نے بتایا کہ ،کسی لکھنے والے کے لیے یہ عزاز کی بات ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی ہی میں اپنے وطن کی نصابی کتب کا حصہ بن جائے اور حنیف باوا اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی ایک کہانی ،دھی،عرصہ دراز سے پنجاب یونیورسٹی کے بی اے پنجابی کے نصاب کا حصہ ہے بلکہ وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے نصاب میں شامل ہیں جوکہ اہل جھنگ کے لیے بھی اعزاز کی بات ہے۔پروفیسر اسد نے بتایا کہ ،حنیف باوا ردو اور پنجابی کے ہر قابل ذکر ادبی پرچے میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں ۔وہ افسانہ ،انشائیہ اور شاعری لکھتے ہیں اور کمال کے مترجم بھی ہیں ۔ان کو کئی ایوارڈ مل چکے ہیں ۔ا ن کی ایک کتاب ،چرخے دی موت،کوتعلیمی بورڈ فیصل آباد کی جانب سے ،اول انعام، مل چکا ہے ۔اندرون و بیرون ملک ان کے نام اور کام سے لوگ آگاہ ہیں۔لیکن اتنا بڑا نام ہونے کے باوجود حنیف باوا صاحب نہایت درویشانہ انداز میں رہتے ہیں اورغرور نام کو نہیں ہے ان میں۔اور ایک ،جینوئن لکھنے والے میں انہی اوصاف کاہونا ضروری ہوتا ہے۔۔ابنِ عاصی نے کہا کہ،حنیف باوابڑے لکھنے والوں کی شاندار روایت کا حسین تسلسل ہیں۔ان کیے افسانے عام لوگوں کہ کہانیاں کہہ رہے ہوتے ہیں ۔میری اور آپ کی کہانیاں۔ہم سب کی کہانیاں ۔ماجھے گامے بشیراں اور اللہ دتے کی کہانیاں۔حنیف باوا کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی بڑے شخص کی کہانی پیش نہیں کرتا کیونکہ وہ تو پہلے ہی ،خاص، ہوتا ہے بلکہ وہ ایک عام سے شخص پر لکھتا ہے اور اسے ،خاص، بنادیتا ہے اور ایک بڑے لکھاری کا اصل فن یہی ہوتا ہے۔ابنِ عاصی نے کہا کہ ،باقی لکھنے والوں کی طرح حنیف باوا پر بھی الزام لگتے ہیں لیکن الزام کس پر نہیں لگا؟انتظا ر حسین کو بھی ،نانیوں دادیوں کی کہانیاں سنانے والا، کہاجاتا ہے۔ڈپٹی نذیر احمد کے کرداروں پر ،الزام ،لگتا ہے کہ وہ شروع سے لے کر آخر تک بالکل بھی نہیں بدلتے ہیں۔منٹو پر جنس کا ،قلمی کاروبار، کی پھبتی کسی جاتی ہے۔یہاں بچا کون ہے؟حنیف باوا نے افسانے کے آغاز و ارتقاء کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی اور طلبہ کو بتایا کہ ان کے افسانوں کے کردار عام رہتل سے کیوں ہوتے ہیں؟وہ محلوں ،لمبی لمبی گاڑیوں،زیورات سے لدی پھندی عورتوں،زمینوں پلازوں والوں کے قصے رقم کیوں نہیں کرتے ہیں؟عام سے قصے کو ایک خاص طرح کا ،ادبی رنگ، دے کر کہانی اور افسانے کی صورت میں کیسے ڈھالا جاتا ہے؟حنیف باوا نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ،ان سے منافقت نہیں ہوتی ہے وہ جس طرح کے معاشرے میں رہتے ہیں جن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں جیتے جاگتے اور سانس لیتے ہیں انہی کی کہانیاں رقم کرتے ہیں ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ،ایک اچھا لکھنے والا تاریخی تسلسل کو ساتھ لے کرچلتا ہے اور اسے اپنے وقت کے ساتھ ، Relevant،کرکے اپنے پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ ماضی اورحال کے ،حسین امتزاج، سے ایک خوبصورت اورجاندار تخلیق سامنے آسکے اور پڑھنے والے بھی صحیح معنوں میں اس سے حظ اٹھا سکیں ۔انہوں نے ایک طالبہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ،ہر لکھنے والے کا اسلوب اسے دوسرے سے جدا اور منفرد دکھاتا ہے۔حنیف باوا نے اس سوال کے جواب میں کہ ،افسانہ کتنا طویل ہونا چاہیے؟کہا کہ ،افسانہ زندگی کے کسی ایک پہلو ،رخ یا گوشے پر لکھا جاتا ہے اس میں جزئیات میں جانے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے ایسا صرف ناول میں کیا جا سکتا ہے یا داستان میں ۔افسانہ ،کاتا اور لے دوڑی،والی ہی بات ہوتی ہے ،اس کی ،پنچ لائن ،ہی میں سب کچھ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ تقسیم ہند کے وقت دس گیارہ سال کے تھے اور ان کے بزرگ لدھیانہ سے ہجرت کر کے فیصل آباد آئے تھے اور پھر جھنگ آبسے تھے ۔تقسیم کا دکھ ،المیہ اور ہجرت کا کرب لفظوں میں ادا نہیں ہو سکتا کبھی بھی۔جس تن لاگے سو تن جانے،والی بات سمجھیں ۔انہوں نے تقسیمِ ہند پر زیادہ نہ لکھنے پر کہا کہ ،شاید باقی لوگوں نے اس موضوع پر کافی لکھ دیا ہے اس لیے وہ اس طرف نہیں آئے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ انہوں نے اس حساس موضوع کو ،ٹچ، ہی نہیں کیا۔ان کے افسانے بھی ہیں اس المیے کے حوالے سے۔پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں۔اس سوال کے جواب میں کہ ،آپ کے گھر کے پاس پاور لومز کا بے تحاشہ شور ہوتا ہے اور پھر بھی آپ کیسے لکھ لیتے ہیں؟باوا صاحب نے کہا کہ ،،اندر کا شور، زیادہ ہو تو باہر کا شور اس کے سامنے کچھ معنی نہیں رکھتا ۔اور ویسے بھی وہ اب ہر طرح کے شور کے ،عادی، ہو گئے ہیں۔
لیکچراور سوال جواب کے سیشن کے بعد حنیف باوا نے اپنی پنجابی نظموں کی کتاب،میریاں نظماں ،سے اپنی خوبصورت نظم ،ٹٹ پینا منٹو، سنا کر خوب داد حاصل کی۔
یاد رہے کہ حنیف باوا صاحب کے لیکچر کے بعد ان سے سوالات کرنے میں جہاں طلباء طالبات نے دلجمعی سے حصہ لیا وہیں شعبہ اردو کے اساتذہ پروفیسر ڈاکٹر صادق حسین گوہر،پروفیسر ڈاکٹر عمران ظفر،پروفیسر غلام شبیر اسد اور پروفیسر عصمت اللہ خان سیال نے بھی اس میں بھر پور دلچسپی لی اور نہایت کار آمد اور ٹو دی پوائنٹ سوال کیے۔
لیکچر کے اختتام پر طلباء طالبات نے جناب حنیف باوا سے آٹو گراف لیے اور شعبہ اردو کے اساتذہ کے ساتھ فوٹو سیشن بھی ہوا۔اورآخر میں شعبہ ارود کے اساتذہ اور طلباء طالبات نے معزز مہمان سپیکر حنیف باوا کو عزت اور احترام کے ساتھ رخصت کیا۔