شخصیت سازی
اک داستان جو بدل دے زندگی
ڈاکٹرظہوراحمد دانش
میڈیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ
میرامعمول رہا ہے کہ اپنے انسٹیٹیوٹ میں لیکچر کے بعد طلباء کے ساتھ گپ شپ بھی کرتاتھا۔استاد شاگرد کا باہمی تعلق مزید مضبوط ہوسکے ۔استاد کے لیے شاگر د اپنی اولاد کی طرح عزیزہوتے ہیں ۔ایم ایس سی ،ایم سی ایس ،ایم اے ،ایم بی اے ،ایڈوکیٹ ،اورجامعات و درسگاہوں سے فاضل علماء بھی صحافت کورس کے لیے میرے پاس تشریف لاتے تھے ۔ لیکچر کے کسی نہ کسی موضوع پر باتیں ہی ہوتی چلی جاتی تھیں ۔لیکن جب میں اتنے تعلیم یافتہ لوگوں کو مایوسی کی باتیں کرتا دیکھتاتھا تو حیرت ہوتی تھی کہ یہ طبقہ تو موٹیویشن دینے والا طبقہ ہے ۔یہ تو علم کی روح سے دل کی دنیا کو مسخر کرنے والے لوگ ہیں ۔خیر مثالوں اور کہاوتوں اور کرداروں سے انھیں اس اندھیر نگری سے نکالنے کی اپنے تئیں کوشش کیاکرتاتھا۔انہی دنوں کی بات ہے کہ میں مطالعہ کررہاتھاتو ایک زندگی بدل دینے والی کہانی میرے مطالعہ سے گزری پڑھ کر ایک نئی امنگ ،ایک حوصلوں کا کوء ہمالیہ مل گیا۔
محترم قارئین !!انٹرنیٹ پر موجود ایک بلاگ پر میں نے یہ تحریر پڑھی تھی اور اسے محفوظ بھی کرلیاکرلیاتھا۔جس پر وہ بلاگ بھی شکریہ کامستحق ہے ۔کہانی کچھ اس طرح ہے کہ کسی علاقے کے میں ایک شخص کی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ لگی اور وہ چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے تک سے قاصر ہو گیا۔اسے اسپتال پہنچایاگیا۔ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد ایڈمٹ کرلیا۔مریض کو ایک ایسے کمرے میں رکھاگیا جہاں ایک اور مریض جس کاکمرے کی کھڑی کی طرف بستر بھی لگاہواتھا۔پہلامریض جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی ۔پورادن چھت و دیوار کو گھورتارہتا۔مایوس بجھا بجھا دکھائی دیتا۔
کھلے دریچوں سے یوں جھانکتی ہے مایوسی کہ جیسے اب کوئی جھونکا ادھر نہ آئے گا
اداس رات کی سرگوشیوں کے بعد اگر سحر جو آئی تو کس کو یقین آئے گا
جبکہ دوسرا مریض بستر پر لیٹے لیٹے ہل جُل کرتا رہتا۔کبھی تکہ کچھ اونچا کرکے کھڑی سے باہر جھانکتارہتا۔باہر سے مناظر سے محظوظ ہوتے ہوئے خوش ہوتا۔کچھ بڑبڑاتا۔اپنے چہرے سے مسرت کا اظہارکرتا۔دوسرا مریض زندگی اور زندہ دلی سے بھرپور تھا۔
محترم قارئین :اسپتال میں داخل ہوئے پہلے مریض کا پہلا ہی ہفتہ ہواتھاکہ وہ خود کو کوستا رہتا۔کہتاکاش میں اس حادثے میں مرجاتا۔ یوں معذور تو نہ پڑا ہوتا۔
(دوسرا مریض کھڑی سے باہر دیکھتے ہوئے 🙂 آہا، کیا بہترین نظارہ ہے، آج تو گھنے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ جھیل میں لہریں اٹھ رہی ہیں اور بطخیں تیرتے دیکھ کر روح تازہ ہوئی جا رہی ہے۔ یہ چھوٹا سا گپلو گپلو سا بچہ اپنی ماں سے ہاتھ چھڑا کر بطخوں سے کھیلنے لگا ہے۔ دوسرے بچے بھی خوشی سے بھاگ دوڑ رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی سی بوندیں پڑ رہی ہیں۔ کاش میں کچھ بہتر ہو جاوں تو اس پارک کے بینچ پر بیٹھ کر پوری شام گزارا کروں گا۔
(اسپتال کا دوسرا ہفتہ )پہلا مریض (پریشانی کی عالم):ایک مفلوج شخص کی بھی کیا زندگی ہو گی۔ مجھے لگتا ہے کہ میں کبھی بھی صحت مند نہیں ہو پاوں گا اور چھت کو گھورتے گھورتے ایک دن مر جاوں گا۔دوسرا مریض :آج تو سرخ اور پہلے رنگ کے نئے پھول کھلے ہیں۔ لوگ ان کے پاس سے ٹہلتے ہوئے گہری گہری سانسیں لے رہے ہیں۔ یہ لو، اس وجیہہ مرد نے ایک پھول توڑ دیا ہے اور اس کو اپنی ساتھی کو نذر کر دیا ہے۔ یہ دونوں کتنے خوش ہیں۔ اپنی زندگی سے کتنا لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
(اسپتال کا تیسرا ہفتہ )پہلا مریض(غم و ملا میں غرق غمگین ہوتے ہوئے ):پتہ نہیں کبھی میں بھی پارک میں چل پاؤں گا کہ نہیں۔
دوسرا مریض: (بستر پر کچھ بیٹھ کر کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے)یہ بوڑھا کتنا خوش قسمت ہے۔ وہیل چیئر پر پارک میں آیا ہے۔ دو کم عمر بچے اس کی وہیل چیئر کو دھکیل رہے ہیں۔ بوڑھا بمشکل کھڑا ہو کر چند قدم چلا ہے۔ اس کے چہرے سے خوشی ٹپکی پڑ رہی ہے۔ لگتا ہے کہ اس نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے اور اسی طرح ہنستے مسکراتے آخری سانسیں بھی لے گا۔ کئی لوگ زندگی کے ہر لمحے سے خوشی کشید کرنے کا فن جانتے ہیں۔
(اسپتال کا چوتھاہفتہ )
پہلا مریض(پہلامریض مایوسی کے بھنور سے نکلتے ہوئے کچھ زندگی کی خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے کہتاہے :)کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں دوبارہ مکمل طور پر ٹھیک ہو جاوں گا اور اس پارک میں خود بھی جا سکوں گا۔ اب تو میرے پاوں بھی دوبارہ حرکت کرنے لگے ہیں۔
دوسرا مریض(حالات سے لڑنے کئی جرأت رکھنے والا یہ شخص زندگی سے بھرپور انداز میں کہتاہے): یہ چھوٹا سا خاندان آج پکنک کا سامان لے کر آیا ہے۔ خاتون نے چادر بچھا دی ہے اور اس پر کھانا سجا دیا ہے۔ بچے ارد گرد کھیل رہے ہیں۔ خوشی سے ان کے چہرے دمک رہے ہیں۔ مرد گاڑی سے چیزیں لا لا کر چادر پر رکھ رہا ہے۔ سکون اور خوشی اسی کا نام ہے۔
محترم قارئین !شب و روز اسی طرح گزررہے تھے ۔وقت اپنی رفتار سے گزررہاتھا۔دن بہ دن بقاء کی امید سے محروم ،مایوسی کی تاریک میں غرق یہ ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف سے چُور چُور یہ مریض اپنے اعصاب کو مضبوط کرتاچلاگیا۔ایک طلسماتی قوت اس کے بدن میں حرکت کررہی تھی ۔اس کی طبیعت میں بتدریج بہتری آتی چلی جارہی تھی ۔
ایک دن ہواکچھ اس طرح کہ وہ مریض جس کا بستر کھڑی کے پاس لگاہواتھا۔سوتے ہی سوتے میں وہ ہمیشہ کی نیند سوگیا۔جبکہ ریڑھ کی ہڈی والامریض صحت یاب ہو چکا تھا لیکن وہ کھڑکی کے باہر کے نظاروں کو بہت یاد کرنے لگا تھا جن کے بارے میں اب اسے کوئی نہیں بتاتا تھا۔ وہ اتنا صحت یاب ہوا کہ خود سے بیٹھنے کے قابل ہو گیا تو ایک دن اس نے نرس سے درخواست کی کہ اس کو کھڑکی والے بستر پر منتقل کر دیا جائے۔نرس نے اس کا بستر منتقل کر دیا اور وہ بے تابی سے اٹھ بیٹھ کہ باہر دیکھ سکے۔ مگر اس کو یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ اب کھڑکی اور پارک کے درمیان ایک اونچی دیوار بن چکی تھی جس کے دوسری طرف دیکھنا ممکن نہ تھا۔
پہلا مریض(ریڑھ کی ہڈی والامریض ): ہسپتال والوں نے پچھلے دنوں یہ دیوار بنا کر ظلم کیا ہے۔
سٹاف نرس(مریض کی بات سن کرقدرے حیرانگی سے): یہ دیوار تو پچھلے بیس سالوں سے یہیں موجود ہے۔
پہلا مریض(ریڑھ کی ہڈی والامریض ):کھڑکی والا مریض تو مجھے اسی کھڑکی سے پارک کے نظارے دیکھ دیکھ کر ان کے بارے میں بتایا کرتا تھا جس سے میرے دل میں زندہ رہنے کی خواہش دوبارہ جاگی۔میرے اندر موجود احساس محرومی و مایوسی ختم ہوئی ۔اک امنگ جاگی ایک جذبہ بیدار ہوا۔بقاء کی ایک کرن پھوٹی ۔
نرس(کچھ لمحے سوچتے ہوئے )، سوچتے ہوئے: شاید وہ مریض تمہیں مایوسی سے نکال کر زندگی کی خوبصورتیوں کی طرف واپس لانا چاہتا تھا۔ ورنہ وہ تو یہاں دماغ کی رسولی کا شکار ہو کر اپنی زندگی کے آخری دن گزارنے آیا تھا اور اس رسولی نے اس کو مکمل طور پر اندھا کر دیا تھا۔ شاید مرتے مرتے اس کی یہی ایک نیکی ہی اسے جنت میں لے جانے کے لیے کافی ہو کہ اس نے تمہیں ایک نئی زندگی دے دی ہے۔
محترم قارئین:زندگی نام ہی نشیب و فراز کا ہے۔ ہماری زندگی میں اچھے برے دن آتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمارے ارد گرد تاریکیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ شاید اب کبھی سحر کا منہ دیکھنا ہی نصیب نہ ہو۔ لیکن ایسے میں ایک جگنو بھی نظر آ جائے تو پھر سے اُمید بندھ جاتی ہے، یہ اُمید ہمیں جینے کا اور کوشش کرنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم
محترم قارئین:مشکل حالات ،تلخ تجربے ،محرومیوں کی سیاگھٹائیں جب چھاجائیں توسمجھ لیں کہ نوید سحر ہوکر رہے گی ۔یہ کندہن بنانے کے لیے ایک مرحلہ تھا۔یہ ہمیں جانچنے کے لیے ایک آزمائش تھی ۔یہ ہماری ہمت کا امتحان تھا۔ہمیں ہر ہرحال میں ان سے مقابلہ کرناہوگایہی ہماری زندگی کادرس ہے ۔جوٹوٹاوہ بکھر گیا۔توپھر آج یہ عہد کرلیجئے کہ ہم کبھی حالات کے سامنے سرنگوں نہیں ہوں گے بلکہ ارادوں کو بلندکرتے ہوئے اللہ عزوجل کے فضل اور اس کے کرم کے امیدوار بنتے ہوئے ہمیشہ سربلند رہنے کی کوشش کریں گے ۔
آ پ اگر کسی محرومی و مایوسی کاشکار ہیں یا ذہنی تناؤ کاشکار ہیں تو ایک بھائی ایک دوست ایک رفیق کی حیثیت سے ڈاکٹرظہوراحمد دانش کو اپنے قریب پائیں گئے ۔کونسلنگ کے حوالے سے آپ ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔آپ کی بات بن جائے تو میرے حق میں دعاضرور کردیجئے گا۔