حضرت خواجہ حبیب علی شاہؒ کی صوفیانہ شاعری – – – ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

Share


حضرت خواجہ حبیب علی شاہؒ کی صوفیانہ شاعری

ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985

چشتیہ نظامیہ کی تبلیغ و توسیع کا کام ایک ساتھ شمالی ہند و دکن میں جس عظیم ہستی نے انجام دیا وہ حضرت شیخ الاسلام حافظ سید محمد علی شاہ خیرآبادی کی تھی۔ حضرت خواجہ حبیب علی شاہ (۱۲۳۶ھ ؁ تا ۱۳۲۳ھ ؁) آپ ہی کے جید خلیفۂ خاص تھے، جنہوں نے دکن، کوکن ، بمبئی اور ساؤتھ آفریقہ میں بڑی قوت فکر و عمل سے اس مشن کو پھیلایا۔ آپ کے والد ماجد حضرت احمد یار خاں محی الدولہ رابع حکیم الحکماء و صدر الصدور کے عہدے پر سلطنتِ آصفیہ سے وابستہ تھے۔ یہ خود نفس کا عظیم مجاہدہ تھا کہ ایک امیر و کبیر خاندان کے چشم و چراغ ہونے کے باوصف خواجہ حبیبؒ نے ’’فقیری و درویشی‘‘ کو اختیار فرمایا اور عیش و طرب کو خیرباد کہہ دیا۔

ہوائی خانہ و منزل ندارم
سر راہم غریب ہر دیارم
صوفیائے کرام نے اپنے ارادت مندوں اور دیگر طالبانِ حق کے استفادہ کے لیے ’’نکاتِ تصوف‘‘ کی افہام و تفہیم کی خاطر ’’شاعری کو بھی ایک وسیلہ بنایا ہے، جس کے ذریعہ گہری اور پرپیچ باتوں کو دل نشین انداز میں مربوط و موزوں اظہار کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے۔ اسی غرض کے تحت آپ نے بھی اپنے پیام کی اشاعت و تبلیغ کے لیے ’’شاعری‘‘ کی وساطت سے اپنی بات پہنچائی ہے۔ ’’دیوانِ حبیب‘‘ جو تین جلدوں پر مشتمل ہے، کلامِ بلاغت نظام نہیں بلکہ کلام معرفت نظام ہے۔ حضرت حبیبؒ جو ایک عارف باللہ تھے، معرفت و حقیقت کے دفتر کے دفتر اپنے دیوان میں سموگئے ہیں اور اسرار و معارف کا ایک خزانہ ہماری نفع رسانی کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔
اپنے پیر حافظ علی شاہ خیرآبادی سے جو وارفتگی میسر تھی اس نے ان کے عاشقانہ رنگ کو اور چوکھا کردیا۔
دل ہے دیوانۂ روئے حافظ
جاں ہے پروانۂ کوئے حافظ

من در فراقت چوں شدم دیوانہ و مجنوں شدم
صدر پارہ دارم پیرہن در عشق تو دیوانہ ام
عقیدت و محبت کے سوا رضا و تسلیم کا یہ عالم کہ یار کے منشاء کے خلاف کوئی ملال نہیں ؂
اگرچہ کام میں تیرے کبھی کچھ دیر ہوجائے
نہ لانا اپنے تو دل میں ملال آہستہ آہستہ
’’نسبت‘‘ کے تعلق سے اکثر صوفی شعراء نے بڑے اچھے تصورات پیش کیے ہیں۔ کسی نے ’’ربطِ کامل‘‘ کی بات کہی ہے تو کسی نے نسبت کے سہارے کی بات کی ہے، لیکن آپ کا انداز ہی کچھ اور ہے ؂
دیکھو نسبت ہے مرے یار کی بس صیادی
دام میں جس نے پھنسایا ، مراجی جانتا ہے
اس شعر میں تو نسبت کو واضح کرتے ہوئے حدیث نبویؐ کا مفہوم بیان کرد یا ؂
ہر بشر کا حشر ہوگا اس کے ساتھ
ہوگی دنیا میں محبت جس کے ساتھ
جیسا کہ ابتداءً ذکر کیا جاچکا ہے باوجود امیر و کبیر خاندان سے تعلق رکھنے کے آپ نے درویشی کو اختیار فرمایا اور فرمانِ الٰہی ’’و اللہ غنی و انتم الفقراء‘‘ اور ارشادِ نبویؐ ’’الفقر فخری‘‘ کی عملی تعبیر پیش کی:
4142اہِ سلوک میں طالب پر یہ لازمی ہوتا ہے کہ وہ اپنے ’’مطلوب و مقصود‘‘ یعنی مرشد و ہادی کے مقام ’’بلند‘‘ کو پہچانے امور اس بات کا یقین کامل پیدا کرلے کہ ’’شیخ ہی منزل مراد‘‘ تک پہنچائے گا۔ اپنے شیخ پر فخر و ناز کا یہ انداز تو ’’دیوانِ حبیب‘‘ کی ایک خصوصیت ہے، جو محاوراتی اکائی (Idiomatic Unit) سے جھلکتی ہے:
نائب احمد مختار ، مرا شیخ ہے شیخ
پسر حیدر کرار، مرا شیخ ہے شیخ

قطب الاقطاب ہے وہ ، مرشد آفاق ہے وہ
وقت کا رومی و عطار ، مرا شیخ ہے شیخ
’’عشق‘‘ تو صوفی کے لیے ایک لازمہ کی حیثیت ہی نہیں بلکہ اس سے آگے ’’صوفی‘‘ اور عاشق‘‘ جداگانہ حیثیت نہیں رکھتے۔ عشق کی حرارت و تپش لہو کے ساتھ رقصاں ہو تو ’’تصفیہ قلب‘‘ میں دیر نہیں لگتی۔ حضرت حبیبؒ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’طالبِ صادق را دو چیز درکار است : یکے عشق و دیگر ادب‘‘ دیکھئے کس طرح عشق حافظ میں مبتلا ہیں:
عشقت از ماہ و سال میدارم
آرزوئے وصال میدارم

ملا ہے جس کے تئیں رتبہ فنا فی الشیخ
وصالِ حق ہے انہیں بس وصال حافظ کا

مدد العشق فی حال حبیبی
فانظر حسبۃ اللہ خروشم
جانثاری کا عالم دیکھئے کہ جسم تو جسم ’’روح‘‘ بھی فدا کردی ؂
آں خم ابرو، دیدۂ جادو، چہرۂ گلرو بینم یا رب
شوقی لقاک روحی فداک ارحم صنمی خیرآبادی
اس سلسلہ میں آپ کا یہ شعر ’’ضرب المثل‘‘ کا درجہ رکھتا ہے ؂
مبارک ہو عیدالاضحی مؤمنوں کو
میں تجھ پر ہی قرباں ہوا چاہتا ہوں
’’کیف و مستی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ’’ہمہ مستند از جام حبیب‘‘ والا معاملہ ہے۔ راہِ سلوک کی اعلیٰ منزلوں میں تو کیف و مستی‘‘ اور ’’جذب و شوق‘‘ کا شمار ہوتا ہے۔ منصور کا نعرہ ’’انا الحق‘‘ اسی کا شاخسانہ تھا۔ اس مقام پر سالک کو اپنی ’’فنا‘‘ کا خیال رکھنا پڑتا ہے، ورنہ ’’انا الحق‘‘ والی بات پیدا ہوجاتی ہے اور ایسا خیال آپ نے رکھا ہے۔
بزمِ چشتیاں ہر سو دویدم
شدم مستِ خمار یار امروز

گہے در وجد و حالت مست و مدہوش
گہے رقصم و گاہے می سرایم

مئے کوثر کا کوئی جام ادھر بھی ساقی
دل بھڑک اٹھا ہے اے آگ بجھانے والے
’’نفی اور اثبا‘‘ جیسے پیچیدۂ نکتہ کو جس عارفانہ فراست کے ساتھ اجاگر کیا ہے وہ بس آپ کی ہی کا حصہ ہوسکتا ہے:
ذات میں ہے جو فنا اور دید میں جو محو
بے تعلق ہوگیا وہ نفی اور اثبات سے
تصوف کے اہم مسائل جیسے وحدت الوجود، وحدت الشہود ، جبر و قدر اور فنا و بقاء کو بھی آپ نے اپنے اشعار کا موضوع بنایا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ جیسے عہد ساز صوفی کا ہی یہ حق تھا کہ اپنے منفرد و مخصوص انداز سے ایسی ایسی بنیادیں فراہم کردی ہیں کہ آپ کے بعد کے دور کے شعراء کے لیے ایک نظیر قائم ہوگئی۔ ذرا فکر و نظر کے ساتھ مطالعہ کیجیے۔
واجب لباس امکاں میں آیا
الحمد للہ الحمد للہ

کثرت میں وحدت ہم کو دکھایا
الحمد للہ الحمد للہ

ادھر دیکھتا ہوں ادھر دیکھتا ہوں
تجھے دیکھتا ہوں جدھر دیکھتا ہوں

آفتاب حقیقتِ احدی
ہمہ جا بے حجاب می بینم

اینما کی شان کے ناظر ہیں ہم
آپ غائب آپ خود، حاضر ہیں ہم

گہے دریا گہے ساحل گہے موج
گہے من واصل و گاہے جدایم
اس شعر کی سرمستی اور جوش و خروش دیکھئے:
مبرا ہیئت قید و اضافات
خداوندے کے او آوردہ جوشم
اکثر مقامات پر ’’سالک‘‘ کو پردوں میں الجھائے رکھنے کی بجائے ’’پردے‘‘ اٹھا بھی دیتے ہیں، جس کو حضرت کے اکرام ہی کا مظہر سمجھا جاسکتا ہے :
گھر میں ہمارے وہ شوخ آیا ، الحمد للہ الحمد للہ
پردہ دوئی کا رخ سے اٹھایا الحمد للہ الحمد للہ

مرے ہر تارِ بدن میں تو ہے
’’قربِ الٰہی‘‘ بھی معرفت کی ایک منزل ہے۔ چنانچہ ’’نحن اقرب الیہ من حبل الورید‘‘ کی تشریح یوں فرماتے ہیں:
ہو رگِ جاں سے قریں ، کیوں سامنے آتے نہیں
بے تمہارے دل کو ہم کس طرح بہلائیں بھلا!
رگِ جاں سے قریب ہے وہ حبیب
خالق الارض و السماء کو دیکھ
شاید تمنا اس ’’خوش تماشگی‘‘ کے لیے ہو کہ ؂
تو نیز برسربام آگہ خوش تماشائے است
’’قربِ الٰہی‘‘ سے آگے کا مقام ’’رؤیتِ الٰہی‘‘ کا ہوتا ہے، جو تصوف میں ایک بحث طلب مسئلہ ہے کہ آیا ’’رؤیت‘‘ اس دنیا میں بھی ممکن ہے؟ جب کہ بیشتر صوفیا اور عارفین اس کی تمنا کرتے ہیں جس میں آپ بھی شامل ہیں، مگر ایک منفرد انداز کے ساتھ ؂
نہ کیوں رب ارنی کی مانگیں دعا
شراب محبت پلائے ہوئے ہیں

تھے عاشق نہ تھی تابِ دیدار
صدا لن ترانی کی پائے ہوئے ہیں
’’محویت‘‘ بیشتر اشعار میں ایک مخصوص کیفیت پیدا کردیتی ہے ؂
محو کردے تو خودی اپنی خدا کی ذات میں
تاکہ حاصل ہو تجھے رتبہ فنا فی اللہ کا

بولا کسی نے محملِ لیلیٰ کی آرہی ہے
مجنوں نے ہنس کے بولا محمل کہاں ہے ہم ہیں
اگرچہ ’’جبر و قدر‘‘ پر فارسی شعراء اور اردو میں میر ، غالب اور درد کے ہاں کافی معنی خیز اشعار ملتے ہیں، لیکن آپ نے بڑی احتیاط کے ساتھ اس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے ؂
ہر ایک فعل کا آپ مختار ہے
میں کس کی طرف خیر و شر دیکھتا ہوں
اپنے ’’شیخ‘‘ پر توکل و انحصار اور کامل سپردگی و حوالگی کے نمونے شاید ہی کسی اور صوفی شاعر کے ہاں اس جذب و شوق سے ملیں۔ دیکھئے کس پائے کی ’’حمایتِ شیخ‘‘ کی بات ہورہی ہے:
دوجہاں میں ہے مجھے تیری حمایت حافظ
اور ہر دم مرے اوپر ہے عنایت حافظ

ابھی قہر حافظ کا آجائے اس پر
کوئی دل کو میرے دُکھاکر تو دیکھو

غضب میں جو آویں ، زمیں کو الٹ دیں
غلاموں کو ان کے ستاکر تو دیکھو
آپ ’’شریعت‘‘ کا بڑا پاس و لحاظ فرماتے تھے، چنانچہ اپنی اوّلین عمر ہی میں بڑے شوق و ضد کے ساتھ حفظِ قرآن فرمایا۔ دین حنیف کی پاسداری اور اپنی کم مائیگی کااظہار یوں کرتے ہیں:
باایں حبیب خستہ تن، حال تباہ ، نامہ سیاہ
دردِ قرآں رابدہ توفیق باروزہ نماز
چنانچہ اپنے کلام میں کئی جگہ ’’قرآنی آیات‘‘ کے حصوں کو بڑی معنی آفرینی اور تفسیری اعجاز کے ساتھ استعمال فرمایا:
وہ کس ناز سے ہر آن بیٹھے ہیں
کل یوم ہو فی شان بیٹھے ہیں
’’الست بربکم‘‘ سن کے سکھیال ’’قابلو بلٰی‘‘ کی بنسی بجائی
’’نحن اقرب‘‘ کہہ کے سجنی ’’کل شئ محیط‘‘ سنائی
’’و ہو معکم اینما کنتم‘‘ ایسے گرو کی چیری کھائی
سن کے بتیاں کچھ نہ بولوں ، منہ سے نکلی ہوئی پرائی
حدیث مقبول کے مفہوم کی بھی ترجمانی، کئی جگہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک دو نمونے اس طرح ہیں:
ہر بشر کا حشر ہوگا اس کے ساتھ
ہوگی دنیا میں محبت جس کے ساتھ

پہن کر بیٹھے ہیں وہ ’’الفقر فخری‘‘ کا لباس
واہ کیا پوشاک ہے صل علی ، صل علی
آپ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ ایک ہمہ لسانی اور ہمہ صنفی شاعر ہیں کہ اردو، فارسی ، عربی ، ہندی ، پوربی اور پنجابی میں شاعری کی تو ہر صنف جیسے حمد، نعت، منقبت، غزل، ٹھمری، رباعی، مسدس اور لوری وغیرہم میں اپنی شاعری کے جوہر دکھلائے۔ آپ کی شاعری میں کہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات کے جلوے تو کہیں صفاتِ عالیہ کے تذکرے۔ کہیں عالم خلق و مثال کی وضاحتیں تو کہیں سالک کے عروج و زوال کی باتیں ۔ سیر اللہ ہی پر تکیہ نہیں کیا، بلکہ سیر فی اللہ کا راز بھی کھول کر رکھ دیا۔ کہیں شاہد و مشہود اور مشاہدہ ہے تو کہیں عشق و مستی کا ایسا شعلہ بھڑکاتے ہیں کہ بمصداق
ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
سب کچھ نذرِ آتش ہوجاتا ہے اور صرف معشوق و مطلوب رہ جاتا ہے۔
در دائرہ کثرت جزیار نمی بینم
و زجوش مئے وحدت میگریم و می رقصم
تو کہیں ’’ابن الوقت‘‘ اور ’’ابوالوقت‘‘ کے مقاماتِ سالک کو ایک ناز و نیاز کے انداز سے بیان کرتے ہیں:
گہ ابن الوقتم و گاہ ابوالوقت
بہ اوصافِ جمالِ خوش نازم
علاوہ ازیں حضرت ممدوح نے دیگر صوفیانہ اصطلاحات اور خانقاہی آداب کا جیسے قبض بسط، صبر و توکل، جزوکل ، ذکر و شکر، محاسبہ و مراقبہ، تزکیۂ نفس و تصفیہ قلب اور سماع و اجتماع کو بھی اپنے عارفانہ کلام میں احاطہ فرمایا ہے۔ آپ کی شاعری کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ ’’شخص و عکس‘‘ ایک ہی ہے۔ آپ کی حیات بھی وہی ہے جو آپ کی ذات والا صفات ہے۔ ہر شعر میں سازِ حیات کا نغمہ گونج رہا ہے ۔ آپ کی تخلیقات میں کوئی تفاوت نہیں۔ ’’جو سوچا وہ کہا‘‘ کا معاملہ ہی نہیں بلکہ ’’جو کہا وہ کیا‘‘ کا آوازہ بھی گونج رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ نے ہر شعر کو ’’تفکر‘‘ سے زیادہ ’’تجربہ‘‘ بنا کر پیش فرمایا ہے۔ دیوانِ حبیب کے ہر شعر پر ’’قال‘‘ سے زیادہ ’’حال‘‘ کا غلبہ ہے۔
***

Share

One thought on “حضرت خواجہ حبیب علی شاہؒ کی صوفیانہ شاعری – – – ڈاکٹرمحی الدین حبیبی”

Comments are closed.

Share
Share