آم قدرت کا عظیم تحفہ
لذت سے بھرپورغذا اورصحت وطاقت کا خزینہ
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘
شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
جس طرح مدینہ منورہ اور بصرہ اپنی کھجور ٗ طائف اور دمشق اپنے انگور ٗ انجیر ٗ انار ٗکابل و کشمیر اپنے سیب ٗ گلابی امرود اصفہان اور طہران اپنے خربوزے پر ناز وفخر کرسکتا ہے اسی طرح ہندوستان کے اکثر و بیشتر شہروں کو آم پر فخر و ناز کرنے کا حق حاصل ہے ۔ آم ہندوستان کا مشہور و ممتاز اور مخصوص میوہ ہے ۔ اگر چہ آم برما ٗ سری لنکا ٗ یمن ٗ عمان ٗ بحر ہند کے بعض جزائر مصر اور سوڈان میں بھی پایاجاتا ہے مگر جو نشونما ٗ رنگ و بو ٗ طعام و ذائقہ ہندوستان کی آب و ہواہی سے پیدا ہوتا ہے وہ کہیں نہیں پیدا ہوتا ۔ امریکہ کے بعض حصوں میں بھی اسکی کاشت ہوتی ہے اورعمدہ قسم کے آم کی پیداوار کرنے کی سخت کوشش کی جارہی ہے اور ہندوستان کے ماہر اور دور اندیش ہارٹی کلچررسٹ ڈررہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہندوستان کے سر سے یہ امتیاز کا سہرا چھن جائے ۔
آم کی قدامت اوراس کا ہندوستان سے متعلق ہونا اس بات سے ظاہر ہے کہ وہ ہندوستان کے قدیم شاستروں اور طبی کتابوں میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے ۔ ہندو اس درخت کو اس درجہ متبرک سمجھتے ہیں کہ اس کی لکڑی میں جلا یا جانا موجب نجات تصور کرتے ہیں ۔ شادی بیاہ کے موقعے پر اس کے پتوں کا بندھنوار دروازوں پرباندھا جاتا ہے ۔ اور اس کا پھل دیوتاؤں کا ’’بھوگ ‘‘ یعنی انکی مرغوب غذا سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بنگال کے بعض آم خاص خاص دیوتاؤں کے بھوگ سے منسوب کئے گئے ہیں جیسے کہ بنگال کا مشہور آم کشن بھوگ یا موہنبھوگ یا گپت بھوگ وغیرہ ۔ ہندوؤں پر ہی کیا منحصر ہے ہندوستان میں جو قومیں آباد ہیں سب اسکو عظمت اور محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں مسلمان بادشاہوں اور امراء نے اس میوہ کی ترقی اور عمدگی کیلئے جو کچھ کیا اگر وہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے تو ایک کتاب ہوجائے ۔
ہندوستان میں عام طور سے جو مسلمان آکر آباد ہوئے وہ ایسے ممالک کے رہنے والے تھے جہاں عمدہ عمدہ اور نفیس نفیس میووں کی اس درجہ افراط اور فراوانی تھی کہ وہ خود کھاتے اور انتہا یہ کہ اپنے جانوروں کو بھی کھلاتے تھے ۔ہندوستان میں آکر انہیں سوائے آم کے کوئی دوسرا قابل توجہ میوہ نظر نہ آیا اسلئے تمام توجہ اسی ایک میوہ کی طرف مبذول کرلی ۔ سینکڑوں اور ہزاروں باغ لگوائے اور اپنے وطن کے میووں کے درخت منگا کر اسکی کاشت اور پرداخت کے لئے تر بیت دی ۔اور سب سے بڑی چیز جو وہ اپنے ساتھ لائے وہ پیوند قلم (Grafting)کا طریقہ تھا جس نے آموں کی دنیا میں ایک انقلاب عظیم پیدا کردیا اور اچھے قسم کے آموں کی کاشت میں بیحد آسانیاں پیدا ہوگئیں ۔ ہندو اور مسلمانوں کے سوائے ہندوستان کی بسنے والی قوموں میں چینی ٗ پارسی ٗ پرتگالی ٗفرانسیسی اور انگریز ہیں یہ سب لوگ بھی آم کے پسند کرنے والے ہیں اور ان میں سے بعض لوگوں نے اس پھل کی ہتر کاشٹ کے لئے تربیت اور ترقی میں نمایاں حصہ لیا۔چنانچہ پرتگالیوں کی یادگار وہ آم ہے جو ’’گوایا پائری ‘‘کے نام سے موسوم ہے ۔ فرانسیسیوں کی جد وجہد سے ’’الفنیسو ‘‘دریافت ہوا جو آم کا بادشاہ کہاجاتا ہے ۔پارسیوں نے ’’کاؤس جی پٹیل ‘‘ نامی آم پیش کیا ہے وہ بھی قد وقامت کے لحاظ سے ضرورقابل توجہ ہے کم وبیش دوسو برس گزر نے پر بھی بعض شہروں میں سرکاری باغات اور نرسریاں قائم ہونے پر بھی آم کی طرف جس قدر توجہ ہونی چاہئے تھی وہ خاطر خواہ نہیں ہوئی ۔ انگریزوں نے بھی اس سے بے اعتنائی کا رویہ اختیارکیا ۔ جس پر میوہ کے شائقین کو ایک گونہ تعجب اور افسوس ہے ۔ پچھلے کچھ برسوں سے ہندوستان کو بیرونی امداد سے مستغنی کرنے یعنی (Self Supporting) بنانے کے خیال سے آم کی جانب توجہ کی گئی ہے اور ہندوستان کے ہر حصہ کے آموں کا سروے کاانتظام کیا جارہاہے اگر یہ سرکاری کارروائی حسن و خوبی و کامیابی کے ساتھ انجام کو پہنچی اوراس پر عمل بھی کیا گیا تو زمانہ سابق کی غفلت اور بے اعتنائی کا ایک حد تک ازالہ ہوجائے گا ۔
آم کو بعض لحاظ سے دنیا کے تمام میووں پر ایک گونہ امتیاز حاصل ہے انگور ٗ کھجور سیب میں بھی مختلف اقسام اور ذائقے ہوتے ہیں مگر آم کی مختلف اقسام اور ان کے قد وقامت ٗشکل و صورت ٗ رنگ و روغن ٗبوباس ٗ مزے اور ذائقے میں جو نمایاں فرق پایاجاتا ہے وہ کسی پھل کو نصیب نہیں اور نہ اسکی قسمیں ہوسکتی ہیں جو جتنی آم کی ہیں ۔ کیونکہ ہر تخمی درخت کے پھل سے علحدہ اورمختلف ہوتاہے ۔ ہندوستان میں کروڑوں کی تعداد میں تخمی درخت اب بھی موجود ہیں (اگرچہ ان کا بڑا حصہ کٹ گیا اور کٹ رہاہے ) اسلئے اس کے اقسام کو بے حد اور بیشمار تصور کرنا چاہئے ۔ قد وقامت اور وزن پر غور کیجئے تو چھوٹے بیر کے سائز سے لیکر متوسط شکر کدو سائز کے قد وقامت کا آم دیکھنے میں آیا ہے ۔ آم وزن میں عام طور پر پانچ گرام سے لیکر تین کلو گرام تک پہنچتا ہے ۔شکل و صورت کا لحاظ کیجئے تو اسمیں لمبے ٗ گول ٗ چپٹے ٗ خمدار ٗ نوکدار ٗ کریلے ٗ طفنچہ ٗ ناشپاتی ٗ سیب اور آلو کی وضع قطع کے ملیں گے ۔ رنگ وبو میں سبز سرخ ٗ سیندوریہ ٗ گلابی ٗزرد ٗ بینگنی ٗ کاہی ٗ دھانی ٗ عنابی ٗ دودھیا ٗ چنی دار ٗ قلمی ٗ بعض میں گلاب بعض میں کیوڑہ ٗ لیمو ٗ سنترہ زعفران ٗ مشک اور بعض سویا وغیرہ کی بو کی آپ کو جھلک محسوس ہوگی بشرطیکہ آپ کی قوت شامہ حساس اور تیز ہو ۔ جس طرح اس پھل کی صورت اور بوباس میں فرق ہوتاہے ۔اسی طرح اسکاذائقہ بھی مختلف ہوتا ہے بہت شیریں ٗ ہلکا میٹھا ٗ میخوش ٗ کھٹ مِٹ ٗ ترش وغیرہ ۔علاوہ اس کے جتنے مختلف مرکبات اور مصنوعات اس پھل سے بن سکتے ہیں شاید ہی کسی اور پھل سے تیار ہوسکتے ہیں مثلاً تیل اور سرکہ میں طرح طرح کے اچار ٗ چٹنیاں ٗمربے ٗ جام ٗ جیلی ٗ شربت ٗکیری کی کٹھائی ٗآم کاآمرس ٗ خود اس کی قاشیں ڈبوں میں شیرہ کے ساتھ محفوظ کی جاسکتی ہیں اور ایک مدت تک کارآمد ہوسکتی ہیں ۔ جس زمانہ میں ریفریجریڑوں کا رواج نہ تھا ٗ شوقین لوگ اخیر فصل کے آموں کو وقت پر توڑ کر ریت کے ڈھیروں میں کسی تہہ خانہ یا سرد مقام میں دفن کردیتے تھے اور آموں کی فصل گزرجانیکے بعد حسب ضرورت ان کا نکالتے اوربطریق مقررہ انہیں استعمال کرتے رہتے تھے ۔ مگر آم کا مزہ آم کی فصل کے ساتھ ہے اسطرح مصنوعی طریقہ سے رکھے گئے یا ریفریجریڑوں میں بہت دن رکھے ہوئے آم زیادہ مزیدار نہیں رہتے ۔
ہندوستان میں آموں کی فصل کا آغاز عین موسم بہار میں ہوتاہے جاڑوں کے ختم ہوتے ہی آم کے درخت تین چار ماہ کی میٹھی نیند لیکر جاگ اٹھتے اور پھول دینے لگتے ہیں جنکی بھینی بھینی اوردلفریب خوشبو سے باغوں کے صحن اور تمام فضاء مہک جاتی ہے ۔ اس سمئے ہندولوگ اپنا مقدس تیوہار ہولی مناتے ہیں ۔ کوئل اور پپیہے مست ہوکر بولنے لگتے ہیں اور انکی دلکش صداؤں سے باغ اور جنگل ایک مدت تک گونجتے رہتے ہیں ۔ ملک کے جن حصوں میںیہ پھل عین برسات میں تیار ہوتاہے اور کھانے کے قابل ہوجاتاہے ۔ زندہ دل اس سے بڑا ہے لطف اٹھاتے ہیں ۔ باغات میں دعوتیں ٗ جلسے ٗ جمگھٹے ہوتے ہیں ۔ جھولے پڑتے ہیں نوخیز لڑکیاں خوشی میں جھوم جھوم کر موسم اورآم سے پوراپورا لطف اٹھاتی ہیں دوست احباب جمع ہوکر زندگی اور زندہ دلی کی داد دیتے ہیں ۔نوبیاہی جوڑوں کیلئے آم کا تحفہ سسرال کی جانب سے عظیم تحفہ تصور ہوتاہے ۔کم وبیش ایک صدی قبل زیادہ تر رواج تخمی آموں کا تھا ۔ اور جو بلا تکلف جلسے باغات میں ہوتے تھے ۔ ان میں اسی قسم کے آم کھائے اورکھلائے جاتے تھے ۔اچھے اور خوب کھانے والے ’’دوداڑھی ‘‘اور ’’تین داڑھی‘‘ شرط پر آم کھانے کا ادعا کرتے تھے جسکا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ اتنے آم کھاسکتے ہیں کہ ان کے چھلکے اور گٹھلیاں سامنے جمع ہوتی رہیں اور ڈاڑھی تک پہنچ جائیں ۔ اب نہ ڈاڑھیاں رہیں نہ وہ آم رہے نہ وہ کھانے والے رہے نہ وہ کھلانے والے ۔ کھلانے والے اس لئے کہہ رہاہوں کہ ہمارے والد ماجدحضرت علامہ مفتی محمد ؐ رحیم الدین علیہ الرحمہ کے ایک محب کرم مجھ سے ملنے تشریف لائے اور اثنائے گفتگو میں فرمایا ’’کیا تخمی آم آپ کو پسند ہیں ‘‘ میں نے کہا ’’کھانے کو تو وہی آم ہوتے ہیں ‘‘اس گفتگو پر ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ صاحب نے بیس گاڑیاں تخمی آموں سے لدی ہوئی بھجوادیں جن کو ہم ہفتوں لوگوں میں تقسیم کرتے ہوئے جی بھر کر کھاتے رہے جب وہ اسطرح بھی ختم نہ ہو سکے تو محلہ کے لوگوں کو اجازت دیدی کہ جو چاہے اٹھالے جائے اس طرح وہ آم کا تحفہ بمشکل ختم ہوا ۔ آج تو آم کی خاصی کمی کی وجہ سے آم کس طرح کھانا چاہئے ۔ (How to eat mango?)ایک اہم مسئلہ ہوگیا ہے ۔
آم کے پھل کو پیوندی یا قلمی میں تقسیم کرنا بالکلیہ غلط اور لاعلمی پر مبنی ہے ۔ کیونکہ دنیا میں جتنے بھی آم ہیں سب تخم سے پیدا ہوئے ہیں اور تخمی ہیں ۔ البتہ آم کے درختوں کو تخمی یا پیوندی میں تقسیم کرنا درست ہے کیونکہ بعض ایسے ہوتے ہیں جنکو ہم تخمی درخت کی ایک شاخ یا آنکھ لیکر الگ تیار کرلیتے ہیں ۔ یہی پیوند ی یاقلمی درخت کہلاتے ہیں اور انہیں کے پھل عام محاوروں میں پیوندی اور قلمی کہلانے لگے ہیں ۔ یہ معاملہ ایسے لوگوں کیلئے جو قلم اور پیوند کے راز سے واقف ہیں مزید توضیح و تشریح طلب ہے جسکو یہاں میں نہایت اختصار اور عام فہم اندازمیں پیش کرنے کی جسارت کروں گا ۔
فرض کیجئے کہ آپ کو آموں کا بے حد شوق ہے آپ ایک شخص کے باغ میں گئے اور انہوں نے آپ کو ایک درخت کے آم آپکو کھلائے آپکو وہ بے حد پسند آئے اور یہ خواہش ہوئی کہ وہ درخت آپ کے باغ میں بھی ہوجائے ۔ جس درخت کو آپ اپنے باغ میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں آپ کو چاہئے کہ اس درخت سے ’’دابہ‘‘ لیجئے ۔یعنی اسکی ایک تازی اور نرم ڈالی یا شاخ کو نیچے سے کسی قدر چھیل کر ایک عمد ہ سے بھر پور گملے میں دبادیجئے ۔ اور اسکو حسب ضرورت پانی دیتے رہئے ۔ایک مدت کے بعد اس شاخ میں جڑیں پیدا ہو جائینگی جب جڑیں اچھی طرح جگہ کو پکڑلیں اور مضبوط ہوجائیں تو اس شاخ کو اصل درخت سے باقاعدہ مقررہ جدا کرلیجئے ۔ اس عمل کو انگریزی میں (Layering) کہتے ہیں ۔ ایک اورطریقہ یہ ہیکہ اصل درخت کی آنکھ یعنی تازہ ’’انکھوا ‘‘ نہایت احتیاط سے جدا کرکے آم کے ایک پودے کی پوست میں اسطرح داخل کیجئے کہ جس طرح گلاب کے درخت میں داخل کیا جاتا ہے ۔ اور اس پر نرم ڈورا لپیٹ دیجئے ۔ چند دنوں میں یہ انکھوا بڑھتے بڑھتے شاخ بن جائے گا اسی کو قائم رکھئے اور اس پودے کی دوسری شاخوں کوکاٹتے رہئے اسے انگریزی میں (Budding)کہتے ہیں ۔ ان دونوں طریقوں میں پہلا طریقہ اگرچہ کہ بہت آسان ہے لیکن درخت کی تیاری کیلئے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے جبکہ دوسرے طریقہ میں نہایت احتیاط اور چالاکی کی سخت ضرورت ہے ۔ اسکا ایک اور سب سے آسان طریقہ پیوند یا قلمکاری کا ہے جسکو انگریزی میں (Grafting)کہا جاتا ہے اسکا طریقہ یہ کہ آم کا ایک چھوٹا سا پودا جو گملے میں اگا ہوا ہے اسے اس درخت کے پاس لیجاکر جس سے کہ قلم لینا مقصود ہے رکھئے اور اصل درخت کی ایک سادی دبازت کی شاخ اور گملے کے پودے کے تنے کو تھوڑا سا چھیل کر دونوں کو ملا کر مضبوطی کے ساتھ باندھ دیجئے ۔ اور اس پر موم جامہ لپیٹ دیجئے ۔ تاکہ جوڑوں میں ہوا اور پانی داخل نہ ہونے پائے ۔ چند ہی روز میں یہ دو پودوں کے جسم ایک دوسرے سے پیوست ہوجائیں گے اس وقت اصل درخت سے اسے جدا کرلیجئے ۔
اس طرح اوپر بتلائے گئے تینوں طریقوں میں جو بھی طریقہ مناسب سمجھیں اپنا کر پودے کو آپ اپنے باغ میں لگا سکتے ہیں ۔ اور یہ اسی قسم کے پھل دیگا جیسے اصل درخت میں لگتے ہیں ۔ البتہ اگر آپ اسے کسی دوسری آب و ہوا میں لیجاکر لگائیں گے تو ممکن ہے کہ پھلوں میں فرق آجائے ۔ یہ اچھی طرح ذہن نشین رکھئے کہ موافق آب وہوا میں اصل سے ترقی اور مخالف آب و ہوامیں اصل سے تنزل کاامکان ممکن ہے ۔ اسطرح خیال کرنا بھی غلطی ہیکہ پیوند یا قلم کے ذریعہ سے نئے نئے آم پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ شرف فطرت نے صرف گٹھلی ہی کو دیا ہے اوراسی سے مختلف قسم کے آم پیدا ہوتے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے ۔ آج ہمارے ملک میں جہا ں جہاں بھی آم دستیاب ہوتے ہیں وہ سب گٹھلی سے پیدا شدہ اورتخمی ہیں ۔ یہاں یہ مشاہدہ بھی لائق از دلچسپی ہے کہ بنارس میں امپرئیل بنک کے احاطہ ( جو ممبئی میں بنک آف بنگال کے نام سے موسوم تھا ) میں تقریباً پچاس سال قبل اتفاقاً ایک درخت نکل آیا تھا جسکے پھل نہایت نفیس اور خوش ذائقہ ثابت ہوئے تھے اور درختوں سے ممیز کرنے کیلئے اور کسی خاص ہیئت کے لحاظ سے اسے ’’لنگڑہ‘‘ کہنے لگے ۔اب سارے ملک میں بنارسی لنگڑے کے جتنے قلمی درخت ہیں وہ سب اسی کی اولاد دراولاد ہیں ۔ بہار میں پہنچ کر اس آم نے قدوقامت اور لطف و ذائقہ میں اور ترقی کی اور پٹنہ میں حاجی پور کا مقام لنگڑہ کے لئے مشہور ہے ۔
یوں تو آم کم و بیش سرزمین ہند کے ہر حصہ میں پیدا ہوتاہے مگر پھر بھی اسکے بعض ریاستیں اور ان ریاستوں کے بعض شہر اور قصبات آموں کی فراوانی اور عمدگی کے لئے ممتاز ہیں ۔ شمالی ہند میں بنگال اوراسمیں کلکتہ ٗمالدہ ٗ مرشدآباد ٗ بہار میں پٹنہ ٗ دربھنگہ ٗ اترپردیش میں لکھنو ٗ ملیح آباد ٗ شاہ آباد ٗ سہارنپور وغیرہ جنوبی ہند میں احاطہ مہاراشٹرا کے بعض اضلاع نوجہو ٗ رتناگری ٗ کرناٹک اور میسور ٗ آندھراپردیش میں حیدرآباد کے علاوہ سیلم ٗ بیگن پلی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ ان مقامات پررائج اور معروف آم یہ ہیں ۔ شمالی ہند میں بمبئی (جسے پٹنہ اور سہارنپوروغیرہ مالدہ اور دہلی میں سرولی کہتے ہیں آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ اسکا نام بمبئی کیوں پڑا حالانکہ نہ یہ قسم بمبئی میں ہوتی ہے اور نہ پسند کی جاتی ہے )لنگڑہ ٗ سپیرہ دسہری ٗ کشن بھوگ ٗ ثمر بہشت ٗ تیموریہ ٗ فجری ٗ کھجری یا ثمر بہشت چرنہ شامل ہیں ۔ جنوبی ہند کے مشہور آم یہ ہیں الفن ( بعض اسکو ہاپس قادر پسند بھی کہتے ہیں ) گرا (پاپڑی ) بے نشان ٗ جہانگیری ٗ حمایت پسند ٗ مرشدآبادی ٗ اعظم الثمر ٗ فخر الثمر ٗ طوطا پری وغیرہ ۔ یہاں اس امر کا تصفیہ کرنا کہ ہندوستان کے شمالی حصہ کے آم بہتر ہوتے ہیں یا جنوب کے۔ نہایت ہی مشکل امرہے اورا سکی چند وجوہات ہیں ۔ سب سے اہم وجہ تو یہ ہیکہ ان دونوں حصوں کے آم ایک وقت تیار اور مراد پر نہیں آتے ۔دونوں کے درمیان مہینہ ڈیڑھ مہینہ کاتفاوت رہتاہے ۔ جب جنوبی ہند کے آم کاموسم قریب الختم ہوتاہے تو شمالی ہند میں آم شروع ہوتے ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شمال کا آم بغیر پانی برسے مزہ نہیں دیتا جبکہ جنوب کاآم پانی برستے ہی مزہ کھودیتاہے ۔ اس نازک اور لطیف پھل کا ایک مقام سے دوسرے مقام کو منتقل کیا جانا خواہ کتنی ہی احتیاط کی گئی ہو ٗ پھر بھی اسکی شکل و صورت ٗ بوباس ٗ ذائقہ میں ایک تغیر پیدا کرتا ہے اورا ن کا موازنہ اور مقابلہ مشکل ہوجاتاہے اگرچہ ملک کے دونوں حصوں کے آم کا صحیح موازانہ اورمقابلہ نہیں ہوسکتا مگر جن لوگوں نے دونوں مقامات کے آم انہیں مقامات پر کھائیہیں اور آموں کے متعلق صحیح مذاق اور ایک گونہ بصیرت رکھتے ہوں تو ان کی اس رائے سے اتفاق کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوسکتا کہ جنوبی ہند کے آم قد وقامت اور پرمغز ہوتے ہیں شمالی حصوں کے آموں پر فائق ہیں ۔ اور لطافت و نفاست اور ذائقہ میں شمالی حصے کے آموں کو فضیلت ہے ۔
ہندوستان کی آزادی سے کچھ عرصہ قبل بمبئی میں سرکاری طور پر عظیم الشان پیمانے پر آم کی نمائش کا اہتمام ہوا تھا جس میں سارے ہندوستان کے سرکاری باغات کے مہتمم صاحبان کومدعو کیاگیاتھا اوران سے خواہش کی گئی تھی کہ اپنے اپنے مقامات سے آم ہمراہ لائیں ۔ اسطرح نمائش میں ہرحصہ لینے والوں نے اپنے ہمراہ عمدہ سے عمدہ آم لئے حاضر ہوئے ۔ نمائش کی جانچنے والی کمیٹی تمام آموں کو اچھی طرح چکھنے اور جانچنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ جنوبی ہند کا آم الفن (ہاپس یا قادر پسند )تمام آموں کا بادشاہ ہے مگر اس زمانہ میں خان بہادرشمس العلماء ٗ مولانا امداد امام مرحوم جو آم کے متعلق عملی تجربہ اور ذوق و شوق کے لحاظ سے جسارت نظر رکھتے تھے اپنی ایک گرانمایہ تصنیف ’’کتاب الثمار ‘‘ میں ’’اصیل فجری ‘‘ کو ہندوستان کے تمام آموں کا سرتاج اور بادشاہ قرار دیتے ہیں ۔ یہاں نمائش کمیٹی کے ججس اور مولانا امداد مرحوم کی رائے بجائے خود درست ہے صرف نقطہ خیال کا فرق ہے ۔ نمائش کمیٹی کے پیش نظر ’’تجارت ‘‘ تھی کیونکہ تمام ہندوستان کے آموں میں الفن ہی ایسا آم ہے جو کئی خوبیوں کے ساتھ بغرض تجارت برآمد کیا جاتاہے اور زیادہ عرصہ تک خراب ہونے سے محفوظ رہتا ہے ۔ اور مولانا موصوف نے ذائقہ لطافت و نفاست اوراس وقت تک قائم رہنے کاخیال کیا ہے جبکہ تمام آموں کی بہار ختم ہوجاتی ہے اور ’’میدان انبہ ‘‘ میں صرف یہی فتح و نصرت کا امتیاز حاصل کرتا ہے ۔
عمدہ اور بہتر آم قرار دئیے جانے کے لئے لازم ہے کہ وہ لذیذ ٗ خوش ذائقہ ٗ نفیس و لطیف ٗ خوشبودار ٗ پر مغز شاداب ٗ بے ریشہ کی خورد تخم ٗ باریک اور مضبوط پوست والا ٗ متوسط اور معتدل قد وقامت کاحامل ہو کیونکہ اعتدال سے متجاوز قد وقامت کے تمام پھل عموماً اپنے اصل ذائقہ سے گرجاتے ہیں ۔ انسان کے مذاق مختلف ہیں اسلئے لذیذ اور خوش ذائقہ یا بوباس وغیرہ کی تعریف کرنا مشکل مسئلہ ہے ۔ اسلئے کہ بعض لوگ بہت شیریں ٗ بعض میخوش (یعنی شیرینی اورترشئی گوداکے ساتھ) بعض رسیلے آم کو تو بعض کو دردرا مغز والا اچھا لگتا ہے خوشبو کے متعلق بھی اسی طرح کے مختلف مذاق پائے جاتے ہیں ۔ جو آم شمال میں ’’بمبئی ‘‘ کے نام کا بکثرت پایاجاتاہے اور اسکی بو کو بیحد پسند کرتے ہیں جنوب والے ٗسوئے یا تارپین کی بو قراردیتے ہوئے سخت نفرت کرتے ہیں ۔ الغرض آم کی نفیس و لطیف خوبی کا بھی یہی عالم ہے آموں کی قسموں کے بارے میں ڈاکٹر محمد عبدالرحمن صاحب کی تحریرقارئین کے لئے نعمت ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریر کے مطابق ہندوستان میں تجارتی نقطہ نظر سے آم کی اقسام حسب ذیل ہیں:
.1 شمالی ہند میں دسہری ٗ لنگڑہ ٗفاضلی ٗ چوسہ ٗ بمبئی ٗگرین (مالدہ ) ٗثمر بہشت اور سراؤلو ۔
.2 مشرقی ہندوستان میں بمبئی ٗ ہیم ساگر ٗ لنگڑا ہ ٗ کرشنا بھوگی ٗ فاضلی ٗ مالدہ ٗ بتوہ سوکوا ل ٗ فجری ٗ گلاب خاص ٗ تیموریہ ٗ بے نشان ٗ زردالو ٗ نیلم سورن ریکھا ۔
.3 مغربی ہندوستان سے الفانسو ٗ بمبئی گرین (مالدہ ) ٗ لنگڑا ٗ کیسر ٗ راجہ پوری ون راج ٗ جام دار ٗ پیری ٗ ملکورا د اور ملغوبہ ۔
.4 جنوبی ہند (آندھرا چھوڑکر ) بادامی (خیبر یاالفانسو) ٗ نیلم ٗ بینگلورا ٗ ملغوبہ ٗ پیری( پیٹر) ٗ فیماندن ٗ ملکوراد ٗ رومانی ٗ کالے پاڑ ٗ سیندوری ٗ مندپہ ٗ اولور ٗ پیری ۔
آندھرا پردیش میں بیگن پلی ( بے نشان ) ٗ عالم پور ( بے نشان ) ٗ توتا پری (بینگلور) ٗ دسہری ٗ حمایت ( ہمایوالدین) ٗ پدارسم ٗ چنارسم ٗ چرکورسم ٗ پنجدار اکالہ ٗ فیرا نگلاڑی ٗ رومانی ٗ ملغوبہ ٗ گوابندر ٗ نیلم ٗ کوتہ پلی کبرا ٗ نوینتیم ٗ جہانگیر اورسورن ریکھا مشہور ہیں ۔
آم میں ہائی بریڈ اقسام بھی نکالی گئی ہیں :
.1 انڈین اگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ دہلی ( IAIR) سے امرپلی (دسہری 235نیلم ) ٗملکہ (نیلم235دسہری ) ٗنیلشن (نیلم 235بے نشان ) ٗ نیل گوا(نیلم235ملغوبہ لال ) ٗ نیل الدین ( نیلم 235 ہمایوالدین ) ٗسورن جہانگیر (چنا سورن ریکھا 235جہانگیر ) ٗAUرومانی (رومانی 235ملغوبہ) ٗسنگم ( دسہری 235محمودہ ) ٗ مانجیرا (رومانی 235نیلم)۔
.2 KKU راہوری مہاراشٹرا سے رتنا (الفانسو235نیلم )۔
.3 انڈین انسٹیٹیوٹ آف ہارٹیکلچر (IIHR) بنگلور سے ہائی بریڈ 10اور ہائی بریڈ13
آندھرا پردیش میں آم کی کاشت اہم اضلاع میں کرشنا ٗمشرقی و مغربی گوداوری ٗ وشاکھا پٹنم ٗوجیا نگرم ٗ سریکاکولم ٗ چتور ٗ کڑپہ ٗ کھمم ٗ کریم نگر اورعادل آبادشمار ہوتے ہیں ۔
آندھرا پردیش کے کاشت کئے جانے والے اہم اقسام اور انکی تفصیل :
.1 بیگن پلی (بے نشان ٗ سفیدہ ٗبینگن پلی ٗچپٹا ) یہ قسم صوبہ کے بڑے رقبہ پرقابض اور تجارتی نقطہ نظر سے اہم ہے ۔اسلئے بھی کہ شمالی ہند کے مارکیٹ میں بنام سفیدہ اولا یعنی اپریل سے فروخت ہوتا ہے ویسے اس آم کا صحیح مزہ تو ماہ مئی میں عروج پر ہوتا ہے ۔ اسکا پھل اعلی قسم کا شکل میں ترچھی ٗ بیضوی شکل کا ٗ سائز میں بڑا ( یعنی2یا3عدد فی کلو ) پہلے سنہرے رنگ والا مغز نرم غیر نسدار ہوتا ہے جسکی بناء پر کاٹ کر کھایا جاسکتا ہے ۔اسکی جلد پتلی نرم ہوتی ہے ۔ اس پھل کو درختوں سے توڑ کر کچھ دن آسانی سے رکھاجاسکتا ہے اور اس سے ڈبوں کی خوراک (Canning) تیار کی جاتی ہے ۔ اسکا درخت اوسط سائز کا عموماً کیڑوں سے اور ہوا کے جھکڑسے ٹوٹنے سے محفوظ ہوتا ہے ۔ پابندی سے پھل کی فصل ہوتی ہے اور اوسطاً فصل اچھی ہوتی ہے ۔عالمپور ٗ بے نشان نامی قسم کا پھل بڑا ہوتا ہے اور مئی جون میں پھل دیتا ہے پھل کا شمار اعلی قسم کے کاٹ کر کھانے والے آم میں ہوتا ہے ۔
.2 پدارسم ۔یہ اضلاع گوداوری اور کرشنا کا مشہور آم ہے ۔پھل نسدرا بہت رسیلا ہلکے پیلے پن کے ساتھ ہرے رنگ والا ٗ اور بڑے سائز کا ہوتاہے اس میں کچھ کھٹاس ہوتی ہے ۔ اسکا درخت درمیانی قد کا موسم میں جلد اور تسلسل سے فصل دینے والا ہوتاہے ۔
.3 چنا رسم ۔ نزویڈ کے علاقے کی ایک مشہور قسم ہے ۔ پھل متوسط سائز کا مگراعلی خصوصیات والا ہوتاہے کہ اس میں رس بہت مزے دار اور مخصوص مزہ کا ہوتا ہے ۔ اسکا درخت متوسط قد کامسلسل اورزیادہ پھل دینے والا ہوتاہے ۔اسکے پھل میں رکھے جانے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔
.4 طوطا پری ( بینگلورا ٗ کلکٹرا ٗ چتور ٗ مامڈی ٗلارڈ ) ۔ یہ خشک علاقوں کیلئے بہت موزوں اور اچھی پیدا وار دینے والی قسم ہے پھل سائز اوسط سے بڑا ٗ موٹی جلد کا ٗ سنہرے رنگ کا ٗ سخت مغز ٗ غیرنسدار ہوتاہے غرض اسکا پھل اور خوبیوں کا مگر درخت سے توڑنے کے بعد رکھے جانے کی صلاحیت اچھی ہے ۔ اسکی فصل بیگن پلی کی فصل کے اختتام میں ہوتی ہے ۔ اسکا درخت اوسط قد کا البتہ نازک ہوتاہے ۔ نتیجتاً طوفان یا ہوا کہ جھکڑ میں ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے ۔
.5 نیلم ۔ یہ جنوبی ہند کی تجارتی نقطہ نظر سے ایک اہم قسم ہے رائل سیما کے علاقوں میں بہت مشہور ہے ۔ اسکاشمار موسم میں دیر سے آنے والے آم میں ہوتاہے ۔ جسکی وجہ سے شمالی ہند کی مارکیٹ میں اگسٹ بلکہ سپٹمبر میں بھی موجود ہوتاہے ۔ نیلم کاشمار ایک اچھے ٗ مسلسل اور دیر تک پھل دینے والے آموں میں ہوتا ہے ۔اسکا پھل بینگلورا کے مقابلہ میں زیادہ مقبول ہے ٗ پیلے رنگ کا اور درمیانی سائز کا (یعنی 4تا 6عدد فی کلو ) ہوتاہے۔
.6 دسہری ۔ کمرشیل قسم میں شمالی ہند کا یہ پھل شمالی تلنگانہ میں مناسب فصل دیتاہے ۔اسکاپھل بہت جاذب نظر ٗمزہ خوبیوں والا اور خوشبو اچھی ہونے کی بناء پر شمالی ہند میں نمبر ایک آم ہے ۔ شمال میں جون کے اختتام میں اسکی بہار ہوتی ہے ویسے اسکی فصل بے ضابطہ ہوتی ہے ۔ پھل متوسط سے چھوٹا سائزکا ( 4تا 8عدد فی کلو ) اسکی جلد متوسط موٹی اور رنگ پیلا ٗ مغز سخت ٗ بے ریشہ ہوتاہے پھل میں جملہ شکر 11.15فیصد ٗ کھٹائی 0.25فیصد اور وٹامن سی 42.5mg/100g Plup ہوتی ہے ۔ اسکا درخت متوسط قد کا ہوتاہے اور کیڑوں (ھاپرس ) اور بیماریوں ( پوڈری ملڈپو) سے متاثر ہوتاہے ۔
7- محمودہ وقارآباد ۔ اسکا پھل متوسط سائز کا ٗ پتلی جلد ٗ پیلے پن کے ساتھ ہرے رنگ کا ٗ بے ریشہ مغز اور بہتر قسم کا ہوتاہے ۔ پھل کچھ دن رکھا جاسکتا ہے ۔ اسکا درخت چھوٹے قدکا جسکی بناء پر کم رقبہ میں زیادہ تعداد میں لگائے جاسکتے ہیں ۔ فصل مسلسل دیتا ہے ۔فصل میں پھل کثیر تعداد میں اور فصل درمیان موسم سے اختتام موسم تک جاری رہتی ہے ۔ اسکا درخت ہواؤوں کے جھکڑ کو برداشت کرتا ہے مگر کیڑوں (ھاپرس ) سے متاثر ہوتاہے ۔
.8 امرپلی ۔ یہ دسہری اور نیلم سے حاصل کی گئی ہائبریڈ ورائٹی ہے ۔اسکا پھل اچھی قسم کا ہوتاہے جس میں جملہ شکر 17.2فیصد ٗ ترشی 0.12فیصد اور وٹامن سی 35mg/100g Plup ہوتی ہے ۔ اسکا درخت کم قد کا ہوتا ہے ۔ یہ فصل مسلسل اور پھل بہتات میں دیتا ہے ۔ اور اسکی فصل عام موسم سے قبل شروع ہوجاتی ہے ۔
.9 نیلیشن ۔ اننت راجو پیٹ کے ریسرچ ادارہ سے مجریہ ہائبریڈ ورائٹی ہے جسے نیلم اور بے نشان سے حاصل کیا گیا ہے اسکا پھل بے نشان کی طرح گر متوسط سائز میں ٗسخت مغز والا مگر بے ریشہ اور رس متوسط قسم کا ہوتا ہے ۔ اسکا درخت ابتدائی موسم میں فصل دیتا ہے ۔
.10 سورن ریکھا ( سندری ٗ لال سندری ) یہ سریکاکولم اور وشاکھا پٹنم کے علاقہ کی ایک مشہور قسم ہے جو دیگر کئی علاقوں میں پھیلتی رہی ہے ۔ یہ ایک بہت منافع دینے والی قسم ہے جسے میز پر پیش کی جانے والی اقسام میں بہت اعلی شمار کیا جاتا ہے ۔ اسکا پھل بہت ہی خوبصورت ہوتاہے ۔ ہلکے نارنجی نیلگوں لال دھاری والا رنگ سے سجاہوتاہے ۔ اسکا شمار فصل کے پہلے حصہ یعنی اپریل ہی میں شمالی ہند کی مارکیٹ کو پہنچتی ہے ۔ مزے میں کچھ ترشی ہوتی ہے ۔پھل کا مغر نرم اور کم ریشہ والا اوراسکی جلد متوسط موٹی ہوتی ہے ۔ پھل کا سائز متوسط (یعنی 4تا 6فی کلو ) اور شکل بیضوی گول ہوتی ہے ۔ اسے زیادہ دن رکھا جاسکتا ہے ۔ اسکی فصل اوسط شمار ہوتی ہے مگر یہ ہر سال فصل دیتاہے ٗ اسکا درخت بیماریوں ( یعنی پاوڈری ملڈیو ) سے متاثر ہوتاہے ۔
.11 ناواھیتھم ۔ریشہ والے پھل جس میں نرم اور چھوٹی نسیں ہوتی ہیں ۔ یہ پھل اعلی قسم میں بہت اچھا رسیلا ہوتا ہے ۔جو سائز میں متوسط ہوتا ہے ۔ اسکا درخت متوسط سے بڑا مگر مسلسل اور اچھی فصل وسط موسم میں دیتا ہے (ھاپرس) کو برداشت کرتا ہے مگر پاوڈری ملڈیو بیماری سے متاثرہوتاہے ۔
.12 چیرتا پوڈیگوا ( رائل اسپیشل ) ۔ یہ سال میں دو فصل دینے والی ورائٹی ہے اسکی دوسری فصل سپٹمبر و اکٹوبر میں ہوتی ہے اور یہ ایسے مقامات پر بھی فصل دیتا جہاں نیلم پھل نہیں دیتا ۔اسکی فصل مسلسل مگر اصل موسم آم میں کچھ تاخیر سے شروع ہوکر دیر تک فصل ہوتی رہتی ہے ۔ یہ ایک اچھی قسم کا رس والا آم ہے ۔ اسکادرخت متوسط سائز کا ہوتاہے۔ کیڑوں یعنی ھاپرس کو برداشت کرتاہے مگر ہواکے جھکڑ سے ٹوٹ سکتا ہے ۔
.13 اے یورومانی ۔ یہ ہائبریڈ رومانی اورملغوبہ سے باغبانی ریسرچ ادارہ اننت راجوپیٹ سے مجریہ ہے ۔ اسکا پھل متوسط سے بڑا ۔ مغز نرم غیر نسدار مگر رسیلا ہوتا ہے ۔ پھل کی صفات اور فصل رومانی اورملغوبہ سے بہتر ہے ٗ پھل کو توڑنے کے بعد بغیرکسی نقص کے دور دراز مقامات پر بھیجاجاسکتاہے ۔
.14 منجیرا ۔ یہ ہائبریڈ رومانی اور نیلم سے سنگاریڈی کے فروٹ ریسرچ ادارہ سے مجریہ ہے ۔اسکا پھل بہت خوش رنگ اورسائز میں رومانی کی طرح بڑا ہوتا ہے ۔ اسکادرخت چھوٹے قد کا ہوتا ہے ۔ نتیجتاً گنجان لگائے جاسکتے ہیں (یعنی فی ہیکٹر500درخت ) ۔
.15 رتنا ۔ یہ نیلم اور الفانسو سے حاصل کی ہوئی قسم ہے اس میں الفانسو پھل کی اچھی خصوصیات موجود ہیں ساتھ ہی اسکا درخت کم قد کا ہوتا ہے ۔ الفانسو کے اسپونج نما (Spongetissues) حصہ اس میں نہیں ہوتے ۔
.16 جلال ۔ یہ اچار بنانے میں استعمال ہونے والی مشہور قسم ہے ٗ اسکا پھل متوسط سے بڑے سائز کا ہوتا ہے ۔ ہر سال پابندی سے فصل دیتا ہے اور موسم میں دیر تک فصل ہوتی رہتی ہے ۔
خاص حیدرآباد شہر کے آموں کے متعلق صرف اتنا بیان کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہیہاں کے خانگی اور سرمایہ دارانہ طبقات کے باغات میں بہتر سے بہتر اور نفیس سے نفیس آم ہوتے ہیں لیکن وہ عام طور پر دستیاب نہیں ۔ جو آم بازار میں فروخت کے لئے آتے ہیں انکی عمدہ اقسام یہ ہیں۔ مرغوبہ ( ملغوبہ ) گوا ( پائیری ) مرشدآباد ٗ الفن ٗ فخر الثمر ٗ اعظم الثمر ‘ ہرا بھرا ٗ بے نشان ٗ طوطا پری ٗ نیلم شکر گٹھلی وغیرہ ۔ حیدرآباد کے علاوہ بعض مقامات اور بھی ایسے ہیں مثلاً کوہیم ٗ وقارآباد ٗ عثمان آباد ٗ بیدر وغیرہ جو عمدہ آموں کے لئے بے حد مشہور ہیں ۔ حیدرآباد میں آموں کے تذکرہ کے ساتھ آصف جاہی دور میں مقرب جنگ اوراعظم علی خاں کا نام نہ لینا ناشکری ہے کیونکہ ان دونوں صاحبین نے مختلف اقسام کے آم کے درخت فراہم کرنے اور انکی بہترسے بہتر شب و روز پرورش اور پرداخت میں کسی قسم کی کسر نہ اٹھا رکھی جن کے باعث حیدرآباد میں عمدہ اقسام کے آم کے لئے نام روشن ہوگیا ۔ کہا جاتا ہے کہ مقرب جنگ تو آموں کے شیدا اور عاشق تھے۔ آموں کی پختگی کے زمانہ میں انکا پیشتر وقت آموں کی دیکھ بھال رکھ رکھاؤ میں صرف ہوتاتھا ۔ نہ صرف حفاظت و پیدائش بلکہ کھانے اورکھلانے میں بھی دریا دل واقع ہوئے تھے ۔ انکے لگائے ہوئے دو باغ سردار باغ اور خداداد باغ اپنے دورکے مخزن کہلاتے تھے ۔البتہ اعظم علی خاں صاحب جو آم کے نہ ماہر تھے نہ شوقین لیکن انہوں نے عمدہ عمدہ آموں کو تیار کیا تھا اس کے آم ملکہ وکٹوریہ ایڈورڈ ھفتم اور والی کابل امیر عبدالرحمن خاں کے دسترخوان و میزکی زینت سے ممتاز و سرفراز تھے ۔ خاں صاحب فطرتاًہر معاملہ میں بہت ہے محتاط کفایت شعار واقع ہوئے تھے لیکن صرف آم کے معاملہ میں مقرب جنگ سے بھی دریا دل و فیاضی میں سبقت حاصل کرچکے تھے ۔تمام فصل جو بھی ان سے صرف ملاقات کابھی شرف حاصل کرلیتا تھا تو اسے آموں کے کئی پارسل تحفہ میں مل جاتے ۔ الغرض شہر حیدرآباد کے آصف جاہی دور میں امراء وغیرہ ایسے گزرے ہیں جو آم کے شائق اور قدردان سمجھے جانے کے مستحق ہیں۔ ان سب کے سرتاج حضرت آصف سابع مرحوم کو عمدہ اور نفیس آموں کے دیکھنے اور چکھنے کاشرف حاصل ہے لیکن پھر بھی ایسے ایسے ماہر فن شناس قدردان فرمانروا کے عہد میں خاطر خواہ ترقی وافزائش نہ ہوسکی جسکا سخت افسوس اور تعجب ہے ۔
بھر پور غذائیت اور صحت بخشی کے لحاظ سے بھی آم کسی میوہ سے پیچھے نہیں ہے ۔ عہد عتیق سے ہی وید اورحکیم اس کے طبی فوائد سے خوب واقف تھے ان کی طبی کتابیں آم کی تعریف و توصیف میں بھری پڑی ہیں ۔وہ اس میوہ کو مفید ترین مفرح غذا تصور کرتے تھے آج کے سائنسی تحقیقات نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ آم میں حیاتین الف و ج بکثرت پائی جاتی ہیں جو انسان میں متعدی امراض اور اسکووی (داء الجضر) کیلئے دافع ہے حیاتین کی مقدار تو آم میں اس قدر موجود ہوتی ہیں کہ ولایتی لیموں ٗ مالٹ کی نارنگی ٗ گریپ فروٹ (ایک قسم کا چکوترا ) اور سیب کے رس میں بھی اتنی مقدار میں نہیں پائی جاتی ۔ سائنس نے یہ ثابت کردیا کہ آم بیحد مفرح (موٹاکرنے والا ) ملین ( دافع قبض ) اورپیشاب لانے والا ہے جس سے اکثر گردوں اور مثانہ کی بیماریوں میں نفع بخش ہے ۔
سائنٹفک تجربات سے ثابت ہواہے کہ آم کاچھلکا وٹامن سی کا اتنا ہی بڑا منبع ہے جتنا بڑااس کا گودا ۔آم کے چھلکوں کو دودھ میں پیس کر اور شہد میں ملا کر کھلانا خونی پیچش میں نہایت مفید ہے کچے آم کا چھلکا دہی میں پیس کر شیرہ بنالیا جائے تو ہیضہ میں مفید ہے کچے آم بھون کر (عام طور پر جس کو بھیول میں ڈالنا کہتے ہیں)اس سے بنائے ہوئے شربت میں تھوڑا سابھنا ہوا زیرا نمک اور سیاہ مرچ ڈالکر صبح پی لیں تو اس سے لُو (Sun Stroke) کا اثر نہ ہوگا ۔ سارا دن طبیعت میں تازگی رہے گی ۔ کھٹا آم مضر صحت ہے نزلہ زکام پیدا کرتاہے گلے اور دانتوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور خرابی خون کا باعث ہے ۔ قلمی آم ثقیل اور دیر ہضم ہوتاہے ۔ پختہ شیریں اور بے ریشہ آم مفید ہے ۔ جدید ترتحقیقات کی روشنی میں آم دوسرے تمام پھلوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ غذائیت بخش ہے جسمیں حیاتین سنترے کے مقابلہ میں چالیس گنا اور سیب کے مقابلہ میں چھ گنا ہوتاہے ۔ امریکہ کے ممتاز ڈاکٹر ولسن نے اپنے تجربات سے ثابت کردیاہے کہ ’’آم میں مکھن سے زیادہ طاقت موجود ہے اس کے استعمال سے جسم میں نروس سسٹم کی خرابی سے پیداشدہ نقص دور ہوجاتا ہے اور بدن میں غیر معمولی طاقت آجاتی ہے ۔ ایمپائر مارکٹنگ بورڈ آف لنڈن نے اپنے بلیٹن میں لکھا ہے کہ’’آم میں وٹامن اے ۔سی اور ڈی دوسرے تمام پھلوں سے زیادہمقدار میں پائے جاتے ہیں ‘‘۔
اکثر و بیشتر غذائیں مقوی بخش دیر ہضم اور ثقیل ہوتی ہیں ۔ لیکن آم کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ مقوی بھی ہے اور زود ہضم بھی ۔ یہ اعضائے رئیسہ کو حیرت انگیز طور پر طاقت بخشتا ہے ۔ قوت باہ میں اضافہ کرتا ہے ۔ معدہ مثانہ اور گردوں کو طاقت بخشتا ہے ۔ جسم کو موٹا کرتاہے ۔ دافع قبض اور پیشاب آور ہے ۔ خون بکثرت پیدا کرتا ہے ۔ اور مصفئی مخزن بھی ہے ۔
آم کھانا کھاکر یا دوپہر کے بعد کھانے چاہئیں نہا رمنہ کھانا مضر صحت ہے خلوئے معدہ کی حالت میں اسکا استعمال ضعف ہضم کا باعث بنتا ہے اور معدے میں گرمی پیدا کرتا ہے جس سے کئی طرح کی شکایات پیدا ہوسکتی ہیں ۔کھانے کے بعد دودھ پینے سے جسم میں طاقت پیدا ہوتی ہے اور لسی پینے سے اسکی گرمی کا اثر زائل ہوتاہے جامن اور دودھ کو آم کامصلح کہا جاتاہے اگر آم کھانے کے بعد کچھ جامن کھالیں تو آم بہت جلد ہضم ہوجاتاہے اور پیٹ میں گرانی محسوس نہیں ہوتی ۔ کم خوابی یا بے خوابی کے مریض کو آم سے زیادہ کوئی چیز سود مند ثابت نہیں ۔ رات کو سونے سے پہلے کھا کر دودھ پی لیں تو بہت گہری اور پرسکون نیند آتی ہے ۔دوران حمل خواتین کیلئے بھی آم نعمت عظمی ہے اس سے نہ صرف صحت اچھی رہتی ہے بلکہ بچہ بھی خوبصورت اور صحت مند پیدا ہوتاہے ۔ تازہ اور میٹھے آم تھوڑی مقدار میں کھائیں ضعف اعصاب میں آم خصوصیت کیساتھ مفید ہے ایسے اشخاص جو عام جسمانی کمزوری اور ضعف باہ کے شاکی ہیں متواتر آم کا استعمال کریں قلیل عرصہ میں انکی صحت بحال ہوجاتی ہے ۔ بچے جوان بوڑھے سبھی کیلئے آم مفید ہے ۔ اس بدن کی نشونما میں کافی مدد ملتی ہے ۔ آم کو برف میں یا سرد پانی میں ٹھنڈا کرکے کھانا چاہئے اسطرح اسکی گرمی اور مضرت دور ہوجاتی ہے ۔ تخمی آم ہاتھ سے پلپلا کر کے رس چوسیں ۔ قلمی ہو تو تراش کر قاشوں کی شکل میں مغز استعمال کریں دونوں صورتوں میں آم مناسب مقدار میں استعمال کریں ۔ زیادہ کھانے سے بجائے فائدہ کے نقصان بھی ممکن ہے ۔ رسیلے آم زیادہ موزوں اور زود ہضم ہوتے ہیں اسکارس شیریں ہونا چاہئے ۔ کاٹنے کے آم نفاخ اور دیر ہضم ہوتے ہیں کمزور معدہ والے لوگ ایسے آموں کو کم مقدار میں استعمال کریں کھانے کے بعد تھوڑا سانمک چاٹ لیں یاتھوڑی سی سونٹھ باریک پیس کر پھانک لیں پیٹ کی تکلیف دور ہوجائیگی ۔ آم بواسیر سنگرھنی اور قولنج کے امراض میں بھی بیحد مفید ہے البتہ جگری امراض کے لئے مضر ہے ۔آم کا مربہ دل اور معدہ کو قوت بخشتاہے ۔ دماغ اور پھیپھڑوں کو بھی طاقت بخشتا ہے ۔آم کا اچار صفرائی مزاج کیلئے مفید ہے ۔ میٹھے آم کے رس میں تھوڑا دودھ اور بقدر ضرورت شکر ملا کر پینے سے ضعف دماغ سے پیدا ہونے والے درد سر گرانی ٗآنکھوں کے سامنے اندھیر اچھاجانے کی شکایت ہو تو دورہوجاتی ہے ۔اس سے دل و جگر کو نفع بخش و تقویت پہنچتی ہے نیا خون پیدا کرتا ہے آنتوں کو طاقت بخشتا ہے ۔ دمہ ٗ اسہال ٗ پرانی پیچش ٗسیلان الرحم اور خونی بواسیر جیسے امراض میں آم کی گھٹلی کا سفوف بناکر ایک تا دو ماشہ شہد میں ملا کر کھلانا نفع بخش ہے ۔ اسطرح آم ایک ایسا نعمت عظمی وعطیہ اکرم ہے جس سے امیر و غریب اعلی و ادنی سب ہی مستفید ہوتے ہیں جو موسم گرما کا ایک گرانقدر تحفہ ہے ۔
عبارت مختصر : اگر آم کو افضل الاثمار ( پھلوں میں سب سے افضل واکرم ) کہا جائے تو بے جانہ ہوگا ۔ مرزاغالب نے اپنی مشہور نظم ’’آم کی تعریف ‘‘ میں اس پھل کو ’’باغ جنت کے سریہ مہر گلاس ‘‘سے تعبیر کیا تھا یہ محض شاعری نہیں حقیقت کا شاعرانہ اظہار ہے یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ آم ایک ایسا عطیہ اکرم ہے جس پر ہم ہندوستانی بیّن طور پر فخر و ناز کرسکتے ہیں ۔ لذیذ اورخوش ذائقہ ہونے کے علاوہ آم اس لحاظ سے بھی دوسرے پھلوں میں ممتازو فائق ہے کہ یہ ہر اعلی او ادنی کو بافراط میسر آتا ہے اور بکثرت کھایا جاتاہے ۔آم کی ترقی اورافزائش کیلئے سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو باغ لگانے کی ترغیب دی جائے حصول اراضی میں سرکاری طور پر آسانیاں پیداکی جائیں ہر ضلع میں سرکاری نرسریاں قائم کی جائیں جو عمدہ اقسام کے پودے مناسب داموں پر امیر غریب کے ہاتھوں فروخت ہوں حتی الامکان خراب قسم کے آم کی فروخت سے اجتناب کیا جائے ۔ ہندوستان کے اس افضل الاثمار کی نگہداشت و ترقی بہر ضرورت لازمی ہے ۔
——–
Md.Raziuddin Moazzam