قسط 4
اردو کے ادیب اورنثرنگار
علامہ شبلی-علامہ سید سلیمان ندوی- سجاد انصاری
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
اردوکے ادیب اورنثرنگار- قسط 3 کے لیے کلک کریں
علامہ شبلی (۱۸۵۷۔۱۹۱۴ء)
علامہ شبلی کی شخصیت ایسی نابغہء روزگار شخصیت ہے کہ جنہیں نہ کوئی اسلامیات کا طالب علم نظر انداز کرسکتاہے اور نہ تاریخ کا اور نہ اردو زبان وادب کا اور نہ فارسی زبان وادب کا ، ان کا انتقال صرف ستاون برس کی عمر میں ہوا لیکن اس قلیل مہلت عمر میں انھوں نے جو علمی کارنامے انجام دئے ان کی وجہ سے ان کو حیات جاوداں مل گئی ہے اور ان کے قلم سے ایسی لا جواب تصنیفات وجود میں آئی ہیں کہ جن کی وجہ سے ان کا نام گردش شام وسحر کی زنجیر سے آزاد ہوگیا ہے ۔
ان کی پیدائش اعظم گڑھ میں ہوئی انھوں نے مولوی محمد فاروق چریا کوٹی اور دوسرے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ، انھوں نے علم کے حصول کے لئے مختلف شہروں اور مختلف ملکوں کے سفر کئے ، جب وہ علی گڑھ گئے تو سر سیدنے اس جوہر قابل کو پہچانا اور یونیورسٹی میں ان کو جگہ دی ، شبلی نے سر سید کے کتب خانہ سے خاص طورپر فائدہ اٹھایااور الطاف حسین حالی اور محسن الملک اور آرنلڈکی علمی صحبتوں سے مسلسل مستفید ہوئے ، انسان کو اگر علمی ذوق ودیعت کیا گیا ہو اور مناسب ماحول بھی اس کو میسر آجائے تو بہت جلد اس کی شہرت شمیم گل کی طرح چمن میں پھیل جاتی ہے ، وہ ندوہ میں رہے تو ’’الندوہ‘‘نکالا اور مولانا آزاد کو اس کا اڈیٹر مقرر کیا ، سید سلیمان ندوی اور دوسرے طلباء کی علمی اور ادبی تربیت کی ، انھوں نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں ’’سیرۃ النبی‘‘ ’’الفاروق ‘‘ ’’المامون‘‘ ’’شعر العجم‘‘ اور’’ موازنہء انیس ودبیر ‘‘ اور ’’علم الکلام ‘‘ بہت اہم ہیں ، شبلی شاعر بھی بہت اچھے تھے ، انھوں نے جو تاریخی نظمیں کہی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں ، نثر میں وہ ایک اسلوب کے بانی ہیں ، ان کی زبان میں شگفتگی و رعنائی ہے ، انھوں نے دار المصنفین کی شکل میں ایک علمی ودینی تصنیفی ادارہ امت کو دیا اور مولانا سید سلیمان ندوی نے اس ادارہ کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ، دار المصنفین کی تمام کتابیں علمی اعتبار سے اور زبان و بیان کے اعتبار سے اہم درجہ رکھتی ہیں ، علامہ شبلی کے مضامین اور مکاتیب کا مجموعہ بھی شائع ہو گیا ہے ۔
شبلی نے مذکورہ بالا تصانیف کے علاوہ اور بھی کتابیں تصنیف کی ہیں جیسے ’’اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر ‘‘ اور ’’حیات خسرو ‘‘ اور’’ سفر نامہء روم و شام و مصر ‘‘ اور ’’الجزیہ ‘‘ اور ’’فلسفہء اسلام‘‘ ، انھوں نے مضامین بھی بہت کثرت سے لکھے ہیں ان مضامین سے ان کی نثر کے حسن اور جاذبیت و شگفتگی کا اندازہ ہوتا ہے اور اسلوب کی انفرادیت ظاہر ہوتی ہے ، شبلی قدیم روایات کے پاسدار اور قومی مزاج کے شناسا تھے ، سر سید نے اسلام کا مطالعہ عصری مغربی فکری معیارات کے نقطہ نظر سے کیا اور شبلی نے مغربی اقدار کو اسلامی نقطہء نظر سے جانچنے کی کوشش کی ، شبلی نے علم الکلام کی تحقیق اور اجتہاد کو ہمیشہ اہمیت دی اور اسی بناء پر انھوں نے اپنی فکری زندگی کا آغاز ’’سیرۃ النعمان‘‘ کی تصنیف سے کیا ، شبلی نے فن سیرت نگاری میں درجہء کمال کو چھولیا ہے ، ’’ المامون‘‘ سیرت النعمان ، الفاروق ، الغزالی ، سوانح مولانا روم ، سیرت النبی ان کی شاہکار کتابیں ہیں اور عالمانہ تحقیق کا نمونہ ہیں ، سیرت النبی ان کی آخری تصنیف ہے جس کے شروع میں انھوں نے یہ اشعار لکھے ہیں :
عجم کی مدح کی عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے چندے مقیمِ آستان غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتم
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
علامہ سید سلیمان ندوی (۱۸۸۴۔۱۹۵۳ء)
علم وادب کی گرانقدر خدمت اور تحقیقی کاموں کی بدولت مولانا سید سلیمان ندوی کا شمار اپنے عہد کے ممتاز مصنفین میں ہوتا ہے ، ان کے خاندان کا تعلق بہار شریف کے گاؤں دسنہ سے تھا ، ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ، ۱۹۰۱ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا ، جہاں ان کو علامہ شبلی سے علمی استفادہ کا موقع ملا ، علامہ شبلی بھی ان کے علمی خلوص اور کام کی لگن سے متاثر تھے اور انھوں نے مولانا سلیمان ندوی کو ’’الندوہ‘‘کی ذمہ داری سونپی ، جب جولائی ۱۹۱۲ء میں مولانا ابو الکلام آزاد نے کلکتہ سے الہلال جاری کیا تو مولانا سید سلیمان ندوی کو مجلس ادارت میں شامل کیا ، انھوں نے الہلال میں ادبی انداز میں مؤثر مضامین لکھے ،وہ دکن کالج پونہ فارسی کے اسسٹنٹ لکچرار مقرر ہوئے ، وہاں انھوں نے انگریزی سیکھی اور اس میں مہارت پیدا کرلی اور اسی جگہ انھوں نے اپنی مشہور کتاب ارض القرآن کا پہلا حصہ مکمل کرلیا ، ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ علامہ شبلی کا انتقال ہوگیا ، انھوں نے سیرت النبی کا نا مکمل کام مولانا سید سلیمان ندوی کے سپرد کیا ، شبلی کی خواہش تھی کہ دار المصنفین کے نام سے ایک ایسے ادارہ کا قیام عمل میں لایا جائے جو صرف تصنیف وتالیف کے مختص ہو ، دار المصنفین کے لئے شبلی نے اپنا گھر اور باغ وقف کردیا ، مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے استاد کے لگائے ہوئے اس چمن کی آبیاری کی اور اسے رشک صد گلستاں بنادیا ، مولانا سید سلیمان ندوی کے ساتھ ان کے اور دیگر رفقاء بھی تھے جنہوں نے دار المصنفین کی علمی شہرت میں اضافہ کیا جیسے مولانا عبد السلام ندوی اور ریاست علی ندوی اور شاہ معین الدین ندوی وغیرہ ، مولانا سید سلیمان ندوی نے دار المصنفین سے علمی ماہنامہ ’’معارف‘‘ نکالا اور اب سو سال ہورہے ہیں یہ وقیع علمی رسالہ پابندی کے ساتھ آج بھی شائع ہوتا ہے ، اردو زبان وادب کی تاریخ میں کوئی بھی علمی رسالہ ایسا نہیں ہے جس نے اپنی عمر کے سو سال پورے کئے ہوں ، مولانا سید سلیمان ندوی کی علمی اور تاریخی تحقیق کا شاندا رنمونہ ان کی کتاب ’’خیام‘‘ ہے ، انھوں نے شبلی کی تصنیف سیرت النبی کو مکمل کیا اور اس کی مزید چھ جلدیں تیار کیں ، سیرت پر اتنا وقیع کام دوسری زبانوں میں بھی نہیں ہوا ہے ، سیرت پر ان کی دوسری کتاب ’’خطبات مدراس‘‘ ہے اور یہ کتاب سیرت کے موضوع پر ان کے علمی خطبات کا بے نظیر مجموعہ ہے ، اس کی مقبولیت آج تک باقی ہے ، اس کے علاوہ سیرت عائشہ اور حیات شبلی ان کی اہم کتابیں ہیں ، حیات شبلی صرف شبلی کی سوانح حیات نہیں ہے بلکہ ایک پورے عہد کی علمی اور ثقافتی تاریخ کی دستاویز ہے ، یاد رفتگاں ان کے وہ خاکے ہیں جو وہ معارف میں لکھا کرتے تھے ، مولانا سید سلیمان ندوی کی زبان بہت دل کش اور دل آویز ہے ، مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا عبد السلام ندوی شبلی کے خاص شاگرد تھے ، وہی علمیت ، وہی انداز تحقیق اور وہی زبان وبیان کی شگفتگی ۔
سجاد انصاری (متوفی ۱۹۲۴ء)
سجاد انصاری کا تعلق اس نوجوان نسل سے تھا جسے علی گڑھ میگزین نے پروان چڑھایا تھا ، انہیں شاعری سے بھی دل چسپی تھی لیکن انہیں شہرت اس نثرسے ملی جو نہ افسانہ ہے نہ انشائیہ نہ تنقید لیکن اس نثر میں ان سب اصناف کی خوبیاں موجود ہیں، یہ ایسی رومانی نثر ہے جو اپنی داخلی اوصاف کی بناء پر شاعری کا درجہ رکھتی ہے ، سجاد انصاری کے نثری مضامین کا مجموعہ ’’محشر خیال‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ، ان کی نثر کو پڑھ کر شگفتن گل ہاے ناز کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے ، فلسفہ اور ادب کے لطیف امتزاج کی وجہ سے اردو نثر میں انھوں نے اپنی شناخت قائم کی ہے ، ان کا انتقال جوانی کے زمانہ میں ہوا ، ادب لطیف ، انشائے جمیل اور ادب برائے ادب کا ذکر جب بھی آئیگا تو سجاد انصاری کی کتاب محشر خیال کا تذکرہ ضرور کیا جائے گا ، سجاد انصاری صنف نازک ، حسن وعشق اور زندگی کے حسین مناظر اور مظاہر کا تذکرہ فلسفیانہ انداز سے کرتے ہیں ، ان کے یہاں آزادی خیال بھی پائی جاتی ہے ، وہ اسکر وائلڈ کی طرح ادب برائے ادب کے نظریہ پر یقین رکھتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ فرد کو پوری آزادی ملنی چاہئے کہ وہ ترک واختیارکے پیمانے خود بنائے اور انھوں نے یہ لکھا ہے کہ جماعت کو حق نہیں ہے کہ فرد پر اپنے قوانین مسلط کرے ، سجاد انصاری کی تحریروں پر مذہبی حلقہ سے تنقیدیں بھی کی گئیں ، ان کا طرز فکر یہ ہے کہ ادب اور جمالیات کی تعبیر کو اپنے پسند کے انداز میں کرنا چاہئے اور کسی کو حق نہیں ہے کہ کاروبار شوق اور ذوق نظارہ جمال پر پابندی عائد کرے ، سجاد انصاری رنگینی ، سر شاری اور دل فریبی کے دلدادہ ہیں ، ان کی جمالیاتی حس بہت تیز اور گہری ہے ۔