سائنس
’’کہکشاں تک عقل کو رستہ بتا دینے کا نام‘‘
ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی – ورنگل
موبائل : 09866971375
موجودہ دور سائنس کا دور ہے اور موجودہ سائنسی ترقی اہل یورپ کی دین ہے۔ دور حاضر میں سائنسی ترقیات کا مزاج اور معیار اسقدر اونچا ہے کہ زمانۂ قدیم کا کوئی انسان طلسم ہوشربا کی سی کیفیت میں بھی اسکا تصور نہیں کرسکتا۔ اگر زمانہ قدیم کے کچھ علما یا ادبا نے طبع زاد افسانوی قصے محض تفریح ذہن کے لیے رقم کئے تھے تو آج اہلِ یورپ نے ان قصوں میں بیان کردہ محیرالعقول آلات کو بھی اپنی کوششوں سے حقیقت کی شکل دے دی ہے۔جہاں تک یورپ کی کوششوں کا معاملہ ہے وہ ہمیں قبول ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دورِ حاضر کی بیشتر ترقیات کی اساس مسلم سائنس دانوں نے یا حکما نے رکھی تھی ۔
اگر ہم انکے کارناموں کا جائز لیں تو پتہ چلتا ہے کہ انکی کاوشیں سائنسی تحقیق کے میدان میں انمٹ نقش ہیں۔ اسی لیے ہم ان کو ایک درجہ دینے پر مجبور ہیں۔ بلکہ ہم انکو ترقی کی راہ کا سنگ میل بھی قرار دے سکتے ہیں۔ جب ہم تاریخ کے صفحات الٹتے ہیں تو ہمیں ان مسلم سائنس دانوں کے ناموں کا پتہ چلتا ہے کیونکہ امتداد زمانہ اور بدلتے دور کے تقاضوں نے انکے چہروں کو دھندلا دیا ہے۔ جسکے پیچھے (ممکن ہے) یورپ کی متعصبانہ ذہنیت بھی کارفرما رہی ہو لیکن اس میں ہماری تساہلی بھی برابر کی شریک ہے، بہرحال یورپ کی ریشہ دوانیوں اور ہماری خوابیدگی نے نئی نسل تک اسلاف کے ان کارناموں کو پہنچنے نہ دیا، جسکی باعث ہماری قوم کے افراد حقیقت سے آشنا نہ ہوسکے اور اہل یوروپ کی قصیدہ خوانی کرنے لگے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم غیر محسوس طریقے پر مرعوبیت کی دلدل میں پھنستے چلے گئے۔ جب ہماری قوم کے کسی فرد نے اس مرعوبیت کی وجوہات کا جائزہ لینے کی کوشش کی اور حقیقتوں کو منکشف کرنے کی طرف مائل رہا تو اس کا طریقہ تجزیہ اور طرز استدلال اسقدر غیر منطقی دیکھا گیا کہ حقیقت بھی فسانوں کا لبادہ اوڑھے خوابیدہ احساسات میں کھو گئی۔ کیونکہ انہوں نے ہر ترقی کو کھینچ تان کر کسی مسلم سائنس داں سے جوڑ دیا یا تمام تر ترقی کا سہارا مسلم سائنس دانوں کے سر باندھ دیا جواصولی اعتبار سے غلط ہے۔ بہرحال ان تمام حقیقتوں کے باجود بھی یہ بات مسلمہ ہے کہ ہمارے مسلم سائنس دانوں نے اپنے زمانے میں قابلِ لحاظ کام انجام دیا جس پر ہم بجا طور پر ناز کرسکتے ہیں۔ اسی لیے ہم اس تمام تر ترقی کیلئے اہل یورپ کو تنہا ذمہ دار نہیں سمجھتے بلکہ یہ خیال کرتے ہیں کہ سائنس کو اس منزل تک پہنچانے میں مسلمانوں کا تدبر و تفکر بھی شامل ہے کیوں کہ انہوں نے اس راہ تحقیق میں ہزاروں شمعیں روشن کی ہیں۔
موجودہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہمارے طلباء اور نوجوانوں میں سائنس سے متعلق مزید دلچسپی پیدا کرنے کے لیے، انکی سوچ کے دھاروں کو موڑنے کے لیے اور ان میں اولالعزمی پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ انہیں کچھ زندہ حقیقتوں سے آگاہ کریں تاکہ وہ مرعوبیت کے دائرے سے نکل کر اعتماد و یقین کی منزل کی طرف گامزن ہوجائیں اور ایک بار پھر دنیا کے سامنے اسی فطری ذہانت کا ثبوت دیں جو ہمارا خاصہ تھی اور جسکو ہمارے اسلاف نے قرآن میں تدبر کے بعد حاصل کیا تھا ورنہ ممکن ہے کہ مرعوبیت کا دائرہ ہماری زندگی کے بیشتر شعبوں تک وسعت پاجائے اور ہم پھر ایک بار ذہنی و فکری افلاس کا شکار ہوجائیں۔
فروغ مغربیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے
تیری نظر کا نگہباں ہو صاحب ’’مازاغ‘‘
اسی لیے ضرورت ہے کہ ہماری قوم ہر اس شعبے میں کارہائے نمایاں کردکھائے جو ملک و قوم کے لیے ضروری ہے۔ اور دنیا کو اس بات کا ثبوت دے کہ ہمارا علم قرآن اور صاحب قرآنؐ سے ماخوذ ہے اور قرآن تمام علوم کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ قرآن اس بات کی تلقین بھی فرماتا ہے کہ علم و حکمت حاصل کرو۔ سورۂ البقرہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’اور جس کو حکمت عطا ہوئی تو بے شک اسے بڑی دولت عطا ہوئی‘‘ سورۃ الزمر میں اللہ فرماتا ہے ’’جو لوگ جانتے ہیں اور جو لوگ نہیں جانتے بھلا کیوں کر دونوں برابر ہوسکتے ہیں‘‘۔ اور اللہ نے اپنے نام سے پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ اللہ اس کائنات کا خالق ہے۔ اور سائنس اس کائنات کے ہر گوشے میں وقوع پذیر تغیرات یا ترتیب کے مشاہدے اور تجربے کے ذریعہ نتیجہ اخذ کرنے کا نام ہے سائنس کائنات سے باہر کسی خارجی شئے کا نام نہیں بلکہ یہ کائنات کے مطالعے کا نام ہے رمز کائنات جاننے کا نام ہے، فلاح انسانیت کیلئے کائنات کی اشیاء کو استعمال کرنے کا نام ہے اور کائنات میں موجود اشیاء کے ذریعہ نئی شئے پیداکرنے یا دریافت کرنے یا ایجاد کرنے کا نام ہے۔ اللہ نے کائنات کو انسان کیلئے مسخر کیا ہے اور اس میں تدبر کرنے کی دعوت دی ہے۔ سورۃ الجاثیہ میں ارشاد ہے کہ ’’تمہارے لیے سمندر کو مسخر کردیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں چلیں جسکے ذریعہ سے تم اس کا فضل تلاش کرو تاکہ تم اسکا شکرادا کرو‘‘ اور سورۃ یٰسین میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’ہم نے کشتیوں کی سی سواریاں پیدا کی ہیں۔ جن پر وہ سوار ہوتے ہیں‘‘ یہ آیت اپنے اندر معنی ومفاہیم کا سمندر رکھتی ہے۔ اور علما کا خیال ہے کہ تاقیامت حمل و نقل کیلئے ایجاد ہونے والی ہر سورای اس آیت کے تحت آجاتی ہے۔میرا احساس ہے کہ ان آیاتِ ربانی کو سمجھ کر خلوص دل سے انسانیت کیلئے کام کرنے کا نام ہی سائنس ہے۔ اللہ نے انسانوں کے لیے ہوا کو مسخر کیا۔ (سورۃِ ص) اللہ نے زمین کو فرش بناد یا تاکہ انسان اسکی کشادہ راہوں میں چلے (سورۃ نوح) اور اللہ نے زمین میں کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ راہ پائیں (الانبیاء) اس طرح قرآن میں بیان کردہ ان تمام آیات کی عملی صورت گری کے لئے جب غور و فکر کیا جاکر راہِ عمل کا تعین کیا جاتاہے تو یہ طریقہ عمل سائنس کہلاتا ہے۔ اسی لیے شاعر کہتا ہے کہ:
سائنس کیا ہے نظم فطرت کو سکھا دینے کا نام
کچھ رموز زندگانی کا پتہ دینے کا نام
اور ان رموز سے واقفیت کیلئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے جو جستجو میں مشغول ہو۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’سائنس ہے وجہہ نموئے ذہن انسانی کا نام‘‘۔ اس طرح جب ہم نے سائنس کو عقل کہہ دیا کہ جسکی موشگافیاں لاینحل عقدے وا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ہیں تو ساتھ ہی ہمیں اس بات کا احساس بھی ہونا چاہئے کہ عقل ہماری منزل نہیں ہے کہ
گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
اس لیے ضروری ہے کہ ہماری قوم کے نوجوان سائنسی تحقیق کے شعبے میں داخل ہوں اور سائنس دان بن کر ہمارے ملک ہماری قوم ا ور ساری انسانیت کی خدمت میں مصروف ہوجائیں کہ علوم ہائے حیات کا حاصل کرنا فرض کفایہ ہے اور تحقیق و جستجو اسلام کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ ورنہ ہماری فکری زبوں حالی دیکھ کر کوئی پھر سے نہ کہنے لگے کہ
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
مسلمان سائنس دانوں کی خدمات دو قسم کی ہیں: (۱) وہ عملی تراجم جو یونانی زبان سے عربی زبان میں کئے گئے۔ (۲) مشاہدات و تجربات کے بعد دنیا کے سامنے پیش کردہ ایجادات جس قدر اہم ایجادات ہیں اسی قدر اہم یونانی ماخذات کے تراجم بھی ہیں کیونکہ ان تراجم نے اس زمانے میں سائنسی ایجادات میں مشغول سائنس دانوں کے لئے نئی روشنی فراہم کی۔ مسلمان سائنس دانوں نے مختلف شعبوں میں اپنے تحقیقی مقالے پیش کئے اور دنیا کو نئی فکر دی۔ ان میں فلکیات، طب، کیمیا، ریاضی، فلسفہ، جیومیٹری، حیاتیات وغیرہ اہم ہیں۔ مامون الرشید نے اپنے دور میں فروغ علم کیلئے بغداد میں بیت الحکمہ کا قیام عمل میں لایا جس کو موجودہ دور کی سائنس اکیڈمی کہا جاسکتا ہے۔ اس ادارے سے وابستہ افراد نے عملی تحقیق میں بڑے بڑے کارنامے انجام دئے۔ متفرق میدانوں میں کام کرنے والے افراد اس ادارے میں اپنے مقالہ جات پیش کرتے۔ ان مقالوں کو جانچنے کے بعد اگر پسند کیا جاتا تو مقالہ نگار کو بیت الحکمہ یا اکیڈمی کا ممبر بنایا جاتا جو اس زمانے میں ایک بڑا اعزاز تھا۔ سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے اس ادارے سے وابستہ سائنس دانوں کو مختلف جہتوں میں تحقیق کی ترغیب دی جاتی تاکہ ہر شعبہ ہائے حیات میں کام انجام پاسکے۔ بعد کے دور میں قاہرہ (مصر) میں بھی اسی طرز کی ایک اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا تھا۔
ذیل میں کچھ اہم مسلم سائنس دانوں کا ذکر کیا جاتاہے جنہوں نے اپنی عملی فراست اورمختلف تجربوں کے ذریعہ سائنس کی اس وقت مدد کی جب کہ وہ گھٹنوں کے بل چلنا سیکھ رہی تھی۔
* ابراہیمؔ بن جندب نے اصطرلاب ایجاد کیا جس کو بعد میں گلیلو (Galileo) نے ترقی دے کر دور بین کہا۔
* جابر بنؔ حیان علم کیمیا میں مہارت رکھتا تھا۔ امریکی پروفیسر فلپ کے مطابق ابن حیان نے کئی چیزیں دریافت کیں اور اصل کیمیا کی بنیاد رکھی۔ اس نے علم کیمیا کے کئی اصول و قاعدے مرتب کئے جو آج بھی مستعمل ہیں۔
* حاسبؔ نے ٹرگنومیٹریکل ٹیبل مرتب کیا جو فن انجینرنگ میں آج بھی بنیادی طور پر کام آرہا ہے۔
* اصمعیؔ نے علم حیاتیات میں دلچسپی لی اور کئی کتب تصنیف کیں۔ حیوانیات میں جاحظ اور قزوینیؔ کے کام بھی لائق تحسین ہیں۔
* کاتبؔ نے علم معدنیات پر کتب لکھیں جو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔
* یحییٰ منصورؔ نے زیچ (Astronomical table) تیار کیا جو آج بھی قابلِ قدر ہے اور اس موضوع پر ابتدائی کتاب سمجھی جاتی ہے۔
* خوارزمیؔ الجبرا کا موجد ہے اسکے وضع کردہ اصول اور قاعدے آج بھی قابلِ عمل ہیں۔ وہ فن ریاضی کا ماہر تھا۔ اسکی کئی کتابوں کو بشمول انگریزی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔
* ابن موسیؔ شاکر کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ پہلی گھڑی اسی نے ایجاد کی جو ماموں الرشید نے فرانسیسی بادشاہ کو تحفے میں بھیجی۔
* فرغانیؔ نے طغیانی ناپنے کا آلہ اور دھوپ گھڑی ایجاد کی۔
* سند بن علیؔ نے معدنیات پر تحقیق کی اورکثافت اضافی کی تخمین کا طریقہ دریافت کیا۔
* علی بن عیسیٰ نے Sextant ایجاد کیا جو ماہرین فلکیات کیلئے کار آمد آلہ تھا۔ جس کے ذریعہ فاصلے کا تعین کیا جاتا تھا۔
سہل طبریؔ نے طبی انسائیکلو پیڈیا مرتب کی۔
محمد بن موسیٰ نے کیمیاوی ترازو ایجاد کی جو آج بھی قدرے تبدیلی کے ساتھ استعمال ہوتی ہے۔
ثابت حرانیؔ نے اناٹومی میں مہارت حاصل کی اور کئی نئے اضافے کئے۔
جابر بن سنانؔ نے Spherical Astrolobeایجاد کیا۔
البنانی نے زمین کی گردش اور سورج کی رفتار پر تحقیق کی اور Inclination of ecliptic معلوم کیا۔ کوپرنکسؔ نے البانیؔ کے نظریات کی تصدیق کی۔ اسکی کتابیں دنیا کی کئی زبانوں میں شائع ہوچکی ہیں جس میں جرمنی بھی شامل ہے۔
رازیؔ (Rhazes)نے علم طب میں مہارت حاصل کی۔ میزان طبعی ایجاد کی۔مرض چیچک پر تحقیق کی اور اسکے اسباب کا پتہ چلایا۔ الکحل ایجاد کیا۔ ایک جراحی آلہ Seton بنایا۔ اسکی کتابیں یورپ کی تقریباً تمام زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ موجودہ دور میں بھی اہل یورپ کے دانشوروں نے 1913ء میں طب کے موضوع پر انٹرنیشنل کانگریس میں اسکے فن کو سراہا اور اسکو فن طب کا امام کہا۔
ابن ثابت حرانیؔ نے موبائل دواخانے شروع کئے۔
فارابیؔ نے علم حیاتیات میں مہارت حاصل کی۔ زندگی کے ارتقا پر سیر حاصل گفتگو کی۔ یہ بڑا ماہر نفسیات تھا۔ سماجی زندگی کے لئے اسکا پیش کردہ نظریہ نہایت اہم ہے۔
موفق بن علی ماہر لادویہ تھا۔ اس کی کتاب حقائق الادویہ اپنے زمانے کی مشہور کتاب تھی۔
عریبؔ ماہر طبیب تھا جس نے امراض نسواں پر کافی تحقیق کی اور اس موضوع پر اہم کتابیں لکھیں۔
محمد بن احمدؔ انسائیکلو پیڈیا کی ترتیب کے اصول کا موجد ہے۔ اسکی مشہور کتاب مفتاح العلوم ہے جو لندن سے کئی مرتبہ شائع ہوچکی ہے۔
عمار موصلیؔ نے موتیا بند کا علاج آپریشن کے ذریعہ دریافت کیا۔
مجریطی ؔ علم حیوانات کا ماہر تھا۔ اسکی کتاب میں جانوروں کے عادات واطوار پر مفصل بحث ملتی ہے۔ جس کا بہت بڑا حصّہ آج بھی کارآمد ہے۔
ابوالقاسم زہراویؔ کو آپریشن میں مہارت حاصل تھی۔ اہل یورپ نے جن تین مسلم ڈاکٹرس کی خدمات کو سراہا اور تسلیم کیا ان میں زہراوی شامل ہیں انہوں نے کئی آلات جراحی ایجاد کئے۔ انکی کتاب تصریف اپنے زمانے کی بہترین کتاب تھی۔ انکو یورپ میں Albiscusکہتے ہیں۔
ابن یونس صوفیؔ فلکیات کا ماہر تھا۔ اسکی کئی دریافتیں آج بھی قابلِ قبول ہیں۔ خصوصاً اوج شمس کا طول فلکی جو آج بھی 86درجے اور 10منٹ قرار دیا گیا ہے۔ اس نے Equinoxes کی صحیح قیمت معلوم کی جو آج بھی مصدقہ ہے جس کی مدد سے زمین کے محور کی حرکت معلوم کی جاتی ہے۔
احمد بوز جانیؔ نے Evection (چاندکے گھٹنے اور بڑھنے) سے متعلق نیا کلیہ دریافت کیا۔ یہ ماہر ریاضی داں تھا۔ اس نے ثابت کیا کہ سورج میں کشش ہے اور چاند گردش کرتا ہے۔
ابن الشہیم (Alhazan) نے آنکھ کی بناوٹ پر غور کیا۔ نور کی اشاعت کے متعلق نئے نظریات پیش کئے۔ اسی کے تجربات نے بعد کے سائندانوں کو کیمرہ بنانے پر اکسایا۔ اسکے پیش کردہ نظریات کئی ہیں۔ مثلاً روشنی نور ہے جو سیدھی بخط مستقیم سفر کرتی ہے۔ شعاع واقع، عمودی خط اور شعاع منعکس ایک سطح میں پائے جاتے ہیں۔ زاویہ وقوع اورزاویہ انعکاس آپس میں برابر ہوتے ہیں۔ علاوہ اسکے کروی آئینوں کے متعلق انکی تحقیقات آج بھی قابلِ قبول ہیں۔ انکی کتاب ’’کتاب المناظر‘‘بہت شہرت رکھتی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ پانی میں کوئی چیز تیڑھی کیوں نظر آتی ہے۔ ماسکہ کیا ہے۔ تارے رات کو کیوں جھلملاتے ہیں۔
احمد سبحتانیؔ نے گردش زمین کا نظریہ پیش کیا۔ جبکہ کوپرنکس نے یہ نظریہ بہت بعد میں دنیا کے سامنے لایا۔
احمد نسویؔ مشہور ریاضی داں تھا جس نے وقت کی پیمائش کے طریقے دریافت کئے اور وقت کو ساٹھ کے ہندسے پر تقسیم کرکے منٹ اور سکنڈ دریافت کئے علی بن عیسیٰ نے آنکھ کی ساخت بیماریوں اور علاج سے متعلق اپنے تحقیقاتی خیالات تذکرہ الکحلین میں بیان کئے جسکا یورپ کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔
ابن مسکویہؔ ماہر حیاتیات تھا۔ نباتات میں زندگی کو دریافت کیا اور دماغی ارتقا کی مفصل تشریح کی۔ زندگی کے ارتقا سے متعلق فارابیؔ کے نظریات کی وکالت کی اوران نظریات کی مزید تشریح کی۔ اس نے انسان پر سیر حاصل بحث کی اور اسکو کمال انسانیت قرار دیا۔ یہ ماہرِ نفسیات بھی تھا۔ اسکی مشہور کتاب تہذیب الاخلاق ہے جس میں تہذیب نفس اور اخلاق پر فلسفیانہ بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب مصر میں کئی مرتبہ چھپ چکی ہے۔
ابی سیناؔ (Avicenna) وہ عظیم سائنس دان ہے جس کو یوروپی ممالک نے مدت دراز تک تسلیم کیا اور عزت دی۔ اناٹومی اور میڈیسن پر لکھی گئی ’’کتاب القانون‘‘ صدیوں تک یورپ کے میڈیکل کالجوں میں داخل نصاب تھی۔
البیرونیؔ مشہور ماہر اراضیات تھا جس کو کئی علوم پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ اسکے کئی کارنامے ہیں۔ اس نے زمین کے محیط کی پیمائش کی۔ یہ سنسکرت زبان کا بھی ماہر تھا عرصہ دراز تک ہندوستان میں مقیم تھا اسکی تصنیف ’’کتاب الہند‘‘ بہت مشہور ہے۔
الغزالیؔ بڑے پایہ کے فلسفی اور ماہر نفسیات تھے۔ انکی کتاب احیاء العلوم مشہور ہے۔
عمر ؔ خیام مشہور شاعر فلسفی و سائنس داں ہے جنکی شمسی سال کے متعلق تحقیق کوپرنکس کی تحقیق سے زیادہ صحیح تھی۔
محمودالادریسؔ نے دنیا کا پہلا ماڈل بنایا اور بتایا کہ دنیا گول ہے۔
ابن الخطیب وہ پہلا سائنس داں ہے جس نے متعدی اور غیر متعدی امراض کے بارے میں دنیا کو بتایا۔
متذکرہ بالا ان قدیم سائنس دانوں کے علاوہ نہ جانے اور کتنے ہوں گے جن کو تاریخ کے صفحات نے محفوظ نہیں رکھا۔ نئی نسل کو اپنے تحقیقی میدان میں آگے بڑھنے کیلئے ان سائنس دانوں کے تذکرے ممکن ہے مشعل راہ ہوں جسکے ذریعہ نئی نسل میں احساس محرومی کو ختم کیا جاکر خود اعتمادی پیدا ہوسکے۔ ورنہ اہل یورپ کی طرح ہمارا ملی اثاثہ بھی اسی خیال کا حامی بنتا جارہا ہے بلکہ بن چکا ہے کہ سائنسی ترقیات یورپ سے شروع ہوئیں اور یورپ نے ہی اسکو پروان چڑھایا۔ اسی لیے مولانا علی میاں نے لکھا ہے کہ ’’اب اسکی بہت ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی بھولی ہوئی تحقیقی روش کو اپنائیں۔ اور مفید و بامقصد طریقے پر سائنس و صنعت کی فروغ دیں اور علمی و سائنسی سرگرمیوں کی ہمت افزائی کریں اور مسلمان ماہرین فن اور سائنسدانوں کی فنی علمی تحقیقات کا جائزہ لیں اور اس سے استفادہ کرکے تحقیق و جستجو اور تجربہ و مشاہدہ کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں‘‘ موجودہ دور کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمان تحقیق و جستجو میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن رفتار قابل اطمینان نہیں ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے منزل کا تعین کرلیں۔ کامیابی کے خواب دیکھیں، لیکن خوابوں میں کامیابی دیکھ کر خوش نہ ہوں۔ زندگی کے مقاصد کا منبع دل کو بنائیں اور ذہن کو دل کا تابع رکھیں کہ
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
اور شعور کی پہلی منزل پر طے کرلیں کہ مجھے کیابننا ہے۔ دل کی گہرائیوں سے کیا ہوا عزم مصمم انسان کو کامیابی کی دہلیز تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ لیکن اسکے لئے انسان کو محنت بھی کرنی پڑتی ہے کہ محنت کامیابی کی کلید ہے۔ ایک مرتبہ رسول خداؐ کی خدمت میں ایک صحابیؓ حاضرہوئے جنکی ہتیلی پرمحنت کے باعث بنے نشانات تھے۔اللہ کے رسولؐ نے فرط محبت سے اس غریب مزدور کے ہاتھوں کو چوم لیا ۔اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ راہ حیات میں آگے بڑھنے کیلئے محنت کی سخت ضرورت ہوتی ہے جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ یہاں میں طلبا برادری سے خصوصاً مخاطب ہوں کہ وہ ہمیشہ یہ پیش نظر رکھیں کہ کامیابی یکلخت حاصل نہیں ہوتی بلکہ کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لئے نا کامیوں کی شاہراہ گزرنا پڑتا ہے۔ اور زندگی کی پہلی ناکامی انسان کو بتدریج کامیابی کے قریب کرتی چلی جاتی ہے۔
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرہ افتاد
میں حیاتیات کا طالب علم ہوں اسی لیے ذیل میں اس صدی کے کچھ سائنس دانوں کا تذکرہ کروں گا۔ جنکی حیاتیاتی میدان میں خدمات قابلِ ذکر بلکہ ناقابلِ فراموش ہیں اوران تمام سائنسدانوں کا تعلق میرے مادر وطن سے ہے۔ ویسے حیاتیات کے علاوہ دوسرے کئی علمی میدانوں میں بھی مسلمانوں نے تحقیق کے دامن کو نہیں محمد افضل حسین۔ یہ حشرات الارض کے ماہر تھے اس موضوع پر آج کوئی بھی کتاب انکے تذکرے کے بغیر نامکمل خیال کی جاتی ہے۔ انکو برصغیر میں ’’فادرآف انٹمالوجی‘‘ (Entomology) کہا جاتا ہے۔
حامد خان۔ یہ مشہور زوالوجسٹ اور ماہر سمکیات تھے انکا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ مچھلیوں میں پستانیوں کے بلغمی غدود کے سیال سے Spawingکا عمل انجام دیا اور کامیاب رہے۔ دور حاضر میں اس موضوع پر بلکہ مچھلیوں پر لکھی گئی کتب میں اگر انکے نام کا حوالہ نہ ہو تو اس کتاب کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔
سلیم علی۔ یہ مشہور ماہر طیور ہیں جنکی شہرت ساری دنیا میں ہے۔ اور اس خصوص میں انکا نام کافی معتبر ہے۔انکی تحقیقات علم حیاتیات میں قابلِ قدر اضافہ ہیں۔ جنوبی ایشیا کے پرندوں پر آپکو اتھارٹی تسلیم کیا جاتا تھا۔
رحیم اللہ۔ یہ دکن حیدرآباد کے نامور سپوت ہیں جنہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد عرصہ دراز تک اسی جامعہ میں خدمات انجام دیں۔ آپ نے جنوبی ہند کی مچھلیوں خصوصاً دکن (سطح مرتفع) کے بارے میں بڑی عرق ریزی سے تحقیق کی۔ جو اس موضوع پر پہلی اور مسلمہ تحقیق تھی۔ علاوہ اسکے انہوں نے مچھلیوں کی درجہ بندی سے متعلق بھی خیال آفرینی کی جو Systamatics میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔
بابر مرزا۔ انہوں نے طفیلی جانداروں پر تحقیق کی۔ ایک عرصہ تک جرمنی میں رہے جہاں انہوں نے طفیلی جانداروں کی درجہ بندی کے متعلق کافی اہم کام کیا۔
ایس۔زیڈ۔ قاسم۔ یہ مشہور سائنسداں ہیں جن کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ ان کی صلاحیتوں اور تحقیق میں دلچسپی کے باعث انہیں ’’ہندوستان کی انٹارٹیکا شمیم جے راج پوری۔ یہ مشہور زوالوجسٹ ہیں جنہوں نے طفیلی جانداروں پر قابل قدر مقالے پیش کئے ہیں اور ساری دنیا میں شہرت پائی۔ آپ کچھ عرصہ تک ابولکلام آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآبادکے وائس چانسلر بھی رہے۔
اس سے قبل کہ اپنی بات ختم کروں نئی نسل خصوصاً طلباء برادری سے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ اگر وہ چاہیں تو آنے والے دنوں میں انکا نام بھی اس فہرست کی زینت بن سکتا ہے۔ لیکن اسکے لئے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ مقصد کا تعین کئے بغیر توانائیاں لاحاصل ہونگی عزائم بے رنگ ہونگے اور کوششیں رائیگاں جایں گی کیونکہ دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جنہیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انکی منزل کیا ہے۔ مقصد کا تعین ہی زندگی کو سمت عطا کرتا ہے۔ اسی لئے مقصد کی تلاش میں اپنی کشتی کے خود ناخدا بن جاؤ کہ ہواؤں کے دوش پر بہنے والی کشتی کی منزل عموماً تباہی ہوتی ہے۔ اسکے بعد سب کچھ خدا پر چھوڑدو محنت میں جٹ جاؤ اور بہتر امید رکھو کہ:۔
مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی
اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لاتخف
***