کلوننگ
(ہے بحر پُرآشوب وپراسرار یہ مسئلہ)
ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی – ورنگل
موبائل : 09866971375
آج دنیا کا کثیر طبقہ انسانی کلوننگ کو خدائی معاملات میں مداخلت سمجھتا ہے اور اخلاقی اعتبار سے اس طریقۂ عمل کو برا جانتا ہے۔ کلوننگ کوخدائی مرضی کے خلاف سمجھتا ہے، کلون سے ڈرتا ہے اور اسکو اصل کی نامکمل نقل سمجھتا ہے۔ اسکی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ ہم کلون کے متعلق حقائق سے واقف نہیں ہیں۔ ہم زیادہ تر کلون کو افسانوں کی دنیا سے جانتے ہیں۔ ایک مافوق الفطرت اساطیری کردار، جذبات سے عاری سفاک قاتل، صرف چند گھنٹوں میں بلوغیت کی عمر کو پہنچنے والا، اپنے محسن کو قتل کرنے والا، رحم مادر کے بغیر پیدا ہونے والا، نہایت بدصورت و بدہیت اور اگر خوبصورت ہو تو نہایت پراسرار شخصیت کا مالک وغیرہ
ہمارے ذہن پر کلون یا انسانی کلون کی اس قدر بھیانک تصویر کندہ ہونے کی شاید واحد وجہہ وہ امریکی و یورپی کتابیں یا فلمیں ہیں جو سائنس فکشن پر بنائی گئی ہیں۔ مثلاً Boys from Brazil جسمیں اڈولف ھٹلرکے94 کلون بنائے گئے Jashcia, Son of None جس میں جان ایف کنیڈی کا کلون بنایا گیا۔ Multiplicity جسمیں کلون کو نہایت تیزی سے بالغ ہوتا ہوا دکھایاگیا۔ Sleeperجس میں ڈکٹیٹر کا کلون بنایا گیا۔ Stepford Wives جس میں خوبصورت لیکن نہایت لمبی پتلی پراسرار عورت کا کلون بتایا گیا۔Jurassic Parkجس میں Dianosaurs کے کلون بنائے گئے جو اپنے محسن کو ختم کرنے آگے بڑھتے ہیں۔علاوہ انکے The Next generation ‘ Star Treck اور Synthetic افراد پر مشتمل Bladerunner وغیرہ بھی ان میں شامل ہیں۔ علاوہ اسکے سائنس فکشن پر بنائے گئے کارٹون ، لطیفے ،کتابیں بھی انسانی کلون کے متعلق غلط فہمی پیدا کرنے کا بڑا سبب بنے ہیں کیونکہ وہ کلون کوہمزاد قرار دیتے ہیں۔ ہمزاد بمعنی ایک ہی شخصیت کا دوسرا روپ، ہر لحاظ سے دونوں کی شخصیت یکساں سوائے انفرادی وجود کے ۔ اور ہم میں اکثر احباب اپنی کم علمی کے باعث فسانوں کی دنیا کے اس تصور کو کلون پر منطبق کرتے ہیں اور کلون کو نہایت پر اسرار ، ہر اعتبار سے اپنے جد سے مماثلث رکھنے والا خیال کرتے ہیں حالانکہ کلون بنانے کے ذمہ دار اصل مادے DNA سے دماغ کی کلوننگ ممکن نہیں ہے۔اسی لیے کسی کا کلون ظاہری اعتبار سے ممکن ہو مماثلت رکھے لیکن فکری و فعلی اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔
انسانی کلوننگ ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ اکثر افراد نے اس مسئلہ کو ضروری سمجھا اور اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن بعض افراد نے اس سے بے اعتنائی برتی اور بیزاری ظاہر کی۔ اظہار خیال کرنے والوں میں ہر طبقے کے افراد شامل ہیں جن میں اکثریت کی یہی رائے ہے کہ ’’انسانی کلوننگ خدا سے کھلواڑ ہے‘‘ اگر ہم انسانی کلوننگ کو معجزہ سمجھیں تو اسکے لیے ہم خدا کا شکر ادا کرسکتے ہیں وگرنہ یہ خدا سے کھیلنے کا نیا اور منحوس طریقہ ہے۔ انیسویں صدی میں مالتھسؔ نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ دنیا میں آبادی کی شرح اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ جو موجودہ قدرتی وسائل سے بھی زیادہ ہے۔ ڈارونؔ کا احساس تھا کہ جب انسانی کلون تیار ہونا شروع ہونگے تو انسان کی فطری ارتقائی منازل متاثر ہونگی اور انسان ترقی کے نام پر پستی میں گھرتا جائے گا۔ روایتی مذہبی ذہن رکھنے والے افراد انسانی جسم کو خدا کی امانت خیال کرتے ہیں جس میں کسی بھی قسم کا تبدل انکے لیے ناقابلِ قبول ہے کیونکہ یہ مقدس کتابوں میں لکھا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طبعی اغراض کے لئے بھی انسانی کلوننگ یا انکے اعضا کی کلوننگ مناسب نہیں کہ یہ کھلا ہوا خطرہ ہے جسکو انسان فی الوقت محسوس نہیں کر رہا ہے۔ بعض احباب کا خیال ہے کہ یہ نامناسب طریقہ تولید ہے کیونکہ ہماری شناخت اور انفرادیت اختلاف سے باقی ہے جبکہ کلوننگ کی بنیاد مشابہت ہے۔ کلوننگ اخلاقی اعتبار سے غلط ہے کیونکہ یہ انسانی مسائل کا قطعی یا ضروری حل نہیں ہے۔ بلکہ یہ طریقہ کار انسانی ذہن پر ایک تناؤ کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ قدرت نے فلاح انسانیت کیلئے کچھ طریقے رائج فرمادئیے ہیں جسمیں فطری طریقہ تولید بھی شامل ہے۔ اگر فطری طریقے سے اجتناب برتتے ہوئے کلوننگ کے ذریعہ انسان کی پیدائش عمل میں آئے تو یہ غیر فطری طریقہ کار نہیں ہوگا لیکن قدرت کے متعینہ اصولوں سے بغاوت ضرور ہوگی جسمیں انسانیت کا نقصان ہی نقصان ہے۔ تصور کیجئے کہ اگر دنیا میں صرف کلون ہی کلون رہ جائیں تو کیا یہ کارخانۂ حیات آگے بڑھ پائے گا۔ اوراُس وقت محبت، اخوت، شفقت اور پیار کے کیا معنی وضع کئے جائیں گے۔ رشتے ناطے کہاں کھوجائیں گے۔دنیا کے وضع کردہ اصول کے مطابق وراثت میں حق کیلئے انسان کا رحم مادر میں پلنا اور ماں باپ کے ملاپ سے جنین کا بننا ضروری ہے۔ جبکہ قائم مقام ماں (Suroggate) کے ذریعہ پیدائش وراثت کا حق نہیں دلوا سکتی۔ اس لیے ہم قائم مقام کو ماں کا درجہ کیسے دے سکتے ہیں کہ یہ انسانی شکل میں ایک مشین ہے جو بچے کو اگلنے سے پہلے اسکی پہچان کے تمام دھاگے کاٹ دیتی ہے اور اسکی ذات کو تنہا کرکے قعر مذلت میں ڈھکیل دیتی ہے اس لیے شاعر کہتاہے کہ
رحم مادر کی جگہ نلکی میں ڈالا جائے گا
اور پھر دنیا میں بے نام و نشاں ہوجائے گا
جسکے نتیجے میں ممکن ہے کہ کلون ایک بے روح انسانی شکل بن کر رہ جائے اور انسانی سماج میں غلام کی حیثیت بھی نہ حاصل کر پائے۔ لیکن جن افراد نے انسانی کلون بنانے کی موافقت کی ہے وہ کلون کو ایک مکمل اور انسانی خواہش کے مطابق انسان سمجھتے ہیں جو مستقبل میں بہتر انسانی نسل کی ضمانت دے گا۔
کلوننگ تاریخ کے آئینہ میں
کلوننگ کا تصورنیا نہیں ہے اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتاہے کہ نباتی کلوننگ (اجاتی تولید) کا طریقہ دنیا میں زمانہ قدیم سے موجود ہے۔ لیکن جانوروں میں ہماری معلومات کے مطابق پہلا تجربہ 1952 میں Briggs اور King نے مینڈکوں پر کیا اور ٹیڈپول کے خلیے سے مینڈک بنائے۔
_ 1962میں Gurdon نے اسی تجربے کو دہرایا اورمینڈک پیدا کئے۔
_ 1985میں Brinstor نے خِنزیر کو پیدا کیا۔
_ دسمبر 96 میں چین میں چوہوں پر تجربے ہوئے اور کلون چوہوں کو پیدا کیا گیا۔
_ مارچ 97میں Oregon اور Novolf نے دو بندروں کو پیدا کیا۔
_ اگست 97میں روزلن انٹسی ٹیوٹ کی جانب سے ایک اہم اعلان ہوا کہ انہوں نے ایسی بھیڑ پیدا کرلی ہے جس میں انسانی جنین استعمال کئے گئے۔ یہ Transgenic کلون تھا جس کا نام Polly رکھا گیا۔
_ 21؍ جنوری 1998ء میں چارلی اور جارج نامی بچھڑے(Calves) پیدا کئے گئے جس میں استعمال شدہ نئی ٹیکنک مستقبل میں طبی اغراض کیلئے بنائے جانے والے کلون میں فائدہ مند ہوسکتی ہے۔
_ 24؍ جنوری 1998ء میں پہلی مرتبہ رچرڈ سیڈ(Richard Seed) نے انسان کلون بنانے کا اعلان کیا اوردعویٰ کیا کہ وہ ہر سال 500انسان بنا سکتا ہے۔
_ 20؍ فروری 1998ء میں کوریا میں سیول نیشنل یونیورسٹی نے Dolly کی پیدائش کے طریقے کو اپنا کر بچھڑا بنایا۔ اس طرح ، برطانیہ، جاپان، نیوزی لینڈ اور امریکہ کے بعد کوریا پانچواں ملک بن گیا جہاں جانوروں کو کلوننگ کے ذریعہ بنایا گیا۔
_ 22؍ جولائی 98ء ہوائی کے Dr. Ryuzo نے 22 چوہے پیدا کئے جس میں 7چوہے ایک ہی خلیے سے بنائے گئے۔
نومبر 98ء میں نیشنل Bioethics advisory کمیٹی کے صدر Shapira نے اعلان کیا کہ انسانی کلون بنانے کا کام نہایت تیزی سے چل رہا ہے۔ اور اس کام پر روک لگانا نہایت مشکل ہے حالانکہ مختلف حلقوں کے ذریعہ کئی بار اس پروگرام پر امتناع کی خواہش کی گئی ہے۔
_ 13؍ نومبر 98ء میں سائنس دانوں نے انسانی خلیے اور گائے کے انڈے کے ذریعہ کلون پیدا کئے۔
_ 8؍ دسمبر 98ء کو جاپان میں ایک ہی گائے کے خلیوں سے جملہ 8گائے بنائے گئے۔
_ 14؍ دسمبر 98ء کو کوریا میں Kim Seung bo اور Lee-Bo-yeon نے ایک عورت کے بیضہ سے مرکزہ کو نکال کر دوسری 30سالہ خاتون کے جسم کے خلیے میں اس بیضے کی کامیاب منتقلی انجام دی۔ یہ انسانی کلون کی تاریخ کا پہلا کامیاب تجربہ تھا۔ لیکن ان سائنس دانوں کا ارادہ انسانی کلون بنانے کا نہیں تھا بلکہ وہ صرف پیوند کاری کیلئے اعضا بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ما بعد اخلاقی احساس نے انکو تجربہ روکنے اور مکمل کاوشوں کو ضائع کرنے پر آمادہ کیا۔
_ 27؍ اپریل99ء کینڈا میں پہلی کلون بکری پیدا کی گئی جس میں انسانی جین کو شامل کیا جاکر بکری کے دودھ میں ایسے پروٹین پیدا کئے گئے ہیں جو بافتوں کی درستگی اور زخم کو مندمل کرنے میں مددگار ہیں۔
_ 26؍ دسمبر2002ء بروز جمعرات 11.55کو بذریعہ آپریشن انسانی کلون لڑکی پیدا ہوئی۔ لڑکی کا نام "Eve”ہے اوراس لڑکی کا وزن 7پاؤنڈ ہے۔ یہ لڑکی ایک 31سالہ بے اولاد امریکی عورت کا کلون ہے۔ اس خبر کو میڈیا تک clonaid کی ڈائرکٹرBrigitte Bosselier نے پہنچایا لیکن مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
_ Dollyکا ذکر اس فہرست میں شامل نہیں کہ اسکی اہمیت کے پیش نظر اسکی تفصیلات آئندہ صفحات میں آئیں گی۔
_ یہاں یہ تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ 1978ء میں Steptoاور Edward نے ٹسٹ ٹیوب بے بی Louise Brown کو پیدا کیا۔ حمل کاری کے اس مصنوعی طریقے (In vitro Fertilization (IVF) کو عوام نے قبول کیا۔جس کا تصور بھی کچھ برس قبل تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس طریقہ تولید کو سماج کے تمام طبقات اور مذاہب نے قبول کیا۔فقہائے اسلام نے بھی کچھ شرائط کے ساتھ IVF (ٹسٹ ٹیوب بے بی) کی اجازت دی کہ اس عمل میں منی زندہ شوہر کی استعمال ہو اور جنین کو اُسی شخص کی منکوحہ بیوی میں منتقل کیا جائے ۔ Suroggate (متبادل) ماں سے مدد نہ لی جائے۔ لیکن فقہانے منی بنک (Semen Bank) اور جین بینک (Gene Bank) کے استعمال کو اسکے متوقع خطرات اور سماج پر مرتب ہونے والے مضر اثرات کے پیش نظر حرام قرار دیا ہے۔
کلون کی تعریف
لفظ کلون یونانی لفظ Klon سے مشتق ہے جسکے لفظی معنی ’’ٹہنی‘‘کے ہیں۔ اسکا مفہوم اجاتی تولید یاVegetative reproduction بھی لیا جاتاہے۔
NBAC نے کلون کو نہ صرف سالمات خلیوں اور بافتوں بلکہ تمام جاندار کا ایک دوسرے کے مماثل بنانا قرار دیا ہے۔امریکن Heritage ڈکشنری نے اسکی تعریف چار حصوں میں مکمل کی ہے۔ (a)کلون ایک مشترکہ جد سے پیدا ہونے والے جینیاتی ہم شکل خلیوں کا گروپ ہے۔ جیسے کہ بیکٹیریا کی کالونی جو ایک خلیے سے دوہری تشقیق کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے (b)واحد جد سے اجاتی تولیدی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا عضویہ۔ جیسے budding کی وجہ سے Polyp کا پیدا ہونا (c) DNA ترتیب کا ہم شکل (Replica) جین جو جینی انجینرنگ کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔(d) اور یہ جنین فعلی و ظاہری اعتبار سے یکساں نظر آتے ہیں۔AMAکے مطابق کلوننگ کا مطلب جسم کے خلیے کے مرکزے کی منتقلی کے ذریعہ جینی طور پر مماثل جاندار کا پیدا کرنا ہے۔ بعض سائنس دانوں نے اسمیں اسقدر اضافہ کیا ہے کہ ’’نہ صرف جاندار بلکہ جاندار کی صرف بافت یا کسی عضو کا پیدا کرنا بھی کلوننگ ہے‘‘۔
کلوننگ کی اقسام
کلوننگ کی کئی اقسام ہیں ان میں کچھ اہم حسبِ ذیل ہیں۔
سالمیاتی کلوننگ
سالمیاتی اور خلوی سطح پر کلوننگ کا عمل عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اس میں DNA کی سالمیاتی کلوننگ کی جاتی ہے اور DNA کے ٹکڑوں کو میزبان خلیے میں بڑھایا جاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں Amplify کیا جاتا ہے اور جین کی کاپی یا نقل تیار کی جاتی ہے۔ اس طریقے کے ذریعہ آج اہم ادویات تیار کئے جا رہے ہیں جیسے انسولین اور قلب پر حملے کے بعد خون کے منجمد حصّے کو حل کرنے کے لئے TPA وغیرہ۔
خلوی کلوننگ
جسم سے حاصل کردہ خلیے لیبارٹری میں Culture کے ذریعہ نمو پاتے ہیں جہاں انکی مشابہہ اور ہوبہو اشکال حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ کلون شدہ خلیہ اصل خلیہ سے بالکل مماثل ہوتا ہے۔ یہ طریقہ بھی ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا طریقوں میں egg یا sperm شامل نہیں اس لیے اس طریقہ کار سے Baby بنانے کا عمل نہیں کیا جاسکتا۔
جنین کی کلوننگ Embryoni cloning:
اس طریقہ کار کو تین درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جس میں Blastomere کی علیحدگی، Blastocyst کی تقسیم اور مرکزہ کی منتقلی شامل ہے۔
جسمانی خلیے سے مرکزے کی منتقلی(Nuclear Somatic Cell Transfer)
اس طریقہ کار میں بالغ لیکن غیر بارور شدہ انڈے (unfertilized egg) سے مرکزے کو نکال کر اسکی جگہ بالغ جسم کے کسی بھی مخصوص خلیے کے مرکزے کو داخل کیا جاتاہے۔ اسی طریقے پر عمل کرکے Dolly کو پیدا کیا گیا۔اسمیں اسکی ماں "Ewe”کے پستانی خلیے کو اسی کے بغیر مرکزے والے egg سے ملایاگیا۔ اور مصنوعی طریقے پر مسلسل برقی پہنچانے کا عمل جاری رکھا گیا تاکہ باروری انجام پائے۔ پھر اس نمو پانے والے جنین کو چھ دن تک لیب (lab) میں رکھ کر ایک دوسری بھیڑ کے رحم میں منتقل کیا گیا۔ اس بھیڑ کو قائم مقام ماں (suroggate) کہا گیا لیکن ماں کا درجہ نہیں دیا گیا۔ حمل کی مدت کے اختتام پر ڈولی پیدا ہوئی۔
*****
Dr.Aziz Ahmed Ursi
Warangal – Telangana , INDIA