قسط 3
اردو کے ادیب اور نثرنگار
محسن الملک – چراغ علی – محمد حسین آزاد
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
——
اردو کے ادیب اور نثر نگار ۔ دوسری قسط کے لیے کلک کریں
——
الطاف حسین حالی (۱۸۳۷۔۱۹۱۴ء)
اردو نثر کے فروغ میں مولانا الطاف حسین حالی کا بہت بڑا حصہ ہے ، بلا شبہ وہ بہت اچھے شاعر تھے اور مسدس حالی ایک ناقابل فراموش طویل ترین نظم ہے لیکن اسی کے ساتھ بحیثیت نثر نگار بھی ان کا مرتبہ بہت بلند ہے ، انھوں نے اردو میں کئی کتابیں لکھیں ، ان کی پہلی نثری تصنیف ’’مجالس النساء ‘ ‘ ہے ، اس کا موضوع عورتوں تربیت اور تعلیم ہے ، لیکن انداز قصہ گوئی اور ناول کا ہے۔
اس کے بعد انھوں نے مشہور فارسی شاعر کی سیرت۱۸۸۲ء میں ’’حیات سعدی ‘‘ کے نام سے لکھی ، اس میں شاعر کے مستند حالات پیش کئے ، اس کے بعد انھوں نے غالب کی سوانح ’’یاد گار غالب ‘‘ کے نام سے لکھی ، یہ غالب شناسی کی جانب پہلا قدم ہے اور اس میں انھوں نے غالب کی شاعرانہ عظمت کا ثبوت بہت بہتر طریقہ سے دیا ہے ، سوانح عمری مولانا حالی کا پسندیدہ موضوع بن گیا ، مذکورہ بالا دونوں کتابوں کے بعد انھوں نے ’’حیات جاوید‘‘ کے نام سے سرسید کی مبسوط اور ضخیم سوانح عمری لکھی ، الطاف حسین حالی کا شریفانہ مزاج اور روایتی وضع داری ان کو تنقید پر آمادہ نہیں کرتی تھیں ، چنانچہ انھوں نے غالب اور سر سید دونوں پر کہیں تنقید نہیں کی ہے ، یہاں تک کہ شبلی نے حیات جاوید کو مدلل مداحی اور کتاب المناقب کا نام دے دیالیکن شبلی کی تنقید اپنی جگہ پر ، سوانح نگاری کے میدان میں یادگار غالب اور حیات جاوید کی اہمیت باقی اور برقرار ہے ، مولانا حالی کی فن شاعری پر ناقدانہ بصیرت کا مظہر ان کی کتاب ’’مقدمہ شعر وشاعری ‘‘ ہے ، آل احمد سرور نے اس کتاب کو اردو شاعری کا پہلا منشور قرار دیا ہے ، انھوں نے اس کتاب میں بتایا ہے کہ اچھی شاعری کے لئے کیا شرطیں ہیں اور شاعری میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں، کتاب کے دوسرے حصہ میں شعری اصناف یعنی غزل ، قصیدہ ، مرثیہ اور مثنوی کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ، مولانا حالی کی نثر میں سادگی بھی ہے اور پر کاری بھی ہے ، شگفتگی بھی ہے اور تاثیر بھی ہے ، وہ اپنی بات کو واضح اور مدلل طور پر بیان کرتے ہیں ، آگے چل کر اردو میں جس سادہ نثر کو رواج ہوا اس کی بنیاد حالی کی نثر ہے ، یہ درست ہے کہ حالی کی نثر میں شبلی کی زبان کی شگفتگی اور رعنائی نہیں ہے اور نہ مولوی نذیر احمد کا زور بیان ہے لیکن ان کی سادہ نثر بھی بہت دل کش اور مؤثر ہے ۔
نذیراحمد (۱۸۳۶۔۱۹۱۲ء)
مولوی نذیراحمد کو اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے لیکن انھوں نے ناول کے علاوہ بھی بہت کچھ لکھا ہے ، قرآن مجید کا با محاورہ ترجمہ کیا ، مذہب و اخلاق سے متعلق کتابیں تصنیف کیں ، انھوں نے بعض انگریزی کتابوں کے اردو ترجمے بھی کئے ، یہ وہ کتابیں ہیں جن کا تعلق قانون سے ہے ، جیسے ایک ترجمہ کا نام ہے ’’تعزیرات ہند‘‘ اور دوسرے ترجمہ کا نام ہے ’’قانون شہادت‘‘ ۔
ڈپٹی نذیر احمد ادیب بھی تھے اور خطیب بھی تھے ، ان کے خطبات بھی شائع ہوچکے ہیں ، ان کی تحریروں اور تقریروں میں بلا کا زور اور جوش پایا جاتا ہے ، کیونکہ وہ عربی کے بڑے عالم تھے ، اس لئے عربی زبان کے اثرات ان کی اردو نثر پر بہت زیادہ ہیں ، ان کو ’’شمس العلماء ‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا اور ایڈنمبرایونیورسٹی سے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی ، ڈپٹی نذیر احمد کی شہرت ان کے ناول ’’مرآۃ العروس ‘‘ اور ’’بنات النعش‘‘ اور ’’توبۃ النصوح ‘‘ اور ’’ابن الوقت ‘‘ کی وجہ سے ہے ، نذیر احمدکو اردو کے پہلے ناول نگار کا درجہ دیا جاتاہے ، ان کے مکالمے بہت لا جواب ہیں اور یہ ناول اصلاحی مقصد کے لئے لکھے گئے ہیں ، تہذیب اخلاق کو ان کے یہاں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے اور ان کی تمام تصانیف جدید نثری صنف کا سنگ بنیاد ہیں ۔
ذکاء اللہ (۱۸۳۲۔۱۹۱۰ء)
منشی ذکاء اللہ دہلی کے رہنے تھے ، والد کا نام ثناء اللہ تھا ، ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ، اس کے بعد دہلی کالج میں داخلہ لیا ، اس کالج میں نذیر احمد اور محمد حسین آزاد پہلے سے زیر تعلیم تھے ، ادبی اور شعری ذوق کے مشترک ہونے کی وجہ سے ان تینوں کے درمیان زمانہء طالب علمی سے ہی دوستانہ مراسم قائم ہوگئے اور جب بچپن کے زمانہ سے اہل فن اور شعر وادب کا ذوق رکھنے والوں سے شناسائی ہوجاتی ہے تو یہ ذوق بھی پروان چڑھتاہے اور جس کے نتیجہ میں ایک انسان اچھا شاعر یا اچھا ادیب بن جاتا ہے ، منشی ذکاء اللہ نے اردو اور فارسی بھی پڑھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو علم ریاضی سے بھی شغف تھا ،چنانچہ تعلیم سے فارغ ہونے بعد اسی کالج میں ر یاضی کے پروفیسر ہوئے ، انھوں نے بہت سے مضامیں سپرد قلم کئے اور کتابوں کا انبار لگادیا، بعض محققین نے لکھا ہے کہ ان کی جملہ تصانیف کی تعداد ایک سو تینتالیس تھی ، ان کی تمام تصانیف میں غالبا سب سے اہم کتاب ’’تاریخ ہندوستان‘‘ ہے جو دس جلدوں میں ہے ، انھیں بھی ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا گیا ، ان کی تمام کتابیں پر از معلومات ہیں لیکن حسن بیان اور شگفتگی زبان کے اعتبار سے نذیر احمد اور محمد حسین آزاد کی کتابوں کی درجہ کی نہیں ہیں ، وہ آخر میں الہ آباد کے کالج میں عربی فارسی کے پروفیسر بھی ہوگئے تھے ، ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور وہ جب بھی لکھتے تھے تو معلومات کا انبار لگادیتے تھے ۔
One thought on “اردوکے ادیب اورنثرنگار- قسط 3- حالی ‘ نذیراحمد ‘ ذکاء اللہ – – – پروفیسرمحسن عثمانی ندوی”
بہترین ترسیل کے لیئے قلبی تہنیت