کتاب : عابد معز کی ادبی شناخت
مصنف : رفیق جعفر ( پونے)
موبائل : 09270916979
مبصر: ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم
نوٹ : ڈاکٹرعابد معزکو سالگرہ مبارک ہو۔
ڈاکٹرعابد معز محتاجِ تعارف نہیں ۔ انہوں نے نہایت سنجیدگی سے اردوطنزومزاح کوفروغ دیا ہے اس حوالے سے ان کے بے شمار مضامین اورتصانیف دستیاب ہیں۔ سائنس و طب کے حوالے سے بھی آپ کی خدمات اظہرمن الشمس ہیں ۔ محترم رفیق جعفر نے آپ کی ادبی شناخت کو روشن کرنے کے لیے ایک بہترین تصنیف ’’عابد معز کی ادبی شناخت‘‘ تحریر کی ہے جس میں راقم کا پیش لفظ بھی شامل ہے ۔
ڈاکٹر عابد معز کو میں ان دنوں سے جانتا ہوں جب میں انھیں ادب کا ڈاکٹر ہی سمجھاکرتا تھا۔ ایک دو دوستوں سے پوچھا بھی تھا کہ انھوں نے کس یونی ورسٹی سے اور کس کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ ایک نے قیاس کیا کہ شاید وہ عثمانیہ کے ہوں گے اور پروفیسر مغنی تبسم یا پروفیسر سیدہ جعفر کی نگرانی میں مقالہ تحریر کیا ہو مگر صحیح بات کا علم نہ ہوسکا۔ پھر دھیرے دھیرے یہ راز افشا ہوتا گیا کہ جناب والا ادب کے نہیں بلکہ ”سچی مچی” کے ڈاکٹر ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کا تعلق ’کھاتے پیتے‘ گھرانے سے ہے اس لیے وہ ’کھانے پینے کے ڈاکٹر‘ بن گئے۔ ہم نے کھاتے پیتے ڈاکٹروں کو ضرور دیکھا ہے لیکن ایسے ڈاکٹر جو دوا سے کم اور غذا سے زیادہ علاج کرتے ہیں‘کبھی ملاقات نہیں ہوئی، ویسے بھی ہم اردو والے غذا سے امراض بڑھاتے ہیں علاج کہاں کرواتے ہیں؟
ماہنامہ شگوفہ کا برسوں سے قاری رہا ہوں۔ میرے ایک کلاس فیلو عزیز ابرار مرحوم نے جب شگوفہ کی ادبی خدمات پر ایم فل کا مقالہ تحریر کیا تو شگوفہ کو مزید پڑھنے کے ساتھ کچھ مضامین لکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ چوں کہ صحافت کا خصوصی مطالعہ میرے پیشِ نظر رہا ہے تبھی تو ایڈیٹر اوورسیز کا عہدہ کھلنے لگا۔ اردو کے کئی ایک رسالے دیکھ ڈالے مگر کہیں بھی یہ عہدہ نظر نہیں آیا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہواکہ ڈاکٹرعابد معز سعودی عرب میں رہ کر شگوفے رہتے ہیں۔ ماہنامہ شگوفہ حیدرآباد میں شایع ہوتا ہے مگر اشاعت کے لائق تو سعودی میں ہی بنتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹرعابد معز کی خدمات اظہرمن الشمس ہیں۔ پرویز یداللہ مہدی سے پتہ چلا کہ ماہنامہ شگوفہ کے دومیاں ہیں۔ بڑے میاں ڈاکتر سید مصطفی کمال اور چھوٹے میاں ڈاکٹرعابد معز!
ڈاکٹرعابد معز ایک پہلودار شخصیت ہیں۔ اول تو یہ شعبۂ طب سے وابستہ ہیں۔ دوم یہ کہ ادب سے جڑے ہوئے ہیں اور سوم یہ کہ وہ ایک بہترین انسان ہیں۔ انسان دوستی پر ان کا ایقان ہے۔ معراجِ انسانیت ان کا پیغام، خدمت خلق ان کا مقصد ہے۔ دلجوئی ان کا طریقہ کار اور شگفتگی ان کا اوزار جب کہ مزاح ان کے مزاج میں داخل ہے۔ تبھی تو ان کے مضامین ہوکہ کالم، افسانے ہوں کہ طبی شکرریزے، ہر ایک میں سشگفتگی پائی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی ’شگفتہ‘سے زبردست متاثر رہے ہیں!
ڈاکٹر عابد معز سنجیدہ ظرافت کے علمبردار ہیں۔ صحت وطب نے جہاں انھیں سنجیدہ بنائے رکھا ہے وہیں ادب نے ظرافت کے رخ کو روشن کیا ہے۔ وہ نہ تو طنز کے ذریعہ گالی دیتے ہیں اور نہ ہی مزاح کے ذریعہ پھوہڑپن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دھیمی دھیمی آنچ پر پکنے والی تحریریں نہ صرف لذت وذائقہ سے بھرپور ہیں بلکہ غذائیت وافادیت سے بھی معمور ہیں۔ ان کا طنزومزاح ایک صاف وشفاف آئینہ ہے جس میں قاری خود کو جی بھر کر دیکھتا ہے، اپنی خوبیوں کو دیکھ کر کھل اٹھتا ہے اور اپنی خامیوں نظرڈال کر مسکرائے بغیر نہیں رہتا۔ اس سے بہتر قلم کار کی معراج کیا ہوسکتی ہے؟ ان کا کوئی بھی مضمون اٹھاکر دیکھیے، وہ مکمل معلومات پہنچاتے ہوئے کوئی ایسا ضرب المثل یا محاورہ یا کوئی علامت یا استعارہ کا استعمال کرجاتے ہیں کہ پڑھنے والا زیرِلب مسکرااٹھتا ہے۔ مثلا
’’نئی بستیوں میں اردو کی محفلیں چاہے وہ مشاعرہ ہو یا کانفرنس کھانے کے بغیر منعقد نہیں ہوتیں۔ اس میں اردو زبان یا اردو تہذیب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، نئی بستیوں میں اردو کی محفلیں منعقد کرنے کا رواج ہی ایسا پڑگیا ہے کہ بغیر تناول طعام اردو کی ترقی نہیں ہوسکتی! اسی لیے میرے ایک دوست مشاعروں اور اردو کی محفلوں کو ’اردو کا دسترخوان‘ کہتے ہیں اور وہ اردو کی محفلیں بپا کرنے والوں سے دریافت کرتے ہیں۔ ’آپ کب اردو کا دسترخوان بچھارہے ہیں؟‘ ‘ (اردو کی نئی بستیاں، پرانے لوگ)
’’ہماری سڑکوں پر ٹھوکریں کھائے بغیر چل نہیں سکتے۔ یوں بھی شہر کی سڑکوں پر پیدل چلنا ایک آرٹ ہے۔ کبھی ٹھوکر کھاکر سنبھلنا پڑتا ہے تو گر کر اٹھنا پڑتا ہے۔ کبھی چھلانگ لگانی پڑتی ہے تو کبھی اچھلنا اور کودنا پڑتا ہے۔ کبھی ایک ٹانگ سے لنگڑانا پڑتا ہے تو کبھی پیروں اور ہاتھوں کی مدد سے جانوروں کی طرح پھدکنا پڑتا ہے۔ کہتے ہیں پیدل چلنے سے بہتر کوئی ورزش نہیں ہے۔ اگر آپ اس مقولے کی حقیقت جانچنا چاہیں تو حیدرآباد کی سڑکوں پر پیدل چلا کیجیے۔ ورزش کے علاوہ بعض مرتبہ آپ کی مرمت بھی ہوجائے گی۔ گھٹنے اور کہنیاں چھل جاتی ہیں۔ پنڈلیوں پر ورم آجاتا ہے۔ اعضاشکنی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ ‘‘ (ہماری سڑکیں)
’’بے ضررامراض کے یہ تیور ہیں تو پھر ’شریک زندگی‘ بننے والے امراض جیسے ذیابیطس، بلڈ پریشر، گٹھیا وغیرہ کا ساتھ نبھانے کے لیے ہر ماہ ایک خطیر رقم مختص کرنی پڑتی ہے۔ ان امراض کے ساتھ ’صحت مند‘ رہنے کے لیے ’صحت ٹیکس‘ ڈاکٹروں، معائنوں اور دواؤں کے نام پر دینا پڑتا ہے۔ میں نے ایک بزرگوار سے خیریت دریافت کی۔ ’آپ کی صحت کیسی ہے؟‘
’بہت مہنگی۔‘ موصوف نے جواب دیا۔ ‘‘ (صحت بہت مہنگی ہے)
شہرحیدرآباد کو شہرت عطاکرنے والے بہت سے قلم کار و فن کار ہیں۔ سچ تو ہے کہ حیدرآباد کی تہذیب وثقافت اور مزاج ومزاج نے اس شہر کو عالمی شہر بنادیا ہے۔ طنزومزاح کے حوالے سے نامور مزاح نگار مجتبی حسین نے شہر حیدرآباد کی تشہیر وتبلیغ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہیں ڈاکٹر عابد معز نے حیدرآباد کے حوالے سے جو نرم گرم مضامین لکھے وہ لائق تحسین ہے۔ تبھی تو ڈاکٹر سید مصطفی کمال، مدیر شگوفہ نے ڈاکٹر عابد معز کے حوالے سے یہاں تک لکھا کہ
’’ حیدرآباد پر اس کی چار سو سالہ زندگی میں بے شمار مضامین لکھے جاچکے ہیں۔ حیدرآباد کی تاریخ، اس کا محل وقوع، ماحول، موسم، عمارتیں، تہذیب وتمدن، آبادی اور اس کے مسائل۔۔۔ اس طرح کے مختلف النوع موضوعات پر مختلف زبانوں میں لکھا جاتا رہا ہے۔ مزاح نگاروں کا بھی یہ مرغوب موضوع رہا ہے لیکن حیدرآباد کی تہذیبی، سماجی اور سیاسی زندگی پر اتنے ڈھیرسارے مضامین عابد معز کے علاوہ کسی مزاح نگار نے نہیں لکھے۔ ‘‘ (مقدمہ ، واہ حیدرآباد)
ہندوستان کے بڑے شہروں کی کسی نہ کسی تصنیف وتالیف کے حوالے سے تہذیبی تاریخ رقم کی گئی ہے لیکن شہرِ حیدرآباد کی یہ بدقسمتی ہے کہ آج تک کسی قلم کار نے یہاں کی تہذیبی تاریخ کو نہیں لکھا ہے گوکہ چیدہ چیدہ مضامین ضرور ملتے ہیں ۔جہانِ اردو ڈاٹ کام کی خواہش پر علامہ اعجاز فرخ نے اپنی خود نوشت ’آئینہ ایام‘ کے حوالے سے حیدرآباد کی تہذیبی تاریخ کو تحریر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کی کچھ قسطیں ویب سائٹ پر لگائی جاچکی ہیں۔ ڈاکٹر معز کی تصنیف ’واہ حیدرآباد‘ بھی حیدرآباد کی تاریخی، معاشرتی، تہذیبی ، ادبی موضوعات پر تحریر کیے گئے مضامین کا مجموعہ ہیں جو قابل مبارک باد ہے۔
ادب، طب اور سائنس کے حوالے سے ڈاکٹر عابد معز نے بیسوں کتابیں تحریر کی ہیں مگر کسی نے ان پر ابھی تک ایک دو مضامین کے علاوہ کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی، حالانکہ ان کی شخصیت اور خدمات پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے جو ہنوز اشاعت سے محروم ہیں۔ بھلا ہو محترم رفیق جعفر صاحب کا کہ انھوں نے اس جانب توجہ فرمائی اور ڈاکٹر عابد معز کی ادبی شناخت کے تعین کا بیڑہ اٹھایا۔
محترم رفیق جعفر صاحب کو میں برسوں سے پڑھتا آیا ہوں۔ ملک کے معیاری اخبار ورسائل میں آپ شایع ہوتے رہے ہیں لیکن ان سے ملاقات پونے کے ایک سمینار میں ہوئی۔ پھر ملاقات کا سلسلہ جاری ہے۔ خدا کرے کہ یہ رفاقت صدیوں پر محیط ہو۔ رفیق جعفر یوں تو حیدرآبادی ہی ہیں مگر آج کل پونے میں متمکن ہیں۔ وہ ایک نامور افسانہ نگار، معتبر نقاد، بے مثال محقق کے علاوہ فلمی مکالمہ نگار، منظر نگار اور اسکرپٹ نویس ہیں۔ آپ جدید لب ولہجہ کے شاعر ہیں۔ بقول پروفیسر مجید بیدار :’’انسانی حقیقتوں اور اس کی مجبوریوں کو عصری رجحانات کے پس منظر میں پیش کرنے کا ہنر رفیق جعفر کو خوب آتا ہے۔ وہ نہ صرف دنیا اور اس کی حقیقت سے آشنا ہیں بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ محنت و مشقت کے توسط سے ہی دنیا میں انسان سرخرو ہوتا ہے۔ وہ اپنی غزلوں کے ذریعہ نہ صرف حقائق کی پیشکشی پر توجہ دہتے ہیں بلکہ دنیا کی اٹل حقیقتوں کو ظاہر کرکے انسان کے مزاج کو عصری رجحانات سے وابستہ کرنے کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔‘‘ (مضمون ’عصری رجحانات اور امکانات کا حیدرآبادی شاعر: رفیق جعفر‘ ، جہانِ اردو ڈاٹ کام)۔
رفیق جعفر ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں۔ ایک افسانوی اور ایک شعری مجموعہ کے علاوہ تحقیق و تنقید کے حوالے سے دو تصانیف شایع ہوچکی ہیں۔ بے شمار سمینار ، سمپوزیم جن میں شریک رہے۔ کئی ایک مشاعروں میں کلام سنایا اور ریڈیو ٹی وی کے مباحثوں میں بھی حصّہ لیا۔ ’فن اورشخصیت‘ کے ابتدائی شماروں سے ہی وابستہ رہے۔ ان کی ترتیب وتہذیب کرتے رہے لیکن غزل نمبر میں ہی نائب مدیر کی حیثیت سے ان کا نام درج ہے۔ اس عمر میں بھی روزانہ دکن ریسرچ سنٹر پو دو تین گھنٹے مطالعہ میں صرف کرتے ہیں۔ طلبا وطالبات اور ریسرچ اسکالرز کے علاوہ ریسرچ گائیڈز بھی تحقیقی موضوعات اور مواد کی فراہمی میں آپ کا تعاون لے رہے ہیں جب کہ آپ نہ تو کسی کالج میں لیکچررہیں نہ کسی یونی ورسٹی میں پروفیسر!
رفیق جعفر کوطنزومزاح سے گہری وابستگی ہے۔ یقین ہے کہ انھوں نے بھی طنزیہ ومزاحیہ مضامین ضرور لکھا ہوگا تنھی تو ’اردو ادب کے تین بھائی‘اور ’طنزومزاح کے تین ستون‘ جیسی دو اہم تنقیدی تصانیف تحریر کی ہیں۔ طنزومزاح کے حوالے سے اب کی بار انھوں نے ڈاکٹر عابد معز کا انتخاب کیا ہے۔
’ڈاکٹر عابد معز کی ادبی شناخت‘ دو بڑے حصّوں پر مشتمل ہے۔ ایک مقدمہ جب کہ دوسرا حصّہ انتخاب مضامین پر محیط ہے۔ اس کتاب کی بے مثال خوبی اس کا طویل مقدمہ ہے ۔ آج کل کتابوں کے مقدمے پندرہ بیس صفحات سے زائد نہیں لکھے جاتے لیکن رفیق جعفر نے تقریباً پچاس ساٹھ صفحات پر مقدمہ لکھا اور درجن بھر عنوانات کے تحت ڈاکٹر عابد معز کی ادبی شناخت قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
’حرفِ رفیق‘ کے تحت مصنف نے عابد معز کا مختصراً تعارف کروایا ہے۔ پہلی تخلیق یا پہلی تصنیف سے مصنف کو بے حد پیار ہوتا ہے کیوں کہ اس کی ترتیب وتہذیب میں وہ اپنی ساری صلاحیتیں نچھاور کردیتا ہے اس لیے رفیق جعفر نے ’عابد معز کی پہلی طنزومزاح کی کتاب ’واہ حیدرآباد‘ پر سیرحاصل گفتگو کرتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ
’’میرے خیال سے عابد معز کا یہ نقش اول ہی ان کی ادبی شناخت کا اولین نقش ہے جو ان کے طنزیہ ومزاحیہ ادب کا طرۂ امتیاز ہے۔ عابد معز اس وقار کو بچانے کے جتن میں لگے ہیں کیوں کہ ان کا قائم کیے ہوئے معیار کو قائم رکھنا جو ہے!‘‘
ایک ذہین مزاح نگار انشائیہ میں افسانہ اور افسانے میں انشائیہ کچھ اس ڈھنگ سے سمودیتا ہے کہ ان کے درمیان خط تفریق کھینچنا دشوار ہوجاتا ہے اور ان دونوں اصناف کی سرشت میں مزاح داخل رہتا ہے۔ رفیق جعفر ان انشائیوں اور افسانوں پر ’عابدمعز کے شگفتہ افسانون کی اہمیت ‘ کے عنوان کے تحت روشنی ڈالی ہے اور عابد معز نے شگفتہ افسانے کی ترکیب بھی خوب بنائی اور نبھائی ہے۔
اردو زبان وادب اور اہلِ زبان کے حوالے سے جو کالم ڈاکٹر عابد معز نے لکھے تھے ‘ان میں سے کچھ ’اردو ہے جس کا نام‘ کی تصنیف میں شامل کیے گئے ہیں۔ اس کو رفیق جعفر نے اردو کی محبت میں عابد معز کی ایک کتاب کے عنوان سے مکالمہ کیا ہے۔ اس کتاب میں شامل بیشتر مضامین کا نہایت غیرجانبداری سے تجزیہ کیا ہے۔’’ شگوفہ سے پہلے اور شگوفہ کے بعد‘‘ ڈاکٹر عابد معز کی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔ عابد معز کی انشائیہ نگاری کے ضمن میں مصنف نے انشائیہ نگاری کے اصول وقواعد کی روشنی میں عابد معز نے مختلف انشائیوں کا تجزیہ کیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر عابد معز کی کالم نگاری کے حوالے سے رفیق جعفر نے سعودی عرب اور حیدرآباد میں لکھے گئے عابد معز کے کالموں کا بھرپور تعارف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عابد معز کے کالموں کے قارئین ہمیشہ ان کی ستائش کی ہے۔ داد دی ہے جس کی وجہ سے یہ اب تک فعال ہیں۔ ان کے قلم کی رفتار معیار کے ساتھ رہی تو مستقبل میں ان کی عظمت مسلمہ ہوگی، یہ آثار ان کے علاوہ کسی اور ککالم نگار میں نظر نہیں آسکے۔
رفیق جعفر صاحب نے عابد معز کی ادبی کارناموں کے علاوہ ان کی طبّی تحریروں کا اجمالی جائزہ لیا ہے۔ اردو میں شعروادب پر تو کافی مواد ملتا ہے لیکن وہ سائنس وطب پر بہت کم لوگوں نے لکھا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ طنزومزاح کے حوالے سے ڈاکٹر عابد معز کے کتنے مضامین اردو کے نصاب میں شامل ہوپائے ہیں لیکن ان کے طبّی اور سائنسی کتابیں یونانی طب سے وابستہ اساتذہ وطلبا دونوں مستفید ہوتے رہے ہیں۔ بقول رفیق جعفر کے ’ذیابیطس جو انسانی زندگی کو نقصان پہنچارہا ہے اور یہ وبا روز بہ روز پھیلتی جارہی ہے اس پر عابد معز نے کھل کر تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کتاب کو بجا طور پر عابد معز کی سب سے اہم اور نمایندہ کتاب قرار دیا جاسکتاہے۔‘
ان سب موضوعات کے علاوہ قیام نامۂ عابد معز، شگوفہ کا عابد معز نمبر، اردو کی ایک نئی بستی سعودی عرب میں عابد معز کی خدمات اور شگوفہ کی آبیاری میں عابد معز کا حصّہ جیسے عنوانات کے تحت رفیق جعفر نہایت شرح وبسط سے عابد معز کی خدمات کا جائزہ لیا ہے۔ نیز حرف خاص کے تحت مشاہیر ادب کی عابد معز کے بارے میں لکھی گئی آرا کو جس سلیقہ سے ترتیب دیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔
محترم رفیق جعفر نے جس محبت اور محنت سے عابد معز کی خدمات کا مختلف گوشوں کا احاطہ کیا ہے وہ قابل مبارکباد ہے۔ انھوں نے اپنی پوری کتاب میں موضوعات کی تکرار، غیر ضروری الفاظ کے استعمال اور یک طرفہ تعریف وتوصیف سے خود کو بچائے رکھا۔ وہ ایک کہنہ مشق ادیب ونقاد ہیں۔ سوچ سوچ کر کہتے ہیں، نپی تلی زبان کا استعمال کرتے ہیں بلکہ لفظوں کو برتنے کا سلیقہ کوئی رفیق جعفر سے سیکھے!ان کے طویل مقدمہ کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں : ’’کتاب کے مواد اور مقدمے کے بارے میں مجھے کچھ بولنا نہیں ہے کیوں کہ یہ کتاب خود بولے گی‘‘
کتاب کا دوسرا حصّہ ڈاکٹر عابد معزکے مضامین کے انتخاب پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر عابد معز کی ہر کتاب سے دو دو مضامین کا انتخاب کیا گیا ہے جبکہ دو کتابوں سے تین تین مضامین منتخب کیے گئے ہیں۔ مضامین کے انتخاب کا معیار اور ان کی ترتیب وتہذیب کا جوازوجواب خود مصنف کے پاس محفوظ ہے۔ ’عابد معز کی ادبی شناخت‘ کی اشاعت پر ڈاکٹر عابد معز (09502044291 / 07329098496) اور رفیق جعفر( 09270916979) کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ طب اور سائنس کے حوالے سے بھی ڈاکٹر عابد معز کے مقام ومرتبہ کے تعین میں رفیق جعفر کی اور تصنیف بہت جلد منظر عام پر آئے گی۔
صفحات : 200
قیمت : 230 روپیے
ملنے کا پتہ : ھدیٰ پبلی کیشنز ‘ پرانی حویلی
حیدرآباد ۔ دکن ۔ فون : 04024514892 / 04066481637
——–
One thought on “عابد معزکی ادبی شناخت-مصنف: رفیق جعفر-مبصر:ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم”
ڈاکٹر عابد معز صاحب کی خدمات اظہر من الشمس ہیں، جناب رفیق جعفر کی اس کتاب کی پذیرائی ہونی چاہیے- اس عمدہ تعارف کے لیے جہانِ اردو کا شکریہ
محترمی ڈاکٹر عابد معز صاحب کی خدمت میں سالگرہ کی پُر خلوص مبارک باد
وصی بختیاری