بچوں کی نظموں میں قومی یک جہتی کےعناصر
ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی
اسسٹنٖٹ پروفیسر و صدر شعبۂ اردو
گورنمنٹ ڈگری ایند پی جی کا لج سدی پیٹ۔ ۱۰۳ ۵۰۲، تلنگانہ
, 9346651710
اردوادب ایک وسیع و عمیق سمندر ہے ، جس میں بیش قیمت ہر ہے جو اہر ات مو جو د ہیں، غواص ادب اپنی اپنی صلاحیت ، ذوق اور ہمت کے مطابق اس کی گہرائیوں سے گو ہر نا یاب ڈ ھو نڈلکا لتے ہیں ، اور صفحہ ء ٖقر طا س پر ٹا نک دیتے ہیں ، ایک ز ما نہ تک غو اص ادب کی تو جہ سے محر و م ر ہنے و الا بچوں کا ادب حا لیہ عرصوں میں ایک طبقہ کو اپنی جانب متو جہ کر نے میں کا میاب ر ہا ہے، اور آج ادب اطفال کے بے شمار ہیر ے مو تی و بستان ادب میں اپنی چمک دکھلا ر ہے ہیں ، اور اپنے پیش قیمت فکری، سماجی اخلاقی اور اصلاحی مو ضو عات سے گلش ادب کو منو ر کر ر ہے ہیں، ان مو ضو عات میں ایک نہا یت اہم عنو ان قو می یک جہتی کا ہے۔
اردو زبان کا خمیر قو موں کے امتز اج اور قوموں کے میل ملاپ سے تیار ہو اہے، اس ا عتبار سے قومی یک جہتی ، قو می یگا نگت اور قومی ر نگا ر نگی اس زبان کے رگ و پے میں داخل ہے، اردو زبان ہند و ستان کی گنگا جمنی تہذیب کیّ آئینہ دار ہے، یہ محبت اور آپسی بھا ئی چارے کی زبان ہے، یہ ہر دور میں بلا تفریق مذہب و ملت انسانی دلوں پر حکومت کر تی رہی ہے، اور اپنی شیر ینی ، گھلاوٹ ، نغمگی، اور خلوص و محبت کی چا شنی سے ہر ہند وستانی کو متا ثر کر تی ر ہی ہے۔
بچوں کے ادب و شا عری میں قومی یک جہتی ، مذہبی رواداری اور حب الو طنی جسے مو ضو عات کو شا مل کر نا و قت کی اہم ضرورت اور قومی فر یضہ ہے، تا کہ ایک در خشاں مستقبل اور مہذ ب و پرا من سماج کی تعمیر و تشکیل ممکن ہو سکے ۔
بچوں کے نظم گو شعرا ء کو اس مو ضو ع کی اہمیت کا بخوبی اند ازہ رہا ہے، اور وہ بچوں کی تعلیمی ، تر بیتی اور اخلاقی نقطہء نظر سے اس فر یضہ کو بحسن و خو بی ادا کر تے ر ہے ہیں ، اس مو ضو ع پر طبع آزما ئی کر نے و الوں میں متقد مین، متو سطین اور عصر حا ضر کے بیش تر شعر اء شامل ہیں، خصوصاً حا لیہ عر صہ میں بچوں کی نظمیں لکھنے والے اکثر شعراء نے اپنے مجموعہ میں قومی یک جہتی کو ضرور شامل کیا ہے۔
متقد مین شعرا ء میں نظیرؔ اکبر آبادی کا نام خاص طورسے قابل ذکر ہے، وہ نہ صرف بچوں کے شا عر تھے، بلکہ ان کی ہمہ رنگ ، مقبول عام اور زندگی سے بھر پو ر شا عری سے بچوں کی شاعری کی بنیاد پڑ تی ہے، نظیرؔ ایک و سیع المشر ب ، و سیع النظر ، ر وادار، انسان دوست اور آزاد خیال انسان تھے، انہیں ہر مذہب و مسلک کے افر اد سے خلوص اور و ا بستگی تھی، نظیرؔ کی شاعری میں ہند و ستان کی رنگا ر نگی اور تہذیبی تنوع پو ری آب و تاب کے سا تھ جلو ہ گر نظر آتی ہے، ان کی نظمیں قو می یک جہتی ، مذ ہبی رواداری ، بھا ئی چار گی، مساوات اور مذہبی شخصیات سے محبت و عقیدت کے جذبے سے معمور ہیں جن کے عنو انات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ منا قب شیر خدا ، حضرت سلیم چشی کا عرس ، گر و نا نک شاہ، جنم کنہیا جی ، کنہیاجی کی راس ، لہو و لعب کنہیا ،مہادیو کا بیاہ، بلد یو جی کا میلہ، با لپن با نسری بجیاّ، تاج گنج کا روضہ ، جو گی کا سچاروپ ، و سم کتھا ،ہر کی تعریف میں ،بھروں جی کی تعریف ، شب بر ات ،عید الفطر، بسنت ، ہو لی، دوالی، راکھی ، دسہرہ و غیرہ۔
نظیرؔ کی نظموں کے مطا لعہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نظیر نے بلا امیتاز مذ ہب و نسل پوری قوم کی مذہبی اور رو حا نی اقدار کا احترام کیا ہے، اور پو ری قوم کو روحانی ر شتہ میں پر و کر زند گی کی مسر ت اور آخرت کی کا میا بی کا یقین دلا یا ہے۔
دور متو سطین میں ایسے شعراء نظر آ تے ہیں جن کی شنا خت قومی اور ملی شا عر کی حیثیت سے کی جا تی ہے، جیسے ڈا کٹر اقبال ، پنڈت بر ج نا ر ائن چکبست ، درگا سہا ئے سر ور جہاں آبادی اور تلوک چند محروم و غیر ہ ۔ اقبال کی شا عری میں جہاں منا ظر فطرت اور رنگینی کا ئنات کی کر شمہ سازی ہے و ہیں جب الوطنی اور آپسی بھا ئی چا رے کا جذبہ بھی بد ر جہء اتم نظر آتا ہے، ان کی نظم ’’ تر انہء ہندی ‘‘ اور ’’ ہندوستانی بچوں کا قو می گیت ‘‘ میں آپسی بھا ئی چا رے ، خلوص و محبت کی چاند نی اور حب الوطنی کا چراغ روشن نظر آتا ہے ۔
چکبست کے مجموعہ ء کلام : ’’ صبح وطن ‘‘ میں بہت سی نظمیں ہیں ، جو بچوں کی شا عری کا اٹوٹ حصہ ہیں، اس سلسلہ میں ان کی نظمیں : ’’ ہمارا و طن دل سے پیارا و طن ‘‘ خاک ہند ‘‘ اور ’’ وطن کو ہم و طن ہم کو مبارک ‘‘ قابل ذ کر ہیں ۔
چکبست کی طر ح سر ورؔ جہاں آبادی قومی و و طنی شا عری اور ہند و ستانی فضا کی منظر نگاری کے لئے مشہور ہیں ۔ منا ظر فطرت کی ر عنا ئی اور حب و طن سے سر شا ر ان کی بہت سی نظمیں اپنے اسلوب ، زبان کی ساد گی اور مو ضوع کے اعتبار سے بچوں کے ادب میں شا مل کی جا نے کی مستحق ہیں ، جیسے : حب و طن ، گلزار و طن ، گنگا جی، جمنا ، سر زمین و طن خاک و طن ، یاد و طن ، ایک جلا و طن محب قوم کا گیت اور چشم و طن و غیرہ ، سر ور کی شا عری کے مو ضو عات اپنی ر نگا ر نگی اور ملکی اور ملکی فضا سے ہم آہنگی کی بنا پر محمد قلی قطب شاہ اور نظیر ؔ اکبرآبادی کی یاد دلا تے ہیں ۔
تلوک چند محروم بچوں کے شا عری کی حیثیت سے ایک ممتاز مقام کے حا مل ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لئے دو شعری مجموعے : ’’ بہار طفلی ‘‘ اور ’’ بچوں کی دنیا ’’ یا د گا ر چھو ڑے ہیں ، ان کی بہت سی قومی و و طنی نظمیں مد ارس کی نصابی کتب میں شا مل کی گئی تھیں اور آج بھی بعض نظمیں شا مل کی جا تی ہیں ، مشلا یہ نظم : ’’ ہند و مسلمان ‘‘ آج بھی شا مل نصاب ہے :
ہند ومسلماں ہیں بھا ئی بھا ئی ۔۔ تفریق کیسی ، کیسی لڑائی
ہند و ہو کو ئی یا ہو مسلماں ۔۔ عزت کے قابل ہے بس وہ انساں
ہر ایک سے نیکی ، سب سے بھلا ئی
ہند و مسلماں ، ہیں بھا ئی بھائی
ان کے یہاں ا علیٰ اخلاقی قدروں کے سا تھ حب الوطنی ، قومی یک جہتی ، مساوات اور بھا ئی چارے پر بہت زور دیاگیا ہے، نظم : ’’ ہند و مسلماں ‘‘ میں جس طرح آسان اسلوب میں مذ ہبی رواداری اور قومی یک جہتی کی بہت مؤثر انداز میں تلقین کی گئی ہے، اسی طر ح ’’ ہمارا دیس ‘‘ میں نہایت آسان اور ہلکی پھلکی زبان میں ہند و ستان کی عظمت کا نقش معصوم بچوں کے ذہن میں بٹھا یا گیا ہے۔
اسی طر ح اس دور کے شا عر وں میں اسما عیل میر ٹھی ، افسر میر ٹھی ، شفیع الدین نیرّ، حفیظ جالندھری، فیض لدھیانوی اور نجم آفندی و غیرہ نے قو می یک جہتی کا درس نہا یت دل نشین اسلوب میں دیاہے، خصو صاً حامداللہ افسرکی حب الوطنی اور قو می یک جہتی سے متعلق نظمیں بہت مؤ ثر اور دل آو یز ہیں ، انہیں پڑھ کر بچوں کے دلوں میں وطن کی محبت ، قومی ہم دردی ، مذہبی رواداری اور اتحاد کا جذبہ بید ا ر ہو تا ہے ، ان کی ایک نظم : ’’ وطن کا راگ ‘‘ میں بہت سبک اور ترنم ریز الفاظ میں قو می ایکتا کا درس ملتا ہے:
مذہب کچھ ہو ، ہندی ہیں ہم ، سارے بھا ئی بھا ئی
ہندو ہیں ، مسلم ہیں ، یا سکھ ہیں ، یا عیسائی ہیں
پر یم نے سب کو ایک کیا ہے ، پر یم کے ہم شیدائی ہیں
بھا رت نام کے عا شق ہیں ، بھا رت کے سو د ائی ہیں
بھارت پیارا دیش ہمارا ، سب دیشوں سے نیارا ہے
دور حا ضر میں بچوں کی نظمیں لکھنے والوں کی ایک کہکشاں ہے، جس میں کا ہر شا عر بچوں کو اس اہم ذمہ داری کا احساس دلانے سے غافل نظر نہیں آتا ہے، اور اپنے دل نشیں پیر ایہ میں محسوس و غیر محسوس طر یقہ پر معصوم ذ ہنوں میں قومی یک جہتی اور مذہبی رواداری کی تخم ریزی کر تا نظر آ تا ہے، ان میں کچھ شا عر تو ایسے ہیں ، جن کی شناخت بچوں کے شا عر کی حیثیت سے و اضح ہو چکی ہے، جسے ڈ اکٹر مظفر حنفی، ڈ اکٹر محبوب راہی ، نا وک حمزہ پوری ، کو ثر صد یقی ، مر تضی سا حل تسلیمی، حیدربیابانی ، حافظ کر نا ٹکی اور عبد الر حیم نشتر و غیرہ۔
ڈاکٹر مظفر حنفی ایسے شاعرہیں جو بچوں کی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہو ئے بچوں کو کھیل کو داور تفریح کے پیر ایہ میں بڑی اچھی اچھی با تیں بتا دیتے ہیں ، ان کی ایک نظم، ’’ ہر انسان بر ابر ہے‘‘ میں بڑے بر جستہ اور بے سا ختہ انداز میں انسانی مساوات اور رواداری کا پیغام دیا گیا ہے، اور خو اہش کی گئی ہے کہ ہند و ستان کے سب ہی فر قوں، زبانوں اور علاقوں سے تعلق ر کھنے والے لو گو ں کو مسادی حیثیت دی جا نے ، اور ان کے درمیان کسی قسم کا تعصب اور تنگ نظری نہ بر تی جا ئے:
انور ہو ار بندو ہو ۔۔ مر یم ہو یا اندو ہو
مسلم ہو یا عیسا ئی ۔۔ وہ سکھ ہو یا ہندو ہو
سب کا ما ن بر ابر ہے
ہر انسا ن بر ابر ہے
ڈا کٹر محبوب راہی بچوں کے شا عروں میں اس طور امتیازی حیشیت ر کھتے ہیں کہ انہوں نے بچوں میں قومی و و طنی شعورا جا گر کر نے کی کا میاب کوشش کی ہے ، قومی یک جہتی ، تہذیبی تنوع اور قو می خد ما ت کے مو ضو ع پر ان کی نظمیں بڑی دل کش اور عزم و حو صلہ سے پڑہیں ، بھارت کی سنتان ، مو لا نا ابوالکلام آزاد، پیارے چا چا نہرو ، بڑوں کی بڑی با تیں ،پیام یک جہتی، بلند حوصلے اور سب کے چہتیے کے پیارے ان کی شاہ کا ر نظمیں ہیں ، ان نظمو ں میں وطن کی عظمت ، محبت ،قومی رہ نما ؤں کا ادب و احترام ، ان کے بلند حو صلہ کا رنامے اور جنگ آزادی میں ان کی قر با نیاں اور خد مات بیان کی گئی ہیں ، انہوں نے اپنی نظم : ’’ پیام یک جہتی ‘‘ میں کتنے سادہ، خوب صورت اور پر اثر انداز میں یک جہتی کا پیغام دیا ہے:
گلش گلش پھول کھلا ئیں ۔۔ ساری دنیا کو مہکا ئیں
نفرت کی دیواریں ڈھا ئیں ۔۔ پیار کی دھن پر نا چیں گا ئیں
آو ہم سب ایک ہو جا ئیں
کو ثر صدیقی اس اعتبار سے بچوں کے ایک اہم شا عر قرار پا تے ہیں کہ انہوں نے خا ص طو رپر قومی یک جہتی اور فر قہ وارانہ ہم آہنگی کو مو ضو ع بتا تے ہو ئے اردو اور ہندی زبان میں ایک مجموعہ : ’’ پھول ایک ہی چمن کے ‘‘ تر تیب د یا ہے ۔
ہند و ستان مختلف مذاہب ، تہذیبوں اور زبانو ں کا گہوارہ ہے ، یہاں مختلف قو میں صدیوں سے آباد ہیں ، اور سب شیر و شکر کی طر ح ر ہتی ہیں ، لیکن ہند و ستان میں انگر یزوں کے منحوس قدم جمنے کے بعد اور ان کی ہند و ستانیوں کو لڑا کر محکوم بنا نے کی پا لیسی نے قو می اتحاد و یک جہتی کی بنیاد کو ہلا کر ر کھ دیا، اور فسادات کا سلسلہ شر وع ہو گیا، آزادی کے بعد وہ چلے تو گئے ، لیکن ان کا لگا یا ہو انفرت کا پودا آزادی کے بعد بھی تنا ور درخت کی شکل اختیار کر تا گیا، اور ۸۹۔۱۹۸۸ء تک فر قہ پر ستی نے پو رے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ان حالات سے متا ثر ہو کر کو ثر صد یقی نے قو می یک جہتی اور اتحاد پر مشتمل نظمیں لکھ کر نو خیزنسل کی فر قہ وارانہ آہنگی کے ما حو ل میں آ بیا ری کر نے اور وطن کی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب والی نظمیں سنا کر ان کے دلوں میں تمام مذاہب کا ادب و احترام اور ملک کے ہر فر دسے محبت کا جذبہ پید ا کر نے کی کو شش کی ہے، اور انہیں یہ پیغام دیا ہے:
ہم ایک انجمن کے ۔۔ پھول ایک ہی چمن کے
مہکے اسی فضا میں ۔۔ د ھر تی کے پھو ل بن کے
ہند و ہو یا مسلماں
مالک ہے ایک سب کا ۔۔ سب ایک ہی کے بندے
پھر کس لئے کر یں ہم ۔۔ نفرت کے کا لے دھندے
کتاب میں ۶۴ نظموں میں سے نصف نظمیں قومی اتحاد ، بھا ئی چارہ ، مذ ہبی رواداری اور فر قہ وارانہ ہم اہنگی جیسے مو ضوعات پر مشتمل ہیں ، قومی یک جہتی کے مو ضو ع پر کو ثر صد یقی کی یہ کا و ش نہا یت قا بل قدر اور لا ئق ستا ئش ہے۔
عظیم محقق ، نقاد، شا عر اسلام اور بچوں و بڑوں کے شا عر حضرت نا وک حمزہ پوری نے قو می یک جہتی اور قومی اتحاد پر بڑی پراثر نظمیں لکھی ہیں ، جنہیں پڑھ کر بچوں کے رگ و پے میں قومی یگا نگت، مذہبی روداری ، قومی رہ نما ؤں سے محبت ، و طن سے محبت ، وطن کی خد مت ، سر فرو شی اور آزادی کی حفا ظت کا جذبہ بیدا ر ہو تا ہے، نظم ،:’’ ہمارا آدرش ‘‘ میں وہ کہتے ہیں ۔
ہم آزادی کے متو الے ۔۔ آزادی کے ہیں رکھو الے
ہند و مسلم سکھ عیسائی ۔۔ ایک ہیں ہم سب کا لے گو رے
جن گن منگل اپنا نعرہ ۔۔ سب کی جے اعلان ہما را
دیش کی قر بان گا ہ پہ یا رد ۔۔ تن من دھن قر بان ہمارا
ہم سب ایک ہیں ایک رہیں گے ۔۔ ذات پا ت کا نام نہ لیں گے
دیش پہ جب مشکل آئے گی ۔۔ چھن بھر بھی آرام نہ لیں گے
مت چھیڑ و فولاد ہیں ہم سب ۔۔ و یروں کی اولاد ہیں ہم سب
گا ند ھی جی کے شید ا ئی ہیں ۔۔ ذاکرؔ ہیں آزاؔ د ہیں ہم سب
اس کے علاوہ ان کی نظمیں : مجھے و طن عزیز ہے، ہما لہ کا پیغام ، قومی پر چم ، یو م جمہوریہ، گاندھی جینتی ، اپنی ماں، ارض وطن، گنگا کا پیغام ، چھبیس جنوری، پندر ہ اگست ، نہرو جینتی اور گا ند ھی جی و غیرہ بچوں کے لئے قیمتی سو غات ہیں، نظیرؔ اکبر آبادی اور محمد قلی قطب شاہ کی طرح انہوں نے قو می اور مذہبی تہوار جیسے : شب برات ، شب قدر، رمضان شریف، عید کا دن ، ہو لی اور دوالی و غیرہ پر نظمیں لکھ قومی یک جہتی اور مذ ہبی رواداری کا پیغام عام کیا ہے ۔
یہاں جد ید لب و لہجہ کے شا عر ذ تمکنت کی ایک نظم : ’’ ایکتا ‘‘ کا ذکر نہ کر نا نا انصافی ہو گی ، جس میں انہوں نے یک جہتی اور مساوات کا بیان نہا یت مؤ ثراسلوب میں کیا ہے :
سب ایک گگن کے متو الے ۔۔ سب ایک زمیں کے پا لے ہیں
سب ایک ہی سو رج کی کر نیں ۔۔ سب ایک ہی چا ند کے ہا لے ہیں
وہ اتر ہو یا دکھن ہو ۔۔ ست رنگ دھنک تو ایک سی ہے
وہ پورب ہو یا پچھم ہو ۔۔ پھولوں کی مہک تو ایک سی ہے
مو جو دہ دور میں بچوں کے سب سے بڑے شا عر حیدر بیابا نی نے بچوں کے لئے سیکڑوں مو ضو عات کے با و صف قو می یک جہتی پر بھی طبع آزما ئی کی ہے ، انہوں نے قو می رہ نماؤں ، قومی خدمت گاروں اور قومی تہواروں پر بڑی پیاری ،دل کش اور اچھوتی نظمیں لکھی ہیں ، ان کی نظموں کا ایک مجموعہ : ’’ ہما رے اپنے ‘‘ قو می رہ نما وں اور خدمت گا روں کے نام و قف ہے ، اس کے علا وہ ، آزادی کی دیوی ‘‘ اور ’’ ہند و ستا نی ہو ں ‘‘ و غیرہ نظمیں قو می یک جہتی اور حب الوطنی کی خو ش بو سے دلوں کو معطر اور رگ رگ میں بھا ئی چا رے کا جا دو جگا تی ہیں :
چینی، روسی نہ ہی میں جا پا نی ہو ں ۔۔ ’’ اول دوم آخر ہند و ستانی ہو ں ‘‘
حب الوطنی کی سا نسوں میں خو ش بو ہے ۔۔ بھا ئی چارے کا رگ رگ میں جا دو ہے ،
قومی یک جہتی سے نا تا ایسا ہے ۔۔ پھولوں سے خو ش بو کا نا تا جیسا ہے
بچوں کے کثیر التصانیف شا عر اورادیب ڈاکٹر امجد حسین حا فظ کر نا ٹکی نے ، راگ رنگ ’’ اور دوسرے مجمو عے میں قومی یک جہتی کا جا دو جگا یا ہے، اس مو ضو ع پران کی مند رجہ ذیل نظمیں قابل ذکر ہیں : گا ند ھی اور کا نگر یس ، پہلا سر فر وش وطن ٹیپو سلطان ، راکھی اور قیام کر نا ٹک و غیرہ ۔
بچوں کے شا عر ، ادیب اور صحافی مر تضی سا حل تسلیمی جو بچوں کے ر سا ئل : نو ر اور ہلا ل کے اعزازی مد یر ہیں، نے بھی بچوں کے لئے قو می یک جہتی اور قومی رہ نما ؤں پر بڑی دل آویز نظمیں لکھی ہیں ، اس سلسلہ ہی ان کی نظمیں : میرا ہند و ستان ، سلطان ٹیپو شہید، بہادرشاہ ظفر، مو لا نا محمد علی جو ہر ( پہیلی) اور گا ند ھی جی (وہ ایک انسان) اہمیت کی حا مل ہیں ۔
بچوں کے ایک اہم شا عرہ ڈاکٹر عبد الر حیم نشترنے اپنے منفر داسلوب کے ذریعہ بچوں میں قومی یک جہتی اور قومی ہم دردی کا جذبہ بید ارکیاہے، شا نتی چا ہئے روشنی چا ہئے ، ہما رے نیتا ، بے چارا( گا ند ھی) ، ننھے بھا رت کی فر یاد ، نہر و کا خو اب اور اے میرے نو نہا لو، و غیرہ ان کی نظمیں ہمیں اہنسا، آدمیت ، بھا ئی چارا ،کثر ت میں و حد ت اور جمہوریت کا درس دینے کے سا تھ ہمیں تشد داور ہنسا کا متحدہ مقا بلہ کر نے پر آما دہ کر تی ہیں ۔
ڈ اکٹر شفیق اعظمی کا شمار بھی بچوں کے شا عر کی حیثیت سے کیا جا تا ہے، آسان اور سبک الفاظ میں انہوں نے نظموں کے تین مجموعے بچوں کو دئیے ہیں ، وہ نا ہ نا مہ بچوں کا تحفہ اعظم گڑھ کے مد یر اعزازی بھی ہیں ، قومی یک جہتی سے متعلق ان کی حسب ذیل نظمیں بہت اہمیت رکھتی ہیں ، و طن کو سجا ؤ ، پیارا بھارت ، شان و طن بڑھاؤ، اے وطن ، وطن کے سپا ہی اور بچوعید منا ؤ۔ وہ بچوں کو ایک سا تھ مل کر عید منا نے اور سب کو گلے لگا نے کی تر غیب اس طر ح دیتے ہیں :
مسلم ہو یا ہند و بھا ئی ۔۔ سکھ ہو یا وہ ہو عیسائی
کو ئی ہو سب کو گلے لگا ؤ ۔۔ بچو ایسے عید منا ؤ
ان کے علا وہ اور بھی شعر اء ہیں جو بچوں کے شا عر کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا نے کے لئے کو شاں ہیں، اگر وہ اپنی کو شش جا ری رکھیں تو اپنی پہچان بنانے میں کا میاب ہو سکتے ہیں ، ان سے میری مر اد ڈاکٹر عادل حیات ، شادا عظمی ند وی ، ڈاکٹر محمد اسد اللہ ، یعقوب حسرت، ظہیر رانی بنوری، شوکت کر یمی ، سید بشیر احمد بشیر شو لا پو ری اور شاکرہ بیگم صبا سے ہے، خاص طورپر یعقوب حسرت فن مو سیقی میں مہارت، سروں کے اتار چڑھا ؤ ، تال، لے اور راگ راگنیوں سے بخوبی و اقفیت کی بناپر نر سر ی گیت ( رائمز ) میں اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔
عادل حیات کی نظم : ’’ ہم ہیں بچے ہند و ستانی ‘‘ ہمیں اپنی طر ف متو جہ کر تی ہے ، وہ سادہ لو ح اور سادہ دل بچو ں کے ذہن میں یک جہتی اور امن کی آبپاری اس طر ح کر تے ہیں ۔
ایک ڈگر پر سب آجا ئیں ۔۔ پیارہے کیا سب کو سمجھا ئیں
یک جہتی کا نغمہ گا ئیں ۔۔ اور مل کر پر چم لہر ائیں
امن کی دنیا کے ہم با نی
ہم ہیں بچے ہند وستانی
شکیل احمد تہذیبی نے اپنے مجموعہ : ’’ مہکتے پھول ‘‘کی مند رجہ ذیل نظموں میں یک جہتی اور امن و آشتی کے پھو ل کھلا ئے ہیں : یو م جمہوریہ ، آو عہد کر یں، اپنے و طن کی شان ، ٹیپوسلطان ، سر سید احمد خان، آہ گا ند ھی جی ، علامہ اقبال ، ڈاکٹر امبیڈکر ، چچا نہرو، بھارتی بچے اور بچے یہ معصوم ہما رے ۔
ظہیر الدین ظہیر رانی بنوری نے اپنے مجموعہ: گلش ظہیر ’’ میں نہا یت نرم وملا ئم الفاظ اور چھو ٹی بحر وں کی نو نظموں میں قومی یک جہتی ، امن و محبت اور اخوت و طنی کا پیام سنا یا ہے :
ہم بھارت ما ں کے بیٹے ہیں ۔۔ ہر دم یہ تر انے گا تے ہیں
ہم امن و صلح کے شید ائی ۔۔ پیغامِ و فا پہنچا تے ہیں
جنگوں سے نفرت ہے ہم کو ۔۔ ہم سب سے محبت کر تے ہیں
’’خو اب نگر ‘‘ کے شاعر ڈاکٹر محمد اسد اللہ نے اپنی کئی نظموں میں قومی یک جہتی، قومی ر نگا رنگی اور کثرت میں و حدت کا نغمہ سنا یا ہے :
ایک ہے یہ گلستان ، گو رنگ و بو ئے گل جدا
ایک ہیں بندے سبھی، اور ایک ہے ان کا خدا
ایکتا کے درس سے مہکی ہو ئی ، اس کی فضا ( اے مرے پیارے و طن )
انہوں نے اپنے دیش میں بسنے والوں کو ایک پر یو ار اور ایک سنسار کے افر اد قرار دیا ہے :
رنگوں کی کثرت میں و حد ت کا اظہار ہمارا ہے
دیش نہ سمجھو اس کو ، یہ تو اک سنسار ہمارا ہے ( یہ سنسا ر ہما را ہے )
قومی گیت، یو م آزادی ، میرا بھارت مہان ، صج زرنگار اور یو م جہوریہ بھی ان کی اچھوتی اور وطن دوستی سے معمور نظمیں ہیں۔
محمد رافع شاد اعظمی ندوی ( مدیر بچوں کا تحفہ اعظم گڑھ) اور سید بشیر احمد بشیر شو لا پوری نے یک جہتی کے عنو ان پر نظمیں کہی ہیں، بشیر ؔ نے یک جہتی کو سو غات قر ار دیا ہے :
یک دو جے کی خا می کو ہم دور کریں
یک جہتی سو غات ہے بچو سا تھ چلو
آخر میں بچوں کے دو بزرگ شا عر جناب کید ارناتھ کو مل اور پر و فیسر جگن نا تھ آزاد کا ذکر کر کے اپنی تحر یر مکمل کر نا چا ہتا ہوں ۔ بچوں کے شا عر تلوک چند محروم کے فر زند ، ما ہر اقبالیات پر و فیسر جگن ناتھ آزاد نے بچوں کے ذوق اور پسند کے مطابق آسان اور ہلکی پھلکی زبان اور مو سیقی ریز الفاظ میں ’’ بچوں کی نظمیں ‘‘ لکھی ہیں ، انہوں نے عید ، دسہرہ ، د یو الی ( ایک غنا ئی ، فیچر ) ، چمکا ایک ستارا ( گاندھی جی ) اور دیس ہو ا آزاد جیسی نظموں میں قومی یک جہتی اور اجتماعی خو شی کے مو تی بکھیر ے ہیں :
کو مل صاحب نے اپنے مجموعہ ’’ ننھے منے گیت ‘‘ میں بچوں کی اپنی پیاری زبان میں قو می یک جہتی اور آپسی پیار و محبت کے دیپ روش کئے ہیں :
ہم ننھے منے بچے
سب کو سمجھیں اپنا میت
انہوں نے انسا نیت ، بھا ئی چارہ اور اتحاد کو گیتا ، با ئبل اور قرآن کا سبق بتا یا ہے، نظم : ’’ انسان ‘‘ کے تحت وہ کہتے ہیں :
اس دنیا میں سب سے بڑھ کر
سب سے بڑا یہی انسان
ہند و مسلم سکھ عیسائی
سب ہیں بھا ئی ایک سی جان
گیتا ، با ئیبل اور قر آن
سب کا سبق بنو انسان
اس مختصر جا ئز ہ سے اند ازہ کیا جا سکتا ہے، کہ بچوں کے شا عروں نے قومی یک جہتی اور قومی یگا نگت پر خصو صی تو جہ دی ہے ، اگر اس مو ضو ع پر نظمیں جمع کی جا ئیں تو کئی ضخیم جلد یں تیار ہو سکتی ہیں ۔