اردواورترکی زبان کا تقابلی جایزہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلیمان زارع ۔ تہران

Share


اردو اورترکی زبان کا تقابلی جایزہ

سلیمان زارع
متعلم ایم اے اردو
تہران یونیورسٹی

رہنمائی : پروفسرڈاکٹرفرزانہ اعظم لطفی

دنیا کی اکثر زبانوں میں الفاظ کی یکسانیت کوئی نئی بات نہیں۔ اگرچہ یہ ایک بین الاقوامی زبان جیسی انگریزی زبان ہو یعنی زبانوں کے در میان میں بھی الفاظ کا لین دین ہوتا ہے ۔ کبھی کبھا رایک زبان دوسری زبان سے ایک یا کئی الفاظ ادھار لیتی ہے ، یا ادھار دیتی ہے۔ اردو اورترکی زبان بھی اس قاعدے سے الگ اورمستثنی نہیں ہیں۔ اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ کونسے الفاظ دونوں زبانوں میں ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں اور ایک ہی طرح کے معنی دیتے ہیں۔

وہ الفاظ جو دونوں زبانوں میں مشترک ہیں چار حصوں میں بانٹ سکتے ہیں ۔ اردو میں کئی ترکی الفاظ موجود ہیں جو براہِ راست ترکی سےیا پھر فارسی کے ذریعے اردو میں داخل ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے یہاں وہ الفاظ ملتے جائیں گے ان کی جڑوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔ترکی اوراردو زبانوں کے درمیاں الفاظ کی یکسانیت کےاسباب کئی ہیں :
1- تجارت 2-جنگ 3- مذہب 4- تذہیب کی جڑیں اورغیرہ ۔ نرالی بات یہ ہے کہ بہت عرصے تک ترک اور مغل سلاطین کی حکمرانی کے با وجود ترکی الفاظ فارسی الفاظ کی بہ نسبت بہت کم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان و ایران میں ترکوں کی حکمرانی رہنے کے باوجود جو درجہ فارسی کا بنا رہا، وہ کبھی ترکی کا نہیں رہا۔ ایسے میں اگر اردو میں ترکی الفاظ زیاد شامل نہیں ہوئے تو حیرانی کی بات نہیں،
ایک زبان بھی ایک انسان کی طرح زندہ رہتی ہے ۔ جس طرح انسان جینے اوررہنے کےلیے کھانا پانی کا محتاج ہے تو ایک زبان بھی نئے الفاظ کا محتاج ہے ۔ ہرزبان میں کئی زبانوں کے الفاظ موجود رہتےہیں ۔ مثال کے طور پر فارسی زبان کے اندر بہت پرانی زبان ہونے کے باوجود ترکی،مغلی، روسی،فرانسیسی،انگریزی اورعربی زبان کے الفاظ کو دیکھ سکتے ہیں۔ جیسے زمان’ بانک’ چاقو اوردوسرے الفاظ یا یہ کہ انگریزی زبان میں بہت زیادہ الفاظ موجود ہیں جن کی جڑیں دوسری زبانوں میں پیوست ہیں ۔
مثال کے طور پر : Upper ’ Under’Ox’ Magazine.Pow’ Pocket’ Dauhgter’ Three’ Pistachio ان الفاظ کی جڑیں ہندی، ترکی، عربی اور فارسی ہیں ۔اسی طرح اردو اور ترکی زبانوں میں بھی بہت الفاظ موجود ہیں جو ایک ہی طرح کے معنی دیتے ہیں اورانہیں اسی طرح پڑھا جاتا ہے ۔ مثال کے طورپر باجی ، اردو، تندور ۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ برصغیرمیں بہت عرصے تک مغل اورترک حکمرانوں کے با وجود ترکی الفاظ اردو میں بہت کم ہیں لیکن وہ الفاظ جو فارسی یا عربی سے دونوں زبانوں میں موجود ہیں ’بہت زیادہ ہیں ۔ دوسری زبانوں کی طرح اردو اور ترکی زبانوں کے درمیان میں بھی الفاظ کالین دین مختلف طریقوں سے موجود ہے ۔ مثال کے طوربعض الفاظ تجارت کے ذریعہ دوسری زبان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طورپرترکی والے سارے گرم مصالحے کوبھارات کہتے ہیں ۔ یا کہ بعض الفاظ کی یکسانیت اور اشتراک کا سبب اسلام کی وجہ ہے ۔ برصغیراورترکی مسلمانوں کے درمیان اسلامی اصطلاحات ایک جیسے استعمال ہوتےہیں۔ مثال کے طور پر حجاب ، سلام ، زیارت جبکہ بعض الفاظ ہیں جن کا تعلق انگریزی سے ہے۔ اردووالے اسکول کو کہتے ہیں سکول’ ترکی واے اسپورٹ کو کہتے ہیں سپور ۔ یا کہ بعض الفاظ ادب کے ذریعے دوسری زبان میں داخل ہوے ہیں۔ مثلا : ترک اوراردو والے شعر، کتاب، کلاسیکی شعر ، شاعراور اسی طرح الفاظ کو ایک جیسا استعمال کرتے ہیں ۔ ترکی اوراردو زبان کے درمیان الفاظ کے مشترکات کے علاوہ قواعد کے حوالے سے بعض یکسانیت موجود ہے مثال کے طور پرترکی زبان میں مصدرکا نشان لفظ کے آخر میں آتا ہےاور وہ (ماک یا مک ) ہیں اوراردوزبان میں فعل کا نشان (نا) ہے اورلفظ کے آخر میں آتا ہے ۔ مثلا ترکی میں (اوکوماک) یعنی پرھنا اگر( ماک ) فعل کا نشان کو ہٹا دیں تو (اوکو)بن جاتا ہے یعنی پڑھو ۔ جس طرح اردو میں مرنے سے مصدرمرنا بن جاتا ہے تو ترکی میں بھی (ال)سے ۔۔۔۔۔۔۔ İçmek۔ Durmak ۔Ölmek بن جاتا ہے ۔ ترکی اوراردو زبان میں بعض مصادراسی شکل سے ایک جیسے ہیں مثال کے طوراردو میں سیگرٹ پینا دونوں زبانوں میں سیگرٹ کے ساتھ پینا لےآتے ہیں۔ Sigar İçmek اردو حروفِ تہجی مختلف زبانوں پر مبنی ہے ۔جن میں عربی۔ فارسی۔ ایرانی ۔ہندی زبانیں شامل ہیں :
ا ’ آ ’ ب ’ بھ ’ پ ’ بھ ’ ت ’ تھ ’ ٹ ’ ٹھ’ ث’ ج ’ جھ ’ چ ’ چھ ’ ح ’ خ ’ د ’ دھ ’ڈ ’ ڈھ ’ ذ ’ ر ’ رھ ’ ڑ ڑھ ’ ز ’ زھ’ ژ ’ ژھ ’ س ’ ش ’ ص ’ ض ’ ط ’ ظ ’ ع ’ غ ’ ف ’ ق ’ ک ’ کھ ’ گ ’ گھ ’ ل ’ لھ ’ م ’ ن ’ و ’ وھ ہ ’ ء ’ ی ’ ے ۔
ترکی حروف کے انگریزی حروف تہجی ہیں لیکن ترکی تہجی میں تین انگریزی حروف یعنی : X – W – Q موجود نہیں ۔ترکی حرف تہجی آتا ترک سے پہلے اردو کی طرح عربی تھی لیکن پھر انگریزی ہوئی۔ اردو زبان کی طرح ترکی زبان میں بھی کئی زبانوں کے الفاظ موجود ہیں ۔مثال کے طور پر دونوں زبانوں کے افعال کے ذخیرہ زیادہ ہیں بعض اوقات بعض افعال کے لیے کئی لفظ استعمال کئے جاتے ہیں مثال کے طور پراردو زبان میں جتنے بھی لفظ لڑنا یا جھگڑنا فعل کے لیے موجود ہیں اتنے ہی بھی ترکی زبان میں فعل موجود ہیں :

اسی طرح کہہ سکتے ہیں کہ مصدر کا قاعدہ بھی دونوں زبانوں میں یکساں ہے۔ یعنی فعل امر کے آخر میں ’’نا‘‘ کے اضافے سے مصدر بنایا جاتاہے تو اسی طرح ترکی زبان میں امر بنانے کے لیے( ماک) کو ہٹا کر فعل امربنایا جاتا ہے ۔ یا کہ فعل امرکے آخر میں ’’ماک یا مک‘‘ کےاضافے سے مصدر بنایا جاتا ہے ۔ البتہ آذری (آذربایجانی ) زبان میں (ماک اورماق) کی مدد سے مصدر بنایا جاتا ہے۔ جس طرح اردو زبان کے حرف تہجی میں ہلکی اور بھاری حروف ہیں توترکی میں بھی ایسی ہے۔یہاں چار بھاری آوازیں ہیں جیسی :صدادار حروف ترکی زبان میں : a, e, ı, i, o, ö, u, ü

ترکی زبان میں حروف تہجی یہ ہیں :
B , c , ç , d , f , g , ğ , h , j , k , l , m , n , p , r , s , Ş , t , v , y , z .
اور اسی طرح پڑھتے ہیں:
be,ce,çe,de,fe,ga, ğe,he,je,ke,le,me, ne,pe,re,se, Şe,te,ve,ye,ze.
اب اردو اور ترکی زبان میں بعض مشترک الفاظ پر ایک نظر ڈالیں:

ترکی اوراردووالوں کے درمیان بہت زیادہ تہذیبی ’رسم و رواج اورعادتیں مشترک پائی جاتی ہیں مثلا: برصغیراورترک والے بہت خوش مزاج ہیں، دونوں کےہاں مرچ بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہے خاص طور پرترکی ناشتے میں بھی مرچ کھاتے ہیں،ہنسنے میں ترکی اردووالوں کی طرح اونچی آوازسے ہنستے ہیں،دونوں بہت محنتی ہوتے ہیں ۔
ہند یورپی زبانیں لسانی دنیا کا ایک اہم خاندان ہے۔ہند۔یورپی زبانوں کے خاندان کے بولنے والوں کی تعداد دنیا میں کسی اور زبانوں کے خاندان کے بولنے والوں سے زیادہ ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی زبانوں کا یہ خاندان دنیا کے ایک وسیع رقبہ پر پھیلا ہوا ہے ۔اس خاندان کی اہم زبانیں اردو، بنگالی، ہندی، پنجابی، پشتو، فارسی، کردی، روسی، آلمانی، فرانسیسی، اور انگریزی ہیں ۔ ہند ۔ یورپی خاندان السنہ ہے۔ اس لسانی گروہ میں آج کی سب سے زیادہ بولے جانے والی زبانیں شامل ہیں۔ یہ ساڑھے چار سو سے کچھ زیادہ زبانوں کا ایک خاندان ہے۔ انھیں ایک خاندان میں ان کی خصوصیات کی بنا پر رکھا گیا ہے ۔ ترکی زبان ہند۔یورپی زبانوں کے خاندان میں سے نہ ہونے کے با وجود کس حد تک متاثر ہوئی ہے ۔ اس مختصرمضمون کی مدد سے پتا چل سکتا ہے کہ اردو اور ترکی زبان کے در میان یکسانیت کتنی زیادہ ہیں ۔ عجیب سی بات یہ ہے کہ جس طرح یاد دلایا گیا ترک سلاطین اور مغل حکومتیں لمبے عرصے تک بر صغیر میں ہونے کے با وجود اردو اور ہندی ’ ترکی سے بہت کم متاثر ہوئی ہیں لیکن اسلام کے وجہ سے بہت زیادہ الفاظ اور تہذیبیں مشترک ہیں۔ دونوں زبانوں کی عمر بہت زیادہ لمبی ہے ۔ مصدر کے ذخیرے کی حیثیت سے دونوں ایک جیسی ہیں۔بعض وقت دونوں زبانوں میں مصدر کی جڑ ایک ہی ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر اردو اور ہندی زبان میں مصدر لرزنا یا ٹھٹرنا ترکی مصدر سے اخذ کیا گیا ہے ترکی زبان کہا جاتا ہے تیترماک آذربایجانی زبان میں ماک
کے بجای ماق یعنی تیترماق ۔بے شک دونوں زبان کی مشترکات اس سے زیادہ ہے جو کہا گیا ۔ یہان اصل بات دونوں زبانون کے بولنے والوں کے مذہب ہیں جوکہ اسلام ہے ۔ ترکی زبان میں دو حروف یعنی خ اور ‍ق بالکل موجود نہیں اس لیے خ کے بجای ح اور ق کے بجای گ استعمال کرتے ہیں ۔
—-
کتابیات :
– آموزش زبان ترکی استانبولی در 60 روز،ڈاکٹر فرزانہ دولت آبادی، نشر نسل نوین،1394،تہران
– امثال و حکم ، علی اکبر دہخدا، نشر سپہر ،1361، تہران
-فرہنگ لغات ترکی استانبولی بہ فارسی،ڈاکٹر ابراہیم اولغون-جمشید درخشان،نشر تلاش،1374،تبریز
– فیروزالغات اردونیا اڈیشن، مرتبہ الحاج مولوی فیروزالدین،نشر فیروز سنز،2002،لاہور،
-فرہنگ جامع فارسی بہ انگلیسی و اردو،ڈاکٹر سید علی رضا نقوی،نشررایزنی ج اا نشنل بک فاوندیشن،1372،اسلام آباد
۔۔۔۔۔۔۔

Share

One thought on “اردواورترکی زبان کا تقابلی جایزہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلیمان زارع ۔ تہران”

Comments are closed.

Share
Share