اقبال متین کی افسانہ نگاری
ملبا کے حوالے سے
احمدعلی جوہر
ریسرچ اسکالر۔ جواہرلعل نہرویونیورسٹی
موبائل : 09968347899
ای میل :
اقبال متین اردو کے منفردوممتازاور بلندپایہ افسانہ نگار ہیں۔ ان کا شمار آزادی کے بعد کے قدآور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے معاصرین جوگیندرپال، عابد سہیل، رتن سنگھ، اقبال مجید، جیلانی بانو، واجدہ تبسم، غیاث احمد گدّی اور قاضی عبدالستار وغیرہ میں اپنی نمایاں شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی پہلی کہانی ’’چوڑیاں‘‘ جون ۱۹۴۵ء میں اردو کے معروف ومعتبر افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں نکلنے والے موقر ادبی رسالہ ’ادب لطیف‘ میں شائع ہوئی تھی۔ ان کے سات افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ چھ دہائیوں سے زائد طویل عرصہ پر محیط اپنے افسانوی سفر میں انھوں نے اپنی افسانوی نگارشات سے اردو کے افسانوی ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’پریم چند کے بعد اردو کے ممتاز فکشن نگاروں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں ایک نام اقبال متین کا بھی رہے گا خواہ یہ فہرست کتنی ہی مختصرترین کیوں نہ ہو۔‘‘ (۱)
اقبال متین کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ انھوں نے نوابوں کے اس شہر، یہاں کی جاگیرداری اور اس کی قدروں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کا ایک اہم موضوع زوال پذیر جاگیردار معاشرہ رہا ہے۔ اس موضوع پر واجدہ تبسم اور جیلانی بانو نے بھی کہانیاں لکھی ہیں مگر اقبال متین کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے معاشرہ کے منفی رُخ کو اُجاگر کرتے ہوئے حد سے بڑھی ہوئی شدّت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے اور وہ زیادہ جذباتی نہیں ہوئے ہیں۔ ان کا مخصوص دھیما لہجہ اور ٹھہر ٹھہر کر واقعہ کو بیان کرنے کا انداز انھیں مذکورہ افسانہ نگاروں سے منفردوممتاز کرتا ہے۔ انھوں نے زوال پذیر جاگیردار معاشرہ پر کئی کہانیاں لکھی ہیں جن میں ایک ’ملبا‘ بھی ہے۔ یہ اقبال متین کا نمائندہ افسانہ ہے۔ اس میں انھوں نے جاگیردارانہ ماحول کے جبرواستبداد کے ایک مخصوص پہلو کو بڑی نزاکت اور چابکدستی سے اُبھارا ہے۔ اس کا موضوع جاگیردارانہ سماج میں غریب اور بے بس خواتین کا جنسی استحصال ہے۔ افسانہ کے مرکزی کردار نواب صاحب ہیں جن کی عیاشی اور بوالہوسی کی کوئی حد نہیں ہے۔ ان کی زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ اہمّیت رکھتی ہے وہ اپنی جنسی خواہش کی تکمیل ہے، وہ چاہے ناجائز طریقے سے ہو۔ اس کام میں ان کا معاون سرفراز علی ہے جو ان کے اڑدلیوں کا صدر ہے۔ سرفراز علی نواب صاحب کا وفادار اور بے حد چہیتا ملازم ہے۔ آخر چہیتا کیوں نہ ہو کہ ایک مرتبہ جب کسی موروثی دشمن نے نواب صاحب پر جان لیوا حملہ کیاتو سرفراز علی نے اپنی جان پر کھیل کر نواب صاحب کو بچایا۔ اس کے علاوہ سرفراز علی نے بیسیوں لڑکیوں کو نواب صاحب کے خواب گاہ میں پہنچایا۔ نواب صاحب کی نگاہ جس لڑکی پر ٹھہرگئی، سرفراز علی نے اسے کسی نہ کسی طرح نواب صاحب کے آرام گاہ میں پہنچا کر ہی دم لیا۔ ایک مرتبہ نواب صاحب اپنی کسی جاگیر گئے تو وہاں ان کی نظر ایک لڑکی پر پڑگئی۔ لڑکی والے راضی نہ ہوئے تو سرفراز علی نے اس لڑکی کو بے زبان گائے کی طرح پکڑ کر اسٹیشن پر لایا اور دولاتیں مارکر ٹرین میں ڈھکیل دیا تاکہ نواب صاحب کی جنسی خواہش پوری ہونے سے نہ رہ جائے۔ یہ لڑکی آگے چل کر نواب سکندرحسین خان کی ماں بنیں کیوں کہ نواب صاحب نے باضابطہ عقد شرعی کے ذریعے ان کو اپنی بیوی بنالیا تھا جن کے بطن سے نواب سکندر حسین خان تولّد ہوئے۔ نواب صاحب کی نگاہ آئے دن کسی نہ کسی لڑکی پر پڑتی جسے ان کے خواب گاہ میں پہنچانے کا کام سرفراز علی انجام دیتا اور پھر اسے اپنی مالکن سمجھتا۔ مگر بے چارے سرفراز علی کو کیا پتہ تھا کہ ایک دن اس کی بیاہتا اور پیاری بیوی گلبدن بُوا پر بھی نواب صاحب کی نظر ٹھہر جائے گی اور اس کی ساری خدمات کا یہی صلہ ملے گا۔ دیکھئے اس واقعہ کو اقبال متین نے اپنے فن کارانہ قلم سے کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے:
’’گلبدن بُوا پلنگ پوش کی سلوٹیں صاف کرتی ذرا کی ذرا کمر سیدھی کرنے کے لیے آدھا جسم زمین پر اور آدھا جسم پلنگ پر پھینک کر بس دوچار بار پلکیں جھپکاسکیں اور پھر جیسے فرشتوں نے انھیں آہستہ آہستہ زمین سے اوپر اٹھالیا۔ انھیں اپنے ٹوٹے ہوئے بدن کی کچھ سدھ بدھ نہیں رہی۔ نواب صاحب خواب گاہ میں داخل ہوئے تو انھیں گلبدن بُوا کی جسارت پر بے اختیار پیار آگیا۔ آنکھ کھلی تو گلبدن بُوا نے دیکھا کہ فرشتوں نے انھیں نواب صاحب کی گود میں پھینک دیا ہے۔ انھوں نے سوچا کہ جس کا نمک رگ رگ میں ہو اس کی ہورہنا بھی تو نمک حلالی ہے۔ اور صبح ہوتے ہوتے گلبدن بُوا گلبدن بیگم بن گئیں۔‘‘ (۲)
گلبدن بوا سرفراز علی کی چہیتی بیوی تھی جس پر وہ جان چھڑکتا تھا۔ گلبدن بوا بھی سرفراز علی کو اس حد تک چاہتی تھی کہ کبھی کبھی وہ سرفراز علی سے کہتی تھی کہ نواب صاحب کے لیے مال فراہم کرتے کرتے کہیں خود کسی کے نہ ہوجانا۔ ایسی چہیتی بیوی کے چھن جانے پر سرفراز علی کو بے حد صدمہ ہوا اور روتے روتے اس کا بُرا حال ہوگیا۔ اس نے مجبور ہوکر بیوی کو طلاق دے دی مگر اتنی حمیت باقی تھی کہ نواب صاحب کی عنایت کردہ رقم کو قبول کرنے سے انکار کردیا مگر اس نے نہایت ادب سے نواب صاحب سے گذارش کی کہ گلبدن بیگم کو صرف ایک بار دیکھ لینے کی اجازت دی جائے۔ نواب صاحب نے گلبدن بیگم کے مشورہ پر اجازت دے دی اور آخری دیدار ہوا۔ اس منظر کی ایک جھلک اقبال متین کی تصویرکاری میں دیکھئے:
’’گلبدن بیگم چھجّے پر جلوہ افروز ہوئیں، نواب صاحب ذرا سا اوٹ میں چھپ گئے۔ سرفراز علی طلب کیے گئے۔ نظریں اٹھیں۔ انھوں نے گلبدن بیگم کو دیکھا اور دوسرے ہی لمحے دوہرے ہوکر فرشی آداب بجالایا اور پھر آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر دیوانہ وار بھاگے۔‘‘ (۳)
یہاں سرفراز علی کی پامال اور مجروح شخصیت کی تصویرکشی جس ڈرامائی انداز میں کی گئی ہے اس سے اس کے دل ودماغ کی پوری کیفیت آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتی ہے۔ چنانچہ جب گلبدن بوا نواب صاحب کے عقد میں آئیں اور گلبدن بیگم بن گئیں تو پورے دس ماہ کے بعد ان کے بطن سے نواب قلندر حسین خان پیدا ہوئے جو شکل وصورت، چہرہ مہرہ اور حلیہ میں بالکل نواب صاحب کی طرح تھے۔ نواب صاحب سے ان کی مشابہت اقبال متین کے لفظوں میں ملاحظہ ہو۔
’’نواب قلندر حسین خان کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ بس باپ کے منہ سے ٹپک گئے ہیں۔ چال ڈھال، رنگ روپ، دوھری ہڈی، عمر سے زیادہ گوشت پوست اور چربی، نواب صاحب کو اگر جوانی بخش دی جائے تو اللہ میاں بھی پہچان نہ سکیں کہ باپ کون سا ہے اور بیٹا کون سا؟ اسی لیے تو وہ نواب صاحب کے چہیتے تھے ورنہ ڈیوڑھی بھر میں کتنے ہی ایسے ننگے بچے درخت پر کونے میں پڑے سوکھ رہے تھے جن کے متعلق نواب صاحب کو شبہ تھا کہ تخم کسی نے بویا ہے تو کھاد اور کسی نے دی ہوگی۔ دونوں کام نواب صاحب نے نہیں کیے۔ اس بات کا یقین ہوجائے کہ فصل اپنی نہیں تو کون دردسر مول لے۔ کون جھکّڑوں سے بچائے۔ کون پتّے اور ٹہنیاں گن گن کر پروان چڑھائے۔ آخر قدرت کے تفویض بھی تو کچھ کام ہیں۔‘‘ (۴)
یہاں اقبال متین نے نواب قلندر حسین خان کی ان کے والد نواب صاحب سے ملتی جلتی شکل وشباہت کی فنکارانہ مرقع کشی تو کی ہی ہے، اس کے ساتھ انھوں نے اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں بے درد اور سفّاک جاگیردارانہ ماحول وفضا کی بھی عکّاسی کی ہے۔ افسانہ کے اس اقتباس کو پڑھ کر منٹو کے افسانہ ’پھندنے‘ کی یاد آتی ہے جس میں منٹو نے اپنے علامتی واستعاراتی انداز میں جاگیردارانہ سماج میں ناجائز بچوں کی ذلّت آمیز ولادت اور ان کی بے رحم موت کا نقشہ کھینچا ہے۔ حالاں کہ اقبال متین نے یہاں براہِ راست کچھ نہیں کہا ہے مگراشاراتی ورمزیاتی انداز میں انھوں نے جاگیردارانہ سماج میں انسانیت کی تذلیل وتحقیر کے پہلوؤں کو بھی اُبھارا ہے۔
چنانچہ جب گلبدن بیگم کے بطن سے اپنی شکل و صورت سے ملتا جلتا نواب صاحب کا بیٹا نواب قلندر حسین خان پیدا ہوا تووہ نواب صاحب کا پسندیدہ بیٹا بن گیا اور ان کی ماں گلبدن بیگم ان کی چہیتی بیگم۔ وہ نواب صاحب کی اتنی چہیتی تھیں کہ ڈیوڑھی کی ساری بیگمات ان پر رشک کرتی تھیں۔ وہ اپنے بیٹے نواب قلندر حسین خان جو نواب صاحب کے بڑے چہیتے تھے، کے توسط سے جو چاہتی کروا لیتی تھیں۔ ساری خادمائیں ان کے اشارے پر ناچتی تھیں۔ مگر انھیں کیا پتہ تھا کہ آگے چل کر ان کا بھی وہی حشر ہوگا جو دوسری بواؤں کا ہوا تھا۔ چنانچہ کچھ ہی دنوں بعد نواب صاحب نے بمبئی کی فلمی دنیا سے لائی گئی ۱۶ سال کی نوخیز اکسٹرا لڑکی کو اپنے خواب گاہ کی زینت بنایا اور گلبدن بیگم سے اپنی نگاہ پھیر لی۔ اب گلبدن بیگم کی یہ حالت ہوگئی کہ وہ اپنے بیٹے نواب قلندر حسین خان کی جھلک دیکھنے کو ترستی رہتیں۔ دوچار دن میں کہیں جاکر بیٹے کا دیدار ہوپاتا کیوں کہ سرفراز علی کے جانے کے بعد نواب صاحب کے دربار میں خدمت کی ذمّہ داری نواب قلندر حسین خان نے لے لی تھی۔ اب وہ ہر وقت اپنے والد نواب صاحب کی خدمت میں لگے رہتے کیوں کہ ان کے مطابق ڈیوڑھی کے مالک نواب صاحب تھے۔ ان کا خادم ہوکر ہی اس سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا تھا۔ اس لیے نواب قلندر حسین خان ہر وقت نواب صاحب کے آگے پیچھے لگے رہتے۔ اس کی وجہ سے وہ اپنی نئی نویلی دلہن کو بھی مناسب وقت نہیں دے پاتے۔ دربار سے رات دیر گئے گھرلوٹتے تو کبھی دلہن سوجاتیں اور کبھی جاگتی رہتیں۔ تنہائی وافسردگی کی شکار ایک رات دلہن کافی دیر رات تک جاگتی رہیں اور دل ہی دل میں روتی رہیں۔ انھیں رنجیدہ وملول دیکھ کر نواب قلندر حسین خان ان سے اس کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ کچھ بھی نہیں کہہ پاتی ہیں۔ مگر ان کے ذہن میں خیالات کا ہجوم امنڈ آتا ہے اور وہ مسلسل سوچتی رہتی ہیں۔ ان کی سوچ اور ان کے خیالات کے ذریعے اقبال متین نے اپنے مخصوص طنزیہ و دلکش پیرائے میں جاگیردارانہ سماج میں عورتوں کی بے بسی ولاچاری، ان کے دکھ درد اور غم والم کی عکاسی اس طرح کی ہے کہ قاری کو ان کی حالتِ زار پر ترس آنے لگتا ہے اور ادبی لطف وچاشنی سے بھی محظوظ ہوتا ہے۔
’’آپ انتی رات تک جگ کیوں رہی ہیں‘‘؟۔ دلہن جو ڈیوڑھی بھر کے لیے دلہن بیگم تھیں اور نواب قلندر حسین خاں کے لیے صرف بیگم۔ کچھ بھی نہ کہہ سکیں۔ بستر کی شکنوں نے نشتر بن کر دلہن کو کچوکے دیئے۔ دیواروں پر رینگتی ہوئی تنہائیوں نے دلہن کے کانوں میں سرگوشیاں کیں۔ کھلی ہوئی کھڑکیوں اور دروازوں کی پھٹی پھٹی آنکھوں نے دلہن کو اشارے کیے۔ کہہ دو دلہن۔ آج ہی کہہ دو کہ تم ڈیوڑھی کے طول طویل احاطے میں بھٹکتی ہوئی زخمی روحوں سے واقف ہوگئی ہو۔ ایسی روحوں سے جن کے ماضی کو۔۔۔ بڑے نواب صاحب نے حرفِ غلط کی طرح محو کروا دیا ہے۔ ان روحوں کا نہ کوئی ماضی ہے اور نہ کوئی مستقبل۔ لوح پاک میں ان کے ناموں کے متوازی ان کی تقدیر صرف تین لفظوں میں لکھی گئی ہے۔ پیدائش، عقد، موت۔ پیدائش سے لے کر موت اتنی لمبی پوری مدت میں ان کو نہ کوئی نیکی کرنی ہے اور نہ کسی بدی سے ان کا واسطہ ہے۔ اللہ نے اشرف المخلوقات کو پیدا کیا اور بہت سے کام اس کے تفویض کیے لیکن اللہ نے انھیں صرف ایک ہی کام دیا اور وہ تھا نواب سے عقد کرلینا۔ اس کے بعد اللہ نے اور کوئی کام سونپنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ درودیوار چیخ رہے تھے۔ تم نے بھی نواب ابن نواب سے عقد کرلیا ہے دلہن! تمہاری زندگی کا مقصد بھی پورا ہوگیا۔ تم جس لیے پیدا ہوئی تھیں وہ تم کرچکیں۔ اب اپنے مستقبل کو نواب صاحب کے قدموں میں رکھ کر بالکل بھول جاؤ۔ اب تمہیں مستقبل کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں کچھ نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ ماضی کی یادوں کے سہارے زندہ رہنا چاہوگی تو یہ بھی ممکن نہ ہوگا۔ اس لیے ماضی کی دل خوش کن یادیں بھی حویلی کی اونچی اونچی دیواریں پھلانگ کر تم تک نہیںآسکیں۔‘‘ (۵)
نواب قلندر حسین خان کی بیوی کی یہ دردناک حالت تھی تو ان کی ماں کی حالت اس سے بھی زیادہ المناک تھی۔ وہ نواب صاحب کی نگاہِ التفات اور اپنے بیٹے کے سہارے دونوں سے محروم ہوگئی تھیں۔ اب ان سے گھر کے نوکر چاکر بھی گستاخیاں کرنے لگے تھے۔ اس کے برعکس بوا معراج خانم تھیں جن کی عزّت ڈیوڑھی میں اس حد تک نیلام نہیں ہوئی تھی۔ حالاں کہ نواب صاحب انھیں بھی نہیں چاہتے تھے مگر ان کا جوان بیٹا ان کے دکھ درد کا خیال رکھتا تھا مگر گلبدن بیگم کواپنی کوکھ کی اولاد تک کی توجہ حاصل نہیں ہوپاتی۔ تنہائی کے کرب سے بے چین وہ اپنی قسمت کو کوستی رہتی ہیں۔ کبھی کبھی یہ خیال دل میں آتا ہے کہ شاید سرفراز علی کی بددعا کا اثر ہو۔ کبھی کبھی اللہ میاں کے بارے میں بھی سوچنے لگتی ہیں مگر پھر خوف سے لرز اُٹھتی اور توبہ واستغفار میں محو ہوجاتی ہیں۔ غرض کہ ان کی زندگی کال کوٹھری میں مقید ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایک دن ساری حویلی میں یہ خبر گشت کرجاتی ہے کہ نواب قلندر حسین خان چھوٹی بیگم کے ساتھ پکڑے گئے۔ نواب صاحب نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ گلبدن بیگم پر اس کا جو اثر ہوتا ہے اسے افسانہ نگار اقبال متین کی زبان سے سنئے:
’’گلبدن بیگم کے دل کو اپنی مٹھی کی مضبوط گرفت میں لے کر جیسے سرفراز علی نے سارا خون نچوڑ لیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے خلا میں گھوڑنے لگیں اور ان کے ذہن نے جانے کیوں اس طرح سوچا کہ نواب صاحب ڈیوڑھی کے گرے ہوئے حصّے کا وہ ملبہ ہیں جس کے بڑے سے ڈھیر کے پیچھے چھپ چھپ کر قلندر میاں چھوٹی بیگم سے ملنے کے لیے جایا کرتے تھے جو سولہ سال کی سہی لیکن پھر بھی ان کی ماں تھیں۔ لیکن قلندر نواب گلبدن بیگم کی گود میں سر رکھے زاروقطار رورہے تھے۔ ابا حضور نے مجھ پر شک کیا ہے۔ مجھ پر۔ ماں مجھ پر، مجھ پر ماں۔ گلبدن بیگم بھی اپنے آنسو روک نہ سکیں۔ ان کو آج ان کا بیٹا مل گیا تھا۔ لیکن قلندر نواب ڈیوڑھی کے چھوٹے بڑے ہر شخص کی آنکھوں میں آنسو بن کر جانے کہاں جا چھپے۔ کسی نے پھر ان کو نہیں دیکھا۔‘‘ (۶)
گلبدن بیگم اس خبر کو سن کر بے حد دل گرفتہ ہوتی ہیں مگر اس بہانے ان کو ان کا بیٹا مل جاتا ہے وہ بھی اس طرح کہ اس کے بعد ان کا بیٹا ہمیشہ کے لیے غائب ہوجاتا ہے یعنی مرجاتا ہے یا مار دیا جاتا ہے۔ یہاں قاری کے دل کو بڑا شدید صدمہ پہنچتا ہے کہ نواب قلندر حسین خان کی ساری خدمات کا یہ صلہ ملتا ہے کہ ان پر الزام لگایا جاتا ہے اور اس سے اس کی زندگی چھین لی جاتی ہے۔ اسی طرح قاری کو اس وقت بھی شدید جھٹکا لگتا ہے جب نواب صاحب سرفراز علی سے اس کی بیوی کو چھین کر اسے کسی خیراتی اسپتال میں مرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس افسانہ کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زوال پذیر جاگیردارانہ سماج میں منفی اور غیرانسانی قدروں کا بول بالا ہوگیا تھا۔ وہاں شک وشبہ اور خوف وسازش کی فضا نے بھی جنم لے لیا تھا۔ وہاں انسان کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی تھی۔ وہاں ساری اہمّیت جنسی خواہش کو حاصل تھی جس کی تکمیل کے لیے کتنی ہی غریب وبے بس خواتین کے جذبات واحسات اور ان کی آرزوؤں اور امنگوں کو کچل دیا جاتا تھا۔ وہاں عورت ایک بے جان کھلونا تھی۔ سب کچھ اسے کھیلنے والے کی مرضی پر منحصر تھا۔ جب چاہا کھیلنے والا اس سے کھیل لیا، جب جی بھر گیا تو اسے کہیں پھینک دیا یا کسی کونے کترے میں ڈال دیا اور پھر دوسرے کھلونے سے جی بہلانے لگا۔ اس طرح جنسی جبروتشدّد اور ظلم واستحصال کا سلسلہ چلتا رہتا۔ اقبال متین نے اپنے اس افسانہ میں جاگیردارانہ سماج کے زوال کی اس قدر متحرّک اور جاندار تصویر پیش کی ہے جس میں باریک سے باریک نقش بھی ابھر آیا ہے اور جو ان کے سماجی اور تہذیبی شعور اور فن کارانہ بصیرت کی بیّن دلیل ہے۔ اس میں اقبال متین نہ تو جذباتی ہوئے ہیں اور نہ مبالغہ سے کام لیا ہے بلکہ انھوں نے زوال پذیر جاگیردارانہ سماج کی بے رحم سچّائیوں کو اپنے مخصوص ومنفرد اور اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے۔ اس افسانہ کو پڑھنے کے بعد برملا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ اپنے موضوع پر دلچسپ اور معنی خیز افسانہ تو ہے ہی، یہ اردو ادب کا بھی نمائندہ اور شاہکار افسانہ ہے۔
——
(۱) ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید، اقبال متین، مشمولہ، اقبال متین سے اُنسیت، مرتب: نورالحسنین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۱۲ء، ص: ۲۹۸۔
(۲) اقبال متین، ’ملبا‘، مشمولہ، اقبال متین کے افسانے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۱۰ء، ص: ۹۴۔
(۳) ایضاََ، ص: ۹۵،۹۶۔
(۴) ایضاََ، ص: ۹۶۔
(۵) ایضاََ، ص: ۹۸۔
(۶) ایضاََ، ص: ۱۰۲،۱۰۳۔
—–
احمد علی جوہر
ہندوستانی زبانوں کا مرکز جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔
AHMAD ALI JAUHER, ROOM NO, 236-E,
BRAHMAPUTRA HOSTEL, JNU, NEW DELHI, 110067.Mob: 9968347899/9711542962
One thought on “اقبال متین کی افسانہ نگاری – – – – – احمدعلی جوہر”
Dear you has difened very well on the concept of sexual exploitation in the Iqbal Mateen’s Afasana writings congratulations.