صادقہ نواب سحر کا تخلیقی بیانیہ
۔۔۔ جس دن سے
پروفیسرمجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو‘ جامعہ عثمانیہ‘ حیدرآباد
اردو نثر میں تخلیقی ادب کا پس منظر اس قدر جامع اور معیاری ہے کہ داستانوی ادب سے لے کر ناول اور افسانے کی شروعات تک ہر تخلیق کار نے نثری دنیا سجانے کے دوران ایک جانب تو کہانی اور قصے کی روایت کو پروان چڑھاتے ہوئے کردار اور عمل کی بھرپور وکالت کی تو اس کے ساتھ ہی ہر دور کی عصری حسیت کو بھی تخلیقی ادب کا وسیلہ بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ داستاں سے ناول اور پھر ناول سے افسانے کی روایت کی ترقی اور ناولٹ کے فروغ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کے تخلیقی ادب کی معیار بندی کی جائے تو بلاشبہ اس زبان کے ادبی سرمائے میں نایاب اور نادر ذخیرے دستیاب ہوتے ہیں جو داستانوں سے لے کر ناولوں سے ہوتے ہوئے افسانوں ا ور ناولٹ کی حیثیت سے فروغ کا درجہ رکھتے ہیں۔
اردو کی تخلیقی نثر میں داستان کی صنف کے علاوہ دیگر افسانوی نثری اصناف میں ارتقاء کا رحجان انگریزی ادبیات کا وسیلہ بنا لیکن اردو کے تخلیقی نثر نگاروں نے جہاں جدت طرازی کو اپنا اصول بنایا‘ وہیں ایجادی خصوصیات کو استعمال کرتے ہوئے افسانوی نثر کو لامحدود وسعتوں تک پہنچا دیا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو کے تخلیقی سرمائے پر مردوں کی اجارہ داری مسلمہ ہے لیکن خود مردوں نے افسانوی نثر کے ذریعہ خواتین کی تربیت اور ان کی تعلیم و تدریس پر خصوصی توجہ دی‘ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ناول کے آغاز کے توسط سے اردو نثر میں خواتین کو ہی ذریعہ اظہار بنایا گیا اور جب مردوں کے قافلے کے ساتھ خواتین کا تخلیقی نثر کا قافلہ وجود میں آیا تو بلاشبہ ناول نگاری کی تاریخ میں خواتین نے ایسے نقوش چھوڑے کہ جن کی مثال اردو کی ادبی دنیا میں مشکل سے دستیاب ہوتی ہے۔ عصمت چغتائی‘ قرۃ العین حیدراور جیلانی بانو کی تخلیقی نثر کی انفرادیت کو اردو کے ہر نقاد نے قبول کیا ہے تاہم اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اردو کی تخلیقی نثر میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے پس منظر میں منفرد انداز یہ دیکھا گیا ہے کہ شمالی ہند کی تخلیق کار خواتین کے مقابلے میں جنوبی ہند کی تخلیق کار خواتین نے اپنے کارناموں کے ذریعہ اردو ناول کی تاریخ میں عصری اضافے کئے اور یہ عصری اضافے ناول نگاری میں خواتین کی حسیت اور ان کے تخلیقی جواز کی وجہ سے اہمیت کے حامل ہے۔ جنوبی ہند کی ایک ایسی ہی شہرہ آفاق خاتون جس نے شعر و ادب اور افسانہ نویسی سے اپنا سفر اختیار کرتے ہوئے ناول کی صنف کو عصری مظاہر سے وابستہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ تخلیقی بیانیہ میں ان کی انفرادیت مسلمہ ہے اور انہوں نے کسی حسن و عشق کی داستاں لکھنے کے لئے یا پھر تخلیقی ادب کے سیاسی و معاشی مظاہر کو نمائندگی دینے کے لئے ناول نگاری کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ ماحول اور معاشرہ کے علاوہ سماج میں تیز رفتاری کے ساتھ پھیلتے ہوئے یوروپی افکار اور ان کے توسط سے تہذیب و اخلاق کی بگڑتی صورتحال کو منظر عام پر لانے کے لئے تخلیقی ادب کو وسیلے کے طور پر استعمال کیا‘ جس کی وجہ سے ان کے ناولوں میں حقیقت پسندی اور معاشرے کی نمائندگی کا بھرپور حق ادا ہوتا ہے اس اہم کارنامے کو انجام دینے کے لئے صادقہ نواب سحر اس لئے مبارکبار کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی مادری زبان کی حفاظت کی اور ہندی زبان سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود بھی اردو جیسی مادری زبان کا حق ادا کرتے ہوئے اس زبان کی خدمت کا بیڑہ اٹھا کر اردو زبان میں ناول لکھنے کی روایت کو فروغ دیا۔
صادقہ نواب سحر کو اردو کی نامور ادیبوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔اس سے پہلے انہوں نے اپنا پہلا ناول’’کہانی کوئی سناؤ متاشہ‘‘ تحریر کیا تھا۔ ان کے دو شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں لیکن گذشتہ چند سالوں میں ناول کی صنف کو اظہار کا ذریعہ بناتے ہوئے انہوں نے عصر حاضر کے بیانیہ کی حقیقت پذیری کو نمایاں کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مہاراشٹرا کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے صادقہ نواب سحر کی تحریروں میں تخلیق کا حسن ہی نہیں بلکہ بیانیہ کی فطری آویزش بھی نظر آتی ہے۔ وہ نہ تو ادبی زبان اور دہلوی اور لکھنوی محاورے کے چٹخارے کو اپنے ناول کو سیلہ بناتی ہے اور نہ ہی اردو کے نامور ناول نگاروں کی طرح معرب اور مفرس زبان کا استعمال کرکے اپنی علم دوستی کا ثبوت دیتی ہیں بلکہ صادقہ نواب سحر کی تخلیقی نثر کا حقیقی سحر یہی ہے کہ وہ اپنی زبان کو ترسیلی زبان کی حیثیت سے استعمال کرتے ہوئے اس روش کی نمائندگی کرتی ہیں جو عام انسان کے ذہن کی آبیاری کا وسیلہ ہے۔ اردو کے بیشتر ناول میں زبان کا عجیب رچاؤ دکھائی دیتا ہے۔ اردو سے تعلق رکھنے والے ناول نگاروں نے ذریعہ اظہار کے لئے فارسی اور عربی اسلوب کو اپنے ناولوں میں جگہ دی‘ جس کا اظہار نہ صرف ڈپٹی نظیر احمد ‘ عبدالحلیم شرر اور راشد الخیری ہی نہیں بلکہ اس کے بعد کے ناول نگاروں کے اسلوب میں بھی یہی انداز دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بجائے ہندی زبان کے توسط سے ناول کو وسیلہ اظہار بنانے والے ادیبوں کی تحریروں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ ہندی طرز اظہار کو ناول کی زینت بناتے ہیں ایسے ناول نگاروں میں منشی پریم چند ‘ کرشن چندراور راجندر سنگھ بیدی کا شمار ہوتا ہے۔ اردو کے کچھ ایسے ناول نگار بھی موجود ہے جنہوں نے ناول کی صنف کو اظہار کے دوران نوابی ٹھاٹ باٹ اور ان کے لب و لہجے سے وابستہ رکھا۔ ایسے ناول نگاروں میں رتن ناتھ سرشار اور مرزا محمد ہادی رسواء کا شمار ہوتا ہے۔ ترقی پسند ادیبوں کے توسط سے متوازن بیانیہ کو فروغ دیتے ہوئے اسلوب نگارش کو عوام پسند بنایا گیا لیکن ناول کی صنف میں ایک خلاء ضرور باقی رہا کہ اردو کے ناول نگاروں میں عربی اور فارسی روایت کے علمبرداروں نے بھی ناول نگاری کی اور سنسکرت اور ہندی زبانوں کی نمائندگی کرنے والے ادیبوں کے ناول بھی دستیاب ہیں۔ ادب کو پیچیدہ تر بنانے کے بجائے عوامی سوچ و فکر کے دائرے سے وابستہ کرنے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جبکہ ریڈیو اور ٹی وی کے توسط سے عوامی ترسیلی زبان کو فروغ دینے کی طرف توجہ دی گئی۔ چونکہ صادقہ نواب سحر کا تعلق ریڈیو اور ٹی وی کے کلچر کے معاشرے سے ہے اس لئے ان کی ناولوں کی تحریر پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے نہ تو درباری زبان کو اپنے ناولوں کے اسلوب کے طور پر استعمال کیا اور نہ ہی عوامی زبان کے لب و لہجے کو اسلوب کا ذریعہ بنایا بلکہ وہ زبان جو ہر انسان کے ذہن کو متاثر کرتی ہے‘ اسے اپنے ناولوں کی زبان کی حیثیت سے فروغ دیتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ ان کے اسلوب کا خاصہ یہی ہے کہ وہ اپنے ناولوں میں ’’ترسیلی زبان‘‘ کو فروغ دے کر عصر حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے بیانیہ کی خصوصیت کو ظاہر کرتی ہیں۔
ناول نگاری کی صنف کو اس لئے بھی دوسری افسانوی ‘ نثری اصناف سے جداگانہ وصف حاصل ہے کہ اس صنف نثر میں تخلیق کار کی خیالی اور قیاسی خصوصیت بھی کام کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرت اور انسانی زندگیوں کے لائحہ عمل کو بھی اسلوب میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کے کردار‘ پلاٹ اور تکنیک میں جہاں تخلیق کار کی جدت اور تخلیقی صلاحیت کام کرتی ہے وہیں تخلیق کار کے کسی بھی قصے کو صرف خیالی اور قیاسی یا پھر تصوراتی کا درجہ دے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ داستانوں میں یہ ممکن تھا کہ ماورائے حقیقت کردار اور ان کے رویوں کو نمائندگی دی جاتی تھی لیکن داستانوں میں بھی سماج‘ معاشرت‘ طرز و اخلاق اور رہن سہن کے معاملات کا مظاہرہ دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جن تخلیق کاروں نے دہلی میں داستانیں لکھیں ان کی داستانوں میں دہلوی طرز معاشرت کا عکس نمایاں ہے‘ اسی طرح لکھنو اور رامپور میں لکھی جانے والی داستانوں میں طرز زندگی کا عکس لکھنؤ اور رامپور سے مربوط ہوجاتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر قصہ خیالی اور قیاسی ہونے کے باوجود بھی تخلیق کار کی تخلیقی حسیت اسے نہ صرف مقامی انداز سے و ابستہ کرتی ہے بلکہ جس طرز معاشرت کا وہ نمائندہ ہے اسی کی نشاندہی اس کی تخلیق کا حصہ بنتی ہے۔ اس مثال کے ذریعہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اردو کے جتنے تخلیق کاروں نے ہندوستان کی سرزمین میں داستانیں تحریر کیں‘ انہوں نے قصہ اور طرز زندگی ہی نمائندگی کے لئے عرب ‘ ایران اور ترکستان کی سرزمین کو پسند کیا لیکن اظہار کے دوران قصے اور کہانی کے کردار ہندوستانی معاشرے میں سانس لیتے ہیں نظر آتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ تخلیق کاری کے دوران قصہ ‘ کہانی یا پلاٹ میں ماورائی ‘ خیالی ‘ قیاسی اور تصوراتی وحدت تو قائم رہتی ہے لیکن اس کے دوران تخلیق کار کی حسیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس پس منظر میں جب صادقہ نواب سحر کے ناول ’’جس دن سے‘‘کے صفحات کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے اپنی تخلیقی صلاحیت کو نمائندگی دینے کے لئے کسی نہ کسی عنوان کے تحت بیان کے سلسلے کو جاری رکھا ہے اس بیان میں نہ صرف روانی ہے بلکہ تسلسل کے ساتھ ربط و تعلق کا ایسا واسطہ ہے کہ جس کے نتیجے میں حقیقی کردار سے لے کر ذیلی کردار تک ہر ایک میں آپسی ہم آہنگی کا ثبوت ملتا ہے۔ ہر کردار کو بیان کرنے کے دوران کرداری کشمکش کو بھی تخلیقی صلاحیت کا وسیلہ بناتے ہوئے صادقہ نواب سحر نے اس جدت سے کام لیا ہے کہ ان کے ناول کے ہر کردار میں نفسیاتی عوامل کام کرتے نظر آتے ہیں۔ فطری طور پر ایک کردار دوسرے کردار سے نفرت کرتا ہے لیکن نفسیاتی طور پر ان میں موجود رشتوں کی بنیاد نہ صرف کرداروں کو ایک دوسرے سے الگ ہونے سے روکتی ہے بلکہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین میں جہاں ’’پدرسری نظام‘‘ کے بجائے ’’مدرسری نظام‘‘ کی حقیقت کا یہ عکس ہے کہ اس ملک میں پیدا ہونے والے کسی بھی مذہب ‘ ذات ‘ فرقے اور رنگ و نسل کے افراد کیوں نہ ہوں اور ان کی مائیں یا باپ اخلاقی طور پر حد درجے ذلالت کا شکار بھی ہوں تو ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت تلے زندگی گذارنے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ اولاد اپنے ماں باپ کے غلط راہ پر چلنے کی بنیاد پر انہیں دھتکار دے۔ ناول ’’جس دن سے ‘‘ کے کرداروں میں اسی اصلیت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ اس ملک کے باشندوں میں گرتی ہوئی اخلاقی اور تہذیبی بے راہ روی کے باوجود بھی اس قدر اخلاقی تشخص برقرار ہے کہ وہ اپنے مانباپ سے الگ ہو کر مانباپ کی دوسری شادی کرلینے کے بعد بھی خون کے رشتے کو استوار رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہندوستانی مزاج کے اس رویے کو بہت کم اردو کے ناول نگاروں یا تخلیق کاروں نے پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ کرداروں کی آپسی کشمکش اور نفسیاتی بے توجیہی کے باوجود بھی صادقہ نواب سحر کے ناول ’’جس دن سے‘‘ کے توسط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے نہ تو کوئی خیالی اور قیاسی قصے کو کرداروں سے وابستہ کرکے ناول کے روپ میں پیش کیا ہے بلکہ ہندوستان کی سرزمین میں گذرتی ہوئی اوسط گھرانے کے افراد کی زندگی کے ایسے نمایاں پہلو اجاگر کئے ہیں کہ جن کے مطالعہ سے اس ملک کی معاشرت اور طرز زندگی میں موجود خالص محبت کو نمائندگی ملتی ہے۔ صادقہ نواب سحر نے اس ناول کے کرداروں کو قصے کے مطابق عمل کرتا ہوا نہیں بتایا ہے بلکہ انہوں نے ہر کردار کو مختلف عیش پرستی کے ماحول میں پیش کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اس ناول کے کردار جہاں اپنے کردار کا المیہ ہیں‘ وہیں اپنی ذات اور زندگی کا بھی المیہ قرار پاتے ہیں۔موجودہ زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں اور ہندوستانی معاشرے میں زندگی گذارتے ہوئے مذہب‘ اخلاق اور تہذیب کے دائروں کو پھلانگ کر خوشی حاصل کرنے کی کوشش اور اس میں ناکامی کو نمائندگی دیتے ہوئے صادقہ نواب سحر نے واضح کردیا ہے کہ ان کا ناول صرف مطالعہ کے لئے اور دل بہلانے کی خاطر نہیں لکھا گیا بلکہ انہوں نے عصر حاضر میں ہندوستانیوں کی گذرتی ہوئی زندگی کو بھرپور نمائندگی دیتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ دلی خواہشات کی تکمیل کے باوجود بھی انسان کو چین و سکون کی زندگی گذارنا ممکن نہیں۔ اس پس منظر میں انہوں نے کسی اخلاقی یا تہذیبی اشارے کو ضروری نہیں سمجھاکیونکہ وہ ناول کے نئے طرز کی خصوصیات سے آگاہی رکھتی ہیں کہ کوئی بھی تخلیق اگر ترغیبات کی نمائندگی کی طرف مائل ہوجائے تو بلاشبہ اس کی تخلیقی صلاحیت میں کمی آجائے گی۔ بلاشبہ صادقہ نواب سحر کی تخلیق ’’جس دن سے‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر کردار کے عمل اور رویے کے ذریعہ سے ہی قاری کو نتائج اخذ کرنے میں مدد ملتی ہے اور اس کی زندگی کا رویہ خود ثابت کرتا ہے کہ قاری کو کس ڈگر سے متاثر ہونا چاہئے اور کس رویہ سے دوری اختیار کرنی چاہئے۔ ایک ایسے دور میں جبکہ عذاب اور ثواب کا نظریہ ختم ہوچکا اور گناہ کے تصور سے لوگ بے نیاز ہوگئے تو ایسے وقت معاشرے میں پیدا ہونے والی بے اعتدالی کو کوئی شخص اکیسویں صدی کے ہندوستان میں دیکھنا چاہتا ہے تو بلاشبہ اسے اپنے زمانے کی بھرپور نمائندگی صادقہ نواب سحر کے ناول ’’جس دن سے‘‘ کے توسط سے واضح ہوجائے گی۔
بیانیہ نثر کی یہ تاثیر ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف قاری کو متاثر کرتی بلکہ تخلیقی کار کے رویے کے ساتھ ساتھ قاری بھی سفر کرتا رہتا ہے حتی کہ ناول میں کوئی غمگین منظر پیش ہوجائے تو قاری کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور اگر کوئی خوشحال اور خوشگوار منظر ناول کا حصہ بن جائے تو قاری تخلیق کار کے اظہار میں شریک ہوجاتا ہے۔ بیانیہ کی یہ تاثیر مختلف انداز سے اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ بیانیہ میں مکالمے کی صلاحیت کو پرونا سخت دشوار ہے ۔ طویل عرصے تک اس ادب کو اہمیت دی جاتی تھی جو مکالماتی خصوصیات کا حامل رہتا ہو۔ علامہ اقبال کی شاعری کو پسند کرنے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں مکالماتی انداز کو کام میں لا کر مفہوم کی ترسیل کا حق ادا کیا ہے ۔ اس پس منظر میں جب صادقہ نواب سحر کے ناول ’’جس دن سے‘‘ کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس ناول کا شاہکار انداز یہی ہے کہ صادقہ نواب سحر نے بیانیہ کو ’’راست بیانیہ ‘‘ کا وسیلہ بنا کر بر موقع مکالماتی انداز کی نمائندگی کی ہے۔ عام طور پر اردو ناولوں میں یہ دیکھا جاتا رہا کہ متوازن بیانیہ کی روایت کے نتیجے میں مکالموں کو نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ صادقہ نواب سحر نے اپنے اس ناول میں ممکنہ طور پر بیانیہ کی توسیع کے لئے جملے اور فقرے استعمال کرنے کے بجائے باضابطہ طور پر مکالمے کی روش کو برقرار رکھا ہے جس کی وجہ سے ان کی بیانیہ نثر توضیحات و تشریحات سے بے نیاز اور راست مکالمے کی وجہ سے تاثیر کی صلاحیت سے مالامال ہوجاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بیشتر ناول نگاروں نے مکالماتی سطح پر ناول لکھے اور ناول کے مختلف انداز میں مکتوباتی ناول‘ سوانحی ناول‘ سفر نامہ کے انداز پر ناول اور کئی غیر افسانوی اصناف کے تجربوں سے ناول کو وابستہ کیا لیکن صادقہ نواب سحر کے ناول کی امتیازی خصوصیت یہی ہے کہ اس ناول کا بیانیہ مکالماتی انداز کو فروغ دیتے ہوئے ’’راست بیانیہ‘’ کی تاثیر سے مالامال ہوجاتی ہے۔ جبکہ اردو کے دوسرے ناول نگار اپنے بیانیہ کو پروقار بنانے کے لئے نہ صرف متوازن بیانیہ کا سہار ا لیتے ہیں بلکہ جا بجا بیانیہ کے تسلسل کو چھیڑتے ہوئے مکالمے شامل کرکے بیانیہ کی طرز کو مجہول کردیتے ہیں‘ جس کی مثالیں اردو کے ابتدائی ناول نگاروں کے ناولوں سے دی جاسکتی ہیں۔ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ صادقہ نواب سحر نے اپنے ناول کو مکالماتی بیانیہ سے مربوط کرکے ناول کو کسی ڈرامے کی حیثیت میں ڈھال دیا ہے۔ لازمی ہے کہ ڈرامے کے متعلقات الگ ہوتے ہیں اور ڈرامہ اسٹیج اور مکالمے کی آمیزش کا نام ہے جبکہ ناول میں اسٹیج اور مکالمے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ بلکہ ناول کے لئے کرداروں اور ان کے عمل کی سچائی کے ساتھ پیش کشی کو اہمیت حاصل ہوتی ہے اس مرحلے میں صادقہ نواب سحر نے بھرپور کامیابی حاصل کی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صادقہ نواب سحر نے ناول لکھنے سے قبل ڈرامہ لکھنے کا تجربہ بھی کیا ہے لیکن ان کے ناول پر ڈرامائی مکالمے کی کسی روش کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس تخلیق کار نے تخلیقی چابکدستی کو قائم رکھنے کے لئے راست بیانیہ کو مکالماتی انداز سے وابستہ کیا ہے خاص بات یہی ہے کہ ہر مکالمہ مختصر اور کردار کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسی وجہ سے صادقہ نواب سحر کے ناول کرداروں کے درمیان جو کہانی اورقصہ فروغ پارہا ہے اس میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی‘ ورناولوں کے درمیان مکالمے تحریر کئے جائیں تو ایسے مکالمے کہیں سپاٹ ہوجاتے ہیں تو کہیں کردار کی فطرت کی نمائندگی انجام دینے میں بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ صادقہ نواب سحر نے اپنے ناولوں کی انفرادیت کو برقرار رکھنے کے لئے راست بیانیہ میں مکالمے کی شمولیت اسی طرح رکھی ہے کہ جس طرح آٹے میں نمک کا داخلہ ہوتا ہے۔ اگر آٹے میں نمک کی مقدار زائد ہوجائے تو اس سے بننے والی روٹی کھانے کے قابل نہیں ہوتی‘ اسی طرح کسی ناول میں راست بیانیہ میں مختصر مکالمہ ہی وہ بنیادی عنصر ہے کہ جس کے ذریعہ بیانیہ کی ساکھ متاثر نہیں ہوتی۔ جس طرح ایک جوہری سونے اور چاندی کے زیور میں نگینے جڑتا ہے اسی طرح کامیاب تخلیق کارکی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ناول کے بیانیہ کے دوران مکالمے کے نگینے جوڑ کر تخلیق کے راست بیانیہ کو اثر انداز بناتا ہے۔ یہی کارنامہ صادقہ نواب سحر نے اپنے ناول کے ذریعہ انجام دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ تخلیق کے حسن کو نکھارنے اور اظہار کی بالیدگی کو نئی زندگی دینے کا آرٹ صادقہ نواب سحر کو بخوبی آتا ہے۔
تخلیق کی روایت کے دو مختلف رویوں سے واقفیت ہونے کی وجہ سے صادقہ نواب سحر کو فطری اور راست بیانیہ کی تکنیک کو استعمال کرنے کا موقع حاصل ہوا ہے‘ انہوں نے ہندی زبان میں پوسٹ گریجویشن تک تعلیم حاصل کی جبکہ مادری زبان اردو ہونے کی وجہ سے بیک وقت ہندی تخلیقی بیانیہ کی روایت سے وابستہ رہیں تو اس کے ساتھ ہی اردو تخلیقی بیانیہ کی روایت کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنا کر انہوں نے ناول نگاری کی روایت میں اہم اضافے کی طرف توجہ دی۔ ایک دور تھا جبکہ اردو کے بیشتر ناول نگار عربی یا پھر فارسی کی روایت سے جڑے رہتے ہوئے اردو ناول نگاری کی صنف پر توجہ دیتے تھے۔ عصر حاضر میں ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں سرکاری زبان کی حیثیت سے فروغ پانے والی ہندی زبان اور اس کے اتہاس سے استفادہ اسی قدر ضروری ہے جس طرح قدیم دور میں عربی اور فارسی ادب کی تاریخ سے آگاہی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ صادقہ نواب سحر نے وقت کی ضرورت اور زمانے کی چاپ کو محسوس کرتے ہوئے دو اہم ہندوستانی زبانوں کے آپسی تعلق کو استوار کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ کوئی بھی اردو کا ادیب یا شاعر کسی لحاظ سے بھی لسانی پس منظر میں اپنی ماں جائی سے گریز نہیں برت سکتا۔ یہی وجہ رہی کہ مولانا حالی جیسے اردو کے اہم نقاد نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ لسانی پس منظر میں اردو اور ہندی کھڑی بولی کی شاخیں ہیں اور ان کا آپسی رشتہ دو بہنوں جیسا ہے‘ تو پھر ان دونوں زبانوں کے ادبیات سے استفادے کی ضرورت بہرحال لازمی ہے۔ غرض مولانا حالی نے جس نظریے کو انیسویں صدی میں پیش کرکے حقائق کی نمائندگی کی اس پر عمل آوری بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں نظر آتی ہے۔ یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ ہندی اور اردو کے لسانی جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے کئی ایسے ادیب اور شاعر پیدا ہوگئے ہیں جنہوں نے اردو شعر و ادب کی لفظیات میں فطری طور پر سجنے والے ہندی الفاظ کے استعمال پر خصوصی توجہ دی ہے‘ لیکن تخلیقی ادب میں خواتین کی نثر میں یہ شگفتگی اور شائستگی کا رحجان دکھائی دیتا ہے کہ خواتین نے مرد حضرات کے مقابلے میں سب سے زیادہ تخلیقی ادب کو معروف اردو کے ساتھ ساتھ عوامی ہندی سے رابطہ جوڑ کر اسلوب کے انتہائی فطری انداز کو فروغ دینے کی طرف توجہ دی۔ ایسی ہی اہم تخلیقی قلمکاروں میں صادقہ نواب سحر کا شمار ہوتا ہے۔ ہر تخلیق کار اپنے دور اور اس کے تقاضوں کی نمائندگی میں پوری طرح کامیاب رہے تو ہی اس کے ادب کی پذیرائی ہوتی ہے۔ صادقہ نواب سحر کی خوبی یہی ہے کہ انہوں نے ہندی زبان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی خالص ہندی اسلوب کو اپنے ناول کا وسیلہ نہیں بنایا بلکہ یہ بھرپور کوشش کی کہ سارے ہندوستان میں ادبی طور پر ہی نہیں بلکہ ترسیلی سطح پر جس اردو زبان کو فروغ حاصل ہے اسی کو تخلیق کا وسیلہ بنایا جائے۔ بلاشبہ اس اردو کو نہ تو فارسی آمیز اردو کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی عربی آمیز اردو سے وابستہ کیا جاسکتا ہے بلکہ برصغیر کے سب سے بڑے خطے یعنی ہندوستان کی سرزمین میں اردو کے نام پر ادبی سطح پر ہی نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی شہرت حاصل کرنے والی اردو زبان کو صادقہ نواب سحر نے اپنے ناول کا وسیلہ بنایا‘ جس میں اردو محاورے کا چٹخارہ موجود ہے تو اس کے ساتھ ہی ہندی ادب کی صالح روایتوں کی خصوصیات بھی جلوہ گر ہیں۔ عام طور پر جواہر ساز کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بہترین جواہرات اسی وقت بناسکتا ہے جبکہ کسی اہم دھات میں مختصر سی دوسری دھات کی ملاوٹ کرے تو زیورات کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ سونے کے زیورات بنانے وقت سنار سونے جیسی دھات کی نرماہٹ کو سختی میں تبدیل کرنے کے لئے چاندی کا استعمال کرکے زیورات بنائے تو اس کی خوبصورتی میں اضافے کے ساتھ ساتھ بناوٹ میں سختی آجانے کی وجہ سے زیورات کے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ غرض یہ ثبوت ملتا ہے کہ دو قیمتی دھاتوں کے مناسب امتزاج سے بننے والا زیور انسان کی پسند کا ذریعہ بنتا ہے تو اسی طرح دو اہم زبانوں کی خصوصیات کو یکجا کرکے صادقہ نواب سحر نے اپنے ناول کی تخلیقی فضاء تیار کی ہے‘ جس کی وجہ سے ان کا ناول ’’جس دن سے‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے دو زبانوں کے اتحاد اور ان کی خصوصیات کو یکجا کرکے اردو اور ہندی کی امتیازی خصوصیات کو ناول کے وصف میں شامل کردیا ہے۔
ترقی پسند تحریک اور پھر اس کے بعد جدیدیت کے رحجان سے آگے قدم بڑھاتے ہوئے اردو ادب کا قافلہ مابعد جدیدیت کے دائرے میں سفر کررہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تخلیق کار نہ صرف اپنے عہد کی تحریکات‘ رحجانات اور نظریات سے متاثر ہوتا ہے اور تخلیق کے دوران ان نظریات کی پیش کشی پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ایسے بے شمار نظریات بیسویں صدی میں اردو ناول کے توسط سے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بننے لگے ۔ صادقہ نواب سحر کی تخلیقی حسیت کی امتیازی خصوصیت یہی ہے کہ انہوں نے اپنے فن کی چابکدستی کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی مرحلے میں یہ ظاہر ہونے نہیں دیاکہ انہوں نے بیسویں صدی کے عصری نظریات سے اپنے ناول کو ہم آہنگ کرنے کی طرف توجہ مبذول کی ہے۔ عام طور پر اردو کے تخلیق کاروں نے یوروپ کے نظریات کی تخلیق کی طرف توجہ دی‘ جس کی وجہ سے تحریر نفسی کا نظریہ‘ شعور کی رو کی تکنیک‘ ماورائیت کا انداز‘ خود کلامی کی طبیعی حیثیت اور ایسی ہی بے شمار یوروپی نظریات کی نمائندگی اردو ناول کا حصہ بنتی رہی ہے اور اردو کے ناقدین نے ناول کے ادب میں ہجرت کے کرب اور شعور کی رو کے علاوہ خود کلامی کے ساتھ ساتھ تجریدیت اور ماورائیت کو ثابت کرکے اس اظہار کو نمائندگی دی کہ اردو کا تخلیقی ادب تیز رفتاری کے ساتھ یوروپی افکار اور نظریات کو اختیار کرنے کی طرف مائل ہے۔ بلاشبہ اس عمل کو تخلیقی حسیت میں عصری انداز کی شمولیت کا درجہ حاصل ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کسی بھی تخلیق کو نظریات کے بوجھ سے وابستہ کرنا اور تحریکات اور رحجانات سے وابستہ کرکے اصل حقیقت سے بے نیازی اختیار کرنا کس حد تک مناسب ہے؟ اگر دودھ کو اس کی فطرت کے مطابق رکھا جائے تو اسے پسند کیا جائے گا لیکن اس کے بجائے دودھ میں پانی یا دوسرے عناصر کو شامل کردیا جائے تو دودھ کی قدر و قیمت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ یہی معاملہ اردو کے تخلیقی نثر نگاروں کے فن پاروں کے ذریعہ منظر عام پر آیا۔ ناول نگاروں نے ہی نہیں بلکہ افسانہ نگاروں نے بھی فیشن کے طور پر یوروپی نظریات اور افکار کو شامل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ عصری نظریات کے حامل اور یوروپ کے ترقی یافتہ معاشرے کی تقلید کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں۔ بلاشبہ اس عمل کو نقالی یا اضافی تخلیقی کیفیت کا حامل سمجھا جائے گا۔ ترقی پسند تحریک کے علاوہ جدیدیت کے علمبرداروں اور مابعد جدیدیت کے قلمکاروں نے ایسی کوششوں کو جاری رکھا‘ جس میں تخلیق کے دوران تقلید کو روا رکھنے کا رحجان فروغ پاتا نظر آتا ہے۔ فطری طور پر کسی کردار اور اس کے عمل کو ہجرت کے کرب یا شعور کی رو کے علاوہ خود کلامی یا پھر تجریدیت سے جوڑا جائے تو کوئی افسوسناک مرحلہ نہیں ‘ لیکن سارے ہندوستان ہی نہیں بلکہ ایشیائی ممالک میں یوروپ کی بڑھتی ہوئی ترقی اور فیشن کو اختیار کرنے کا رحجان مختلف تحریکات اور نظریات کا آئینہ دار بننے لگا‘ جس کی وجہ سے ادب لکھنے والوں کے گروہ پیدا ہونے لگے۔ اس تفریق کے حدود سے اپنے ناول کو باہر نکال کر صادقہ نواب سحر نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے ناول میں نہ تو ترقی پسندی کے نظریات کی جھلک موجود ہے اور نہ ہی جدیدیت پسند افکار کو انہوں نے اپنے ناول میں شامل کیا ہے اور نہ ہی مابعد جدیدیت کی تشکیل اور رد تشکیل کو نمائندگی دینے کی کوشش کی ہے بلکہ ان کا ناول ’’جس دن سے‘‘ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تمام نظریات اور افکار سے بالاتر ہوکر ناول لکھنے کی طرف توجہ دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول میں ہندوستان کی سرزمین کی انسانی زندگی اور اس کے مسائل کی بھرپور نمائندگی محسوس کی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر صادقہ نواب سحر نے اپنے ناول پر اپنے زمانے کے سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی‘ سماجی‘ اخلاقی اور مذہبی افکار کو ناول کا حصہ بنانے سے گریز برتا ہے ‘ لیکن ناول پڑھتے ہوئے قاری کو خود احساس ہوجاتا ہے کہ جن کرداروں اور ان کے رویوں کے توسط سے وہ ناول کا مطالعہ کررہا ہے اس کا تعلق نہ تو یوروپ کی سرزمین سے ہے اور نہ ایشیاء کے دوسرے علاقوں سے اس کا رابطہ استوار ہوتا ہے بلکہ خالص ہندوستانی تہذیب ’’جس دن سے‘‘ ناول کے ذریعہ چلتی پھرتی اور قاری کے ذہن کو متاثر کرتی نظر آتی ہے۔ وہ ہندوستانی تہذیب کی حقیقتوں کو یش کرتے ہوئے نہ تو اخلاقی بڑائی کا ثبوت دیتی ہیں اور نہ ہی ہندوستانیوں کی مذہب اور معاشرت پسندی کو مبالغہ کا وسیلہ بنا کر تعریف و توصیف کے پل باندھتی ہیں‘ بلکہ آزادی کے ستر سال بعد ہندوستانی معاشرے میں مذہب‘ اخلاق‘ تہذیب اور طرز معاشرت کے فرق کی نمائندگی کرتے ہوئے اس سچائی کو واضح کردیا ہے کہ اس ملک کے باشندوں نے ستر سالہ دور میں مذہب ‘ تہذیب ‘ اخلاق اور طرز معاشرت کو نظر انداز کرکے جنسی بے راہ روی کو بھی زندگی کا اصول بنالیا ہے‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناول نگار نے سرزمین ہندوستان کے باشندوں کی عصری زندگی کی عکاسی کے معاملہ میں کہیں بھی افراط و تفریط سے کام نہیں لیا اور مبالغے کو کام میں لاتے ہوئے اپنے ملک میں بسنے والے انسانوں کی حمایت کی طرف توجہ دی ہے بلکہ حقائق کو پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کے ناول خیالی‘ قیاسی اور ماورائی نہیں بلکہ ناول کے کردار اور ان کے رویوں سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے حقائق کی عکاسی اور کڑوی حقیقت کو نمایاں کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تخلیق کار اپنے عہد کے معاشرے کی نمائندگی میں پوری طرح کامیاب ہے۔
تخلیقی ادب میں حقائق کی نمائندگی کو منفرد حیثیت حاصل ہے اردو کے ناول نگاروں کے علاوہ افسانہ نگاروں نے اپنی تخلیقات کے دوران حقائق کی نمائندگی کو بھی انسانی لباس کی طرح استعمال کیا جس طرح لباس کی خصوصیت ہی یہ رکھی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ ستر پوشی کا لحاظ رکھا جائے اسی طرح اردو کے بیشتر ناول نگار اور افسانہ نگار اس حقیقت کے علمبردار ہیں کہ وہ سماج اور معاشرے میں پھیلنے والی خرابیوں کو ڈھکا چھپا کر پیش کرنے کے علمبردار ہوتے ہیں۔ وہ کڑوی حقیقت کو پیش کرنے کے معاملے میں پس و پیش کا شکار ہوتے ہیں۔ ترقی پسند ناول نگار اور افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت سے وابستہ تخلیق کاروں نے بعض کریہہ حقیقتوں کو بھی تخلیق کا وسیلہ بنا کر بے حجابی کا مظاہرہ کیا۔ آج بھی یہ مسئلہ تصفیہ طلب ہے کہ کس قسم کی حقیقت کو تخلیق کا حصہ بنایا جانا چاہئے اور کونسی حقیقتوں کو نظر انداز کردینا تخلیقی فن کاری کی دلیل ہے۔ اس فیصلے کی طرف توجہ دےئے بغیر دنیا کے تخلیق کاروں نے جس رویے کو اختیار کیا اسی رویے کو ایشیائی ممالک کے تخلیق کاروں نے اختیار کرلیا جس کی وجہ سے ہندوستان میں تخلیقی ادب کو فروغ دینے والے نثر نگاروں پر مقدمہ بھی قائم کیا گیا۔ ان حقائق کے پس منظر میں یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ فطرت انسانی کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ صالح حقیقتوں کو قبول کرتی ہے جبکہ ایسی حقیقتیں جن میں کراہت کا شائبہ ہو‘ اسے قبول کرنے سے فطرت خود انکار کردیتی ہے۔ کسی کے جسم سے خون کا بہنا یا پھر غلاظت کا خارج ہوجانا بھی فطری ضرورت ہے لیکن ان کا تعلق کراہت سے قائم ہوجاتا ہے اس لئے ایسی کریہہ حقیقتوں کی نمائندگی سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ صادقہ نواب سحر کے ناول کی امتیازی خصوصیت یہی ہے کہ انہوں نے اس ناول ’’جس دن سے‘‘ کی تحریر کا منصوبہ بنایا تو کئی موقعوں پر ایسے مرحلے ناول کے درمیان دکھائے دیتے ہیں جہاں حقیقت نگاری کی بنیاد پر عریانیت کو شامل کیا جاسکتا تھا ‘اسی طرح میاں بیوی کے تعلقات اور ناول کے مرکزی کردار کے معاشقے کے دوران بھی حقیقت نگاری کے پس منظر میں عشقیہ مناظر کی پیش کشی ممکن تھی لیکن صالح مزاج کی تخلیق کار ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے صادقہ نواب سحر نے پورے ناول میں عریانیت سے گریز برتا ہے‘ جبکہ ان کے اس سے قبل کے ناول میں کچھ ایسے عوامل بھی دکھائی دیتے ہیں جو حقیقت پسندی کے نام پر کسی حد تک فطرت ہی نہیں بلکہ اخلاق سے دوری کا رویہ پیش کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر انسان عمر کے مختلف مرحلوں سے گذرتے ہوئے اس کے جذبات اور افکار میں تبدیلی کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ صادقہ نواب سحر کے اس ناول سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ ناول اپنی عمر کے پختہ کاری اور تجربے کو اساس بنا کر پیش کیا ہے اس لئے پورے ناول میں کریہہ حقیقتوں یا عریاں مناظر کی نمائندگی سے پرہیز برتا گیا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ انسان اپنی طبعی عمر کو پہنچنے کے بعد خود نتیجہ اخذ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے کہ اسے تخلیق کے دوران کن حقیقتوں کو نمائندگی دینی چاہئے اور کن حقیقتوں سے اجتناب برتا جائے تو تخلیق حسیت کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔ اس طرح ’’جس دن سے‘’ ناول کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صادقہ نواب سحر نے اپنی بالغ نظری اور تجربہ کاری کو پیش نظر رکھ کر اس ناول کی تخلیق کی ہے اس لئے یہ امکانات روشن ہوجاتے ہیں کہ آنے والے دور میں ان کے ناول کسی ازم‘ تحریک اور رحجان کی بے جا تقلید کئے بغیر ناول کی فطری صلاحیت کو پیش کرکے وہ تخلیقی حسیت کی نمائندگی میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔
ہر دور کے تقاضوں کے مطابق نہ صرف اظہار میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے بلکہ فکر اور سوچ کے دھاروں میں بھی فرق پیدا ہونا عصری حسیت کی دلیل ہے۔ کسی بھی زمانے میں کسی تقلیدی رویے کو اختیار کرکے پیش کیا جانے والا ادب نہ تو پسند کیا جاتا ہے اور نہ ایسے ادب کو عصری ادب کے تقاضوں میں شامل کیا جائے گا۔ آج کے دور میں منشی پریم چند اور عبدالحلیم شرر کے علاوہ علامہ راشد الخیری کے انداز کے ناول یا پھر ابن صفی کے جاسوسی ناول کے انداز سے کسی تخلیق کو پیش کیا جائے تو ایسی تخلیق ناکامی کی دلیل بن جائے گی۔ طویل عرصے تک اردو ناولوں اور افسانہ نگاروں نے شعور کی رو کی تکنیک کو کام میں لاتے ہوئے تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کا حق ادا کیا اور اس مثبت رویے کی تائید کی جاتی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے بعد قاضی عبدالستار اور یعقوب یاور چڑیا کوٹی نے اپنے ناولوں کے ذریعہ ہندوستانی تہذیب کے روایتی نقوش کو شعور کی رو کی تکنیک میں پیش کرکے کامیابی حاصل کی لیکن اسی روایت کو مزید مستقبل میں نمائندگی نہیں دی جاسکتی جس کا اندازہ صادقہ نواب سحر کے ناول ’’جس دن سے‘‘ لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے تہذیبی روایات اور تاریخی جواز سے اجتناب برتتے ہوئے عصر حاضر کے ہندوستانی معاشرے کی تصویر کشی کو حقیقت پسندانہ تخلیقی رحجان کا حصہ بنا کر اس ناول کی پیش کشی کی طرف توجہ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ناول اپنے دور کے دوسرے ناول نگاروں کے افکار سے جداگانہ انداز اور اظہار کے معاملے میں منفرد اور قصہ و کہانی کے سلسلے میں مخصوص ایشیائی ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ ثابت کرتا ہے کہ اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہوئے ہندوستانی معاشرہ تیز رفتاری کے ساتھ بے اعتدالی کا شکار ہے۔ خاندانی اقدار ہی شکستہ نہیں ہیں بلکہ اخلاقی اور مذہبی اقدار کو بھی بالائے طاق رکھ کر انسان زندگی گذارنے کو مناسب طرز تصور کررہا ہے بلاشبہ یہ انداز تیز رفتاری کے ساتھ یوروپ سے ترقی کرتا ہوا ہندوستان میں داخل ہوا ہے لیکن خاص بات یہی ہے کہ صادقہ نواب سحر نے اس ناول کے توسط سے حقائق کی نمائندگی کے دوران بھی حد درجے محتاط رویے کو کام میں لاتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کی تحریر سے نہ تو کسی مذہب‘ ذات‘ فرقے‘ قبیلے اور طبقے کو شرمندگی کا احساس نہ ہو‘ بلکہ انسانی زندگی کی حقیقتوں کو موثر نمائندگی کا ذریعہ بنایا جائے۔ غرض صادقہ نواب سحر کا یہ ناول جس قدر ہندوستانی سماج اور معاشرت کی عصری عکاسی کرنے میں کامیاب ہے ‘ اسی قدر مذہب و اخلاق کے ٹوٹتے ہوئے اقدار کی نمائندگی بھی اس ناول کے ذریعے واضح ہوجاتی ہے لیکن تخلیق کار کا کمال یہی ہے کہ وہ اس شکست اور ریخت پر تاسف کا اظہار یا پھر افسردگی کے رویے کو اختیار کرکے کسی رائے کو قاری کے ذہن کا حصہ بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ ناول کے انجام یا اختتام کو قاری کے مزاج کے مطابق چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ خود فیصلہ کرے کہ معاشرے میں پیدا ہونے والی ان خصوصیات کو جاری رکھا جانا چاہئے یا پھر اس کے خاتمہ کی طرف توجہ دی جانی چاہئے۔ غرض صادقہ نواب سحر کا ناول ’’جس دن سے‘‘ نہ تو کوئی علامتی ناول ہے اور نہ ہی اس میں کوئی تجریدی یا آفاقی خصوصیت کو شامل کیا گیا ہے۔ اس ناول میں نہ تو تاریخی واقعات کی گونج سنائی دیتی ہے اور نہ ہی کسی مخصوص تہذیب یا مذہب کے ماننے والوں کا تسلط دکھائی دیتا ہے بلکہ تخلیق کار کا کمال یہی ہے کہ انہوں نے اپنے اطراف کے ہندوستان میں انسانوں کی زندگی کو جس روش کے ساتھ گذرتے ہوئے دیکھا ہے‘ اسی روش کو تخلیق کا اشاریہ بنا کر پیش کردیا ہے اس لئے صادقہ نواب سحر کے اس ناول کو ہندوستانی معاشرے کے اظہار کا وسیلہ اور ان کی تحریر کے امتیاز کی حیثیت سے اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس ناول میں صرف تخلیق کار اور اس کے کردار ہی متاثر نہیں کرتے بلکہ تخلیق کا مطالعہ کرنے والا قاری بھی متاثر ہو کر محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ جس ملک کا باشندہ ہے اس ملک کے معاشرے میں دن بہ دن بگاڑ اپنے عروج کو چھونے لگا ہے۔ اس طرح تخلیق کار نے احساس کو جگانے اور تخلیق کے ذریعہ قاری کی ذہنی وسعت کو فروغ دینے کا کارنامہ انجام دیا ہے‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صادقہ نواب سحر ایک ایسی ناول نگار ہیں جن کی تحریروں میں عصری حسیت کی گونج اور معاشرے میں پیدا ہونے والے تباہ حال معاملات کی نمائندگی ہوتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ تیز رفتاری کے ساتھ ساری دنیا کی انسانیت بھی اسی محور کی طرف گردش کرتی جارہی ہے۔ اس طرح صادقہ نواب سحر کا ناول ’’جس دن سے‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اس معاشرتی ناول کے ذریعہ زبان و بیان اور اظہار کی خوبیوں کے علاوہ فن کی خصوصیات اور تخلیق کی گہرائی و گیرائی کو بھرپور نمائندگی دے کر ناول کے فن کو اکیسویں صدی میں ثابت قدمی کے ساتھ سفر کرنے کا سلیقہ عطا کیا ہے۔ بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اکیسویں صدی کے ناولوں کے موضوعات اور ان کے اظہار کا رویہ اگر متعین ہوجائے تو بلاشبہ صادقہ نواب سحر کے اظہار کو ہی اکیسویں صدی کے ناول کے فن کا رویہ تصور کیا جائے گا۔
—–