اردو کے ادیب اورنثرنگار۔ قسط 1۔ غالب وسرسید ۔ ۔ ۔ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

Mosin نثرنگار
اردو کے ادیب اور نثر نگار
قسط 1

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

نوٹ : مروفیسر محسن عثمانی ندوی عربی کے استاد اور مایہ ناز ادیب ہیں ۔انہوں نے اردو نظم و نثر کے حوالے سے بھی بہت سے مضامین لکھے ہیں ۔ اس سے قبل جہانِ اردو پر ’’میری اردو شاعری کی بیاض‘‘ کی تئیس اقساط شائع کی گئیں جو اردوکے اہم شعرا کے احوال پر مبنی تھیں جسے احباب نے بے حد پسند کیا ۔ اس مرتبہ پروفیسر صاحب نے اردو کے ادیب و نثر نگاروں کے حوالے سے اردو کے اہم نثرنگاروں کا تعارف کروایا ہے ۔ یہ تحقیقی و تنقیدی مضامین نہیں ہیں بلکہ اردو کے عام قاری کے لیے ایک تعارفی مضامین کا سلسلہ ہے ۔ امید کہ احباب کو یہ سلسلہ پسند آے گا ۔

ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد ملک پر انگریزں کا تسلط ہوگیا اور پھر بتدریج وہ وقت آگیا کہ انگریزی زبان ملک میں رائج ہوگئی اور لوگوں نے انگریزی ادبیات کامطالعہ کرنا شروع کیا اور اردو نثر میں نئے طریقہ اظہار کو اختیار کیا گیا اور کئی بڑے نثر نگار اور نقادپیدا ہوئے جنہوں نے انگریزی نثر کی پیروی کی زبان میں سادگی پیدا ہوئی اور پر تکلف اظہار کے طریقوں کو اور مسجع عبارتوں کو ترک گیا گیا ۔ پہلے سرسید نے اردو شعرونثر کو نیا راستہ دکھایا، انہوں نے ادب کی افادیت اور مقصدیت پر زوردیا ، مبالغہ آرائی اور لفاظی اور تصنع اور قافیہ پیمائی سے روکا،وہ خود اچھے نثرنگار تھے انہوں نے سادہ اور سلیس نثر کا نمونہ پیش کیا ، انہوں نے تہذیب الاخلاق کے نام سے اصلاحی رسالہ جاری کیا یہ مجلہ اصلاحی اور سادہ اور سلیس نمونہ تھا اس نمونہ کو بہت سے اہل قلم نے اختیار کیا ، محسن الملک ، چراغ علی‘ الطاف حسین حالی اور شبلی و نذیر احمد اوربہت سے اہل قلم پیدا ہوئے ، انگریزی ادبیات سے استفادہ کے بعد ناول بھی لکھے جانے لگے افسانہ نگاری کو بھی ترقی ملی ، جس کی ابتداء نذیر احمد اور راشد الخیری سے ہوئی ، عبد الحلیم شرر اور مرزا محمد ہادی رسوا کے ناول مقبول ہوئے ،ڈرامہ نگاری کا فن بھی مقبول عام ہوا ،انگریزی ادب کے مطالعہ کے بعد بہت سے نقاد میدان میں آئے جنہوں نے بہت سے نئے تنقیدی تظریات پیش کئے ہر میدان میں اردو زبان میں لکھنے والے بہترین اہل قلم پیدا ہوئے ۔

مرزاغالب (۱۷۹۶ ۔ ۱۸۶۹ )

مرزا غالب جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بڑے نثر نگار بھی تھے ، انہوں نے اردو میں چند کتابوں پر تقریظیں لکھی ہیں اور ان کے علاوہ چند چھوٹی کتابیں بھی لکھی ہیں ، ان کتابوں کی تحریر فسانہء عجائب کی زبان کی طرح مصنوعی قسم کی ہے البتہ انہوں نے اردو میں جو خطوط لکھے ہیں ان سے اردو نثر کی ترقی میں بہت مدد ملی ، غالب کے زمانہ میں فارسی میں خط لکھنے کا رواج تھا ، خود غالب فارسی میں خط لکھا کرتے تھے لیکن بعد میں انہوں نے اردو میں خط وکتابت شروع کی اور جو لکھا قلم برداشتہ لکھا ، ان کا یہ بے تکلف انداز بہت پسند کیا گیا اور خط و کتابت کا انہیں بہت شوق تھا، خود ان کا بیان ہے کہ دن کا زیادہ حصہ خط پڑھنے اور خط کا جواب دینے میں گزرجاتاتھا ، خط کو آدھی ملاقات کہا جاتاہے ، غالب نے ایسا طرز واسلوب ایجاد کیا کہ خط پوری ملاقات بن گیا اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ غالب خط نہیں لکھ رہے ہیں بلکہ سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں ، ایک جگہ بڑے فخر سے کہتے ہیں’’ میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیاہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنادیا ہے ، سو کوس سے بزبان قلم باتیں کیا کرو ، ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو ‘‘ مرزا غالب کا مزاج نرالا تھا ، کسی کی پیروی کو باعث شرم خیال کرتے تھے ، ہر معاملہ میں اپنا راستہ آپ نکالتے تھے ، ان کے عہد میں مراسلہ نگاری کا جو انداز تھا اسے رد کرکے انہوں نے نیا انداز اختیار کیا ، انہوں نے مختصر سے مختصر القاب لکھے ، جیسے بھائی صاحب ، مہاراج ، میری جان ، بندہ پرور اورکسی خط میں بس مکتوب الیہ کا نام لیا اور اپنی بات شروع کردی ، یہ مثالیں ملاحظہ کیجئے :
’’ یوسف مرزا ، تجھ کو کیوں کر لکھوں کہ تیرا باپ مرگیا ‘‘
’’ میاں لڑکے ، کہاں پھر رہے ہو ، آؤ بیٹھو ‘‘
’’ ارے کوئی ہے ؟ ذرا یوسف مرزا کو بلائیو ، لو صاحب وہ آئے ‘‘
’’ کبھی مرزا غالب خط لکھنے میں سرے سے القاب نہیں لکھتے خط شروع کردیتے ہیں بلکہ ایک دو جگہ تو یہ بھی کیا کہ آخر میں اپنا نام بھی نہیں لکھا ، صرف یہ لکھ دیا کہ ’’ ہم اپنا نام نہیں لکھتے ، دیکھیں تم پہچان جاتے ہو کہ نہیں ‘‘
خطوط غالب کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان کے ، اپنے اباء و اجداد کے اور خود اپنے مکمل حالات بیان کردئے ہیں ، حد یہ ہے کہ غالب نے ان باتوں کو بھی نہیں چھپایا جنہیں اکثر لوگ چھپاجاتے ہیں مثلا ان خطوں میں غالب کی شراب نوشی کا ذکر موجود ہے ، ایک ڈومنی انھیں چاہتی تھی یہ بات بھی صاف صاف بتادی ، اپنی تنگ دستی اور مہاجن سے قرض لینے کا حال بے کم و کاست لکھ دیا ، یہ خطوط غالب کی مکمل سوانح عمری ہیں ۔
غالب کے زمانہ کی دلی کو دیکھنا ہو تو غالب کے خطوط کی ورق گردانی کیجئے ، غدر کے حالات ، دلی کا اجڑنا ، بے گناہوں کا مرنا یا سزا پانا سب کچھ ان خطوط میں موجود ہے۔ غالب نہایت شگفتہ مزاج تھے ، شوخی اور ظرافت طبیعت میں داخل تھی جبھی تو حالی نے انھیں ’’حیوان ظریف‘‘ کہا ہے ۔ یہ خطوط لطیفوں ، چٹکلوں اور دل چسپ باتوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ غالب نے ان خطوں میں صرف بول چال کی زبان استعمال کی ہے ، جہاں علمی معاملات کا ذکر ہو وہاں انہوں نے علمی زبان کا استعمال کیا ہے ۔

سرسید احمد خان (۱۸۱۷ ۔۱۸۹۸ ء)

سرسید احمد خان انیسویں صدی کے ایک بہت بڑے رہنماہوئے ہیں ، ہندوستانیوں اور خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی میں ان کی تعلیمی اور فکری رہنمائی سے ایک خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی ، وہ قوم جو سستی ، کاہلی اور بے عملی کی بیماری میں مبتلا ہوکر تباہی کے گڑھے میں گرگئی تھی ، سرسید کے جگانے سے جاگی ، ہوش میں آئی ، جہد وعمل پر کمر بستہ ہوئی اور ترقی کے راستہ پر گامزن ہوئی ۔
انھوں نے مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ پر توجہ کی اور جہاں جہاں خرابی نظرآئی اسے دور کرنے کی کوشش کی ، انھوں نے مسلمانوں کو انگریز دشمنی سے بچنے اور کچھ دنوں کے لئے سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا اور مسلمانوں کو مذہب کی اصل روح سے روشناس کروانے کی کوشش کی ۔
سر سید نے اردو شعر و ادب کو بھی ایک نیا راستہ دکھایا ، انھوں نے واضح کردیا کہ شعر و ادب نہ تو بے کاروں کا مشغلہ ہے نہ تو تفریح اور دل لگی کا ذریعہ ہے ، بلکہ یہ زندگی کو سنوارنے اور بہتر بنانے کا آلہ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ انھوں نے ادب کی افادیت اور مقصدیت پر زور دیا ، اردو نثر میں جتنے عیب تھے انھوں نے گن گن کر بتائے ۔ مبالغہ آرائی ، لفاظی ، تصنع اور قافیہ پیمائی اردو نثر کے وہ عیب تھے جن سے سر سید کو نفرت تھی ۔ ان کی خواہش تھی کہ اردو نثر میں وہ صلاحیت پیدا ہوجائے کہ کام کی بات سیدھے سادھے لفظوں میں ادا کی جاسکے ، تاکہ بات مصنف کے دل سے نکلے اور قاری کے دل میں بیٹھ جائے ، وہ خود نثر نگار تھے انھوں نے ایسا کرکے دکھادیا ، ان کی رہنمائی اور تربیت سے بہت سے ایسے ادیب پیدا ہوئے جو سر سید کی طرح وضاحت کے ساتھ مؤثر انداز میں اظہار خیال پر قدرت رکھتے تھے ۔
ایک انگریز ولیم میور نے ’’لائف آف محمد ‘‘کے نام سے سیرت پر ایک کتاب لکھی اور حضور ﷺکے شان میں گستاخی کی سرسید نے کتاب دیکھی تو مضطرب ہوگئے ، تمام اثاثہ فروخت کرکے اور دوستوں سے قرض لے کر انگلستان گئے اور اس کا دندا ن شکن جواب لکھا جو بعد کو اردو میں خطبات احمدیہ کے نام سے شائع ہوا ، یہ کتاب سرسید کے استدلالی انداز بیان کا بہترین نمونہ ہے ،انگلستان ہی میں انہوں نے یہ فیصلہ کیاتھا کہ ہندوستان واپس آکر تہذیب الاخلاق کے نام سے ایک رسالہ جاری کریں گے ،یہ اصلاحی رسالہ جاری ہوا اور اس نے مسلمانوں میں زندگی کی لہر دوڑادی ،اردو نثر کو اس سے خاص طور پر فائدہ پہونچا، اس رسالہ نے مسلمانوں میں بیداری پیدا کی اور اردو نثر کونئی جہت عطا کی ۔اردو نثر پر سرسید کااحسان ہے کہ اس نے نئی زندگی پائی اور نئے اسلوب سے آشنا ہوئی۔

Share
Share
Share