بچوں کے ادب میں سماجی مسائل : – : ڈاکٹرسیّد اسرارالحق سبیلی

Share


بچوں کے ادب میں سماجی مسائل۔

ڈاکٹرسیّد اسرارالحق سبیلی۔
ای میل :
موبائل: 09346651710

ادب اور سماج میں گہراربط و تعلق ہے، ادب سماج کو روشنی عطا کرتا ہے ، جب کہ سماج ادب کو نئی نئی غذا، موضوعات اور عنوانات فراہم کرتا ہے، ادب سماج سے متاثر ہوتا ہے اور سماج کو متاثر بھی کرتا ہے، ادب سماج کی گتھیوں کو سلجھاتا ہے، مسائل کی تہہ تک پہونچتا ہے، مسائل سے نبردآزماہونے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے، مسائل کو حل کرنے کا نیا نیا راستہ بتاتا ہے، ادب کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماج سے آنکھیں نہ پھیرے ، بلکہ مسائل میں گھرے سماج کو حوصلہ بخشے ،انہیں منجدھارسے نکالنے کی تدابیرکرے ۔

اردوکی ادبی تاریخ گواہ ہے کہ ادب نے اپنی ذ مہ داری بخوبی نبھائی ہے، ادب کی ایک اہم صنف یا ادب کا ایک اہم گوشہ بچوں کا ادب ہے، جس طرح بڑے سماج سے متاثر ہوتے ہیں، اسی طرح بچے بھی سماج سے اثرلیتے ہیں، اور رفتہ رفتہ ان میں بھی وہ خصوصیات پیدا ہوتی ہیں جوسماج میں پائی جاتی ہیں ، آج کے بچے کل کو ملک کی لگام تھا میں گے، اگرانہیں سماجی مسائل اوران کے حل سے آگاہ نہیں کیا گیا تو وہ ایک ذمہ دارشہری کا فریضہ انجام نہیں دے سکتے ہیں ۔
بچوں کے ادب کی تاریخ کا مطالعہ کر نے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جہاں ادب اطفال نے بچوں کی تعلیم و تربیت ، کرےئر ، روشن مستقبل ، حب الوطنی ، ذ ہنی تفریح، شخصیت سازی اور اخلاق سازی پر توجہ دی ہے، و ہیں سماجی مسائل اوران کے حل پر بھی تو جہ دی ہے، تاکہ بچے بڑے ہو کر سماجی مسائل سے گھبرانہ جا ئیں ، گرچہ ادب اطفال میں سماجی مسائل کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہے، لیکن بچوں کے ادب سے گہرا شعور اور گہری و ابستگی رکھنے والے شعراء و مصنفین نے اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا ہے، بلکہ بہت خوب صورتی اور فکری و فنیّ بصیرت کے ساتھ سماجی مسائل کو ادب اطفال کے گلد ستہ میں اس طرح گوندھ دیاہے کہ بچے اسے خوشی خوشی ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ، اوراس سے مسرت و بصیر ت حاصل کرتے ہیں۔
جب تک دنیا فطرت پر قائم تھی ، مسائل کا نام و نشان نہیں تھا ، جوں جوں دنیا فطرت سے انحراف اور قدرت کے قانون سے کھلواڑ کرتی گئی، مسائل پیدا ہو تے گئے ، اور آج قانون فطرت سے بغاوت کے نتیجہ میں دنیا مسائل کی آماجگا ہ بنی ہوئی ہے، اور روز افزوں نئے نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں کے قدیم ادبی سرمایہ میں سماجی مسائل کم سے کم نظر آتے ہیں ، آزادی سے پہلے ملک میں جہالت، غریبی ، توہم پرستی ، سما جی اونچ نیچ اور ذات پات کے مسائل تو تھے ہی، آزادی کے بعد ان میں اضافہ ہوتا گیا، آزادی کے بعد ملک میں فرقہ واریت، مذہبی جنون، مذہبی انتہاء پسندی، فسادات، آپسی نفاق، ہتھیار کی دوڑ ، خودکشی ، حق تلفی ، ظلم و ناالصافی ، تہذیبی یلغار، بم دھماکے اور دہشت گردی اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔
ان مسائل کا اثر بچوں کی نفسیات اور دل و دماغ پر پڑرہا ہے، اس لئے بچوں کی بہترین نشوونما اور انہیں ذہنی و جسمانی اعتبار سے توانا رکھنے کے لئے ضروری ہے سماجی مسائل سے متعلق انہیں شعور وآگہی عطا کی جائے ، تاکہ وہ آنے والی زندگی میں ان کے حل کے لئے تیار رہیں ۔
بچوں کے شاعروں اور ادبیوں میں سب سے پہلے ڈاکٹرمظفر حنفی کا نام لینا مناسب ہوگا ، جنھیں بچوں کے ادب سے متعلق تخلیقی ، تحقیقی اور تنقیدی، شعور حاصل ہے، وہ بچوں کو کھیل کھیل اور تفریح میں سماجی مسائل کی طرف اس طرح متوجہ کرتے ہیں کہ بچوں کے معصوم ذہنوں میں خوش گوار ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے، اس طرح کی ان کی نظمیں مندرجہ ذیل ہیں ۔ دنیا اینڈی بینڈی ، میں ذمہ داربنوں گا ، میں اکثر سوچتا ہوں، ہر انسان برابر ہے، اپنے چاروں جانب دیکھو۔
نظم : اینڈی بنیڈ ی میں انہوں نے چنداماما گی جگمگاہٹ اور تاروں کی جھلملاہٹ کے ساتھ بوڑھے بابا کی ڈگ مگ اور بوڑھی ماں کے ہاتھ پسارنے کا ذکر کیا ہے۔ اس دنیا میں کتامخمل سے تن ڈھانپتا ہے، بلی دودھ ملائی کھاتی ہے ، جب کہ ننگی بچی تھرتھر کانپتی ہے اور بھوکے لڑکے ہاتھاپائی کرتے ہیں ، انہوں نے بچوں کو یہ پیغام د یا ہے:
لاغر ہے بیمار ہے دنیا اس کو خوشیوں سے بھرلینا
بے حدنا ہموارہے دنیا بچو! تم سیدھی کرلینا
سماجی ناہمواری ، دولت کی نامناسب تقسم ، افلاس اور فاقہ کشی کے علاوہ سماج میں رشوت خوری ، کالا بازاری ، جھگڑے، چوری ، مہنگائی ، بے روزگاری اور کاہلی کا دور دورہ ہے، وہ بچوں کو ذمہ دار بننے اور کام کرنے کی ترغیب ان کی زبان میں دیتے ہیں :
ہر شعبے میں رشوت خوری بازاروں میں سینہ زوری
دن میں جھگڑے رات میں چوری سب کا باعث ہے بیکا ری
میری بھی ہے ذ مہ داری
حیدرؔ بیابانی موجودہ دور میں بچوں کے سب بڑے شا عرہیں ، انہیں نچوں کا نظیر کہا جاسکتا ہے ، وہ بچوں کی شاعری میں اسی مقام کے مستحق ہیں ، جو مرثیہ میں میرانیس کو حاصل ہے، یوں تو انہوں نے اپنی شاعری میں بچوں کی عام فطرت اور ان کے معصوم احساسات و جذبات کو ہزار ہا اشعار کے سا نچے میں ڈھالا ہے، لیکن ماحولیات سے متعلق شعورو آگہی اور ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے لئے ایک مجموعہ ’’ اطراف‘‘ کے نام سے ترتیب دیا ہے ،ماحولیا تی آلودگی ہمارے سماجی مسائل کا بھی اہم حصہ ہے ، جو سماجی غفلت، بے حسی اور خودغرضی کے نتیجہ میں بڑھتی جا رہی ہے، نظم : ’’کام غلط ‘‘کے عنوان کے تحت حیدر ؔ جی کہتے ہیں :
مئے خوری ، تمباکو نوشی
کام غلط ہے مسٹرجو شی
بیڑی ، سگرٹ اور سگار صحت کے دشمن ہیں یار
شور مچانا ، دھواں اڑانا کام غلط ہیں باز آجانا
ماحولیات کے موضوع پر بچوں کے ایک قد آور شاعر کوثر صدیقی نے بھی ’’ ہریالی ‘‘ کے نام سے نظموں کا ایک مجموعہ ترتیب دیا ہے، جس میں ماحول کو صاف ستھرا رکھنے اور آلودگی مٹانے سے متعلق بڑی پیاری نظمیں ہیں، سگریٹ اور بیٹری بے شمار سماجی اور ماحولیاتی مسائل پیدا کر تے ہیں، اس لئے بچوں کو اس سے دور رکھنا نہایت ضروری ہے، چنا نچہ وہ کہتے ہیں ۔
گھر ہو کہ گھر کے باہر ، اسکول ہو کہ دفتر
تمباکو کے دھوئیں سے آلودہ سارے منظر
سگریٹ کا دھواں بھی ، ہے زہر کے برابر
سگریٹ ہو کہ بڑی ، بچو نہ منھ لگانا
کوثر صدیقی کی ایک اہم کتا ب ہے : ’’ پھول ایک ہی چمن کے ‘‘ جوہندی اور اردو دونوں رسم الخط میں شائع ہوئی ہے، یہ کتاب ملک میں فرقہ واریت اور فسادات جیسے سلگتے مسائل کے خلاف قومی یک جہتی ، رواداری اور اتحاد کا پیغام دیتی ہے، شاعر نے یہ کتاب ۱۹۸۸۔۱۹۸۹ء میں ملک میں فرقہ پرستی کے زہر عام ہو نے سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے، حقیقت یہ ہے، کہ انگریزوں کی آمد کے بعد سے اب تک ملک میں دس ہزار سے زائد فسادات ہو چکے ہیں ، اور ملک میں فرقہ پرستی بہت تیزی سے اپنا پنجہ گاڑ رہی ہے، یہ ملک کا اہم سماجی اور سیاسی مسئلہ ہے، جس پر ملک کے تمام اہل علم، اہل قلم ، دانش ور، مصلح ، مفکر اور قائدین کو سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ غور کر نے اور حل کرنے کی ضرورت ہے، شاعر نے دنگا فساد کی شناخت اور تباہ کاری بہت آسان اور ہلکے پھلکے لفظوں میں بچوں کے ذہن نشیں کرایا ہے:
سب سے بری لڑائی لڑنے میں ہے تباہی
ہے جس جگہ لڑائی دشمن ہیں بھائی بھائی
کھتیوں کو یہ جلادے اجڑے سہاگ اس سے
کردے تباہ بستی کرتی ہے موت سستی
ہو پیار تو مزا ہے
لڑ نے میں کیا رکھا ہے
انہوں نے سماجی مساوات اور عالمی اخوت کا درس دیا ہے اور نفرت سے باز رہے کی تاکید کی ہے :
چھوٹا نہیں ہے کوئی ، کوئی بڑا نہیں ہے
سارا جہاں ہے اچھا ، کوئی برا نہیں ہے
نفرت کسی سے کرنا ، کرنا ، برا کسی کا
ایسا کسی دھرم کے اندر نہیں لکھا ہے
ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر ؔ بچوں کے ایک معبتر شاعر ہیں ، انہوں نے اپنی کتاب، ’’ موتی چور کے لڈو ‘‘ میں بچوں کے لئے بڑی دل چسپ نظمیں لکھی ہیں ، ساتھ ہی انہوں نے ’’ شانتی چاہئے روشنی چاہئے ‘‘ ’’ ہمارے نیتا ‘‘ ، ’’ تکبرّ کا انجام برا ‘‘ وغیرہ نظمیں لکھ کر ملک کے سماجی و سیاسی مسائل ، تعصب ،نفاق، فسادات اور قتل و غارت گری کا نقشہ بھی کھینچا ہے، انہوں نے شانتی اور روشنی کا پرچار کرتے ہوئے نفرتوں کو مٹانے کی ترغیب دی ہے :
آؤ بچو ! یہ اپنے بڑوں سے کہیں
پھول ہیں ، پھول سی زندگی چاہئے
نفرتوں کا اندھیرا گھنا ہوگیا
شانتی چاہئے ، روشنی چاہئے
ناگپور کے نامور محقق ، نقاد اور بچوں کے شاعر ڈاکٹر شرف الدین ساحل ملک کی موجودہ حالت دیکھ کر تڑپ جاتے ہیں ، اپنے مجموعۂ شاعری ’’ تازگی‘‘ میں یہ کیا ہو رہا ہے، ‘‘ شہر علم ‘‘ اور ’’ سچائی ‘‘ جیسی نظمیں لکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں :
کرشن اور گوتم کے پیارے و طن میں
گرونانک اور رام کی انجمن میں
تعصب کے شعلے کیوں بھڑک رہے ہیں
تلک اور گاندھی کے دلکشں چمن میں
یہ کہا ہو رہا ہے ، یہ کیا ہو رہا ہے
کہیں زندگی ٹھوکریں کھا رہی ہے
تباہی کہیں جال پھیلا رہی ہے
بھنور میں مر ے ملک کا ہے سفینہ
مگر ناخداؤں کو نیذ آرہی ہے
بچوں کا اہم سماجی مسئلہ بچہ مزدوری ہے شاہیں اقبال نے اپنی نظم : ’’ بچہ مزدور‘‘ میں ایک بد نصیب بچہ کے جذبات کا اظہار اس طر ح کیا ہے :
نہ مکتب میں کسی ٹیچرسے اب میں ڈ انٹ کھاتا ہو ں
نہ مسجد میں مجھے مغرب پڑھانے شام آتی ہے
کہ جب سے آیا ہوں کچی سڑک کو پھاندکر
میں اپنے گا ؤ ں سے
مر ے بچپن کو گروی رکھ لیا ہے شہر والوں نے
( سورج اچھا بچہ ہے، مرتب ، فرحان حنیف وارثی )
حا فظ امجد حسین امجد کر نا ٹکی نے بچوں کے ادب میں سخن کا دریا بہا دیا ہے، اور نظم و نثر میں تقریباً سو کتابیں لکھ ڈالی ہیں ، انہوں نے رباعیات حا فظ حصۂ اول اور حصۂ دوم میں کئی سماجی مسائل پر اظہار خیال کیا ہے، انہوں نے ملک میں رشوت کا چلن ، لالچ ، ناانصافی، بے گاری اور دولت پر ستی پر فکر و دردمندی کا اظہار کیا ہے:
رشوت کا طلب گار ہے ہر فرد و بشر لا لچ میں گرفتار ہے ہر فرد و بشر
مفقود ہے محنت سے کمانے کی لگن دولت کا پرستار ہے ہر فرد و بشر
معصوموں کی قسمت میں نہیں ہے انصاف منصف کی طبعیت میں نہیں ہے انصاف
رشوت ہے جہاں تم اسے پاؤگے وہاں اب کوئی عدالت میں نہیں ہے انصاف
انہوں نے اہل مغرب کی عیاری و مکاّری ، منافقت اور دہشت گردی کو اس طرح بے نقاب کیا ہے :
د ہشت کے طرف دار ہیں مغرب والے عیار ہیں مکاّر ہیں مغرب و الے
ہر ملک کو سامان اجل بیچتے ہیں لاشوں کے خریدار ہیں مغرب والے
اور انہیں دہشت ، شہوت، سیاست اور نفاق کے امام، ہتھیاروں کے بیوپاری اور لاشوں کے خریدار قرار دیا ہے۔
ہتھیاروں کے بیوپاری ہیں دہشت کے امام مغرب کے نمائندے ہیں شہوت کے امام
خود لڑتے نہیں اوروں کو لڑاتے ہیں یہ پھوٹ ، نفاق اور سیاست کے امام
انہوں نے اس رباعی میں مغرب پر بڑا اچھا طنزکیا ہے:
جو امن کے داعی ہیں و ہی جنگ کریں دہشت سے مکنیوں پہ زمیں تنگ کریں
اس عالم فانی کے مہذب انساں شیطان کی سوچوں کو تلک دنگ کریں
حافظ صاحب ایوان سیاست پر ناابلوں، لٹیروں اور غیر سماجی عناصر کے چھاجانے پر ماتم کرتے ہیں ، جو مسائل حل کرنے کے نجائے بے شمار مسائل پیدا کرتے ہیں:
ایوان سیاست پہ لٹیرے چھا ئے صبحیں ہوئیں ناپید اندھیرے چھائے
سورج کے بدن پر ہے سیاہی کا کفن آکاش پہ بادل ہیں گھنیرے چھائے
انہوں نے ملک کی تقسیم سے پیدا ہو نے والے مسائل ، ظلم و ستم اور صدموں کا ذکر بھی کیا ہے :
اس ملک نے تقسیم کے صدمے جھیلے اپنوں کے پرایوں کے جھمیلے جھیلے
ہر دامن و آنچل پہ لہو ہے اس کا اس نے جو ستم جھیلے ہیں کس نے جھیلے
بچوں کے ادب میں کہانیو ں کا سب سے بڑ ا ذخیرہ ہے ، بچوں کے کئی کہانی نو یسوں نے بڑے سلیقے اور دل چسپ انداز میں سماجی مسائل کو شامل کیا ہے، اس سلسلہ میں تسکین زیدی، تمنا مظفر پوری، ادریس صدیقی ، ڈاکٹرانور ادیب، اسداریب ، کرن شبنم ، سیدضیاء الرحمن غوثی ، عابدعلی خاں اور محمد مجیب احمد خاص طورپر قابل ذکر ہیں ۔
تسکین زیدی کی کہانیاں حقیقت کا پرتو لئے ہوتی ہیں ، انہوں نے اپنی بعض کہانیوں میں سماجی اونچ نیچ ، ظلم واستحصال ، بچہ مزدوری جیسے مسائل کو خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے، جیسے : رام راج کو روک لو ، پیار بھری آواز اور شرافت کا انجام و غیرہ۔
کمال ایک یتیم، ذہین اور سنجیدہ لڑکا تھا، کلاس میں مال داروں کے بچے اس کی غربت کا مذاق اڑاتے تھے ، اسے ستاتے تھے ایک دن دولت مند گھرانہ کا لڑکا راجیش نے شرارت کرتے ہوئے کلاس کی کرسی توڑدی ، اور بے قصور کمال پر کرسی توڑنے کا الزام لگادیا۔ ماسٹر صاحب نے کمال پر جرمانہ عائد کردیا، کمال کو رونا آگیا، اس کی ہچکی بندھ گئی ، راجیش کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ، اس کو رات بھر نیند نہیں آئی ، وہ رات بھر روتا رہا، اس نے اپنی امی سے سارا واقعہ بیان کیا، اس کی امی نے صبح جاکر اپنی طرف سے کمال کا جرمانہ ادا کیا ، اسی طرح رامو بھی ایک یتیم غریب لڑکا تھا ، جو اپنی بیمار ماں کی وجہ سے لکھن کی چائے کی دکان پر کام کرتا تھا، لکھن رامو پر بڑی سختی کرتا تھا ، گلاس ٹوٹنے پر اس کی پٹائی کرتا تھا ، لیبر آفیسر کے بیٹے اسلم نے لکھن کو اپنے والد سے شکایت کرنے اور جیل بھجوانے کی دھمکی دی، اور نوکروں کو لکھن کے ظلم سے بچا لیا ، ( اور مٹھو اڑ گیا)
نشہ خوری ہمارے سماج کا سنگین مسئلہ ہے، جس کی بنا پر روزانہ کتنے گھر ویران ہورہے ہیں، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہورہی ہیں ، غلط صحبتوں کی وجہ سے یہ لت بچوں اور طالب علموں کو بھی لگ جاتی ہے ، اور ان کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے، ادریس صدیقی نے اپنی دوکتابوں : نئی راہیں‘‘اور ابھی نہیں کبھی نہیں ‘‘ میں نشہ خوری اور تمباکو نو شی کوہی موضوع بنایا ہے۔
’’ گل مرجھا گیا ‘‘ ، ایسے تو نہ تھے ، بھرم ‘‘ اور غلط فہمی ‘‘ ان کی ایسی کہانیاں ہیں جو طالب علموں کو غلط دوستوں کے سا تھ رہنے کی وجہ سے نشے کا عادی بنا کر ان کی زندگیوں کو تباہی سے دو چار کردیتی ہیں ، جب کہ ’’ جل بھانڈ‘‘ ایسے دیہاتی بچے ببحرنگی کی کہانی ہے، جو اپنے نابینا دادا کے حکم پر ہمیشہ فرماں برداری کے سا تھ حقہ تیار کرتا ہے، اور رفتہ رفتہ کم عمری ہی میں نشہ کا عادی ہوکر اتنا کم زور ہوگیا کہ اپنے دادا کی چتا کے گردچکر بھی پو رانہ کرپایا ، وہ چتا کے قر یب زمین پرڈھیر ہو گیا، اور جل بھا نڈ گر کر پھوٹ گیا، بجر نگی نے اپنی بھی چتا کے مکھ اگنی سے قبل جیسے خو د جل بھا نڈ پھو ڑ دیا تھا۔
تمنا مظفر پوری بچوں کے ایک اہم کہانی نگار ہیں ، اور ادب اطفال کے فنی رموز سے و اقف ہیں، ہمارے سما ج میں مو روثی جا ئداد کے لئے جھگڑے عام با ت ہیں، اور اس میں امیرو غریب اور شریف و رذیل سب یکساں طورپر جہالت ہو س، حق تلفی اور بے صبری کا ثبوت د یتے ہیں ، بزرگوں کا جھگڑنا بچوں کے ذہن پر برا اثر ڈالتا ہے، اور بچے جو فطری طورپر نفرت نہیں جا نتے ، بڑوں کی نفرت اور دشمنی دیکھ کر پر یشان ہو جا تے ہیں۔
انہون نے ’’ عقل مند بچے‘‘ میں لکھا ہے کہ اکبر حسین اور اصغرحسین مو روثی حویلی کے ما لک تھے، دونوں بھا ئیوں میں جا ئد اد کے بٹوارے کا تنا زع شر وع ہو گیا، جس کے نتیجہ میں دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے، انہوں نے اپنی اپنی اولاد کو بھی بھا ئی کی اولاد سے ملنے جلنے سے منع کر دیا، بچے ایک سا تھ کھیلنے کو تر س گئے، ان کی کمزوری کا فا ئدہ اٹھا کر دوسرے بد معا ش بچے ان کو ستانے لگے، اکبر حسین کے بڑے بیٹے احمر کو اپنے والداور چچا کی نا اتفاقی بہت بر ی لگتی ، وہ بہت فکر مند ہوگیا، اس نے اپنے چھوٹے بھائی انور سے مشورہ کیا، اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اتوار کو جب بٹوارے کے لئے پنچایت بیٹھے گی توہم دونوں بھا ئی بھی پنچایت کے سامنے اپنے اپنے حصے تقسیم کردینے کی بات ر کھیں گے، اور اپنے چچازاد بھائی مجیب اور شکیب کو بھی ایسا ہی کر نے کہیں گے ، چنانچہ اسکول سے واپس آتے ہوئے احمر نے مجیب اور شکیب کو بھی اس با ت کے لئے تیار کرلیا۔
اتوار کے دن جب پنچایت والے فیصلہ سنانے والے ہی تھے کہ احمر اور انور اپنے والد کے سامنے اور مجیب و شکیب اپنے والد کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے اپنے حصہ کی جائداد تقسیم کردینے کی بات کہنے لگے،کچھ دیر کے لئے پنچایت میں سکتے کا عالم طاری ہوگیا، چندلمحے بعد ایک بزرگ نے کہا، ’’ شاباش بچے ! تم لوگوں کی بات ہمیں بہت اچھی لگی، بلکہ ہم لوگوں کا سر شرم سے جھک گیا، تم نے نہ صرف اپنے والد کو سبق دیا، بلکہ ہم پنچایت والوں کے منہ پر طمانچہ لگایا ہے، ہم لوگ دونوں بھائیوں میں صلح کرانے اور آپس میں مل جل کررہنے کی تلقین کے بجائے بٹوارے کا فیصلہ کرنے لگے تھے، تم لوگ بہت ذہین اور عقل مند بچے ہو ‘‘۔
عابدعلی خاں مالیر کوٹلوی کے بچوں کے افسانوی ادب کا مجموعہ:’’ کو شش ‘‘ نو جو ان بچوں کی بے راہ روی، بے روزگاری اور راتوں رات دولت مند بننے کی خواہش کی اصلاحی کوشش ہے، خشونت سنگھ روزگار کی تلاش میں مارا مارا پھررہا تھا ، اس کا ساتھی مدن اس کی حالت کا استحصال کر کے اسے اپنے سا تھ غیر سماجی سرگرمی میں شامل کرلیتا ہے، خشونت سنگھ اپنی بیمارماں کے علاج ، چھوٹے بھائی کی تعلیم اور خوش حال زندگی کے لئے ریموٹ کنڑول کے ذریعہ سوپر فاسٹ ٹرین میں دھماکہ کردیتا ہے، جس میں خود اس کی ماں اور چھوٹے بھائی سوار تھے، وہ بڑ بڑانے لگتا ہے: ’’ اومیر ے مالک !میں نے جن کو خوشی دینے کے لئے یہ سب کیا تھا، و ہی آج میرے ہاتھوں مارے گئے ۔‘‘(قاتل کو ن ؟) اسی طرح ’’ صبح کا بھولا ‘‘ ، ’’ زندگی‘‘، ’’گناہ، عظیم‘‘ اور ’’ سازش ‘‘ اہم سماجی کہانیاں ہیں ۔
ڈاکٹر انور ادیب آسنسولوی نے اپنے مجموعہ ’’ احسان کا بدلہ ‘‘ کی چند کہانیوں میں سماجی اونچ نیچ اور سماجی نا بر ابر ی جیسے مسائل کو بہت خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے، ان کی کہانی: ’’ دیوار‘‘ اور ’’ فر شتہ‘‘ دو اہم کہانیاں ہیں، ’’ دیو‘‘ میں پر انے زمین دار کنور صاحب کو ہند و مسلم اتحاد ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا، وہ اپنے بیٹے راجیش کو نسیم کے سا تھ دیکھنا بالکل پسند نہیں کرتے تھے، جب کہ راجیش کی والدہ ذات مذہب کے بھید بھاؤ پر یقین نہیں رکھتی تھیں، ایک مرتبہ راجیش درخت سے گرکر بری طرح زخمی ہوگیا، اسے خون کی فوری ضرورت تھی، اس کے گروپ کا خون نہیں مل رہاتھا، ر اجیش کے خون کا گروپ نسیم کے خون سے مل گیا، نسیم کا خون راجیش کے جسم میں منتقل ہوتا دیکھ کر کنور صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، جب کہ ’’ فرشتہ‘‘ میں حامد کی و الدہ غریبوں کو کبھی منہ نہیں لگاتی تھی ، حامد کا پرکاش سے ملنا جلنا اس کی ماں کو بالکل پسند نہیں تھا، اس کی ماں نے اسے غریبوں سے نفرت کرنا سکھایا تھا ، اس نے پرکاش کے بیمار والدکی مدد نہیں کی ، اور اسے دھکے مار کر باہر نکال دیا، اسی بیماری میں اس کے والد چل بسے ، حامد نے اپنی غلط سوچ اور غلط عادتوں کی وجہ سے والدین کی موروثی جائداد دونوں ہاتھوں سے لٹادیا، قلاش ہو نے کے بعد وہ اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے شہر میں مارا مارا پھر رہاتھا کہ ایک کارحادثہ کا شکار ہوگیا، اسے ہسپتال لے جایاگیا، جہاں اسی پرکاش ڈاکٹر نے اسے اپنا دوست سمجھ کر اسے موت کے منھ سے بچایا، جس کے باپ کو حامد نے مر ے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔
کہانی ’’ بڑاآدمی ‘‘ میں رامو موچی کے یتیم بیٹے راجو کو شامونے پڑھا لکھاکر آفیسر بنایا، اس کی شادی ایک افسر کی بیٹی سے ہوئی ، ایک مرتبہ شامو کو راجو کی یادستائی ، وہ اس سے ملنے اس کے شہر گیا، شامو کو دیکھ کر راجو کی بیوی نے کہا : ایسے گھٹیا لوگوں سے ملنے کے لئے تمہیں وقت کیسے ملتا ہے؟ راجو نے اپنے غصہ کو ضبط کر تے ہوئے کہا : ’’شیلا! میں ان ہی کی قربانیوں سے یہاں تک پہونچا ہوں ، یہ غریب ہیں، گھٹیا نہیں ہیں، گھٹیا تو وہ لوگ ہیں جو غریب کو انسان نہیں سمجھتے ‘‘۔
حیدرآباد کے ایک نوجوان ادیب محمد مجیب احمد کی کتاب: ’’نئی صبح ‘‘بچوں کی کہانیوں میں اہم سماجی مسائل کا احاطہ کرتی ہے، ’’ نئی صبح‘‘ اس سر زمین پر ہور ہے ظلم و ستم، حق تلفی، عدم مساوات ، جہالت ، غر بت ، نفرت ، منشیات کی لعنت، بچہ مزدوری ، دہشت گردی ، فاقہ کشی اور ناخواندگی کے خلاف نیا پیام دیتی ہے، ان کی کہانی :’’ مظلوم‘‘ضعیف نابینا سائل پر ہونے والے ظلم کو آشکار کرتی ہے،’’ بھوک‘‘شرابی شخص اور فاقہ کشی کا شکار گھر انہ کہ منہ بولتی تصویر ہے،’’ چبھن ‘‘ سوتیلی ماں کے زہریلے سلوک کا شکار لڑکے شہزاد کی لرزہ خیز داستاں ہے، اسی طرح ’’ بھکاری‘‘ ، اعتراف‘‘ اور ’’ گمر اہی‘‘ وغیرہ سماجی مسائل کی گتھیوں کو سلبھانے والی اہم کہانیاں ہیں۔
بچوں کے ادب میں ناولوں کا بھی ایک اہم حصہ ہے، بچوں کے ناولوں میں بھی سماجی مسائل اٹھائے گئے ہیں، بچوں کے کثیرالتصانیف ناول نگاروکیل نجیب کا ناول : ’’ انسانیت اور دزندگی‘‘ میں سما ج کے حساس مسائل : فرقہ واردانہ فسادات، تعصب اور تنگ نظری کو پیش کیاگیا ہے، ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات میں احمدآباد کا عتیق اور اس کا خاندان کرایہ کے قاتلوں کے ہا تھوں بکھرگیا، بلوائیوں نے عتیق کے والدین اور بھائی کو قتل کردیا، عتیق کو لوہے کے راڈ سے مارکر ٹیومر زدہ کردیا، اس کی بہن کو زبردستی اٹھا لے گئے ، اور عتیق کو دربدر کی ٹھوکریں کھا نے پر مجبور کردیا، وہ احمد آباد سے مالیگاؤں ، بھیو ، ممبئی ، ناگپور اور آکولہ روزگار اور جائے پناہ کے لئے بھٹکتا ہے۔
بچوں کے ڈراموں میں مو من شمشاد کا ڈرامہ ’’ میری آواز سنو‘‘ سماج کے افر اد کی بے حسی ‘ ان کی ہبی و اخلاقی حالت اور ان کے جا ئزو نا جا ئز کا روبار پر روشنی ڈالتا ہے، اور ہماری آنکھیں کھولتا ہے۔ ہمارے سماج میں ایک طرف ’’ مد اری والا‘‘ الٹی سید ھی حر کت اور شعبدہ بازی کر کے پیسے و صول کرتا ہے، تو دوسری طرف ’’ ڈھونگی بابا‘‘ طر ح طرح کے داؤ پیچ کے ذریعہ مذہب کی آڑمیں بھو لے بھا لے افراد کو لوٹتا ہے، تو کوئی شادی کا دفتر قائم کر کے جھو ٹ اور مبالغہ کے ذریعہ اپنا کاروبار چلاتا ہے، ڈ رامہ : ’’ جشن چہلم ‘‘ سما ج کی آنکھیں کھو لنے کے لئے کا فی ہے، غموں کی محفلوں کو ہم نے خو شی کی محفلوں میں تبدیل کردیاہے، اور یہ محفل شادی خانوں میں سبح رہی ہے، اور اس میں یتیم اور بیو اؤں کے پیسوں سے شادی جیسے پکوان تیارکئے جا تے ہیں اور مرد و خواتین عمدہ ملبوسات زیب تن کرکے اس ہی شریک ہو کر ولیمہ کا سا مزا لوٹتے ہیں ۔
ٹائٹل ڈرامہ : ’’ مری آواز سنو ‘‘ سماج کی بے حسی پر آنسو بہانے کے لائق ہے، ایک شخص بلدیہ کا پرانا درخت گرجانے سے دب جاتا ہے، راہ گیر نظریں بچاکر تیزی سے گزرجا تے ہیں ، بلدیہ کا صفائی ملازم اس کو نکالنے کے بجائے اپنے افسر کو اطلاع دیتا ہے، پولیس ملازم اپنے اعلی افسر کو باخبر کرتا ہے، نیتاجی کا چمچہ نیتاجی کو مطلع کرتاہے، نیتاجی بھاشن میں مصروف ہیں، بلدیہ اور پولیس والے فائل تیار کر نے میں لگے ہوئے ہیں کہ بے چارے کی جان چلی جاتی ہے، اس کے منھ سے خون بہنے لگتا ہے، ڈاکٹر فیس کے لئے اسے اپنی کلینک پر طلب کرتا ہے، اب اس کو سرکاری اسپتال لے جایا جاتا ہے، مگر علاج کے لئے نہیں ، بلکہ پوسٹ مارٹم کے لئے ۔
مومن شمشاد کے ڈرامے سماج کے تمام افراد کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہیں ، اور روایتی و تقلیدی طریق کار کو چھوڑ کر اخلاق و ہم دردی اور فکر و شعور سے کام لیتے ہو ئے مثبت انقلاب کی دعوت دیتے ہیں ۔ ( بچوں کا ادب اور اخلاق ۔ ایک تجزیہ : ۱۲۸)
غرض بچوں کا ادب تحریر کرنے والوں نے سماجی مسائل کا احاطہ کیا ہے، اور اس کے مختلف گوشوں کو نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا ہے، بچوں کے پہلے محقق اور ادیب ڈاکٹر خوش حال زیدی کے بقول : مجموعی اعتبار سے ادب کا یہ گو شہ تابناک ، و سیع اور عمیق ہے، اور اسے ہم عالمی ادب کے مقا بلے پر پوری اعتمادی کے سا تھ پیش کر سکتے ہیں۔(اردو میں بچوں کا ادب : ۳۸)
)))(((
مر اجع کتب :
(۱) اردو میں بچوں کا ادب ( ڈاکٹرخوشحال زیدی)
(۲) اردو ادب اطفال کے معما ر ( ڈاکٹر خو شحال زیدی)
(۳) بچوں کا ادب اور ہماری ذ مہ داریاں ( ڈاکٹر امجد حسین کرناٹکی)
(۴) بچوں کا ادب اور اخلاق ۔ ایک تجزیہ ( ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی)
(۵) بچوں کے ادب کی تاریخ ( ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی )
(۶) سہ ماہی مثرگاں کولکاتہ ادب اطفال نمبر( نو شاد مومن)
——-
ڈاکٹرسیّد اسرارالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبۂ اردو
گورنمنٹ ڈگری اینڈپی۔جی کالج سدی پیٹ ، ۵۰۲۱۰۳ ، تلنگانہ
ای میل :
موبائل: 09346651710

Share
Share
Share