حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ
تحقیق و تحریر: ڈاکٹراظہاراحمد گلزار
امامِ الائمہ ، سراج الامہ، آفتاب علم و فضل ، محدث کبیر ، امام المجہتدین ، مینارہ علم و کمال ، جلیل القدر تابعی، فقہِ حنفی کے بانی امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کی ولادت خیر القرون کے زمانے یعنی ۸۰ ہجری میں عراق کے مشہور تاریخی و علمی شہر کوفہ میں ہوئی۔ آپ فارسی النسل تھے۔ آپ کا اسم گرامی نعمانؒ اور آپؒ کے والد ماجد کا اسم گرامی ثابتؒ ہے۔ آپ کے دادا نعمان بن مرزبان کابل کے اعیان و اشراف میں بڑی فہم و فراست کے مالک تھے۔ ’’ابو حنیفہ‘‘ آپ کی کنیت اور امام اعظم امام الائمہ اور سراج الامہ آپ کے مشہور القابات ہیں۔ آپ کی کنیت ابو حنیفہ نے اصل نام سے زیادہ شہرت حاصل کی۔
آپ کے والد ثابتؒ بچپن میں امیر المومنین حضرت علیؓ کی خدمت میں لائے گئے تو حضرت علیؓ نے آپؒ اور آپ کی اولاد کے لیے دُعا فرمائی جو ایسی قبول ہوئی کہ امام ابو حنیفہؒ جیسے عظیم محدث و فقیہ اور خدا ترس انسان کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیدا فرمایا۔ آپؒ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں علم کی تحصیل کے بعد تجارت شروع کی۔ آپؒ ریشمی کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے، لیکن آپؒ کی ذہانت اور فطری نیک بختی کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے جید علماء اور خصوصاً علم حدیث کی معروف شخصیت امام شعبیؒ نے جنہیں متعدد اصحاب رسولؐ کی زیارت کا شرف حاصل ہے ، آپ کو تجارت چھوڑ کر مزید علمی کمال حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔ چناں چہ آپؒ نے امام شعبیؒ کے مشورے پر علم کلام، علم حدیث اور علم فقہ کی طرف توجہ فرمائی اور اپنے وقت کے مشہور فقیہ اور امام حماد بن ابی سلیمانؒ کے درس میں شریک ہوئے اور ان کے شاگرد رشید کہلائے۔ حضرت حمادؒ جلیل القدر صحابی رسولؐ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے فقہی سلسلے اور ان کے علوم کی آخری کڑی تھے۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ حضرت حمادؒ کے خصوصی تربیت یافتہ اور علمی جانشین ثابت ہوئے اور ایسا کمال پیدا کیا کہ مسند ارشاد و اصلاح کو خوب زینت بخشی اور علمی اور عملی دُنیا میں امام اعظم کہلائے۔ آپؒ نے کوفہ، بصرہ اور بغداد کے بے شمار شیوخ و اساتذہ سے علمی استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ حصول علم کے لیے مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور ملک شام کے متعدد سفر کیے۔ امام اعظمؒ ائمہ اربعہ میں واحد امام ہیں جو تابعی ہیں۔ آپ نے اپنی مبارک زندگی میں متعدد صحابہ کرامؓ کی زیارت کی اور ان کی صحبت سے سرفراز ہوئے جو اس وقت حیات تھے۔
تاریخی شواہد اور تحریری ذخیرہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپؒ نے چار صحابہ حضرت انس بن مالکؓ، حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ ، حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہؓ اور حضرت سہیل بن سعد ساعدیؓ کی نہ صرف زیارت کی بلکہ ان سے روایات بھی کیں۔ اس لیے آپ کی روایات میں وحدانیات بھی ہیں ، یعنی وہ حدیث جسے صحابی کے واسطے سے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا گیا ہو۔
*حیات و خدمات ، سیرت و کردار :
امام اعظمؒ کی حیات مبارکہ ہر گوشے کے اعتبار سے قابل تقلید اور اپنی مثال آپ ہے۔ خوش رو، خوش لباس ، نہایت کریم النفس ، گفتگو نہایت شیریں آواز بڑی دل کش اور قادر الکلام بھی تھے۔ پیچیدہ سے پیچیدہ مضمون نہایت صفائی اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ ادا کر سکتے تھے۔ آپ کی عبادت ، زہدو تقویٰ ، جُودو سخا ، علم ، حلم، شب بیداری، عمر مبارک میں سات ہزار مرتبہ ختم قرآن کرنا، رات کی دو نفلوں میں پورا قرآن مجید ختم کرنا ، دن کو علم اور رات کو عبادت میں بسر کرنا۔ غرض آپ کی حیات مبارکہ کے بے شمار گوشے ہیں، جن کا احاطہ و شوار ہے۔ ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ جب آپ کا ذکر کرتے تو کہتے کہ یہ ہے وہ امام جو ایک طرف علم کا سمندر ہے اور ادھر زہد و تقویٰ اور عبادت کا پہاڑ۔
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہی کے ارتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انہی کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انہی کا کام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
*امام اعظم ابو حنیفہؒ کا علمی مقام و مرتبہ:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کے زمانے میں کوئی بھی شخص آپ جیسا علمی مقام و مرتبہ نہیں رکھتاتھا، بلکہ آپؒ کے شاگردوں کے مبلغ علم کو بھی کوئی نہیں پہنچ سکا اور یہ نبی کریم ﷺ کا کھلا معجزہ ہے کہ آپؐ نے مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی بات کی حقیقت پر مبنی خبر دی۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ بلاشبہ مینارہ علم وکمال تھے اور حدیث مبارکہ ’’اللہ تعالیٰ جس شخص کی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے ، اسے دین کی فقاہت اور سمجھ عطا فرما دیتا ہے‘‘ آپ کے ماتھے کا جھومر ہے۔
*شیوخ و تلامذہ:
امام ابوحنیفہؒ کے بہت سے شیوخ و اساتذہ حدیث و فقہ دونوں کے ماہر و یکتا اور سندو روایت کے مرجع عام تھے جن کی ایک نظر ہی طالب علم کو عالم بنا دے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے آپ کے شیوخ کی تعداد چار ہزار کے قریب بتائی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی آپ کے تلامذہ کی بابت فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں کا احاطہ دشوار ہے۔ تاہم ان میں مشہور و معروف قاضی امام ابو یوسفؒ ، امام محمدؒ ، حماد بن ابوحنیفہؒ ، عبداللہ بن مبارکؒ ، امام زفرؒ ، امام حس بن زیادؒ ، لیث بن سعدؒ ، مکی بن ابراہیمؒ ، فضیل بن عیاضؒ ، مسعر بن کدامؒ اور دواؤد طائیؒ وغیرہ شامل ہیں۔
*امام اعظم ابو حنیفہؒ اور علم حدیث:
امام اعظم ؒ فقہ اسلامی کے ساتھ ساتھ حدیث نبویؒ کے تمام سرچشموں سے سیراب اور فیض یاب تھے۔ آپ علم حدیث میں گویا امامت کے رتبے پر فائز ہیں۔ آپؒ حدیث کی روایت میں بہت زیادہ احتیاط کرتے تھے اور قبول حدیث کے متعلق آپ کی شرائط بہت سخت ہیں جس کا اعتراف دیگر محدیثین نے بھی کیا ہے اس کے علاوہ سارا عالم آپ کے مجتہد مطلق ہونے کو تسلیم کرتا ہے اور یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ امام اعظمؒ فقہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اتنا بڑا فقیہ یقیناًآیات و احادیث سے مسائل و احکام کے استنباط میں ہمیشہ مشغول رہا ہو گا جس کی وجہ سے ان کی روایات حدیث کم ہیں لیکن اتنی بھی کم نہیں ہیں کہ انہیں کوئی اہمیت ہی نہ دی جائے۔ آپؒ نے تقریباً چار ہزار کے قریب احادیث روایت کی ہیں اور یہ ذخیرہ حدیث تھوڑا نہیں بلکہ بہت ہے جن میں سے دو ہزار احادیث آپؒ نے اپنے استاد حماد بن ابی سلیمانؒ اور باقی دو ہزار دیگر محدیثین سے روایت کی ہیں۔ اس کا ثبوت امام اعظمؒ کی مسانید سے کیا جا سکتا ہے جو ان کے شاگردوں نے جمع کیں۔ ان مسانید کی تعداد ۲۱ سے ۲۵ تک بیان کی جاتی ہے۔ آپؒ ائمہ اربعہ میں پہلے امام ہیں جنہوں نے علم حدیث کو باقاعدہ فقہی ترتیب سے مرتب کیا اور امام مالکؒ نے موطا میں آپؒ کی ہی پیروی کی۔
*امام اعظمؒ اور فقہِ اسلامی:
امام اعظمؒ کا ملت اسلامیہ پر یہ احسان عظیم ہے کہ آپ نے سب سے پہلے فقہ کو مرتب کیا اور فقہ اسلامی میں آپؒ کو جو مقام حاصل ہوا ، وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ آپ نے فقہ اسلامی کی ترتیب و تدوین میں جو عظیم الشان اور قابل فخر خدمات انجام دیں وہ محتاج بیان نہیں۔
آپؒ نے فقہ کی تدوین کے لیے ایک مجلس علمی یا مجلس شوریٰ ترتیب دی جو چالیس نام ور علماء پر مشتمل تھی۔ جس میں آپؒ نے اپنے ہزاروں شاگردوں میں سے چالیس ماہر فن منتخب فرمائے اور یہ سب وہ تھے جو درجہ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے اور پھر ایک خصوصی مجلس بھی قائم تھی جو عمومی مجلس کے کام کو دوبارہ جانچتی۔ اس خصوصی مجلس کے اراکین میں امام ابو یوسفؒ ، امام محمدؒ ، داؤد طائیؒ ، امام زفرؒ ، یحییٰ بن زائدہؒ ، حضرت فضیل بن عیاضؒ ، عبداللہ بن مبارکؒ وغیرہ اور خود امام اعظمؒ زیادہ ممتاز ہیں۔ کوئی بھی حل طلب مسئلہ جب مجلس کے سامنے پیش کیا جاتا تو طویل غوروخوض اور بحث کے بعد اس مسئلے کے متعلق رائے دی جاتی۔ امام اعظمؒ آخر میں اپنی رائے کا اظہار فرماتے۔ تمام اراکین کے متفق ہونے کی صورت میں اسے احاطۂ تحریر میں لایا جاتا۔ بعض دفعہ آپ کے شاگرد آپؒ کی رائے سے اختلاف بھی کرتے اور اپنی رائے پر قائم رہتے۔ آپؒ اس اختلاف کو بھی تحریر کرنے کا حکم دیتے اور یوں اختلافی آراء بھی تحریر کر دی جاتیں۔ فقہ کی کتب میں امام اعظمؒ اورآپ کے شاگردوں کا اختلاف ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ امام اعظمؒ اور ان کے چالیس رفقاء نے دن رات کی انتھک محنت کے بعد تقریباً ۲۲ سال کی مدت میں اسلامی قانون یعنی فقہ اسلامی کو مدون مرتب کیا ، اس کی ترتیب کچھ اس طرح تھی۔ (۱) باب الطہارت (۲) باب الصلوٰۃ (۳) عبادات (۴) معاملات (۵) میراث۔ آج بھی فقہ حنفی کی کتب اسی ترتیب پر ہیں۔ تیار شدہ مجموعے میں امام موفق کے مطابق آپؒ نے تراسی ہزار مسائل لکھے تھے جن میں سے اڑتیس ہزار عبادات اور پینتالیس ہزار معاملات کے موضوع پر تھے اور اسی مجموعے میں امام اعظمؒ کے ساٹھ ہزار فقہی اقوال ہیں۔ امام اعظمؒ کلمۂ حق / حق بات کہنے میں کبھی اور کسی کے بھی سامنے کہہ دینے سے خوف محسوس نہیں کرتے تھے۔ چاہے اس کی کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ آپؒ کی پوری زندگی عزیمت کی انہی داستانوں سے عبارت ہے۔ آپؒ نے کبھی کسی سے کوئی مالی اعانت یا عہدہ قبول نہیں کیا ، بلکہ اپنی گزر بسر اور دوسروں کی کفالت تجارت سے کیا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپؒ کو جب بھی کوئی عہدہ پیش کیا گیا تو آپ نے انکار کر دیا۔ جیسا کہ آخری دور اموی میں کوفہ کے حاکم ابن ہبیرہ نے آپؒ کو قاضی القضاۃ یعنی چیف جسٹس کا عہدہ پیش کیا جسے آپؒ نے قبول نہیں کیا، آپ کے انکار پر آپ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کوڑے لگوائے گئے۔ اس طرح عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور نے بھی اپنے دور حکومت میں آپ کو’’ قاضی القضاۃ‘‘ بنانا چاہا مگر آپ کے صریح انکار پر آپ کو ۱۴۶ ہجری میں قید کر دیا گیا۔ آپؒ نے قاضی القضاۃ کے عہدے اس لیے قبول نہیں کیے کہ خلیفۂ وقت اپنی مرضی کے مطابق قرآن سنت کے منافی کوئی فیصلہ نہ کرا سکے۔ اس لیے آپ نے ان کی حکومت کا حصہ بننا کسی درجے میں بھی پسند نہ کیا۔ بقول اقبالؒ
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بُوئے اسدؒ اللّٰہی
آئینِ جوانمرداں حق گوئی و بیباکی
علمی بصیرت اور فقہی مقام:
نعمان بن ثابت ، امام اعظم ابو حنیفہؒ کا شمار اسلام کی ان شخصیتوں میں ہوتا ہے ۔ جن کا اسم گرامی تا قیامت آفتاب و ماہتاب کی طرح جگمگاتا رہے گا۔ آپ تاریخ اسلام کے وہ جلیل القدر فرزند ہیں جن کے متعلق حضور نبی اکرم ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام کے حقیقت پسندانہ اور عادلانہ اصول و قوانین نے نہ صرف عرب کے صحرا نشینوں کو متاثر کیا ۔ بلکہ قیصرو کسریٰ کے اساطین کو بھی اپنا حلقہ بگوش بنا لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کرۂ ارض پر سب سے بڑی اسلامی ریاست قائم ہو گئی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حالات و زمانہ انسان کے فطری میلان و رجحان میں تبدیلی پیدا کرتے رہتے ہیں ، اس لیے جدید مسائل کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ امام الانبیاء ، حضرت محمد مصطفی ﷺ کی رحلت کے بعد صحابہ کرامؓ نے ان مسائل کا حل کتاب و سنت ، اجماع اور قیاس سے پیش کیا۔ جن صحابہ کرامؓ نے اس خدمت کو اپنا روز و شب کا معمول اور وظیفہ بنایا ان میں امیر المومنین حضرت علیؓ ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سر فہرست ہیں۔ عہد صحابہؓ کے بعد جن لوگوں نے بدلتے حالات اور زمانے کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے اسلام کے آفاقی پہلوؤں پر کام کیا ان کے سرتاج و سرخیل امام اعظم نعمان ثابت ابوحنیفہؒ ہیں۔ آپ تابعین میں پہلی صدی ہجری کی وہ نابغۂ روزگار ہستی ہیں جنہوں نے جدید پیش آنے والے مسائل کا حل اسلام کے اصول و قوانین کی روشنی میں ایسے عمدہ اور یگانہ انداز میں پیش کیا کہ آج تقریباً چودہ سو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان سے بہتر حل ممکن نہیں۔ حضرت امام شافعیؒ ، امام مالکؒ ، امام احمد حنبلؒ اور دیگر ائمہ کرام اپنے فضل و کمال کے باوجود امام اعظمؒ کے خوشہ چیں رہے، بلکہ امام شافعیؒ کو واضح الفاظ میں اعلان کرنا پڑا کہ ہر فقہ حاصل کرنے والا امام اعظمؒ کا خوشہ چیں ہے۔ آپ کے ہم عصر ایک دوسرے شامی فقیہہ امام اوزاعیؒ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ امام ابو حنیفہؒ پیچیدہ اور مشکل مسائل کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں ۔ امام اعظمؒ کی دینی بصیرت اور علمی عظمت محدیثین اور فقہا کے نزدیک مسلم ہے۔ حضرت امام اعظمؒ نے علم کی دو بڑی درس گاہوں مکی اور مدنی سے بھی خوب استفادہ کیا۔ امام ابو حنیفہؒ کی دوربین اور دو ر اندیش نظر و فکر اسلام کی آفاقیت پر مرکوز تھی۔ امام اعظمؒ چوں کہ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے ، مختلف شہروں اور ملکوں میں کاروبار تھا، عام لوگوں سے میل ملاقات کے مواقع فراہم تھے اس لیے عام لوگوں کی روش اور ضروریات سے خوب واقف تھے ، مجہتد فیہ مسائل میں عوامی روش اور ضرورت کو پیش نظر رکھتے تھے۔ لوگوں کے فطری مزاج کے موافق فیصلے دیتے تھے، اس طرح امام اعظمؒ کی فقہ مقبولیت عامہ حاصل کرتی گئی۔
*فقہ حنفی کی مجلس مشاورت:
امام ابوحنیفہؒ کے یہاں مسائل کے استنباط کے لیے ایک مجلس مشاورت (بورڈ) تھے۔ مجلس کے سامنے مسئلہ پیش ہوتا۔ بعض اوقات ہفتوں بحث ہوتی۔ اکثر اراکین آپ کے تلامذہ ہوتے۔ طویل بحث کے بعد جس قول پر سب کی رائے متفق ہو جاتی اس کے بعد امام ابو یوسفؒ سے اصول میں درج کر دیتے، یہاں تک کہ تمام اصول انہوں نے منضبط کر دیے۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ اپنے تلامذہ کی باقاعدہ فکری تربیت اور رہنمائی بھی کرتے تھے۔ ان کی اس تربیت کا اثر یہ ہوا کہ فقہاء کی ایک جماعت تیار ہو گئی جو کہ مختلف اسلامی شہروں میں پھیل گئی ، اس طرح فقہ حنفی کو پختہ اور آزمودہ کار دماغ مل گئے، جس سے اس کی حیثیت ومنزلت کو چار چاند لگ گئے۔ امام اعظمؒ کی مجلس مشاورت کے اراکین یہ تھے۔حضرت امام یوسفؒ ، امام زفرؒ ، داؤد طائیؒ ، اسد بن عمرؒ و عافیہؒ ، قاسمؒ ، علی بن مسہرؒ ، ان کے علاوہ کوفہ کے ہم عصر فقہا بھی شرکت کرتے تھے۔ فقہ حنفی کی مقبولیتِ عامہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان ائمہ کے مختلف اذہان سے جب ایک مسئلہ منتج ہو کر نکلتا تو اس کی حیثیت فرد واحد کی سوچ اور فکر سے مختلف ہوتی تھی۔ قرآن حکیم میں ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کی وسعت سے زیادہ احکام کا باران پر نہیں ڈالا، بلکہ اس حکیم مطلق کا تو یہ ارشاد ہے ’’ وہ انسانوں کے لیے تنگی اور عسرت کو نہیں، بلکہ آسانی کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘
حضرت امام اعظم ؒ کے نزدیک ایک بالغ عورت اپنے نکاح کی خودمختار ہے ، لیکن امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک عورت بالغ ہونے کے باوجود اپنے نکاح میں مختار نہیں، بلکہ ولی کی محتاج ہے اور ولی کو یہ اختیار ہے کہ وہ زبردستی جس سے چاہے نکاح کرا دے۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ نے صنفِ نازک کے بارے میں قرآن حکیم کے اصول مساوات کو پیش نظر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی میں نکاح، طلاق و دیگر بہت سے مسائل میں عورتوں کی شہادت کو مردوں کی شہادت کی طرح معتبر قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ امام شافعیؒ کے نزدیک چار عورتوں سے کم کی گواہی مقبول نہیں۔ فقہ حنفی میں ایسی بے شمار خوبیاں ہیں ، جن کی وجہ سے یہ باقی فقہوں پر ایک خاص امتیاز اور فوقیت رکھتا ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ کے نزدیک قصداً تاریک الصلوٰۃ کافر نہیں، بعض دیگر ائمہ مثلاً امام احمد بن حنبلؒ ، امام نخعیؒ اور بعض دیگر ائمہ کے نزدیک وہ کافر ہے ۔ فقہ حنفی میں وسعت اور آسانی کی بناء پر اس کے ماننے والے پوری دُنیا میں اکثریت کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے متاخرینِ احناف کا مسلک یہ ہے کہ بعض اوقات بصورت ضرورت دوسرے ائمہ کے مذہب پر فتویٰ جائز ہے۔
امام اعظمؒ کے نزدیک ذمّی (اسلامی ریاست کا غیر مسلم شہری ) کا خون مسلمان کے خون کے برابر ہے۔ یعنی اگر کوئی مسلمان کسی ذمّی کو عمداً قتل کر دے تو مسلمان اس ذمّی کے بدلے قتل کیا جائے گا، نیز ذمّی ، مسلمان کی طرح تجارت میں آزاد ہے، کوئی بھی تجارت کو اپنا سکتا ہے، اسی طرح اس سے ٹیکس لیا جائے گا جس طرح مسلمانوں سے لیا جاتا ہے۔ ذمیوں کے معاملات کے ان کی شریعت کے مطابق فیصلے کیے جائیں گے اور ذمیوں کی شہادت ان کے باہمی معاملات میں مقبول ہو گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ فقہ حنفی میں ان کے ساتھ بڑی فیاضی کا معاملہ ہے۔ چنانچہ اس مسئلے میں کہ جرم کی پاداش میں ذمیوں سے عہد ختم کیا جا سکتا ہے۔ امام اعظمؒ فرماتے ہیں کہ صرف اس صورت میں ان سے عہد ختم کیا جا سکتا ہے، جب ان کے پاس جمعیت ہو اور اسے وہ اسلامی حکومت کے مقابلے میں لے آئیں صرف یہی ایک صورت ہے، جس سے ذمیوں کا عہد ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر کسی نے جزیہ نہ ادا کیا، مسلمان عورت سے زنا کا ارتکاب کیا، کافروں کے لیے جاسوسی کی ، مسلمان کو کفر کی ترغیب دی یا اللہ اور اس کے رسولؐ کی بے ادبی کی ان صورتوں میں وہ سزا کا مستحق ہو گا۔ سالانہ صرف ایک مرتبہ اس پر تجارتی ٹیکس لاگو ہو گا جب کہ باقی فقہوں میں ذمیوں کو یہ آسانیاں میسر نہیں۔
امام اعظم ابوحنیفہؒ کی پر مغزعلمی اور فکری شخصیت نے مستقبل کے مسائل کو بھانپ کر اپنی حیات ہی میں ایک مجموعۂ قوانین مرتب کر لیا تھا، جس میں عبادات کے علاوہ دیوانی ، فوج داری، تعزیرات، لگان، مال گزاری، شہادت ، معاہدات، وراثت و وصیت اور بہت سے قوانین موجود تھے۔ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ اس مجموعے کے مسائل کی تعداد ۱۲ لاکھ سے زیادہ تھی۔ عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دور اقتدار میں اسلامی حکومت ایشیائے کوچک سے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی اور اس میں فقہ حنفی اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ نافذ و جاری تھا۔ اسی طرح خلافتِ عثمانیہ اور ہندوستان کی مغلیہ حکومت میں بھی فقہ حنفی ملکی قانون کے طور پر رائج تھا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عرب ، عراق ، شام، مصر، لیبیا،ترکستان، ایران، ماوراء النہر، افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں کئی سال تک فقہ حنفی ملکی قانون کے طور جاری رہی اور یہ اعزاز فقہ حنفی کو حاصل ہے۔
عزیمت و استقامت کے پیکر:
فقہ اسلامی کے مشہور سلسلوں میں امام ابو حنیفہؒ کو یہ اعزاز اور امتیاز حاصل ہے کہ آپ تابعیت کے شرف سے سرفراز ہیں۔ چنانچہ نامور مورخ اور محدث علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے صحابی رسولؐ حضرت انسؓ کو کئی مرتبہ دیکھا اور اُن سے حدیثیں سنیں۔ا س طرح گویا امام ابوحنیفہؒ نبی اکرم ﷺ کے ایک واسطے سے شاگرد ہیں اور تابعی بھی۔ فقہی مکاتب کے ائمہ مثلاً امام مالکؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، امام شافعیؒ آپ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ امام شافعیؒ تو یہاں تک کہ جب وہ آپ کی قبر مبارک پر حاضر ہوئے ، تو انہوں نے رفع یدین نہیں کیا، کسی کے سوال پر جواب دیا کہ ان (امام ابوحنیفہؒ ) نے اتنی دین کی خدمت کی ہے کہ مجھے حیا آتی ہے کہ ان کے پاس آ کر میں اپنی فقہ پر عمل کروں ۔ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کے سامنے امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے تو انہوں نے فرمایا کہ تو ہلاک و برباد ہو تو ایسے شخص کے بارے میں بکواس کرتا ہے جس نے سالوں تک پانچ نمازیں ایک وضو سے پڑھیں، میرے پاس جو بھی علم ہے ، یہ انہی سے سیکھا ہوا ہے۔ امام اعظمؒ نے پچپن حج کیے خوف کا یہ عالم تھا کہ اسد بن عمروؒ فرماتے ہیں کہ آپؒ کا رات کو رونا دور تک سنائی دیتا تھا ۔ حضرت ابوالاحوصؒ فرماتے ہیں کہ اگر امام ابوحنیفہؒ سے یہ کہا جاتا کہ آپ تین دن بعد وفات پا جائیں گے تو بھی آپ کی عبادت میں کوئی فرق نہ آتا۔ کیوں کہ آپ پہلے ہی اتنی عبادت کرتے تھے جتنی آپ کے بس میں ہوتی۔ غرض اللہ نے جو مقام امام اعظمؒ کو زندگی میں دیا وہی مقام انکی وفات کے بعد بھی برقرار رکھا۔ قاضی ابویوسفؒ فرماتے تھے کہ ہمارے استاد امام ابوحنیفہؒ روزانہ ایک قرآن ختم فرماتے تھے اور رمضان میں عید کے دن تک ۶۲ قرآن ختم فرماتے تھے۔ شیخ مکی ابن ابراہیمؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہؒ سے زیادہ زُہد و تقویٰ، پرہیز گاری میں کسی کو نہ پایا۔ روایت کے مطابق ایک شخص جو امام ابوحنیفہؒ سے بغض رکھتا تھا۔ اس نے آ کر امام صاحب سے سوال کیا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہیں گے ، جس کی صفات یہ ہوں *وہ جنت کا طالب نہیں *جہنم سے نہیں ڈرتا *خدا کا اُسے خوف نہیں * مردار کھاتا ہے *حق سے بغض رکھتا ہے *فتنے سے محبت کرتا ہے *اللہ کی رحمت سے بھاگتا ہے *یہود و نصاریٰ کی تصدیق کرتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے اُس سے پوچھا کہ تم اُس شخص کو جانتے ہو، اس نے کہا، نہیں، مگر میں اس سے زیادہ کسی کو برا نہیں مانتا ، اس لیے آپ سے پوچھتا ہوں ، پھر امام صاحب نے اپنے شاگردوں سے پوچھا تو سب نے جواب دیا کہ یہ کافروں کی صفات ہیں مگر امام ابوحنیفہؒ مسکرائے اور فرمایا: وہ رب سے جنت کا طالب ہے۔ اُسے اللہ سے خوف نہیں کہ وہ اُس پر ظلم کرے گا۔ مُردار سے مراد وہ مچھلی کھاتا ہے۔ جنازے کی نماز پڑھتا ہے اور حضور پاک ﷺ پر درود بھیجتا ہے ۔ اس لیے کہ درود کو صلوٰۃ کہتے ہیں۔ بن دیکھے گواہی کا مطلب وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ موت برحق ہے، اس سے بغض رکھتا ہے تاکہ مزید اللہ کی عبادت کرے۔ فتنے سے مراد مال و اولاد ہے۔ بارش رحمت ہے اس سے بھاگتا ہے ۔ یہود کے اس قول کی تصدیق کرتا ہے کہ نصاریٰ جھوٹے ہیں اور نصاریٰ کی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہودی جھوٹے ہیں۔ اس قسم کے ہزاروں واقعات ہیں جو امام ابوحنیفہؒ کی فہم و فراست اور حاضر جوابی پر دلالت کرتے ہیں۔ آپ حق گوئی و بے باکی میں بلند مقام رکھتے تھے۔ عزیمت و استقامت کے پیکر تھے۔ امام ابوحنیفہؒ کی وفات کا سبب یہ ہوا کہ خلیفۂ وقت نے آپ کو عہدۂ قضا کی پیش کش کی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ تمام قاضی آپ کے ماتحت ہوں گے ۔ آپ کے انکار پر خلیفۂ وقت نے قسم کھائی کہ اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو آپ کو قید کر کے سخت اذیت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ بالآخر خلیفہ کے حکم نہ ماننے پر منادی کرا دی گئی کہ روزانہ آپ کو دس کوڑے لگائے جائیں ۔ آخر اس اثر سے آپ کی وفات ہوئی۔ دوسرا سبب مورخین نے یہ بیان کیا ہے کہ آپ کو زہر دیا گیا تھا۔علوم نبیؐ کا یہ امین ، فقہ ، زہد، دیانت ، فراست کا امام قیامت تک کے لیے اُمت محمدیؐ کے لیے علم کا ایک بہت بڑا ذخیرہ چھوڑ کر دُنیائے فانی سے رخصت ہوا۔جب آپ کی وفات ہوئی تو قاضی بغداد حضرت حسن بن عمارہ نے آپ کو غسل دیا۔آپ کی نمازِ جنازہ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ کل چھ مرتبہ آپ کی نماز جنازہ ہوئی۔ آخری مرتبہ آپ کے بیٹے حمادؒ نے نماز پڑھائی۔ امام ابوحنیفہؒ نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے خیرزان نامی قبرستان کے مشرقی کونے میں دفن کیا جائے۔ جب امام ابوحنیفہؒ کی تدفین ہو چکی تو یہ آواز تین دن تک سنی گئی کہ’’ فقہ جاتی رہی، خدا سے ڈرو۔نعمانؒ فوت ہو گیا۔ اب کون ہے جوراتوں کو عبادت کرے گا ، اس وقت جب کہ اندھیرا چھا جائے گا۔ ‘‘
امام ابو حنیفہؒ کی فہم و فراست :
یحییٰ ہمانیؒ نے فرمایا: ایک سال تک امام ابوحنیفہؒ کی خدمت میں رہا ہمیشہ انہیں دن میں روزے دار اور رات میں قیام اللیل میں مصروف پایا۔ غیر کامال کبھی ان کے پیٹ میں نہ جاتا ، اوّل رات کے وضو سے برابر فجر کی نماز ادا کرتے تھے اور صبح صادق تک ایک قرآن مجید ختم کرلیتے تھے ۔ صبح صادق کے بعد دو رکعت ادا کرتے ساری رات عبادت میں گزار دیتے تھے۔ انہوں نے پچپن حج ادا کیے۔
ابوالمؤید خوارزیؒ نے امام ابوحنیفہؒ کے متعلق کہا : نعمان بن ثابتؒ نے سارے علوم کو آزمایا، یہاں تک کہ وہ علوم کے پہاڑوں سے اونچے ہو گئے، پھر ان سارے علوم میں علم فقہ تک جا پہنچے جو بڑی گہرائیوں میں تھا اور مخصوص لوگوں کے پاس تھا۔ ان کی اعلیٰ فطرت نے ان کی راہ نمائی کی ، حماد بن ابی سلیمان ؒ تک ، پھر وہ ان کے علوم کو جمع کر کے فتوے دینے لگے، تھوڑے ہی زمانے میں ان کی فقہ کے سبب ایسے مقام پر فائز ہوئے جس نے حاسدوں کے حوصلے پست کر دیے۔ گمراہ فرقوں نے بھی ہدایت کے لیے ان کے لیے ان کی طرف اپنی سواریاں دوڑائیں امام ابوحنیفہؒ نے انہیں بھی راہ ہدایت دکھائی۔
سہل بن سالم انصاریؒ نے بیان کیا کہ امام ابوحنیفہؒ کے ایک پڑوسی کامور چوری ہو گیا۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا مور چوری ہو گیا ہے ۔ امام صاحب نے فرمایا کہ خاموش رہو اور اس کا تذکرہ کسی سے مت کرنا۔ جب صبح ہوئی تو مسجد میں گئے اور فرمایا اس آدمی کو شرم نہیں آتی جو اپنے پڑوسی کا مور چراتا ہے، پھر نماز پڑھنے آتا ہے اور مور کا پر اس کے سر پر موجود ہے ، یہ سنتے ہی جس آدمی کے پاس مور تھا وہ اپنے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا ، امام ابوحنیفہؒ نے اس سے فرمایا، آپ ان کا مور واپس دے دو چناں چہ اس نے مور واپس کر دیا۔
ابو الموید خوارزمیؒ نے کتاب المناقب میں لکھا کہ روم کے بادشاہ نے خلیفۂ وقت کی خدمت میں بہت سا مال بھیجا اور کہا کہ علما سے تین سوال کیے جائیں ، اگر وہ جواب دے دیں تو یہ مال انہیں دیا جائے۔ خلیفۂ وقت کے حکم سے علما سے سوال کیا گیا لیکن کسی نے تسلی بخش جواب نہ دیا، امام ابوحنیفہؒ نے کھڑے ہو کر خلیفہ سے اجازت طلب کی ، حالاں کہ اس وقت آپ کم سن تھے، خلیفہ نے اجازت دے دی۔ رومی سفیر سوال کرنے کے لیے منبر پر تھا، امام ابوحنیفہؒ نے اس سے پوچھا آپ سائل ہیں؟ سفیر نے کہا ، ہاں اس پر امام صاحب نے فرمایا تو پھر آپ کی جگہ زمین پر ہے اور میری جگہ منبر ہے۔ وہ اُتر آیا، امام ابوحنیفہؒ منبر پر آئے اور فرمایا سوال کرو ، اس نے کہا اللہ سے پہلے کیا چیز تھی؟ امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا ، عدد جانتے ہو؟ اس نے کہا ، ہاں آپ نے فرمایا ، ایک سے پہلے کیا ہے؟ رومی نے کہا: ایک اوّل ہے اس سے پہلے کچھ نہیں تو امام صاحب نے فرمایا، جب واحد مجازی لفظی سے پہلے کچھ نہیں ، تو پھر واحد حقیقی سے قبل کیسے کوئی ہو سکتا ہے؟ رومی نے دوسرا سوال کیا ، اللہ کا منہ کس طرف ہے ؟ امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا جب تم چراغ جلاتے ہو تو چراغ کا نور کس طرف ہوتا ہے؟ رومی نے کہا، یہ نور ہے اس کے لیے ساری جہات برابر ہیں۔ تب امام صاحب نے فرمایا جب نور مجازی کا رخ کسی ایک طرف نہیں، تو پھر نور السمٰوت والارض ہمیشہ رہنے والا ، سب کو نور اور نورانیت دینے والا ہے ، اس کے لیے کوئی خاص جہت کیسے متعین ہوئی؟ رومی نے تیسرا سوال کیا اللہ کیا کرتا ہے ؟ امام صاحب نے فرمایا، جب منبر پر تم جیسا اللہ کے لیے مثل ثابت کرنے والا ہو، تو وہ اسے اُتارتا ہے اور مجھ جیسے موحّد کو منبر کے اوپر بٹھاتا ہے ، ہر دن اس کی ایک نرالی شان ہوتی ہے۔ یہ جواب سن کر رومی چپ ہو گیا اور مال و اسباب چھوڑ کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
11گورونانک پورہ فیصل آباد ، پاکستان
E-mail: