کتاب ۔ بچوں کے ادب کی تاریخ
مصنف : ڈاکٹراسرارالحق سبیلی
پیش رس: ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم
ضخامت : 384
قیمت : 218 روپیے
ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوز ۔ نئی دہلی
ملنے کا پتہ : ھدیٰ بک ڈپو ۔ حیدرآباد
مصنف فون : 09346651710
بچے…………..!
جو جنت کے پھول ہوتے ہیں۔ جن کو دیکھنے سے آنکھوں کو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جو کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ جن سے زبان پر مٹھاس آجاتی ہے۔ جن کو چھونے سے زندگی روشن ہوجاتی ہے ۔ جوہمارا مستقبل ہیں جو ملک وقوم کا سرمایہ ہیں۔ اسی لئے توبچہ کو آدمی کا باپ کہا جاتا ہے۔
بچے…………..!!
جومن کے سچے ہوتے ہیں گھر کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں۔ ابھی روتے ہیں ابھی کھلکھلا اٹھتے ہیں۔ سوتے میں جاگتے ہیں جاگتے ہوئے سوتے ہیں۔ ہر دم‘ دمِ جستجو رہتے ہیں۔ ہزار بارگرتے ہیں اور ایک ہزار ایک باراٹھتے ہیں۔ ہر چیز چھونے اور چکھنے کی خواہش لئیے ادھر سے ادھر گھومتے رہتے ہیں۔ ان کی ضروریات کا خیال ان کی ماں رکھتی اور اپنی صحت کا خیال وہ خود رکھتے ہیں یعنی’’ حرکت میں برکت‘‘ کے مصداق وہ ہمیشہ حرکت میں رہتے ہیں۔ اپنی جسمانی نشوونما وہ خود آسانی سے کرلیتے ہیں۔
بچے…………..!!!
جو بڑوں کی نقل کرتے ہیں اور بڑے ان کی….. بچوں کی جسمانی نشوونما اور جذباتی توازن عمر کے ساتھ ساتھ مستحکم ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ذہنی تربیت اور اس کی نشوونما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ایک انگریز خاتون کسی ماہر تعلیم سے رجوع ہوئی اور پوچھا کہ میں اپنے بچے کی تربیت کیسے کروں؟
ماہر تعلیم نے سوال کیا کہ بچہ کب پیدا ہونے والا ہے۔؟
خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میرا بچہ دو سال کا ہے۔
ماہر تعلیم نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم نے دوسال ضائع کردیے اور اب پوچھنے آئی ہو کہ بچے کی تربیت کیسے کروں؟؟؟
بچوں کی تربیت کے معاملے ہمارا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہوتا ہے۔ جس عمر میں بچوں کی تربیت ضروری ہوتی ہے وہ لاڈوپیار میں گزاردیا جاتا ہے۔ جس عمر میں تربیت کا اثر نہیں ہوتا اس وقت بچوں پرہم ظلم وزیادتی کرنے لگتے ہیں ۔اکثر لوگ اس حوالے سے ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ بچوں کا دماغ‘کمہار کے ہاتھ کی اس نرم وملائم مٹی کی طرح ہوتا ہے کہ جیسا جی چاہے اس مٹی کی صورت گری کی جاے۔ ایسے وقت میں بچوں کی ذہنی تربیت کے لیے’’ چٹیٹا مصالحہ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔کیاآپ جانتے ہیں کہ یہ چٹپٹا مصالحہ کیا ہوتاہے؟
اُردو میں بچوں کے ادب پر بہت کم لکھا جارہا ہے۔ ہر ادیب وشاعر حسن وعشق کی داستانیں ہی رقم کرناچاہتے ہیں۔ کیوں کہ اس سے وہ آسانی سے واہ واہی بٹور سکیں۔ تیکھا سوال یہ ہے کہ بچوں کا ادب کون لکھنا چاہتا ہے ؟ کون لکھوانا چاہتا ہے؟ ۔مختلف انجمنوں اور اکاڈیومیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف بچوں کے لیے ادب تحریر کروائے بلکہ اسے شائع بھی کروائے اور ادیبوں کو اس کی رائیلٹی بھی دے۔ مختلف ایوارڈز کے ذریعے بچوں کے ادیب وشعرأ کی ہمت افزائی کریں۔ کیوں کہ بچوں کا ادب ہی بچوں کی ذہنی تربیت اور نشوونما جس نمایاں کا م انجام دیتا ہے۔یہی تو بچوں کا چٹپٹا مصالحہ ہے۔
ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلیؔ اور ینٹل اردو کالج کے ہونہار شاگرد رہے ہیں۔ وہ ایک خوش مزاج‘ خوش فکر‘ خوش خوراک‘ خوش لباس او رخوش گفتار شخصیت کے مالک ہیں۔ اتفاق سے وہ ہمارے’’ دامِ ریسرچ‘‘ میں بھی گرفتار ہو چکے ہیں۔ دوران ریسرچ ان کی تحقیقی وتنقیدی صلاحیتوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا تھا۔ انہوں نے جس محنت ولگن سے اپنا ریسرچ مکمل کیا الحمد اللہ آج اسی محنت و لگن سے ترقی کے زینے طئے کررہے ہیں۔
ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلیؔ کو بچوں سے والہانہ محبت ہے۔ بچوں کے ادب کے ضمن میں ان کی دوڑدھوپ قابل تعریف ہے۔ دو م جماعت کی اُردو میں’’چھوٹا خاندان‘‘ کی نظم دیکھ کر وہ چراغ پا ہوجاتے ہیں اور دسویں جماعت میں فارسی آمیز مشکل غزل کو شامل نصاب کرنے پر حیرت کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ بالکل صحیح ہے کہ بچوں کی عمر کے لحاظ سے ان کی نفسیات کو خاطر میں لاتے ہوئے نصاب ترتیب دیا جائے ۔انہوں نے بچوں کے لیے بے شمار کہانیاں لکھیں۔ کہانیوں کے ایک دو مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ گزشتہ برس ان کی ایک اہم تصنیف’’ بچوں کا ادب اور اخلاق‘‘ شائع ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ اردو قارئین نے اس کتاب کا زبردست خیر مقدم کیا۔ اس کے پیش لفظ میں بچوں کے ادب سے بے توجہی اور لاتعلقی پر گفتگو کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔
’’ بچوں کے ادب کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اس موضوع کی اہمیت کو بڑے لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ‘ اور اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کے لئے تیار نہیں ہوتے‘ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ ہمارا سماج بڑوں کا سماج ہے‘ اس سماج میں بچوں کی ضروریات اور حقوق کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے‘ بڑے اپنے بچوں کے لئے اچھی غذائیں‘ دوائیں‘ لباس و پوشاک اور تعلیم کے معاملہ میں بھرپور توجہ دیتے ہیں‘ لیکن بچوں کے ادب کو نظر انداز کردیتے ہیں‘ بچوں کا ادب تحریر کرنے کو اپنی کسر شان سمجھتے ہیں‘ اور بچوں کا ادب تحریر کرنے والوں کو کم تر درجہ کا خیال کرتے ہیں‘ جب کہ بچوں کا ادب بچوں کی تعلیم و تربیت اور ذہنی نشوونما کا بہترین ذریعہ ہے۔‘‘(ص۔۴۶)
ڈاکٹر سید الحق سبیلی کی دوسری تصنیف’’ بچوں کے ادب کی تاریخ‘‘ کا مسودہ میرے سامنے ہے۔ جس میں جملہ پانچ ابواب ہیں۔ پہلا باب بچوں کا ادب‘ تعریف‘ ضرورت اور مسائل پر مشتمل ہے۔ مصنف نے اس حوالے سے بچوں کے ادب کی کئی ایک ضروریات بیان کی ہے۔مختلف علماے ادب کی بیان کردہ تعریف کو نہایت خوب صورتی سے ترتیب دیا ہے۔ وہیں بچوں کے ادب کے مسائل کو بھی دو ٹوک انداز میں پیش کیا ہے۔
دوسرا باب ’بچوں کے ادب کا پہلادور‘ پر مبنی ہے۔جس میں ابتدا ء تا پہلی جنگ آزادی تک بچوں کے لیے لکھے جانے والے ادب کا اجمالی جائیزہ لیا گیا ہے ۔ اس ضمن میں مصنف کا کہنا ہے کہ
امیر خسرو کو ادب اطفال کا پہلا شاعر اور یمین الدین کی ’’خالق باری‘‘ تصنیف کو بچوں کے ادب کی پہلی تصنیف قرارپاتی ہے۔ امیر خسرو کے بعد بچوں کا دوسرا شاعر محمد قلی قطب شاہ ٹھیرتے ہیں۔ غرض اس باب میں امیر خسرو سے مرزا غالب ؔ تک بیسوں ادیب و شاعر کا بحیثیت بچوں کے شاعر یا ادیب کے تعارف کروایا ہے۔
زیر نظر تصنیف کا تیسرا باب’’ بچوں کے ادب کا دوسرا دور‘‘ کو محیط ہے۔ جس میں ۱۸۵۷ء سے۱۹۴۷ء تک کے ادب اطفال کی تاریخ رقم کی گئی ہے۔ اس فہرست میں سرسید احمد خاں اور ان کے رفقاء سے قدسیہ زیدی اور عبدالواحد سندھی تک کے ادب اطفال کا جائیزہ لیا گیا۔ ہر مصنف یا شاعر پر گفتگو کرتے ہوئے ان کے اشعار یا اقوال کو بھی پیش کیا گیا ہے جس سے مصنف کا تحقیقی پہلو مزید روشن ہوجاتا ہے۔
’’بچوں کے ادب کا تیسرا دور‘‘ کے لیے چوتھا باب مخصوص ہے۔ جس میں ۱۹۴۷ء ۲۰۰۰ء تک کے بے شمار ادیبوں و شاعروں کو یکجا کیاگیا ہے جنھوں نے ادب اطفال کے حوالے سے نمایاں تخلیقی کارنامے انجام دیے ہوں۔ اس فہرست میں کرشن چندر سے کرن شبنم تک تقریباََ باسٹھ ادبأ وشعرأ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
پانچواں باب’’ بچوں کے ادب کا چوتھا دور‘‘کا احاطہ کرتا ہے جس میں ۲۰۰۰ء سے تاحال مختلف ادیبوں اور شاعروں کے فن کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس باب میں ریاستی سطح پر ادب اطفال کی تاریخ رقم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جیسے تلنگانہ وآندھراپردیش سیستائیس(۲۷) ادباء ‘کرناٹک ٹمل ناڈو سے آٹھ(۸) ادیب جب کہ مغربی بنگال سے پندرہ(۱۵) ادبا ء نیز بہار‘ جھارکھنڈ اور اڑیسہ سے تقریباََ دس ادباء ‘اترپردیش ‘دہلی‘ ہریانہ اور پنجاب سے (۲۵) ادبأوشعرأ ‘مدھیہ پردیش‘ چھتیس گڑھ اور راجستھان سے (۸) آٹھ ادیب وشاعر اور مہاراشٹرا کے تقریباََ انچاس(۴۹) ادیبوں اور شاعروں کے فن کی تاریخ بیان کی ہے ۔اس طرح سے مہاراشٹرا ہندوستان کی وہ واحد ریاست ہے جہاں ادب اطفال کے لیے خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔تبھی تو اس ریاست میں سب سے زیادہ اردو میڈیم مدارس اور کالجس موجود ہیں جہاں ہزاروں کتی تعداد میں طلباء اردو پڑھتے ہیں ۔
سچ کہا جاے تو بے حد وحساب اردو کے شعرأ اور ادیب ایسے ہیں جنھوں نے بچوں کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور لکھا ہے لیکن مصنف نے یہاں ان تخلیق کاروں کو شامل کیا ہے جو بچوں کے ادب پر کوئی نہ کوئی تصنیف رکھتے ہوں۔
بچوں کے ادب کی تاریخ‘ ابتداء سے تاحال‘ کو رقم کرنا کوئی معمولی کا م نہیں ہے مصنف نے جس قدر محنت سے یہ مواد کو اکٹھاہے اتنی ہی محبت سے اسے ترتیب بھی دیا ہے۔ کتاب کی زبان اور اسلوب نہایت صاف شستہ اور الجھاؤ سے پاک ہے۔ مواد کی ترتیب بھی منطقی لحاظ سے کی گئی ہے۔ اس قدر عظیم کام کرنے پر میں ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلیؔ کو مبارکباد دتیا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ادب اطفال کے حوالے سے تصنیف وتالیف کا کام جاری رہے گا اور مستقبل میں وہ یوجی سی ریسرچ پروجیکٹ کے تحت مختلف ریاستوں کے مدارس کے اردو نصاب کا تحقیقی وتنقیدی جائیزہ لیں گے اور اس ضمن میں اپنے مفید مشورے اور تجاویز سے بھی نوازیں گے تاکہ ادب اطفال کو زیادہ سے زیادہ روشن کرنے کی گنجائش باقی رہے۔
——–