دکنی اردو پرزبان سنسکرت کا اثر – – – – ڈاکٹر شیخ عبدالغنی

Share


دکنی اردو پرزبان سنسکرت کا اثر

ڈاکٹر شیخ عبدالغنی
(سنسکرت اسکالر)
فون نمبر:09948130168
ای میل:

دنیا میں جب کبھی کوئی زبان کی ابتداء ہوتی ہے تو وہ زبان کسی نہ کسی ایک بنیادی زبان کا سہارا لیتی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ دوسری زبانوں سے بھی مختلف عوامل حاصل کرتی ہے۔ جدید ہندوستانی زبانوں نے اپنے ارتقاء کے لیے سنسکرت زبان کو بنیاد بنایاہے۔ دکنی اردو بھی اس سے بری نہیں ہے۔ سنسکرت زبان نے جدید ہندوستانی زبانوں کی ترقی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ مہرشی پانی نی (۵۰۰ ق م) نے سنسکرت زبان کے قواعد مرتب کیے۔ جس کو اشٹادھیائی کے نام سےجاناجاتا ہے۔زبان کے قواعد بتانے والی یہ کتاب دنیا میں اول مانی جاتی ہے اور پانی نی کا شمار ابتدائی ماہر لسانیات میں ہوتا ہے۔

دکنی کو قدیم اردو یا دکنی اردو کہا جاتا ہے کچھ محققین دکنی کو جدید اردو ہندی کی ماں مانتے ہیں ۔ دکنی اردو اور سنسکرت ایک ہی لسانی خاندان، ہندآریائی خاندان، کی زبانیں ہیں۔ دکنی اردو نے اپنے ارتقا میں سنسکرت کے علاوہ مراٹھی، تلگو، کنڑ پنجابی ہریانوی، کھڑی بولی وغیرہ زبانوں کا بھی سہارا لیا ہے ان کے اثرات بھی دکنی اردو میں دکھائی دیتے ہیں۔
دکنی اردو کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ اس میں سنسکرت زبان کا کثرت سے استعمال ہوا ہے۔
زبان سنسکرت کا اثر دکنی اردو میں کس حدتک ہوا ہے۔ اس پر روشنی ڈالنا ہی اس مقالہ کا موضوع ہے۔
ذخیرہ الفاظ کسی زبان کی قوت ہوتی ہے جس زبان کے پاس جتنا ذخیرہ الفاظ ہوتا ہے وہ استنی ہی مستحکم ہوتی ہے۔ زبان ہمیشہ تبادلہ کی صفت رکھتی ہے اور وہ دیگر زبانوں سے الفاظ اختیار کرتی ہے۔ جس زبان میں الفاظ حاصل کرنے کی استعداد زیادہ ہوتی ہے ایسی زبان ہی زندہ تابندہ زبان کہلاتی ہے۔ زبان میں لفظ کی حیثیت مقدم ہوتی ہے۔ زندہ زبانوں میں الفاظ واستعمالات بدلتے رہتے ہیں اور یہ تبدیلی زبان کی زندگی کی ضامن ہوتی ہے۔
سنسکرت کی ایک مشہور تعریف ہے۔
व्याक्रियन्ते व्युत्पाद्यन्ते शब्दा: अनेन इति व्याकरणम।
یعنی لفظوں کی پیدائش اور اس کے صحیح استعمال کو وباکرن (قواعد گرامر) کہا جاتا ہے۔ لفظ زبان کی وہ اہم ترین ساختیاتی اکائی ہے جو بامعنی ہے اور ترسیل خیال میں معاون، ثابت ہوتی ہے۔
دکنی اردو میں سنسکرت اسماء و صفات کا کثرت سے استعمال دکھائی دیتا ہے۔ سنسکرت الفاظ کا داخلہ دو طرح سے ہوا ہے۔ ایک تتسم دوسرا تدبھو۔
تتسم ان لفظوں کو کہاجاتا ہے جو بنا کوئی تبدیلی کے بالکل اسی طرح استعمال ہوتے ہیں جس طرح یہ سنسکرت میں مستعمل ہوتے ہیں۔ جسے میگھ मेघ (بادل) آکاش आकाश (آسمان) جگ जग دنیا
تدبھو ان الفاظ کو کہتے ہیں جن کا تعلق سنسکرت سے ہوتا ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ان کی شکل وصورت میں تبدیلی ہوجاتی ہے اور اس تبدیل شدہ لفظ کا چلن عام ہوجاتا ہے۔ جیسے اشٹر उष्ट्र کا اونٹ۔ گھوٹک घोटक کا گھوڑا استعمال ہوتا ہے۔
دکنی مثنویوں سے کچھ مثالیں ملاحظہ کریں۔
چھپیاں مکھ سکل انچل کے کھن میں غروب ہوتا ہے جوں چندر گگن میں (جنت سنگار:۲۴۳)
اس شعر میں چارخالص سنسکرت الفاظ کا استعمال ہو اہے۔ جن میں مکھ मुख چیرہ – چندرचंद्र چاند ؍ گگن गगन آسمان اسم ہیں۔ سکل सकल پورا صفت ہے۔
آپیں سہج روپ سہج بھیا سیوک مایا جگت کیا۔ (۱۷۱)
آپ نرنگار ہے الوپ سنگت مایا موہ ہورکوپ (۱۷۲) (ارشاد نامہ)
ان اشعار میں شاہ برہان الدین جانم نے خدائی اور دنیا کی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ خدا اپنے آپ فطری ہے جن کا کوئی تصویر نہی اور لافانی ہے۔ جب کہ خدا نے دنیا کے اندر دھوکہ فریب اور غصہ کی صفات سے بھری ہوئی بنایا۔ یہاں پر کئی تتسم الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
سہج सहज قطری ۔روپ रूप پہلو، خوبصورتی
سیوکसेवक خادم مایاमाया دھوکہ موہ मोह رغبت اسم ہیں۔
سنسکرت الفاظ جب دیگر زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں تو ان کی آواز میں تبدیلی آتی ہے۔
دھرتی آکاس کچھ نہ تھا۔ باداز رچنا سب رچیا۔ (۱۶۰)(ارشاد نامہ)
اس شعر میں آکاس یعنی آسمان۔ اس کا سنسکرت لفظ آکاش आकाश ہے ش کی جگہ س کھاگیا یعنی مجہورہ آوازیں دکنی اردو میں گھٹانے کا رجحان دکھائی دے رہا ہے۔
اور صوتوں Vowelآوازیں دکنی اردو میں گھٹانے کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔
تیزسریا کا ہے پرکاس دیخ ہوا ہے دستابھاس-(ارشاد نامہ۳۸)
سریا सूर्यاو مصوتے کی آواز گھٹادی گئی ہے۔
ہائیہ Aspirated آوازوں کو گھٹانے کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔
دوک۔ سوک نت ایسا بھاو بھری ندی میں جیسے ناو۔( 531 ॰ارشاد نامہ)
اس میں दुख-सुख دکھ، سکھ کے بجائے دوک سوک کا استعمال ہوا ہے۔ان کے علاوہ کئی تدبھوالفاظ کا استعمال دکھائی دیتا ہے۔
اتھاتسری طرف کوں اونٹ خانا
رکھے تھے اس طرف سب گھانس دانا۔ ( جنت سنگار )
اس شعر میں دو تدبھوالفاظ استعمال ہوئے ہیں جو دونوں اسم ہیں۔ انوت یعنی उष्ट्र اشٹر سے مشتق ہے۔ گھانس घास: گھاسہہ سے مشتق ہے۔
اور ایک نمونہ ملاحظہ ہو
چندر سورج چندنیاں سات کیتا مانس دن اور رات (ارشاد نامہ:۲۳)
اش شعر میں چندر ۔चंद्र ۔ چاند، مانس۔ मानस ۔ قلب۔ اور دن ۔दिन ۔ تتم الفاظ ہیں۔ جب کہ سورج سوریہ ۔सूर्य۔ سے. رات راتری ۔रात्रि۔ سے مشتق تدبھو الفاظ ہیں۔
اچھا اپتی کہاں جگت کسی دیہہ بندھن کی مکت۔ (ارشاد نامہ۔۲۶)
اس شعر میں اِچھا ۔इच्छा ۔ خواہش، جگت، ۔जगत ۔ دنیا، دیہہ، ۔देह ۔ جسم بندھن، ۔बंधन ۔ گہرہ اور مکت ۔मुक्त ۔ نجات یافتہ خالص سنسکرت الفاظ ہیں جن کا استعمال اسم اور صفت کے لیے ہوا ہے۔
ساری رین تیرا مدن مج طبع میں بھرپور ہے تج مک صبح کے سامنے دیپک سدا مخمور ہے
تج تین کی نرمی کنے منگتے ہیں موتی آبرو یا روپ کی تو کھان ہے یا حسن کی سمدور ہے۔ (علی عادل شاہ سائی شاہی۔صفحہ:۴۷)
ان اشمار میں مکن ۔मुख ۔ مدن ۔मदन ۔شا دیپک ۔दीपक ۔ چراغ ۔रूप नैन ۔ خوبصورتی, خالص سنسکرت الفاظ ہیں جن کا استعمال اسم اور صفت کے لیے ہوا ہے۔
اس طرح دکنی اردو میں سنسکرت کے تتسم اور تدبھو الفاظ کی بھرمار ہے۔ مثنوی کدم رام بدم راو میں تتسم الفاظ کی تعداد ۲۰۰ سے بھی زیادہ ہے کچھ الفاظ کا استعمال بار بار ہوا ہے جیسے جک، من تن، پاتال، جیووغیرہ۔ تدبھو الفاظ کی تعداد ان گنت ہے۔
فعل کسی بھی زبان کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں۔ سنسکرت سے نکلی ہوئی تمام پراکرتوں میں اور جدید ہند آریائی زبانوں میں بھی انہی افعال کا استعمال ہوتا ہے جو سنسکرت میں مستعمل ہیں۔ دکنی اردو میں بھی ان ہی افعال کا استعمال دکھائی دیتا ہے۔ جیسے۔
پہلے اس پر لیاو ایمان اللہ کرے تو ہوئے جان (ارشاد نامہ:۱۲۵)
اس شعر میں تین سنسکرت فعل ہیں۔
لیاو میں لا مصدر ہے ला आदाने کے مطابق لانا معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
کرے میں کر مصدر ہے डुकृण करणेکے مطابق کرنا معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
جان میں (جنا) جا مصدر ہے जा अवबोधने کے مطابق جاننا معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
یون یہ قدرت میل دہوں جگ مانڈیا اپنا کھیل (ارشاد نامہ ۲۸۶)
اس شعر میں سنسکرت کے ۔मिल संगमे ۔ میل اور ۔खेल चलने۔ کھیل فعل کا استعمال ہوا ہے
مہرشی پانی نی( ۵۰۰ قبل مسیح) جنھوں نے سنسکرت زبان کے قواعدبنائے. ان کے ذریعہ بنائے گئے مصادر الفاظ کا استعمال دکنی اردو زبان میں دکھائی دیتا ہے تمام مصادر سنسکرت الفاظ کے ہی ہیں جن سے اردو افعال صادر ہوتے ہیں۔
ذیل میں پانی نی کے دیے ہوئے مصدر الفاظ دیے جارہے ہیں۔جن کا استعمال دکنی اردو اور اردو میں ہورہا ہے۔ اور ان کے ساتھ فارسی عربی کے ہم معنی الفاظ بھی دیے جارہے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اردو افعال کس زبان سے مشتق ہے۔

ہنس، کھیل،کھول،گل، گھس، جٹ، پار، بس، موڑ، کرنا، جیتنا وغیرہ بھی پانی نی کے دیے ہوئے مصدر الفاظ ہیں۔پانی نی نے اپنی قواعد کی کتاب ’اشٹاادھیائی‘ میں دو ہزار مصدر الفاظ دیے ہیں جن میں سے دو تین سو الفاظ کا سنسکرت میں عام چلن ہے جن میں سے کئی الفاظ کا استعمال ہم کو دکنی اردو میں دکھائی دیتاہے ۔انکا جملوں میں استعمال دیکھے۔
۱۔فرروزہ ہستی۔فیروزہنس رہا ہے
۲۔عامرہ پاٹھم لکھتی۔ عامر سبق لکھ رہا ہے
۳۔رحیم جلم پیتے۔ رحیم پانی پی رہا ہے
۴۔اہم ہسامی۔ میں ہنس رہا ہوں
ان مصدر الفاظ کے ساتھ جنس، تعداداور حالت کے اعتبار سے لاحقہ کو جوڑ کر استعمال کیاجاتاہے۔ سنسکرت میں زمانہ، جنس اور تعداد کے لاحقہ اس مادہ لفظ کے ساتھ مل جاتے ہیں کیونکہ سنسکرت زبان کی فطرت مرکب ہے جب کہ جدید زبانوں کی فطرت جداگانہ ہے جیسے ‘چل’ مادہ لفظ "چلتی” استعمال کا معنی سنسکرت میں” وہ چل رہا ہے” ہوتا ہے۔ "پی” کا "پیتے” اس کا اردو میں "پی رہا ہے”۔ "پی” کے معنی پینا ہوتا ہے۔ یہاں پی مادہ کے ساتھ "نا” لاحقہ کا استعمال ہوا ہے۔
پانی نی کے دیے گئے "اناوی” الفاظ کا اسم اور صفت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کئی ایسے الفاظ ہیں۔ جو دکنی اردو کے مثنویوں میں دکھائی دیتے ہیں۔

دکنی اردومیں استعمال ہونے والے ایک سے دس تک کے اعداد سنسکرت کے اپنے اعداد ہیں۔
एक ایک
द्वि دوی (دو)
त्रि تری تین (نبی کے حکم پر تر جگ ہوا زیر (جنت سنگار)
चतुर چتر چار
पञ्च پنچ
षष्ट ششٹ یا
सप्त سپت سپت سمندر سیاہی بھریں سب روک تنکے قلم کریں۔
अष्ट اشٹ آٹھ
नव
दश دشہ دس
زبان خیالات واحساسات اور جذبات کے اظہار اور دوسروں کے خیالات واحساسات کو جاننے سمجھنے کا واحد ذریعہ ہے۔ زبان ایک دوسرے کو منسلک یکجا اور منظم رکھتی ہے۔ زبان لسانی گروہ کی ذہنی سطح کے معیار سے نسبت رکھتی ہے۔ قوموں کی ثقافت کا مرکزی نقطہ زبان ہوتی ہے۔ زندگی کی بلندیوں اور پستیوں میں زبان بھی ملتی رہتی ہے۔ ایک قوم جتنی بلند معزز اور طاقتور ہوتی ہے اتنی ہی اس کی زبان بھی بلند مقام رکھتی ہے۔ زبان کی بلندی سے مراد زبان کی وسعت، پھیلاو اور الفاظ کی کثرت ہے۔ کسی زبان کا ذخیرہ الفاظ اس زبان کے بولنے والوں کی ضروریات اور معلومات پر مبنی ہوتا ہے۔ نئے امور کے اظہار کے لیے مزید الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرورت ایک جانب مستعاریت سے پوری ہوتی ہے تو دوسری جانب اشتقاقیات وترکیبات کی مدد لی جاتی ہے۔
زبان کی ترقی میں الفاظ کی بناوٹ کی اہمیت مقدم ہے۔ نئے الفاظ کی بناوٹ میں سنسکرت زبان کے اپنے خاص قواعد ہے جس کو جدید ہند آریائی زبانوں نے بھی اختیار کیا ہے۔
ان میں آپ سرگ سا بیضہ Prefix پر تیر Suffix لاوقو اور شماس compound مرکب
سنسکرت میں ۲۲ اپ سرگ ہیں جنھیں ہم سابقہ کہہ سکتے ہیں زبان ان کا آزادانہ استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ کس اسم یا صفت والے لفظ اور مصدر کے سامنے جڑ کر اس کے معنی کو تبدیل کردیتے ہیں۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے۔
उपसर्गेणधात्वर्थों बलातअन्यत्रनीयते।
प्रहाराहारसंहार विहार परिहारवत॥
اس میں ह्र ہرو لینا مصدر لفظ ہے جس کے سامنے پر ۔प्र۔ آ ۔आ۔ سم ۔सम۔ وی ۔वि۔ اور ۔परि۔ پری تک کر
۔ प्रहार ۔ پرہار جملہ، ضرب
۔ आहार ۔آہار ۔خوراک
۔संहार ۔ سمہار۔انہدام
۔विहार ۔ وہار۔ ادھر ادھر گھومنا
۔परिहार ۔ پری ہار۔ احتراز، بچاو
دکنی اردو میں ان کا استعمال کثرت سے دکھائی دیتا ہے سنسکرت کے ۲۲ (اب سرگوں) سابقہ میں سے کئی اپ سرگوں کی مثالیں دکنی مثنویوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے۔
سوبدھی کرے کام اپنا سبدھ کو بدھی بسا ہے اپس کام ابدھ . (مثنوی کدم، راوپدم رام۔ ۵۴۴)
کسی دم ناڈاں کا اپ چار اس تن برتے کس آدھار (۳۶۵.ارشاد نامہ)
ہوا تھے ہے باو روپ باریل بیٹھااگن روپ ( ۲۶۲ . ارشاد نامہ)
अ۔ ا انگت، اپار ، ابودھی، اگوچر، الپت
कु ۔ کو کوبل، کوبودھی
नि ۔نی نی سنگ
निर۔ نر نرادھا، نرگن
अव۔ او اوگن
प्र۔ پر پرساد، پردھان پرکار
उप۔ اپ اپکار، اپچار، اپدیش
निस۔نس نسنگ، نسار
सु۔سو سوگند
سنسکرت میں مصدر کے ساتھ ۔अक ۔ لاحقہ کو جوڑ کر فاعل بنایا جاتا ہے۔ جیسے ۔
पाठ+अक पाठक ۔ پاٹھک
गै+अक गायक ۔ گایک
नी+अक नायक ۔ نایک
اسم کیفیت بنانے کے لیے ۔ति۔ تی۔ لاحقہ جوڑا جاتاہے۔
بدھ ۔बुध ۔ بدھی۔बुद्धि ۔
من۔मन ۔ منی ۔मति۔
اسم کے ساتھ ۔मत ,वत ۔ (احقر جوڑ کر صفت بنایا جاتا ہے۔ جیسے
بدھی مت۔ بدھی مان شری مت۔ شری مان
دھن وت۔ دھن وان گن وت۔ گن وان
دکنی میں ان کے استعمال کا نمونہ ملاحظہ ہو
وزارت اسی کی جو گھر موڑجان وزارت وہی کرسکے بدھ مان۔ (۵۷۷ مثنوی کدم راو پرم راو)
سنسکرت میں تراکیب لفظی کی اہمیت زیادہ جس کو समास سماس مرکب compound کہتے ہیں۔ ان کے استعمال سے زبان میں روش اور لچیلا پن پیدا ہوتا ہے جس سے اظہار خیال میں ایک خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ سنسکرت میں مرکب الفاظ پانچ قسم کے ہیں۔ ان میں سے چار اقسام کا استعمال دکنی اردو میں دکھائی دیتاہے۔
سماس میں دو یا اس سے زیادہ الفاظ کو ملاکر ایک مرکب لفظ بنایا جاتا ہے۔
۱۔کرمہ دھاربرسماس میں دونوں لفظ بظاہر اسم ہوتے ہیں لیکن ایسے مرکب کا پہلا لفظ صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ پہلے لفظ پر دوسرے لفظ کو فوقیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ دوسرے لفظ پر ہی معنی کا انحصار ہوتا ہے۔ جیسے
چندر مکھ ۔चंद्रमुखम ۔ चन्द्र इव मुखम ۔ چاند جیسا چہرہ
یہاں معنوی اعتبار سے دوسرا لفظ اہم ہے لیکن پہلا لفظ ان میں معنوی فرق پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چاند بظاہر اسم ہے لیکن بطور صفت استعمال ہوا ہے۔ یعنی چہرہ کی صفت چاند بن گیا ہے۔
۲۔بہووریہی سماس میں अन्यपदार्थ प्रधानो बहुव्रीहि۔ کے مطابق ان مرکبات کا معنوی دائرہ مرکب کے دونوں لفظ کے معنوی دائرے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ دونوں لفظ مل کر ایک نئے مفہوم کی ادائیگی کرتے ہیں۔ جیسے
چندر مکھی۔चन्द्र इव मुखं यस्या: सा جس کا چہرہ چاند کی مانند ہے وہ
ہوئی نوبت چتدوجی سکی کا۔ بجتر سندری چندر مکھی کا (جنت سنکار)
چندر مکھ موہیناں جب ناچتیاں ہیں دتن میں توں سورنگی جوں پری ہے۔ (کلیات قلی)
چندر بدن کہا تو کہی منہ بنال بول سورج مکھی کھیا تو کہی یوں نہ گھال بول۔ (نصرتی۔ )
چندر مکھ اول لب میں دسن جوں تیرے تارے میں کہو یہ چاند کاں کاہے کس اسماں تھے اتارے ہیں۔( کلیات قلی)
ان کے علاوہ دوندو ۔द्वंद्व समास۔ کاس کا بھی استعمال دکھائی دیتا ہے۔ ایسے مرکبات میں دونوں لفظوں کو یکساں فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ معنوی اعتبار سے دونوں لفظ اہم ہوتے ہیں۔उभयपदार्थ प्रधानो द्वंद्व:۔
تِس کوں سُمریں تن من شاد جس کا اہیدمتج پرساد۔ (ارشاد نامہ ۔۶۴)
دوک سوک کانا اس ہے ڈر اس خاکی تن دیا لگر۔ (ارشاد نامہ۔ ۵۴۰)
ان اشعار میں تن۔ من ۔तन-मन ۔ اور دوک۔ سوک ۔दूक-सूक۔مرکب الفاظ ہے جس کا معنی تن اور من، دوکھ اور سوکھ ہوتا ہے ۔
संख्यापूर्वे द्विगु -2.1.52 ۔ کے مطابق پہلا لفظ عدد بتناے والا ہوتا ہے۔
ایسے مرکبات کو دوگو ۔द्विगु ۔ سماس کہتے ہیں۔ جیسے
۔त्रिलोक ۔ ترلوک۔ تینوں علموں کی جمع۔ समाहार: त्रयानाम लोकानाम
ترلوک نرجے سمریں مل نِت بکھانے ہی تل۔ تل (ارشاد نامہ ۔ ۵)
——–
کتابیات
BIBLIOGRAPHY
۱۔امرکوش، چوکھما سورابھارتی پرکاشن وارانسی ۲۰۰۴ ء
2۔کاشیکا، تیسرا حصہ ،سنسکرت اکادمی عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد ۱۹۷۶ء
3۔اردو ہندی کوش اچاریہ رام چندر ورما ،شبدلوک پرکاشن وارانسی ۲۰۰۷ء
4۔فیروزاللغات، مولوی فیروزالدین ایجوکیشن پبلیشنگ ہاوس دہلی ۱۹۹۷ء
5۔بھاشہ وگیان، بھولا ناتھ تیواری، کتاب محل الہ آباد ۱۹۸۹ء
6۔سنسکرت ہندی کوش، موتی لال بنارسی داس ، دہلی ، ۱۹۹۷ء
7۔دکنی ادب کا انتخاب، سیدہ جعفر، ساہیتہ اکاڈمی، نئی دہلی ۱۹۹۶
8۔جنت سنگار ملک خوشنود، سیدہ جعفر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔۱۹۹۷
9۔کلیات محمد قلی قطب شاہ ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی ۔ ۶۱۹۸
10۔دکھنی ہندی کاوبہ سنچین، پرمانند پانچال، ساہتیہ اکاڈمی، نئی دہلی۔ ۲۰۰۸
11۔ویاکرنہ سوربھم, کملا کانت مشر۔ این سی ای آرٹی، نئی دہلی۔ ۱۹۹۱
12۔لفظ سازی، علی رفاد فتیحی، قومی کونسل برائے فروغ،اردو زبان، نئی دہلی۔ ۲۰۱۳
13۔اردو لسانیات، ڈاکٹر شوکت سبزواری، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ۔۲۰۱۰
14۔لگھوسدھانت کومودی۔ وردراج۔کرشن داس اکاڈمی، وارانسی۔ ۱۹۹۸
15۔اردونحو، محمد انصاراللہ، ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ، ۲۰۰۳
16. A Comprehensive Persian- English Dictionary, F. Steingass,
Munshiram Manoharlal Publishers, Pvt. Ltd,New Delhi,2008
—–
ڈاکٹر شیخ عبدالغنی
مکان نمبر:1-3-257/1
پہاڑی نگر بھونگیر، ضلع نلگنڈہ، تلنگانہ 508116

Share

۲ thoughts on “دکنی اردو پرزبان سنسکرت کا اثر – – – – ڈاکٹر شیخ عبدالغنی”

Comments are closed.

Share
Share