قرآن اور انسان
ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985
قرآن نے انسان کو ’’اکرام‘‘ کا اعزاز بخشا ہے۔ پیامِ ربانی کو بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: ’’وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ‘‘ ہم نے فرزندِ آدم کو عزت بخشی، یعنی قرآن اور انسان کا ربطِ باہمی عزت و عظمت کی بنیادوں پر استوار ہے۔ افسوس کہ ہم تدبر سے پڑھنے کی کوشش کیا کرتے۔ تلاوت میں بھی کوتاہی کرتے ہیں، جیسے امجد نے کہا تھا:
مخلوق میں نیرنگئ خالق دیکھو
قرآن پڑھو جلد کیا دیکھتے ہو
قرآن صرف خوبصورت اور دلکش الفاظ اور مقفّیٰ اور مسجع عبارت ہی کا نام نہیں ہے، اُس کے باطن میں ’’معنوں کا ایک جہاں آباد ہے، جو ہم کو وجدان کی سطح پر تڑپتے اور پھڑکنے کی صلاحیت بخشتا ہے تو علم کی سطح پر حکمت و دانش عطا کرتا ہے، جس سے استفادہ کرنا ہمارے لیے از بس ضروری ہے۔ کیا یہ اللہ کا ہم پر احسان عظیم نہیں کہ ’’اپنی صفتِ کلام‘‘ ہم کو عنایت فرمادی۔ ذات تو پردہ میں ہے، لیکن کلام کو ظاہر کردیا اور ہم کو ’’قاری‘‘ کے اعزاز سے نواز دیا۔
انسان کی نفسیات بھی عجیب و غریب ہے۔ ظاہر ہے یہ سب ’’ذہنِ انسانی‘‘ کی کارفرمائیاں ہیں، کسی بات کو صحیح یا غلط ماننا، کسی شئے کو سچ یا جھوٹ ثابت کرنا، کسی موقع پر شدتِ جذبات کا اظہار کرنا، نفرت، حسد ، دغا، فریب، جنگ و جدل اور طاغوتی قوتوں کا ساتھ دینا ، یا پھر کسی معاملہ میں حق کو تسلیم کرنا، صدق و صفا کو ماننا، رحم و کرم، امانت و دیانت، امن و سلامتی، الفت و محبت اور ملکوتی قوتوں کا ساتھ دینا، بہرحال ذہن انسانی کے یہ دونوں رویے ہی نفس انسانی کے افعال کو طے کرتے ہیں، جن کو ہم ’’نیک اعمال‘‘ اور برے اعمال کہتے ہیں۔
ابتدائے آفرینش سے انسان نے ایک ’’بے سمتی‘‘ کا سفر شروع کردیا تھا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کی نفسیات سے خوب واقف تھے کہ اُس کے خمیر میں ’’ملکوتی‘‘ اور حیوانی دونوں رجحانات موجود ہیں، اس لیے انبیاء کرام کو انسانوں ہی میں سے منتخب کرکے ان پر آسمانی صحائف نازل فرمائے، کیوں کہ خالق کائنات خلیفۃ الارض اور اشرف المخلوقات کی صلاحیتوں کو ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا، لیکن انسانی نفسیات ایک معمولی بات سمجھنے سے قاصر رہتی ہے کہ جب کائنات کی ہر شئے انسان کی خدمت پر مامور ہے تو پھر خالق کائنات کا بھی تو کچھ مطالبہ ہوگا؟ مطالبہ نہ بھی ہو تو انسان کو خود سے بارگاہِ ایزدی میں ’’سجدۂ شکر‘‘ تو بجا لانا چاہیے۔
منم آں نیازمندے کہ بہ تو نیاز دارم
انسانی ذہن علم کی بلندیوں کو تو طے کرلیتا ہے، لیکن ’’یقین‘‘ کے مقامات پر اس کی نفسیات تذبذب کا شکار ہوجاتی ہے۔ بس یہیں سے اس کی برگشتگی کی دلخراش داستان کا آغاز ہوتا ہے، جس کی اصلاح کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کئی پیغمبر بھیجے اور آسمانی کتابوں کو بھی اتارا، جس کا مقصد ’’امن اور سلامتی، صدق و صفا ، خیر و فضل اور جود و سخا کو فروغ دینا تھا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ انسان کی نفسیات میں ’’تخریبی قوتیں‘‘ بے حد طاقتور ہیں، جو یقیناً’’خیر کی قوتوں کی شکست کے درپے ہوں گی۔ ان تخریبی رجحانات کی قرآن نے کئی جگہ نشاندہی کی ہے۔ آج کا انسان تکنیکی اور سائنسی طور پر اتنی ترقی کرچکا ہے کہ وہ چاند ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ سمندروں کے سینے چیر رہا ہے، حیاتیاتی بنیادوں پر مصنوعی تولید کے مقام تک چلا گیا ہے، لیکن اس حالت میں کہ اپنے ہی بھائی کا خون اپنے ہی آستین پر لگا ہے!! یعنی اپنی ہی نوع (Speeis) کو قتل کررہا ہے، حالانکہ جانوروں میںیہ چیز نہیں پائی جاتی۔ جانور آپس میں لڑتے ضرور ہیں، لیکن ایک دوسرے کا قتل نہیں کرتے۔ افسوس ! انسان ایک دوسرے کا قتل کرتے ہیں، اسی لیے جانوروں کے لیے عذابِ ابدی نہیں، جب کہ انسانوں کے لیے ہے۔ انسان کی نفسیات کے ان ہی پہلوؤں کو قرآن حکیم نے بڑے واضح انداز میں اس طرح بیان کیا ہے:
(۱) انسان کی کمزور نفسیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَ خُلِقَ الاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (النساء: ۲۴)
(۲) اب یہاں دیکھئے انسان کی ’’خودغرضانہ‘‘ فطرت پر روشنی ڈالی گئی ہے: وَ اِذَا مَسَّ الاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہُ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاءِمًا فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَا اِلٰی ضُرٍّ مَسَّہٗ۔
(اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارنے لگتا ہے، لیٹے بھی، بیٹھے بھی ، کھڑے بھی، پھر جب ہم اس کی وہ تکلیف اس سے ہٹا دیتے ہیں تو پھر اپنی حالت پر آجاتا ہے ، گویا اس کو تکلیف پہنچی ہی نہ تھی۔) (سورۂ یونس: ۱۲)
(۳) اِنَّ الشَّیْطَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِیْنٌ o (یوسف: ۵)
پھر جتلایا گیا کہ بے شک انسان کے لیے شیطان ایک کھلا دشمن ہے، جو ازل ہی سے انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ’انسان‘ نے وہ ’ملکوتی‘ اعزاز حاصل کرلیا اور ’’مسجودِ ملائک‘‘ بھی ہوگیا، لیکن ابلیس یہ برداشت نہ کرسکا اور گمراہ کرنے کی قسم کھالی، لیکن خود ڈر بھی گیا کہ اے ربِّ جلیل ! ترے مخلص بندوں کے لیے تو میں ’بے بس‘ ہی رہوں گا۔‘‘ تو ہمیں ’’اخلاص‘‘ کے ساتھ اللہ کی بندگی کرنی چاہیے اور شیطان کے فریب سے بچنا چاہیے۔
(۴) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ (ابراہیم: ۳۴)
یعنی انسان بہت ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔ بے انصاف اس لیے کہ وہ صدق و صفا اور کذب و دغا میں تمیز نہیں کرسکتا اور ناشکرا اس لیے کہ وہ نعمتوں کو بھلا دیتا ہے اور خوشیوں کی ساعتوں میں ذکرِ الٰہی سے غفلت برتتا ہے۔
(۵) وَ کَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا o (اسراء: ۱۱) اور انسان جلد باز ہوتا ہے۔
یہ بھی انسانی نفسیات کا ایک وصف ہے کہ وہ طبعاً ’’جلدباز‘‘ واقع ہوا ہے، ہمیشہ وہ ’’نتائج‘‘ کی بہت جلد توقع رکھتا ہے، وقت سے پہلے فصل کاٹنا چاہتا ہے، پھل پکنے سے پہلے ہی توڑنا چاہتا ہے۔ بعض مرتبہ حد یہ ہے کہ ’’شر‘‘ میں بھی جلدی کرتا ہے، اس لیے اس کو ’’عجولا‘‘ کہا گیا ہے۔
(۶) وَ کَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا o (اسراء: ۱۰۰) آدمی بڑا تنگ دل ہے۔
انسان کی فطرت میں ’’تنگ دلی‘‘ بھی ایک غالب عنصر ہے، جو اخلاقی سطح پر تنگ نظری کو فروغ دیتا ہے تو اقتصادی سطح پر ’’بخل‘‘ کو، جس سے اللہ نے غرباء ، مساکین کے جو حقوق مقرر کیے ہیں اس میں خلل واقع ہوتا ہے۔
(۷) وَ کَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَئٍ جَدَلًا o (سورہ کہف: ۵۴)
انسان جھگڑے میں سب سے بڑھ کر ہے۔ انسانی فطرت میں جنگ و جدل ابتدائے آفرینش ہی سے کارفرما ہے۔ دراصل یہ انسان کی اس خواہش کا شاخسانہ ہے جس کے ذریعہ وہ ’’بالادستی‘‘ حاصل کرنا چاہتا ہے، چاہے وہ ایک فرد پر ہو یا پھر چاہے ایک قوم پر، مگر یہ عجیب بات ہے کہ انسانی نسل ہی اپنی نسل کا قتل کرتی ہے، جب کہ جانور آپس میں ایک دوسرے کا قتل نہیں کرتے، صرف لڑتے ہیں۔ جاپان میں ہیروشیما پر جوہری بم گرانے کے بعد تو ’’اجتماعی موت‘‘ کا تصور انسانیت کو حیوانیت کے درجہ پر پہنچا دیا ہے۔ پہلے انسان کو فرد کی موت کا خوف تھا، اب لمحوں میں ساری دنیا کی فنا کا خوف طاری ہے، یعنی ’’اجتماعی موت‘‘ کا خدشہ ہر وقت لگا رہتا ہے۔
(۸) اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا o (الحزاب: ۷۲)
وہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے اور نادان ہے۔ دراصل یہ انسانی فطرت کے ’بھولے پن‘ کا آئینہ دار بھی ہے اور اس کی بے پناہ صلاحیت کا اعلامیہ بھی۔ وہ اس طرح کہ اللہ سبحانہو تعالیٰ نے ’’خلافت کا بارِ امانت ارض و سماوات اور پہاڑوں سب کو پیش کی، لیکن انسان نے اس ’’بارِ گراں‘‘ کو اُٹھالیا۔ اب مولیٰ کا یہ کہنا ہے کہ اے انسان ! تو نے اپنے کو اس بات کا مکلف سمجھا ہوگا تو یہ بوجھ اٹھا لیا ہے تو پھر اب یہ بات بھی لازم ہے کہ ’’تو اس کی لاج رکھ لے اور نادان نہ بن ، انسان بن انسانِ کامل!‘‘
(۹) وَ اَنْ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی o (النجم: ۳۹)
اور یہ کہ انسان کو اپنی ہی کوششوں کا ماحصل ملے گا۔
قرآن کی یہ معنویت دونوں نظاموں یعنی روحانی اور مادّی نظاموں کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر روحانی سطح پر مجاہدے کروگے تو ایمان و تقویٰ میں مقامات بلند ہوں گے اور اگر مادّی سطح پر جائز کوشش کروگے تو اتنی ہی تجارت میں خیر و برکت ہوگی اور علمی درجات میں محنت کروگے تو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں گے۔
(۱۰) خَلَقَ الْاِنْسَانَ وَ عَلَّمَہٗ الْبَیَانَ o (رحمن: ۳)
رحمن نے انسان کو پیدا کیا اور طاقتِ گویائی دی، بولنا سکھایا۔
یہی تو سب سے بڑا وصف ہے انسان کا اور یہی فرق ہے ، جس کے سبب وہ ’’حیوانِ مطلق‘‘ سے الگ ہوکر ’’حیوانِ ناطق‘‘ کہلاتا ہے، صرف بولنا ہی۔ بولنے کے کئی طریقے سکھلائے، کئی انداز، کئی اسلوب، لاکھوں بولیاں، ہزاروں زبانیں، اشارے، علامتیں، رمزیت، ایمائیت، ابہام، ایہام، مبتدا اور خبر۔ غرض کیا کیا نہ سکھایا ، لیکن انسان کا یہ حال ہے کہ وہ اس ’’علمِ بیان‘‘ کا یا ’’قوتِ گویائی‘‘ کا غلط استعمال کرتا ہے۔
(۱۱) اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا o (المعارج: ۱۹)
انسان، کم ہمت پیدا ہوا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان طبعی طور پر کم ہمت نہیں، بلکہ اعلیٰ اقدار اور بلند اخلاق کو اپنانے میں تیزروی نہیں دکھاتا اور استقامت کا بھی اظہار نہیں کرتا، اس لیے اس کو پست ہمت کہا گیا ہے۔
(۱۲) لَقَدْ خَلَقْنَا الاِْنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ o (البلد: ۴)
ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ انسان خوگرِ غم و الم ہے، ہر وقت کسی نہ کسی مسئلہ میں گرفتار رہتا ہی ہے۔ اس کا تقاضا تھا کہ وہ اس درماندگی اور بے بسی سے نجات پانے کے لیے اپنے آقا کے سامنے سر بہ سجدہ ہوکر جبین نیاز جھکا دیتا ، لیکن وہ تو غُرّاتا ہی رہتا ہے۔ بس اسی کیفیت کو ظاہر کرنا مقصود ہے۔
(۱۳) لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (التین: ۴)
ہم نے انسان کو بہت خوبصورت ڈھانچے میں ڈھالا ہے۔ ظاہر ہے جب ڈھانچہ اتنا احسن اور بہتر ہے تو انسان کا باطن بھی خوب سے خوب تر ہونا چاہیے، تب ہی نور علیٰ نور والی بات صادق آئے گی، جیسا کہ علامہ اقبال نے آرزو کی تھی :
ترا جوہر ہے نوری پاک ہے تو
فروغِ دیدۂ افلاک ہے تو
(۱۴) اَمْ لِلْاِنْسَانِ مَا تَمَنّٰی ۔ (النجم: ۲۴)
کیا انسان سمجھتا ہے کہ ہر تمنا تو کجا بعض جائز دعائیں بھی اللہ تعالیٰ چند مصلحتوں کے باعث التوا میں رکھ دیتے ہیں اور مناسب وقت پر اس کو قبولیت بخشتے ہیں یا پھر کوئی نعم البدل سے نوازتے ہیں، جس کا بندہ احساس نہیں کرتا، اس لیے اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آتش نشینی پر جس طرح ’’گلشن‘‘ کا یقین پیدا کرلیا تھا وہ یقین پیدا کریں اور تمناؤں کے پورے نہ ہونے پر ’’بے یقینی‘‘ کی سی کیفیت سے اجتناب کریں۔
***