بیپسی سدھوا کا ناول ’جنگل والا صا حب ‘:ایک فکری تجزیہ – – – عبدالعزیزملک

Share
بیپسی سدھوا

بیپسی سدھوا کا ناول
’’جنگل والا صا حب ‘‘:ایک فکری تجزیہ

عبدالعزیزملک
لیکچرار ،شعبہ اردو،
گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، فیصل آباد
(03447575487)

برِ صغیر میں انگریزی ناول نگاری کے حوالے سے ارون دھتی رائے ، محسن حامد ، ندیم اسلم ، امیتاوگھوش ،خشونت سنگھ ،احمد علی اور ایسے متعدد نام ہیں جنھوں نے پوری دنیا میں شہرت کمائی ۔ ان میں ایک اہم حوالہ بیپسی سدھوا بھی ہے جس کی ناول نگاری کا ڈنکا نہ صرف برِ صغیرمیں بجا ،بلکہ برِصغیر سے باہر کی دنیا میں بھی سنائی دیا۔آج کی دنیا کے اہم سماجی ومعاشی مسائل اورنفسیاتی کیفیات اس کے ناولوں کا خاص حصہ بنے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ برِصغیرکے پارسیوں کی صورتِ حال کا جائزہ حقیقت پسندانہ اور مخلصانہ انداز میں پیش کر کے ،وہ منفرد روش بنانے میں ظفریاب ہوئی ہیں ۔

بیپسی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ تجربہ اور علم کی سچائی اور تکنیک پر پوری مہارت رکھتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس کے ناولوں میں فینٹسی، علامت،فکرو فلسفہ،حقیقت کی بازیافت اور طنزومزاح موجود ہوتا ہے جو زندگی کا کلی یا اجتماعی تصور پیش کرتا ہے۔بیپسی نے ناول نگاری کا آ غاز ’’کروایٹر‘‘سے کیا جوپلک جھپکتے ہی ان کی پہچان بن گیا۔ناول کی موضوعاتی اہمیت کے پیشِ نظربیپسی کے ہم عصر ادیب بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اردوادب کے نامور ادباجاوید اقبال، بانوقدسیہ اور فیض احمد فیض نے اس ناول کو نہ صرف سراہا بلکہ اس کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ۔فیض احمد فیض ’’کروایٹر‘‘ پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں ۔

’’بیپسی سدھوا کا اپنے گروہ (پارسی ) کے کچھ ازلی کرداروں کا مطالعہ ، بیک وقت ایک سماجی اور ادبی دستاویز کے طور پر ، محض تعریف سے کہیں زیادہ کامستحق ہے۔ روز مرہ زندگی میں پارسی ہمیشہ ہی بڑھ چڑھ کر نمایاں رہے ہیں ۔اس منظر کے پسِ پردہ کیا ہوتا ہے،ہم میں سے اکثر لوگوں کے لیے کسی نادیدہ جہان کی طرح دور دراز اور پر اسرار ہے۔ بیپسی سدھوا نے ہمارے لیے اس دنیا کی پنہایوں کے تمام در اور دریچے وا کر دیے ہیں ۔ بے رحمانہ راست گواور حد درجہ حساس بیپسی اپنی کہانی رندانہ بے باکی،صاف گوئی اور شگفتگی سے سناتی ہیں۔ یہ روداد یا انکشاف ان کو پسند آئے نہ آئے،اس کتاب کے ہر قاری کو ان کا گرویدہ بنا دے گا۔‘‘(۱)

مذکورہ ناول کے علاوہ اب تک بیپسی سدھوا کے The Bride جو ایک عورت پر ہونے والے ظلم کوبیان کرتا ہے ،Cracking India جو تقسیم کے کرب کو اپنا موضوع بناتا ہے،Waterجوہندومت میں بیواؤں پر گزرنے والے المیوں کاآئینہ دار ہے اورAmerican Brat جوعورت کی بے بسی اور اعلیٰ طبقے کے پارسی خاندان کو در پیش مسائل مزاحیہ انداز میں بیان کرتاہے ، شائع ہو چکے ہیں لیکن جو نام اور مقام The Crow Eater کے حصے میں آیا وہ دیگر ناولوں سے ماوراء ہے۔حال ہی میں محمد عمر میمن نے ’’کروایٹر‘‘ کا ’’جنگل والا صاحب ‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔محمد عمر میمن یونی ورسٹی آف وسکونسن سے شائع ہونے والے جریدےAnnual of Urdu Studies کے مدیر ہیں۔ اردواورانگریزی میں ترجمے پر خاص مہارت رکھتے ہیں ،ان کی مہارت کا صریح ثبوت ’’جنگل والا صاحب‘‘ ہے جو القاپبلی کیشنز، لاہورسے ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا ہے۔ مذکورہ ترجمہ کتاب کی روح اور متن کا حقیقی آئینہ دار ہے جو متر جم کی مہارت پر دال ہے۔جس کو خودمصنفہ نے کتاب کے پیش لفظ میں سراہاہے ۔ مترجم نے بے تکلفی اور خلوص کے ہمراہ تخلیق کے نقوش کو بھی ابھارا ہے اور اُن تمام اصولوں کو مدِ نظر رکھا ہے جو ترجمہ نگاری کے فن کے لیے لازم ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے عمر میمن ،بیپسی سدھوا کی طرح خود تجربے اور مشاہدے کے کرب سے گزرے ہیں ۔ناول کی قرأت کے دوران کسی لمحے قاری کویہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ ناول ترجمہ شدہ ہے یا طبع زاد تخلیق ہے جو ترجمہ نگارکے فنِ ترجمہ نگاری پرمطلق گرفت کی بیّن دلیل ہے۔
’’جنگل والا صاحب‘‘مصنفہ کا پسندیدہ ناول ہے جو ہندوستان میں پارسی کمیونٹی کو مو ضوعِ بحث بناتا ہے ۔ مذکورہ ناول کی اشاعت سے پارسی کمیونٹی اچھی خاصی چیں بہ جبیں ہوئی اور اس نے ناول کو کشادہ نظروں سے نہیں دیکھا ۔ پارسیوں نے یہ جانا کہ ان کی رسوم و روایات کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔جو ان کے مثبت کی بجائے منفی پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے ، یہی بات پارسیو ں کے مخدوش ہونے کا سبب بنی۔اور اس ناول کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔’کرو ایٹر‘‘ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے فکشن میں پارسیوں پر کسی نے کتاب قلم بند نہیں کی ،اس کا اگر غیر جانب دار مطالعہ کیا جائے تو اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔لیکن نمایاں طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ شائد انھیں اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ انھیں فکشن کا مو ضوع بنایا جا سکے یا پھر بمبئی میں قیام پذیر پارسی جو خیرات اور خدمت خلق کی وجہ سے اتنے محترم تھے کہ ’’فریدون جنگل والا‘‘ کی طرح کے کردار گھڑ کر ان کا مذاق اڑانا یا دل آزاری کرنامناسب نہیں جاناگیا ۔لیکن جب بیپسی سدھوا نے ’’ کرو ایٹر‘‘ تخلیق کیا تو اس کے بعد ایک سلسلہ چل نکلا اور یکے بعد دیگرے ناولوں میں پارسی کردار تشکیل پانے لگے اور پارسی رسم و رواج فکشن کاحصہ بننے لگے۔اس بارے بیپسی سدھوا ایک انٹرویو میں کہتی ہے۔
’’کروایٹر‘‘ کی اشاعت نے پارسیوں کو خاصا برانگیختہ کیا دیا تھا ۔پارسیوں کی ایک رسم دخمہ ہے جب کوے اورگدھ لاشوں کو کھاجاتے ہیں اور یہ پارسیوں
کی آ خری چیریٹی ہوتی ہے۔میں نے لکھا کہ پارسی مر جائیں گے لیکن اس کے باوجود چیریٹی کرتے رہیں گے ۔ انہوں نے سمجھا کہ میں نے اس رسم کو تنقید
کا نشانہ بنایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے پارسیوں پرکوئی تنقیدی کتاب نہیں پڑھی تھی ۔ بہر حال میرے ناول کے بعد بہت سے مصنفین نے پارسی
کرداروں کے بارے لکھنا شروع کر دیا۔ اب تقریباً ہر انڈین کتاب میں پارسی کیریکٹر لازمی ہوتا ہے۔ ‘‘ (۲)
بیپسی سدھوا کو مذکورہ ناول اشاعت کے مرحلے سے گزارنے کے لیے خا صی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔برِ صغیر کے کسی سے چھاپنے کی حامی نہیں بھری بالآخربیپسی نے ایک دوست کے توسط سے مذکورہ ناول کو لندن بھیجا جہاں یہ اشاعت پذیر ہوا ۔ جب ناول شائع ہوا تو اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ہر ایک اخبار اور جرنل نے اس پہ مثبت جائزے شائع کیے۔جن میں’’نیو یارک ٹائم بک ریویو‘‘ (New york Time Book Review) ،’’ ہوسٹن کرونیکل ‘‘(Housten Chronical)،’’ہارپر ز اینڈ کوین ‘‘(Harper’s and Queen)اور ’’ اکانومک ٹائمزاینڈ لندن ٹیلی گراف ‘‘(Economic Times and London teleghraph)ایسے میگزین اور اخبارات نمایاں ہیں ۔جب یہ ریویوز پاکستان اور بھارت پہنچے توناول کو قبولیت کی نظروں سے دیکھا گیا اور کم وقت میں زیادہ پذیرائی حاصل کر کے’’کرو ایٹر‘‘ شہرتِ عام کی منازل کو عبور کر گیا۔ وہ ناول جو یہاں کے پبلشرز چھاپنے کے لیے تیار نہ تھے جب دساور میں چھپا تو شہرت کی ارفعیت کو چھو گیا ۔بیپسی سدھوا کے ادبی کام کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے ناولوں کے تراجم انگریزی سے اردو ، روسی ،جرمن اور فرانسیسی زبانوں میں بھی ہو چکے ہیں ۔ ادبی خدمات کے صلے میں انھیں بین الاقوامی اور پاکستانی ایوارڈ ز سے نوا زا گیا ہے۔
’’جنگل والا صاحب‘‘کے عمیق مطالعے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ بیپسی سدھوا سماج کے گہرے مشاہدے کی حامل مصنفہ ہے ۔مذکورہ ناول میں اس نے جس غیر جانب داری سے سماجی صورتِ حال کی پیش کش کی ہے وہ نہ صرف حیرت زاہے بلکہ قابلِ تحسین بھی ہے۔اس سماجی اور معاشرتی صورتِ حال کی پیش کاری میں اس کا قوتِ مشاہدہ اور قوتِ بیان اپنے جوبن پر دکھائی دیتے ہیں ۔سماجی حقائق کا ادراک اور پھر ان کے صریح بیان کے کارن بیپسی کو اس ناول پر شدید ردِ عمل کا سامنا بھی کرنا پڑا جو اس کے سماجی جبر سے سمجھوتہ نہ کر نے کا آ ئینہ دار ہے ۔ بیپسی کے تمام ناول متنوع مو ضوعات کے حامل ہیں اور ہر موضوع کا برتاؤ دیگر موضوعات کے برتاؤسے یکسرمختلف ہے۔ اس کے ناولوں میں مو ضوعات کا ایک جہان ہے، مثلاً تقسیمِ ہندوستان،جلاوطنی کا تجربہ،پارسی طبقے کی سماجی صورتِ حال،عورتوں کے مسائل ، اقلیتوں کے مخصوص سماجی رویے،شادی کا موضوع،ہجرت کا کرب اورمعاشی بدحالی وغیرہ ایسے وسیع موضوعات کا انتخاب اور پھر ان کوخوش اسلوبی سے نبھانا،اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بیپسی کے قوتِ مشاہدہ میں غیر معمولی سرعت موجود ہے جو عام سطح سے بالا ہو کر فلسفیانہ اور نفسیاتی حدود کو چھونے لگتی ہے۔ مثلاً ’’کروایٹر‘‘کا کردارفریدون جنگل والا ناول کے ابتدا میں کہتا ہے ۔
’’غرض داد گیر کو خوشامدی بنا دیتی ہے اور ظالم کو رحم دلی پر اکساتی ہے،اسے حالات کہہ لو ،خود غرضی کہہ لو ، جو چاہے کہہ لو ،لیکن اول آ خر یہ ہوتی تمھاری غرض
ہی ہے۔دنیا میں ہونے والی ہر بھلائی صرف آدمی کی اپنی مطلب براری کی خاطر ہی ہوتی ہے۔ وہ آ دمی جو تھوکنے کے قابل ہے، تم اسے کس وجہ سے برداشت
کر لیتے ہو؟وہ کیا چیز ہے جو اس گرانڈیل’ میں ‘ کے گھٹنے ٹکوا دیتی ہے، وہ جناتی انا؟ سو میری بات گرہ میں باندھ لو ،’ غرض‘ تمہیں دشمن سے بھائی کی طرح
محبت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے !‘‘(۳)
درج بالا اقتباس سے آ شکارہوتا ہے کہ بیپسی سدھواانسان کی نفسیاتی صورت حال کا تجزیہ کرنے میں بھی طاق ہے ۔ وہ ایک ماہرِ نفسیات کی طرح انسان کے شعور اور لا شعور کا جائزہ لے کر نتائج مرتب کرتی ہے ۔ اگر دیکھا جائے توخود غرضی کا عمل ذہنی طور پر کمزور افراد میں موجود ہوتا ہے جسے ناول میں فریدون جنگل والا کے کردار کے ذریعے آشکار کیا گیا ہے۔ جب کہ ذہنی طور پر صحت مند افراد اعلیٰ سماجی مقاصد کے لیے جدو جہد کرتے ہیں۔جس کاماہرِ نفسیات ایڈلر نے اپنے نظریات میں تفصیلاً جائزہ لیا ہے ۔
بیپسی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ان اولین پاکستانی ناول نگاروں میں سے ایک ہے جن کا ادبی کام بین الاقوامی سطح پر شائع ہوااور انھوں نے مقبولیت کی حدوں کو عبور کیا۔عالمی شہرت کے حصول کے باوجود بیپسی سدھوا نے ناول کے تمام مو ضوعات ہندوستانی سماج سے کشید کیے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئی اور زندگی کے سردو گرم کو محسوس کیا ۔وہ اپنے ماحول اور سماج کے تجربات اور عمیق مشاہدے کو تخلیقی پیراہن عطا کرکے ادبی تحریر کے نقوش اجاگر کرتی ہیں۔ ناولوں کے موضوعات کا اپنی دھرتی سے کشید کرنا بیپسی کا اپنے سماج اور دھرتی سے محبت کی برملا عکاسی کرتا ہے ۔لیکن یہ موضوعات محض مقامی نہیں ہیں ،اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو ایک باشعور قاری اس کے کرداروں کی تہہ میں وا ضح طور پر اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ سدھوا کے مو ضوعات مقامیت کی قید سے آ زاد ہوتے ہوئے عالمگیریت کا رخ اختیارکرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ تا ریخ کے نسلی ، علاقائی ، قومی اور ثقافتی مسائل کی اہمیت ان کے ہرناول کا جوہرتشکیل دیتی نظر آتی ہے ۔خاص طور پر نو آ بادیاتی ہندوستان کی صورتِ حال اور اس کے لوگوں کی زندگیوں پر اثرات مذکورہ ناول کو وہ قوت عطاکرتے ہیں جو اسے ہمہ جہت اور تہہ در تہہ بنانے میں ممد ہے ۔ جیسے جیسے قاری اس کی تہہ داری اور ہمہ جہتی سے واقفیت حاصل کرتا جاتا ہے اس میں لطف اور دلچسپی بڑھتی جاتی ہے اور قاری پورے ناول کی قرأت کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔بقول بانو قدسیہ ’’ جب آ پ اس ناول کو پڑھنا شروع کریں گے تو آ پ کے لیے اس تحریر کی کسی ایک سطر سے بھی صرفِ نظر کرنا آ سان نہیں ہو گا ‘‘با نو قدسیہ کی یہ پیش گوئی صد فی صد سچ ثابت ہوئی ہے اور آج ادبی دنیا کی بڑی تعداد ناول سے مسحوردکھائی پڑتی ہے۔
بیپسی سدھوا نے تانیثیت کے عنا صر کو بھی اپنے ناول کا حصہ بنایا ہے ۔’’کروایٹر‘‘ کے صفحات پر تانیثیت کے متعددعنا صرنسوانی کرداروں کی شکل میں موجود ہیں ۔اگرچہ فریدون جنگل والاکا کردار ناول کا مرکزی کردارہے لیکن نسوانی کردارناول کی کہانی پر حاوی ہیں ۔ پہلا نسوانی کردار جس سے قاری کا تعارف ہوتا ہے وہ ’’پٹلی‘‘ کا کردار ہے جو ایک روایتی گھریلوخاتون کو منعکس کرتا ہے ۔جسے اپنے بچوں ، خاوند اوررشتہ داروں سے بہتر تعلقات کی بنیاد پر کمال درجے کی طمانیت اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔اس حوالے سے ناول کا اقتباس ملا حظہ ہو۔
’’پٹلی مطمئن تھی۔ اسے گھر کے کام کاج ، بچوں اور شوہر کی دیکھ بھال میں آ سودگی محسوس ہوتی ۔لیکن اس کی کھلی ، بظاہر خالی خالی، آنکھیں فریڈی کے قیاس
سے کچھ زیادہ ہی دیکھتیں تھیں۔وہ جبلی طور پر فریڈی کی گہرائیوں کو کھنگال ڈالتیں اور اکثر کسی قدر مضطرب ہو کرہی ابھرتیں۔ تاہم پٹلی کو ایک بات کا پکا یقین
تھا فریڈی چاہے کچھ بھی کر لے، راہِ راست سے بہر حال کبھی بھٹکنے والا نہیں ہے۔ اس گیان سے مطمئن، پٹلی نے آنے والے سالوں میں سات بچوں کو جنم دیا۔
حمل ٹھہرنے کے پر نشاط لمحے سے لے کر ولادت تک،پٹلی پورے عملیات سے جی بھر کے لطف اٹھاتی۔‘‘(۴)
پٹلی کا کردار ایک ایسا کردار ہے جوتوانائی سے بھر پور ہونے کے باوجود شوہر اور اولادکی محبت سے آگے نہیں سوچتا۔خادموں کی موجودگی کے باوجود وہ شوہر اور بچوں کے لیے خود ہی کھانا پکا کر ان کی خدمت میں پیش کرنا پسند کرتی ہے۔وہ گھر یلو فرائض کی ادائیگی میں خوشگواریت محسوس کرتی ہے اور اکثر اوقات اپنی ہذیانی ماں جر بانوکوپُر سکون بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آ تی ہے۔ناول کا مطالعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پٹلی کے کردار کوفریدون جنگل والا کے گھرمیں آ زادی حاصل ہے لیکن یہ آ زادی اس وقت تک برقرار ہے جب تک یہ مردانہ خواہشات کے تابع ہے لیکن اگراس کی مخالفت میں کوئی قدم اٹھایا جائے تو مرد برداشت نہیں کرتا ۔دراصل بیپسی سدھوا اس ناول کے ذریعے یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ پدرانہ نظام میں خاندان ایک ایسی اکائی ہے جواسے نہ صرف تحفظ فراہم کرتی ہے بلکہ اس کی مضبوطی کی بھی ضامن ہے۔ جب خاندان میں کوئی مشکل صورتِ حال یا انحراف کا شائبہ درپیش ہوتو مرد بحران کی تمام تر ذمہ داری عورت کے کندھے پر ڈال کر سبکدوش ہو جاتا ہے۔فریدون جنگل والا بھی پٹلی کے ساتھ یہی کام کرتا ہے ۔ جب اس کا بیٹا یزدی شاعری کا دلدادہ بن جاتا ہے اور ایک طوائف سے شادی کا خواہاں ہے ، فریدون جنگل والایہ کہتے ہوئے ’’حقیقت میں یہ تمھارا ہی قصور ہے‘‘ اس کے بگڑنے کی تمام تر ذمہ داری پٹلی پر ڈال دیتا ہے۔
پٹلی کا کردار عورتوں کے ایک ایسے طبقے کی نمائندگی کر رہا ہے جو پدرانہ نظام کی اقدار کو بغیر کسی حیل و حجت کے نہ صرف مانتی ہیں بلکہ ان کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتی ہیں ۔ حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو مرد ہزاروں سالوں سے اپنی عورتوں کو گھروں اور گھریلو کاموں تک محدودرکھ کراس کی غیرت، ذاتی انا اور عزت اپنی ذاتی ملکیت بنا چکا ہے اور اپنی اس برتری کو قائم رکھنے اور نیچا دکھانے کے لیے شدید جسمانی اور سخت ذہنی اذیتیں دینے ایسے غیر اخلاقی حربے استعمال کرتا ہے ۔ اس حوالے سے ’’مردانہ معاشرہ، مظلوم عورت اور جمہوریت‘‘ کا مصنف تحریر کرتا ہے۔
مردانہ طبقہ شعوری اور لا شعوری طور سے اپنی بیویوں کے جبلی جذبات کوقابو میں رکھنے کی ہر وقت کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ وہ محتاط ہو جائے۔خوفزدہ ہو کر
مکمل انحصار مرد پر کرے تا کہ دوسرے مردکے ساتھ تعلقات قائم نہ کرے طلاق اورموت کے ڈر سے اپنے آپ کو ایک مردتک یعنی خاوند تک محدود رکھے
ان مقاصد کے لیے معاشرے کے تمام مرد گھریلو تشدد کو ذاتی مسئلہ سمجھتے ہیں ۔‘‘(۵)
پدر سری نظام میں مرد کا دل بہلانا،بچے پیدا کرنا ،شوہروں کی تالیفِ قلب، اُن کی رضاکا حصول،بچوں کی پرورش اور اُن کی تعلیم و تربیت کو عورت کا ہی مقدس فریضہ سمجھا جاتا ہے۔’’پٹلی ‘‘اس ناول میں یہی کام بڑی خوش اسلوبی سے کر رہی ہے اس نے مردانہ معاشرے کی تمام اقدار قبول کر لی ہیں ۔بچوں کی پیدائش ، ان کی پرورش اور گھریلو کام کاج کی ساری ذمہ داریاں اس نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہیں ۔پٹلی کے کردار کی طرح ’’روڈا بائی ‘‘ کا کردار بھی پدر سری معاشرے کی اقدار کو قبول کر چکا ہے۔ وہ بھی پٹلی کی طرح اپنے خاوند کے اشاروں پر ناچتی ہے۔اور ہر اُس قدر پر نہ صرف عمل پیرا ہے جو اسے مردانہ معاشرے میں اعلیٰ مقام و مرتبہ دلانے میں مثبت کردار ادا کرے بلکہ اس کے تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔اگر غور کیا جائے تو عورت کوہمیشہ پدری نظام اور مردانہ تصورات کو مستحکم کرنے میں ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پدری معاشرے میں طاقت کے مراکز ایک ہی وقت میں جنسی اور معاشرتی امتیازات میں پنہاں ہوتے ہیں جو عورت کے ساتھ روا رکھے گئے ہیں۔ان امتیازات کو اجاگر کرنے کے لیے نسوانی نقاد’’ ہیلن سکوس‘‘نے اضدادی جوڑے بنائے ہیں جو فن، مذہب ، زبان اور عام فکر کا احاطہ کرتے ہیں ۔ ( جس پر بحث کسی اور موقع پر اٹھا رکھتے ہیں ، سرِدست اس کا حوالہ کافی ہے۔)
بیپسی سدھوا نے اس اہم پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جس میں عورت کی حیثیت کو کم تریابا الفاظِ دیگر امتیازی ثابت کرنے کی سعی کی جاتی ہے ۔ماہواری کے دنوں میں عورت کو ناپاک یا پلید سمجھا جاتا ہے اورلوگ اس سے حتی الوسع اجتناب برتتے ہیں۔ حیض کے ساتھ قدیم معاشروں میں کئی توہمات وابستہ تھیں تا کہ عورت کو مرد سے کم تر ثابت کرکے اُس کو تابع رکھا جا سکے۔اسی طرح کی توہمات پارسیوں کے ہاں بھی موجود ہیں جن کو پارسی خواتین مذہب کا حصہ سمجھ کر قبول کیے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف احتجاج کرنا تو کجاان کے خلاف بات کرنا بھی گناہ سمجھتی ہیں۔ان توہمات کاذکر بیپسی سدھوا نے اپنے ناول میں بھی واضح الفاظ میں کیا ہے ۔اس بارے میں اقتباس ملا حظہ ہو۔
’’ہر پارسی گھرانے کا اپنا ’دوسراکمرہ ‘ہوتا ہے اور صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ یہاں وہ اپنی ناپاکی کی پوری مدت کے لیے اکیلی
چھوڑ دی جاتی ہیں۔حتیٰ کہ سورج ،چاند اور ستارے تک ان کی ناپاکیزہ نگاہ سے نجس ہو جاتے ہیں ،اور اس توہم کی بنیاد ابتدائی، غیر تہذیب
یافتہ انسان کا خون سے خوف زدہ ہونا ہے۔‘‘(۶)
عورت کو مرد سے کم تر ثابت کرنے کا یہ عمل آج سے نہیں ، یہ اس وقت سے موجود ہے جب تاریخ میں زرعی انقلاب نے جنم لیا اور مدر سری نظام ،پدر سری نظام میں تبدیل ہو ا۔یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے کی شاعری، داستانوں ، قصوں، لوک کہانیوں میں تخلیق کاروں نے عورت کو بے وفا، فریبی اورنفس پرست کہا ہے۔چاسر،بوکاکیو اور بالزاک کی کہانیوں کو اس حوالے سے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔یہ عمل محض تخلیق کاروں تک محدود نہیں ، زندگی کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں عورت کو مرد کے تابع رکھنے کے لیے ایسا ڈسکورس تشکیل دیا گیا کہ اس کی کمتری فطری اورمنطقی محسوس ہو۔اس ضمن میں ارسطوکا یہ قول’’جب قدرت کسی کو مرد بنانے میں ناکام ہوتی ہے تو اُسے عورت بنا دیتی ہے۔‘‘بڑا اہمیت کا حامل ہے جومذکورہ بالا بحث کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح کی سوچ کا اظہاریورپیڈیس،نیٹشے ،شیکسپیئر،شوپنہاراوربائرن کی تخلیقات سے بھی نمایاں ہوتا نظر آ تا ہے۔حتیٰ کہ پال سارتر جو روشن خیالی کا علم بردار ہے اس کی تخلیقات میں نسوانی کرداروں کی پیش کش ،مردانہ کرداروں کی پیش کش سے مختلف ہے۔ اس حوالے سے علی عباس جلالپوری تحریر کرتے ہیں ۔
’’اس(سارتر)کے ناولوں کے نسوانی کردار بے رنگ ہیں۔اس کے خیال میں عورت پستی اخلاق کا باعث ہوتی ہے۔وہ عشق و محبت کے پاکیزہ جذبے
کا ذکر خشونت آ میز کلبیت سے کرتا ہے۔ لیکن مردوں کے ہم جنسی معاشقوں کی نگارش میں اس کے قلم کی رعنائیاں ابھر آتی ہیں۔‘‘(۷)
پریانکا سنگھ( پی ایچ ڈی سکالر)نے’’ لینگو یج آ ف انڈیا‘‘میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں’’کروایٹر‘‘ کا تانیثی جائزہ لیا ہے جس میں انھوں نے عورت کی کمتری اور اُس کے حیض سے مملو خیالات پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے۔
’’It is little understood that such a delineation of female body as impure or polluting agent tends to cripple the psychology of women. But this has been the state of women over the years and is witnessed in smaller or greater degree everywhere”

’’یہ بات کسی حد تک تسلیم شدہ ہے کہ عورت کے جسم کوآ لودہ یا ناپاک قرار دینا اس کی نفسیات کو مفلوج کر دیتا ہے۔ لیکن سالہا سال سے عورت کے ساتھ
یہی ہوتا آ یا ہے اور چھوٹے یا بڑے پیمانے پر اس کی شہادت ہر کہیں ملتی ہے۔‘‘(۸)
آگے چل کرناول نگار نے قاری کی توجہ اس طرف بھی مبذول کروائی ہے کہ عموماً ہمارے معا شرے میں عورت کو جنسی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے جو عورت کی صحت مندانہ نشوونما کی راہ میں ایک بڑی رکا وٹ ہے ۔ اس کا بنیادی مقصد عورت کوذہنی ، فکری اور جسمانی سطح پر معصوم یا گناہوں سے دور رکھ کر اس کی پاکیزگی کو برقرار رکھنا ہے۔لڑکیوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا جا تا ہے ،اتفاقیہ اگر کوئی اس بارے جان کاری حاصل کر لے تو الگ بات ورنہ عموماً ان کو جاہل رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ۔ان کی پاکیزگی کوممکن بنانے کے لیے پردے کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے جو عورت اور مرد میں امتیاز کا باعث بنتا ہے ،جس کا ذکر بیپسی سدھوا نے ناول میں جابجا کیا ہے۔ اس دور کے ہندوستان میں لڑکیاں بمشکل نظر آتی تھیں،اور والدین بھائی، دادا، نانا،چچیاں اور چچے ان کی کڑی نگرانی کرتے تھے۔ حتیٰ کہ لڑکیوں کے معصومانہ کھیلوں پر بھی انھیں سزا دی جاتی تھی۔لا ہور میں اس وقت دوکانوں میں سیلز گرلز کا رواج نہیں تھا ،پورے شہر میں مخلوط تعلیم کا ایک ہی سکول تھا۔نوجوان صرف اپنے ہی خاندان کی عورت سے بات کر سکتا تھا ،دیگر عورتوں سے گفتگو کرنا غیر اخلاقی تصور کیا جاتا تھا۔ اس ساری صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو مرد اور عورت کے تعلقات کی نوعیت بدل جاتی ہے اورمحبت کا صحت مندانہ تصور جنس میں بدل جاتا ہے جس کا تجزیہ بیپسی سدھوا نے ناول میں درج ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
’’اس ماحول میں جہاں جذبات اور خواہشات کو اتنی سختی سے دبا دیا جائے، محبت کو اپنی نمو کے لیے حیرت انگیز طور پر کچھ نہیں چاہیے ہوتا ۔اس کی
کونپل حد درجہ انجانی جگہوں اور عجیب ترین وقتوں میں پھوٹ نکلتی ہے، اور عجیب عجیب شکلیں اختیار کر تی ہے۔آپ کو عورت کے سینڈل سے باہر
جھانکتی ہوئی گرد آ لود انگلیاں نظر آ تی ہیں اور آ پ اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں ، اس کے باوجود کہ اس کا چہرہ اور سراپا پردے میں چھپا ہوتا
ہے۔ آ پ کو مرد کے سر کا عقبی حصہ دکھائی دیتا ہے یا دیوار کی دوسری طرف سے اس کی آ واز سنائی دیتی ہے اور آپ اس کے دامِ الفت میں اسیر ہو
جاتے ہیں۔‘‘(۹)
اس طرح کا عشق مسلمانوں اور ہندوؤں میں کثرت سے موجود تھا جو اپنی عورتوں کو پردے میں رکھنے کے قائل تھے،لیکن پارسی طبقے میں اُس دور میں پردے کا رواج نہیں تھالیکن ثقافتی اجارہ داری نے انھیں بھی پردے کا اہتمام کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔پردے کا یہ تصور پاکستان میں علاقے اور طبقے کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ درمیانے طبقے سے متعلقہ لوگ اس کا اہتمام سختی سے کرتے ہیں جب کہ نچلے اور بالائی طبقے میں اس کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا ۔عموماً ہمارے معاشرے میں ایسا ہوتا ہے کہ عورت کو جسمانی اور ذہنی سطح پر کمزور مخلوق ثابت کیا جاتا ہے ،اس میں کمزوری کا احساس بیدار کر کے مرد اس کی حفاظت کا ٹھیکیداربن جاتا ہے ۔لیکن یہ معاملہ لڑکوں کو درپیش نہیں ہوتا وہ جو چاہیں مرضی کریں ،لڑکے نہ صرف ہمارے معاشرے میں جنسی تعلیم حا صل کر سکتے ہیں بلکہ شادی سے پہلے ہی اگر شادی والے عمل سے گزربھی جائیں تو اِس پر کوئی خا ص ردِ عمل سامنے نہیںآتا۔مثلاً ناول میں ’’بلی‘‘ کا کردارہیرا منڈی سے تین بار لڑکی کو بلاتا ہے، کاما سوترا کا مطالعہ کرتا ہے اور اپنے دوستوں سے جنسی معاملات زیرِ بحث لاکر لطف کشید کرتاہے ،لیکن اس پہ کوئی سخت ردِ عمل سامنے نہیں آ تا۔اگر یہی کام ’’فریدون جنگل والا‘‘ کی بیٹیاں کر رہی ہوتیں تو یقیناًسخت ردِ عمل سامنے آ تا۔
اس طرح مصنفہ اس ناول میں عورت پر مرد کی جنسی فوقیت کا پردہ چاک کرتی ہے جو معاشرے نے غیر منطقی طور پر قائم کر رکھی ہے۔مرد کی برتری کے اِس مصنوعی ڈسکورس کو توڑنے کے لیے اس نے کوئی باغی کردار پیش نہیں کیا جو سوفوکلیز کے کردار ’’ انٹی گونی‘‘کی مانندمرد کی روایات ، جامد تصورات ،فرسودہ تعصبات اور مرد کی غیر فطری سیادت کو چیلنج کرتا اور عورت کی بغاوت کی علامت بن کر سامنے آ تا۔ناول کے تمام کردار پدری معاشرے کی اقدار کو قبول کرتے نظر آتے ہیں ۔’’پٹلی‘‘ ،’’روڈا بائی‘‘ اور ’’ تانیا‘‘ کے کردار تہذیبی ،معاشرتی اور ثقافتی اقدار کی قبولیت پذیری کی واضح عکس بندی کرتے نظر آ تے ہیں ۔عورت کا عورت کے خلاف معاشرتی استحصال جو ہندوستانی معاشرے میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے، اس کا اظہارناول میں ’’پٹلی‘‘ اور اس کی بہو ’’ تانیا ‘‘ کے کرداروں سے نمایاں ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
بیپسی سدھوا نے اس ناول میں مذہبی عنا صر کا تجزیہ کر نے کی بھی کامیاب کوشش کی ہے۔مذہب جس سے انسان کا قدیم تعلق ہے جو روحانی اور مادی دونوں معاملات میں ایک راہنما ضابطے کا کام کرتا ہے۔اگر انسان کی تاریخ کامطالعہ کیا جائے تویہ شروع ہی سے اپنے مسائل کے حل اور مشکلات کے ازالے کے سلسلے میں اِس سے رجوع کرتا رہا ہے۔مذہب ابتدا میں ہر مظہر کی تشریح روحانی انداز میں کرنے کا قائل رہا ہے۔ اِس کے نزدیک کائنات کا ہر واقعہ کسی نہ کسی غیر مادی عنصر کا پیدا کردہ ہے لیکن سائنسی ترقی نے ہر وقوعہ عقلی بنیادوں پر ثابت کر دیا ۔اس طرح دورِ حا ضر کے مفکرین نے کائنات کے مظاہر کو عقلی قوانین کا پابند کر کے اُن تمام واقعات کی تردید کی جو عقلی پیمانوں پر پورے نہ اترتے تھے۔آ ج کے اس سائنسی دور میں انسان مادی قوانین اور عقلی و منطقی انداز میں زندگی گزارنے کا قائل ہو چکا ہے اوروہ مذہبی اقدارسے دور ہوتا جا رہا ہے۔ بیپسی سدھوا کے ناول کا مرکزی کردار’’فریدون جنگل والا‘‘ دنیا داری کے تمام معاملات میں عقلی تقا ضوں کو بروئے کار لانے کا قائل ہے۔ لیکن جیسا کہ معروف نفسیات دان ’’کارل گستاؤیونگ ‘‘ انسانی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے اجتماعی لاشعور کا نظریہ پیش کرتا ہے اور اجتماعی لاشعور کے نظریے میں اساسی نقوش(Archetypes)کواس کے بنیادی اجزا قرار دیتا ہے ۔ یونگ کے خیال میں ان سے مل کر ہی اجتماعی لاشعور کی تشکیل ہوتی ہے ۔ وہ تجربات جو نسلیں سالہا سال سے مستقل طور پر دہرا رہی ہوتی ہیں ان کااشاراتی یا مختصر ترین اظہارمع ہیجانات کے یونگ کے نزدیک اساسی نقوش کہلائے گا۔ یہ فرد کے کرداری رحجانات کا تعین کرتے ہیں ۔ ’’فریدون جنگل والا‘‘ کا کردار بظاہر بڑا دنیا دار اور مفاد پرست انسان دکھائی دیتا ہے جو دولت طاقت اور روپے کے حصول کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے جس کا نظریہ ہے کہ ’’دنیامیں سب سے میٹھی چیز تمھاری ’غرض ‘ہے۔۔۔تمہاری اپنی ’غرض‘۔تمہاری خواہشات، عافیت اور اطمینان کا سر چشمہ۔‘‘،لیکن اس کے لا شعور میں مذہبی اقدار اور وہ تمام توہمات موجود ہیں جن کا انسان مختلف ادوار میں تجربہ کرتا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب اس کا بیٹا بیماری کا شکار ہوتا ہے تو وہ مذہب کی جانب رجوع کرنے پر مائل ہوتا ہے۔فریدون جنگل والا مذہبی ہونے کے باوجود تمام مذاہب سے احترام اور محبت کا جذبہ رکھتا ہے۔جس کا اظہاراس بات سے ہوتا ہے کہ اس کی میز پر ’’اوستا‘‘ کے ترجمے کے ساتھ ساتھ’’قرآن‘‘ کا ترجمہ بھی موجود ہوتا تھا، داس کیپیٹل ، بدھ مت اور جین مت کے عقائد کی کتب اس کے سوا تھیں جن کا مطالعہ وہ اکثر و بیشتر کرتا رہتا تھا۔اس کا تعلق بیپسی سدھوا نے اڑھائی ہزار سال پرانی اس روایت سے جوڑا ہے جس میں داریوش اور کوروش نے نہ صرف مذہبی یگانگت اور بھائی چارے کی تلقین کی تھی اور بابلی قیدیوں کو آ زاد کر کے ان کے کنشت کو از سرِ نو تعمیر کر وایا۔ تورات بھی اسی عہد میں لکھی گئی جس کی وجہ سے یہودیت پر زرتستی مذہب کے اثرات کو تلاشا جا سکتا ہے۔ ہندوستان میں اسی عہد میں بھگوت گیتا لکھی جا رہی تھی تھی۔بقول بیپسی سدھو ا’’ زرتشی مذاہب دنیا کے تمام مذاہب کے عین قلب میں پایا جاتا ہے، چاہے یہ مذہب آر یائی ہوں یا سامی۔۔۔‘‘ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو فریدون جنگل والا کے اجتماعی لاشعور میںیہ بات داخل ہے کہ وہ تمام مذاہب کو احترام اور محبت کی نگاہ سے دیکھے اور وہ دیکھتا بھی ہے ۔اس میں مذہبی منافرت نامی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔
اسی دوران گو پال کرشن کا کرداربھی سامنے آ تا ہے جو ہندوستانی تہذیب کا نمائندہ کردار ہے۔مصنفہ نے اس کردار کے ذریعے قدیم ہندو مذہب کی رسومات کو قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ ہندوستانی تہذیب کا تعارف کرواتے ہوئے وہ گوپال کرشن کے کردارکو یوں سامنے لاتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’اور پھر یہاں اصحابِ سر بھی تو ہیں :صوفی،سادھو،پیر ،بابااور سوامی؛اور سنتوں کے اوتار، وہ پرانے متوفی جن کی دانش اور با ضابطہ علم انہیں
ایک عہدِ رفتہ میں دوسروں سے ممیّز کرتا تھا ۔اور ان کے ترجمان۔
انہیں میں سے ایک گوپال کرشن نامی برہمن بھی تھا۔‘‘(۱۰)
ہندوستانی تہذیب ایک عظیم اور وسیع الزاویہ تہذیب ہے اور کئی اعتبار سے عظمت کی مالک بھی ہے۔قدیم ہندوستان کے تخلیقی دماغوں نے جس دقتِ نظر اورتخلیقِ فکر کا مظاہرہ کیا وہ علوم کی تاریخ میں سنگِ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ریاضیات اور علمِ نجوم میں ہندوستان کے جوتشیوں نے جو اندازِ نظر اختیار کیا وہ دیگر تہذیبوں میں خال خال پایا جاتا ہے۔آریہ بھٹ اس تہذیب کا نمایاں ماہرِ ارضیات اور عالمِ ہئیت تھاجس سے بعد میں البیرونی بھی متاثر ہوا ۔ آریہ بھٹ اور برہم گپت کسورِ اعشاریہ سے واقف تھے بعد ازاں جن سے محمد بن موسیٰ الخوارزمی نے خیالات مستعار لے کر انھیں بغداد میں رواج دیا ۔کرشن گوپال جو برہمن ہے اور جنم پتری بنانے اور فال نکالنے میں مہارت کا حامل ہے وہ فریدون جنگل والا کو اس کے بیٹے ’’سولی ‘‘کے بارے میں قبل از وقت بتا دیتا ہے۔کرشن گوپال کا حساب اتنا درست ہے کہ وہی کچھ وقوع پذیر ہوتا ہے جس کی وہ اطلاع دے چکا ہوتاہے۔یعنی ٹھیک تین دن بعد فریدون کا بیٹا اس دنیا سے اٹھ جاتا ہے۔
سولی کی آ خری رسومات کے بیان سے بیپسی سدھوا نے ’’جنگل والا صاحب ‘‘ میں پارسیوں کی مذہبی روایات اور عقائد کو نمایاں کرنے کی بھر پورسعی کی ہے۔اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ پارسی مذہب دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے جسے مزدائیت یا مجوسیت کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل صائبین کا راج تھا جو ستارہ پرست تھے۔ زرتشت نے قدیم صائبیت کی اصلاح کی ذمہ داری اپنے سر لی جسے بعد میں ساسانیوں نے آگے بڑھایا۔زرتشت نے قدیم دیوتاؤں کی پو جا پاٹ سے منع کیا اور’’ اہور مزدا‘‘، جو آ قائے دانش ہے ،کی عبادت کی جانب مائل کیا۔مجوسیوں کے نزدیک ’’اہور مزدا‘‘ جسمانی مفہوم میں نور ہے اور اخلاقی مفہوم میں صداقت ہے۔سورج آسمان پر اور آگ زمین پر اس کے نور کے مظاہر ہیں۔ مجوسیوں کے ہاں بُت پرستی ممنوع ہے۔علی عباس جلال پوری نے’’ روایتِ تمدن قدیم‘‘میں ایک جگہ مارکھم کی ’’تاریخِ ایران ‘‘کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ایرانی واحد قوم ہے جس نے اپنی تاریخ کے کسی دور میں بتوں کی پوجا نہیں کی۔اسی سبب ان کے ہاں نہ تو بت ملتے ہیں اور نہ ہی قربان گاہیں موجود ہیں ۔زرتشتیوں کی مقدس کتاب کا نام ’’اوستا‘‘ ہے۔ اوستا کے قدیم ترین جزو کو ’’گاتھا‘‘ کہا جاتاہے۔جس کے نمونوں کا ذکر ’’جنگل والا صاحب ‘‘ میں متعدد بار ہوا ہے۔مثلاً ناول کے صفحہ ۱۲۳پر’’گاتھا‘‘ کا اقتباس ناول نگار نے یوں درج کیاہے۔
’’صداقتِ عظیم پر کان دھرو۔روشن ذہن(اصلاً دماغِ تاباں) کے ساتھ اپنے باطن میں اس دین کو دیکھو جوتم نے خود منتخب کیا ہے، فرداً ، فرداً
ہر ایک نے خود اپنے لیے‘‘(۱۱)
’’سولی ‘‘کی آخری رسومات میں ’’مینارِ سکوت‘‘کا ذکر کیا گیا ہے۔ زرتشتی مذہب میں عنا صرِ اربعہ :پانی ،ہوا ، مٹی اور آ گ کو آ لودہ کرنا منع ہے۔ مٹی ،ہوا اور آ گ کو آ لودہ گی سے بچانے کے لیے وہ اپنے مردے دفن نہیں کرتے بلکہ مینارِ سکوت یا دخمہ میں رکھ آتے ہیں جہاں چیلیں اور کوے انھیں کھا جاتے ہیں ۔بیپسی سدھوا نے مینارِ سکوت کی تفصیل درج ذیل الفاظ میں کی ہے۔
’’۔۔۔اس کا مرمریں فرش اندر کی طرف ڈھلوان بنایا جاتا ہے جس کے بیچوں بیچ گڑھا ہوتا ہے۔یہیں مردے کا خون اور ہڈیاں آ کر جمع ہوتی ہیں
گڑھے کے نیچے سے زمین دوز نالیاں نکل کرمینار کے باہرچار گہرے کنوؤں میں جاتی ہیں جو چونے،کوئلے اور گندھک سے بھرے ہوتے ہیں
اور آلائشیں علیحدہ کرنے کے بہترین کام آ تے ہیں۔فرش کا بیرونی حلقہ مرمر کی سلوں سے بنا ہوتا ہے جو بیک وقت پچاس مردانہ لاشیں رکھنے کے لیے
کافی ہوتی ہیں، اس کے بعدزنانہ لاشوں کی باری آتی ہے،اور گڑھے سے قریب ترین اندرونی حصہ بچوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے ۔ گدھوں کو سارا
گوشت چٹ کرنے میں صرف چند ہی منٹ لگتے ہیں ۔‘‘(۱۲)
مینار کے گرد دیوار بھی موجود ہوتی ہے،جب کوئی گدھ ہوا میں اڑنے کی کوشش کرے تو بمشکل دیوار عبور کر پاتا ہے اور پنجوں اور چونچ میں اگر کچھ دبا رکھا ہو تودیوار سے ٹکرا جاتا ہے۔کیوں کہ لاہور میں کوئی مینارِ سکوت موجود نہیں تھا اس لیے ’’سولی ‘‘ کوآتش کدے میں لے جایا گیا۔اسے پتھر کی دو سلوں پر لٹا کر ایک میت بردار نے نوکیلی کیل سے اس کے گرد تین دائرے لگائے جس میں جُز میت اٹھانے والوں کے کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔
مجوسیوں کے ہاں اود بلاؤ اور کتا مقدس تصور کیا جاتا ہے ، کیوں کہ ان کے خیال میں یہ جانور ’’ ہر مزد‘‘ کے پسندیدہ جانوروں میں سے ہیں ۔انسان کے فوت ہوتے ’’سگِ دید‘‘ اور ’’ سگِ پیشوا‘‘ کی رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔مرتے دم چار چشم زرد رنگ کے کتے کو مریض کے بستر کے قریب لایا جاتا ہے تا کہ مریض اس کا منہ دیکھ کر جان دے سکے۔اس رسم کو ’’ سگِ دید‘‘ کہا جاتا ہے۔ان کا یہ عقیدہ ہے کہ کتے کی چار آنکھیں بد روحوں کو دور کر سکتی ہیں ۔بیپسی سدھوا نے ’’ جنگل والا صاحب‘‘ میں اس رسم کا ذکر کیا ہے جو سولی کے مرنے پر ادا کی جاتی ہے۔کتے کا زندگی کی موہوم سی علامت پہچان لینے کے عمل کو قدیم طب میں بڑا نایاب سمجھا جاتا تھا اس رسم کی ادائیگی میں کبھی کبھار مردے اٹھ بیٹھتے تھے۔نا ول میں جب یہ رسم ادا ہو رہی ہوتی ہے تو ’’ پٹلی‘‘ بھی یہ خواہش کرتی ہے کہ وہ لاش کے پاس جائے ،لیکن ایسا نہیں ہوتا۔پارسیوں کی اس رسم کے بارے ایک روایت موجود ہے کہ ’’یم‘‘ یا ’’جم‘‘ خداوندگانِ مردگان ہے جس کے پاس دو چار چشم کے کتے ہیں جو مردوں کو سونگھ کر تلاشنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔’’سگِ دید‘‘ کی رسم اسی عقیدے سے یاد گار ہے۔
پارسی لوگ پندرہ یا سولہ سال کے نوجوان کو ’’کستی‘‘ باندھنے کی رسم بھی ادا کرتے ہیں ۔جس کا ذکر ناول میں کئی مقامات پر موجود ہے ۔(نمونے کے لیے کتاب کا صفحہ۱۲۳ ملا حظہ کیا جا سکتا ہے)۔ ’’نوجوت ‘‘ کی رسم جس میں بچوں کو باقاعدہ طور پر زرتشی مذہب میں دا خل کیا جاتا ہے ، کی رسم بھی پارسیوں کے ہاں بڑی اہم ہے ۔نا ول میں ’’پٹلی ‘‘کی زندگی میں سب سے فخریہ لمحہ اس وقت ظہور پذیر ہوتا ہے جب اس کے بچوں کو ’’ نو جوت ‘‘ کی رسم میں زرتشتی بنایا جاتا ہے اور اس موقع پر انھیں ’’سدرہ ‘‘ اور ’’ کستی ‘‘ سے لیس کیا جاتا ہے جو ان کے مذہب کی ظاہری علامتیں ہیں ۔
’’زرتشت کی تعلیمات میں آ زادیِ انتخاب کے عقیدے کا بڑا اونچا احترام ہے ، زرتشتی والدین کی اولاد کو اس وقت تک زرتشتی نہیں سمجھا جاتا جب
تک نوجوت کی رسم میں وہ خود اس مذہب کو اختیار نہیں کرتے‘‘(۱۳)
پارسیوں کے ہاں آگ مقدس سمجھی جاتی ہے اور اس کی تقدیس میں مبالغہ آ رائی سے کام لینا ان کا خاصا ہے۔نا ول میں آ گ کا ذکر بار بار ملتا ہے جس کو توانائی کی ایک علامت کے طور پر لیا جا سکتا ہے ۔تفصیل میں جائے بغیراگر دیکھیں تو پارسی تہذیب کی پیش کش بیپسی سدھوا کی تخلیقات میں بڑی کام یابی سے موت ، شادی اور مذہبی رسوم و رواج اور روایات کے توسط سے صورت پذیر ہوئی ہے ۔یہ عین فطری عمل ہے کہ مصنف جس کلچر میں سانس لے رہا ہوتا ہے اس کا اظہار اس کی تصانیف میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔بیپسی سدھوا بھی ایک ایسی ہی مصنفہ ہے جس کی تمام تحریروں میں بالعموم اور جنگل والا صاحب میں بالخصوص، مذہب ، تہذیب اور ثقافت کو آ سانی سے تلاشا جا سکتا ہے۔بیپسی سدھوا کی اس خصوصیت پر بحث کرتے ہوئے افتخار حسین لون اپنے مضمون میں تحریر کرتے ہیں ۔
’’Being a parsi by birth, she is profoundly rooted in her own Parsi culture and beliefs and completly engrossed in it. Bapsi has given voice to all that happend to her in and out side her home”

پیدائشی طور پر پارسی ہونے کے باعث،وہ پارسی ثقافت اور عقائد کی عمیق گہرائیوں میں مکمل طور پر جذب ہے۔بیپسی نے اپنے ساتھ بیتنے والے
گھر کے اندر اورباہر تمام واقعات کو زبان عطا کر دی ہے۔‘‘(۱۴)
ناول میں برِ صغیر کے نو آ بادیاتی دور کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ نو آبادیات کا سلسلہ یو ں تو خا صا قدیم ہے لیکن ناول میں اس دور کو دکھانے کی سعی کی گئی ہے جو سر مایہ دارانہ نظام کے نتیجے میں سامنے آیا۔اگر نو آ بادیاتی نظام کا مطالعہ کیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ سامراجی طاقت ہمیشہ اس وقت نو آ بادی قائم کرتی ہے جب اسے دولت اور خوش حالی میں اضافہ مقصود ہواور مارکیٹ میں خام مال اور انسانی محنت کے جو دام ادا کرنا پڑ رہے ہیں اس سے کم داموں پرمحنت کی لاگت میسر آ سکے۔اس کے علاوہ نو آ بادیاں قائم کرنے کاایک بڑامقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ تیار شدہ اشیا کی کھپت مقبوضہ علاقوں میں منہ مانگی قیمت کے بدلے ہو سکے۔نو آبادیاتی نظام سولہویں صدی کے بعد تیزی سے مستحکم ہوا ،اور مغربی طاقتیں معاشی اور عسکری حوالے سے افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا میں تسلط قائم کر کے بہت مضبوط ہوگئیں۔برِ صغیر پاک و ہند میں بھی یہ صورتِ حال سامنے آ ئی اور برطانوی نو آ بادیات نے یہاں کی معیشت کو اپنی گرفت میں لے کر یہاں کے لوگوں کا استحصال کیا۔استحصالی نظام اور معاشی تسلط کو قائم رکھنے کی خا طرایسے قوانین وضع کیے گئے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھے ۔ 1935کا انڈین ایکٹ اس کی بہترین مثال ہے ۔بیپسی سدھوا نے ’’ جنگل والا صاحب‘‘ میں اس نظام کی کج رویوں اور بے اعتدالیوں کو مختلف کرداروں کے توسط سے آ شکار کرنے کی کوشش کی ہے ۔خا ص طور پرنو آ بادیاتی نظام میں سول بیوروکریسی ،لوگوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھتی ہے ،اس کی عکس بندی ناول کے صفحات پر جابجا کی گئی ہے ۔
فریدون جنگل والا جب بیمہ پالیسی کے کیس میں مشکل کا شکار ہوتا ہے تو اس وقت ’’گبنز‘‘ کا کردار سامنے آ تا ہے۔گبنزکا تعلق پولیس کے محکمے سے ہے ۔ اس کی فریدون جنگل والا سے اس لیے دوستی ہے کہ وہ پینے پلانے کا شوق رکھتا ہے اور یہ سہولت فریڈی اسے باہم پہنچاتا ہے۔ فریڈی کے کردارکا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ ایک ایسا کردارہے جو اس دور کے افسرانِ بالا یعنی بیورو کریسی سے تعلقات رکھنے کا شائق ہے ۔نو آ بادیاتی عہد میں صرف وہی شخص با اثر ہو تا ہے جو سول ، جو ڈیشل اور فوجی بیورو کریسی میں اپنی جڑیں مضبوط رکھے۔یہی وجہ ہے کہ فریدون جنگل والا بھی معاشرتی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا قائل ہے۔ مسٹر ایڈن ولا جو کہ بیمہ کمپنی کا نمائندہ ہے اور فریڈی کو بیمہ کی رقم میں ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے، ’’گبنز‘‘ کی موجودگی سے مرعوب ہو جا تا ہے اور خود کو مستحکم کرنے کے لیے خوش کن واقعات سنانا شروع کر دیتا ہے۔پو لیس سے تعلقات کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تین روز کے اندر ہی اندر مسٹر ایڈن ولا کو پنجاب پولیس کے تھانے سے رپورٹ ملتی ہے جس میں اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ آ گ بالکل اتفاقیہ تھی جس کا با عث جھاگ والی سو ڈے کی بوتل تھی جو اچانک پھٹ پڑی۔حالانکہ دوکان میں آ گ فریدون جنگل والا نے خود لگائی تھی تا کہ وہ بیمے کی رقم ہتھیا سکے۔محکمہ پولیس کی تفتیش کی جانبداری اور فریدون جنگل والا کے اثر رسوخ کا اندازہ قاری پر اس واقعے کے ساتھ ہی منکشف ہو جاتا ہے ۔ انسپکٹر جنرل پولیس کے دفتر سے شائع ہونے والی یہ رپورٹ حرفِ آ خر ہے جسے چیلنج کیا جا نا نا ممکن ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیوروکریسی اتنی طاقت ور اور حرفِ آ خر کیوں ؟ ظاہر ہے کہ برطانیہ نے فوج کے ذریعے برِ صغیر پر قبضہ کر کے سول بیورو کریسی کواپنے تابع اس لیے رکھا کہ لوگوں کی معاشی اور معاشرتی زندگی کو اپنی گرفت میں رکھا جا سکے۔ کا لونیل قبضے کا ایک سا دہ سا اصول ہے کہ قبضے کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ جب تک وہاں کے مقامی لوگوں کے ایک گروپ کو حا صل ہونے والے مفادات میں شراکت دار نہ بنا لیا جائے ۔ اس مقصد کے تحت برطانوی سامراج نے ایک کالونیل جاگیر داراور تجارتی طبقہ تخلیق کیا جس میں فریدون جنگل والا جیسے لوگ شامل تھے جو حکومتی مفادات کا تحفظ بھی کرتے تھے اور لوگوں پر رعب داب اور شان و شوکت قائم کر کے انھیں اپنی گرفت میں بھی رکھتے تھے ۔پولیس کا محکمہ کالونیل جاگیر دار اور تجارتی طبقے کا محا فظ تھا اور عدالتیں انتظامیہ کے ماتحت تھیں جو پولیس کی ضمنی کو آ سمانی صحیفہ سمجھ کر فیصلہ کرتی تھیں ۔پولیس کی ضمنی اس طاقت ور طبقے کی مرضی و منشا کے تحت ہی درج کی جاتی تھی ۔جیسا کہ فریدون جنگل والا کے کیس کے سلسلے میں ہوا اور نتائج بھی اس کی مرضی کے تابع سامنے آئے۔
نو آبادیاتی دور کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہمیشہ حاکم اور محکوم قوم کی ثقافتیں ایک دوسرے کے قریب آنے کی متقاضی ہوتی ہیں جس کا ہر صورت میں نو آباد کار کو فائدہ ہوتا ہے۔ان ثقافتوں کو قریب آ نے کے لیے یکساں اقداری تصورات درکار ہوتے ہیں جو حاکم طبقے کے دانشور دریافت کرنے میں اپنا زور لگاتے ہیں تاکہ غالب اور مغلوب میں مغائرت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ ہندوستان میں اس حوالے سے سر سید احمد خان کا ایک اہم کردار ہے جس نے اس خلیج کو پاٹنے کی ہر ممکن کوشش کی۔اگر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو ہندوستانی اور انگریزی ثقافت میں کئی اشتراکات موجود تھے۔ اسلام اور عیسائیت دو نوں سامی مذاہب تھے، دونوں نے سائنس اور فلسفے کے سلسلے میں یونان سے استفادہ کیا تھا ۔ ہندوستان اور یورپ نسلی سطح پر آ ریائی تھے اور لسانی سطح پر انگریزی اور ہندی زبان، زبانوں کے ہند یورپی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، جس کا انکشاف ولیم جونز کر چکا تھا۔مزیدبراں گلکرسٹ کی خدمات کو بھی اس ضمن میں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اشتراکات سے قطع نظر کرتے ہوئے ہندوستان کا جائزہ لیا جائے تو نوآبادیاتی عہد میں یہ قدامت اور از کار رفتگی سے متصف تھا اور اس کے برعکس برطانیہ ترقی یافتہ اور جدید سہولیات کا حامل تھا اور یہ دونوں رحجان انضمام کے لیے بھی سر گرداں تھے، یوں نو آبادیاتی عہد میں ہندوستان ہچکچاہٹ اوردوجذبی رحجان سے دو چار نظر آ تا ہے۔ہندوستان کے باشندے اپنی قدیم روایات سے بھی جڑے رہنے کے متمنی تھے اور ترقی یافتہ دنیا کی اقدار سے متصف ہونے کے لیے بھی کوشاں تھے۔’’ جنگل والا صاحب ‘‘میں اس مظہر کو مصنفہ نے ابھارنے کی کا میاب کوشش کی ہے۔ناول کے آخری حصے میں جب فریدون ،جر بانو اور پٹلی کے کردار ہندوستان سے انگلستان کا سفر کرتے ہیں تو اپنے آ قا کے ملک کے تہذیب و تمدن کے بارے میں ایک عجیب اور منفرد قسم کی تخیلاتی دنیا تشکیل دے لیتے ہیں ۔
’’ ان کے نزدیک انگلستان تاجوں اور تختوں کی سر زمین تھا؛ دراز قامت،خوش لباس،ٹھنڈی آ نکھوں والے رئیسوں ا ور سفید چٹی باشکوہ خواتین کا
ملک جو چمکتی بگھیوں میں بہی جارہی ہوں؛لمبے ہیٹوں اور لٹکتے عقبی دامن کے کوٹوں میں ملبوس نفاست پسند لارڈز کا ، جو سست رو لیڈیز کے ساتھ کنارِ
آب گزر گاہوں پر چہل قدمی کر رہے ہوں ، ان خواتین کے گھسٹے ہوئے گاؤنز جھاڑ دیے جاتے ہوں ؛ان کی حرکات و سکنات میں نفاست اور دلنوازی
، اور شائستہ بے نیازی ہو ۔‘‘(۱۵)
آگے چل کراسی صورتِ حال کو بیان کرتے ہوئے ناول نگار ان کی اس فنتازی دنیا پر تبصرہ کرتی ہے’’ان کے خیالوں میں بسا انگلستان اس جگہ کی طرح چمکدار تھا جسے جراثیم سیال سے رگڑ رگڑ کر دمکایا گیا ہو جسے عام سی انسانی مشقتوں سے کوئی نسبت نہ ہو ‘‘بیپسی سدھوا کے یہ الفاظ جدید اور ترقی یافتہ انگلستان کی عکس بندی کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کی طرف مغلوب ہندوستانی قوم للچائی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔( جو یہاں کے ہندوستان کے ذرائع پیداوار کی لوٹ کھسوٹ کا نتیجہ تھا۔)تہذیبی ادغام کے لیے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ کھنچے چلے جا رہے تھے ، ان کا لباس ، کھانے ، ادب آ داب کے طریقے ، خوشی غمی کی رسومات اور فنون لطیفہ کا ذوق انگریزی تہذیب سے ہم آ ہنگ ہوتا جا رہا تھا اور یوں دو مختلف تہذیبیں ایک دوسرے کے قریب آتی جارہی تھیں جس کا آ گے چل کر ،ثقافتی اجارے کی شکل میں،فائدہ بہر طور برطانوی سامراج کو ہی ہونا تھا ۔’’ جنگل والا صاحب ‘‘میں اس صورتِ حال کو بیپسی سدھوا نے ماہرانہ انداز میں پیش کیا ہے ۔قاری کو دورانِ قرأت یہ احساس نہیں ہوتاکہ ناول نگار کیا؟ اور کس ؟صورتِ حال کوپیش کرنے کی کوشش میں مگن ہے لیکن جب ناول اختتام کوپہنچتا ہے تو اسے تب ادراک ہوتا ہے کہ مصنفہ جو تصور پیش کرنے کی خواہاں تھی وہ اس تک منتقل ہو چکا ہے۔ وہ حیرت زا کیفیت کا شکار ہو کر اس نظام کی کج رویوں کے بارے سوچنے پر مجبور ہو جا تا ہے ۔اس سے بیپسی کے اندازِ بیان اور فنی مہارت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ نو آ بادیاتی ممالک اپنے اختیارات اور طاقت کو مسلسل وسعت دے کر نہ صرف محکوم آ بادیوں کو سیاسی طور پر اپنے تابع رکھنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ثقافتی طور پر بھی تابع رکھنے میں کو شا ں ہوتے ہیں ۔ سامراجی ممالک کے اپنی محکوم آبادیوں پر مذہبی، لسانی اور ثقافتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک نئی ثقافت اور نئی زبان تشکیل پذیر ہوتی ہے۔ ہندوستان کی نو آبادی میں بھی یہ مظہر ظہور پذیر ہورہا تھا۔مذہبی حوالے سے جو تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی تھیں ان میں عیسائیت کا فروغ مشنری اداروں کی تبلیغی کاوشوں کابرملا نتیجہ تھا ۔زبان کی سطح پر ابھرنے والے تغیر کے ساتھ ساتھ ثقافتی سطح پر بھی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں جن کی طرف بیپسی سدھوا نے ’’ جنگل والا صاحب ‘‘ میں احسن انداز سے اشارہ کیا ہے۔اس حوالے سے اقتباس ملا حظہ ہو۔
’’لورینگز ، سٹینڈرڈ،سٹفلز؛پر آ سائش، گراں قیمت باروں اور بال روم والے ، ریستوران وجود میں آ ئے جن کی سر پرستی برطانوی اشرافیہ اور مہا راجہ
کرتے ۔لیکن ان کی نفیس رقص گاہوں میں جس قسم کے متین اور پر وقار رقص ہوتے وہ فریڈی کے احساسِ معقولیت پر گراں گزرتے اور وہاں جانے
سے باز رکھتے۔ اس نے خود کو ہیرا منڈی کی ناچنے والیوں کی روایتی ، اورا پنے حساب سے نمائش سے عاری، تفریح تک محدود کر لیا ‘‘ (۱۶)
نو آباد کارمحکوم آ بادی سے سیاسی اطاعت کے ساتھ ساتھ ثقافتی اطاعت شعاری کا متقاضی بھی ہوتا ہے۔ سیاسی اطاعت میں حاکم ملک کے سامنے بغاوت نہ کرنے کا عہد مضمر ہوتا ہے جب کہ ثقافتی اطاعت محکوم قوم کے اُس اندازِ معاشرت کا خاتمہ ہے جو صدیوں کے ارتقا کا نتیجہ ہوتی ہے یوں ثقافتی اطاعت گزاری کی راہ میں محکوم قوم مزاحمتی رویہ اختیار کرتی ہے ۔ سامراجی ملک کو ثقافتی اجارہ قائم کرنے کے لیے ان گنت رکاوٹوں کا سامنا کرتا پڑتا ہے۔اِسی کارن ناول میں ’’فریدون جنگل والا ‘‘لاہور میں ہونے والی ثقافتی تبدیلیوں پہ چیں بہ جبیں ہے اور برطانوی رقص گاہوں میں ہونے والے رقص کو نہ صرف نا پسند کرتا ہے بلکہ وہاں جانے سے بھی گریز اں ہے۔ فریڈی کو اپنی روایتی ثقافت سے ، جو نوآبادیاتی عہد سے قبل موجود تھی ، سے لگاؤ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ’’فریڈی‘‘ انگریزی رقص کی بجائے ہندوستان کے روایتی رقص سے رغبت رکھتا ہے ۔وہ ثقافتی تبدیلیوں کو قبولنے میں تذبذب کا شکار ہے۔
نو آبادیاتی عہد میں فنونِ لطیفہ کے ساتھ ساتھ تمدن بھی تغیر پذیر تھا ۔اس دور میں بڑے بڑے بنگلے تعمیر ہوئے ، گھروں کے سامنے سر سبزمخملیں گھاس والے وسیع و عریض لان دکھائی دینے لگے،گورنمنٹ کی اراضی پر باغات اُگائے گئے اور ان میں چائے پارٹیوں کا اہتمام کیا جانے لگا۔وہ خواتین جو پردے سے باہر آ نے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھیں، وہ پردہ اتارنے لگیں۔ جس کا اظہارناول میں فریڈی کی بیوی ’’پٹلی‘‘کے کردار کے توسط سے دکھایا گیا ہے ،جو ایک گھریلو عورت تھی ،وہ مخلوط پارٹیوں میں شرکت کرنے لگی ، بلکہ فریڈی خود اسے انگریزوں کی پارٹیوں میں لے جانے پر مصر ہوتا۔ وہ پٹلی کو انگریزی پارٹیوں میں گجراتی زبان بولنے کی بجائے انگریزی زبان میں گفتگوکرنے پرمجبور کرتا۔مقامی زبان میں گفتگوکرنا اس کومعیوب محسوس ہوتا تھا۔ ناول میں جب فریڈی’’پیٹرڈف‘‘ سے اس کے قصے سن رہا ہوتا ہے توپٹلی "Home ! I go, you go !”کے الفاظ بولتی ہے ، جس کا مطلب ہے کہ وہ گھر جانے پر اصرار کر رہی ہے۔ حالاں کہ وہ گجراتی زبان میں یہ مفہوم سہل انداز میں بیان کر سکتی تھی لیکن یہ بات فریڈی کو پسند نہ تھی کیوں کہ وہ برطانوی تہذیب و تمدن سے متاثرہے اور انگریزی زبان بول کر فخر محسوس کرتا ہے۔وہ انگریزی ثقافت کو اپنانا بھی چاہتا ہے اور نہیں بھی جس سے اس کی شخصیت دوغلے پن کا شکار ہوتی نظر آ تی ہے۔ لسانی سطح کے ساتھ ساتھ اقداری سطح پر بھی محکوم قوم میں تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں جس کے اشارے ناول میں متعدد مقامات پر موجود ہیں ۔ اس ضمن میں ایک اقتباس ملا حظہ ہو۔
’’ساڑھی کے نیچے کمر پر فریڈی کی خفیہ مشغولیت کا اندازہ کسی نے بھی نہیں لگایا۔ ایک فرض شناس ،شوہرانہ چٹکی، ذرا اوپر دائیں طرف، یہ یاد دہانی
کرانے کے لیے تھی کہ ہاتھ ملائے۔ پٹلی کو گورنر سے متعارف کرواتے وقت یہ اشارہ بڑی برجستہ تدبیر ثابت ہوا ۔‘‘(۱۷)
ایک عورت جو مخلوط محفلوں میں تو درکنار گھر سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتی تھی اب اسے گورنر سے ہاتھ ملانے پر مجبور کیا جا رہا ہے جوناول نگار کا اقداری تبدیلی کی جانب بیّن اشارہ ہے، جس کا رحجان نو آ بادیاتی عہد میں زور پکڑرہا تھا ۔نو آبادی میں یہ تبدیلیاں صرف اقداری ،لسانی اور سیاسی سطح پر موجود نہیں ہوتیں بلکہ نو آباد کار کے پاس کلی طاقت ہوتی ہے اور وہ اس طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کی ثقافتی بنیادوں کو ملیا میٹ کرنے پر قدرت رکھتا ہے ۔ وہ ایسا کرنے پر قادر ہی نہیں بلکہ وہ ایسا کرتا بھی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے اس موضوع پر اپنی کتاب ’’ شرق شناسی ‘‘ میں سیر حا صل بحث کی ہے جس کا ذکرآکسفرڈ یونی ورسٹی پریس سے شائع ہونے والی نا صر عباس نیر کی کتاب ’’مابعدنو آبادیات اردو کے تناظرمیں ‘‘ بدیہی طور پر ملتا ہے۔ اقتباس ملا حظہ ہو ۔
’’نیز سعید کے نزدیک ’’ہم ‘‘(آباد کار ،مستشرقین )اور’’ وہ‘‘(نو آبادیاتی اور مسلمان ممالک) کی شناختیں حتمی ہیں اور انھیں ’’ ہم ‘‘ نے طے کیا ہے۔
لہٰذا ’’ہم‘‘ کا کوئی نمائندہ ( سیاست دان ، منتظم، شرق شناس وغیرہ ) جب بھی ’’ وہ ‘‘ کا تصور کرتا ہے تو دونوں میں اس امتیاز کو کسی مرحلے پر فراموش
نہیں کرتا جو شرق شناسی کی روایت میں بس ایک مرتبہ طے ہوگیا تھا۔ چنا ں چہ’’ وہ ‘‘ اور اس کے علم و ثقافت کا ہر رخ ، ہمیشہ غیر عقلی، پس ماندہ ، اخلاقی
و بلند اقدار سے تہی اور طفل نما ہوتا ہے اور ’’ہم ‘‘ اس کے مقابلے میں عقلیت پسند ، ترقی یافتہ ، روشن خیال ، اور بالغ نظر ہوتا ہے۔ ‘‘(۱۸)
یہی صورتِ حال اس ناول میں بھی موجود ہے جہاں ان ثقافتی اور تمدنی تبدیلیوں کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے ۔ اور ایک نئی تہذیب و ثقافت جو دونوں تہذیبوں کے اختلاط سے صورت پذیر ہو رہی ہے اس کا بر ملا اظہار ’’جنگل والا صا حب‘‘ میں موجود ہے ۔اس حوالے سے ’اینگلو انڈین لڑکی ’روزی واٹسن‘‘کا کردار بڑا اہم ہے جس سے فریڈی کا بیٹا ’’ یزدی‘‘ شادی کا خواہا ں ہے۔
مختصراً اس ناول میں پارسی زندگی، اس کے رسوم و رواج ، نو آبادیاتی ہندوستان کی سماجی زندگی ، نو آبادیاتی دور میں رونما ہونے والی ثقافتی تبدیلیاں ، انسانی فطرت کی خود غرضی ، جبلی خواہشات اور ان کی تکمیل کے لیے انسانی رویے ، سماج کا عورت سے کیا جانے والا سلوک ،تصور محبت ، بین المذاہب شادیاں اور ان پررو نما ہونے والا ردِ عمل اوردیگر کئی موضوعات کو اس ناول میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے جو ان کی فنِ ناول نگاری پر دسترس کو آ شکار کرتا ہے۔
——
حوالہ جات و حواشی

۱۔فیض احمد فیض، فلیپ ، جنگل والا صاحب،مترجم عمر میمن ،القا پبلیکیشنز، لاہور،۲۰۱۲ء
۲۔علی عباس ، انٹرویو، سنڈے میگزین ،روز نامہ دنیا،۲۴تا۳۰مارچ،۲۰۱۳ء ص۷
۳۔بیپسی سدھوا ، جنگل والا صا حب ، مترجم محمد عمر میمن ، القا پبلیکیشنز ، لاہور ، ۲۰۱۲ء ص۲
۴۔ایضاً، ص۱۵۔۱۶
۵۔بٹ ،نصیر الدین، مردانہ معاشرہ ، مظلوم عورت اور جمہوریت،فکشن ہاؤس ، لاہور ،۲۰۰۸ ء، ص۱۸
۶۔بیپسی سدھوا، محولہ بالا ،ص۶۳
۷۔علی عباس جلال پوری ، عام فکری مغالطے، تخلیقات ،لاہور،۲۰۰۰ء،ص۲۱۹
۸۔ُPriyanka Singh,Reading The Crow Eater through Feminist lens, included in "Language Of India”, Volum 12, March 2012,pp 443
۹۔بیپسی سدھوا، جنگل والا صاحب، محولہ بالا، ص۲۰۹
۱۰۔ایضاً، ص۱۶۲
۱۱۔ایضاً، ص۱۲۳
۱۲۔ایضاً، ص۳۷
۱۳۔ایضاً ، ص ۱۲۳
۱۴۔Iftikhar Hussain Lon,Parsis Moving Beyond Custom and Tradition:Bapsi Sidhwa’s- A Voice To Voicelles, Abhinave,Volume
۱۵۔ایضاً ، ص۲۵۴
۱۶۔ایضاً،ص۱۹۰
۱۷۔ایضاً ،ص۱۹۲
۱۸۔نا صر عباس نیر ، ما بعد نو آ بادیات اردو کے تناظر میں ، آکسفرڈ یو نی ورسٹی پریس،۲۰۱۳،ص۲۱
———
Abdul Aziz Malik

Share
Share
Share