ڈاکٹرداؤد محسنؔ کے افسانے ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعشرت بیتاب

Share


ڈاکٹرداؤد محسنؔ کے افسانے
سناٹے بول اٹھے کے حوالے سے

ڈاکٹرعشرت بیتاب
آسنسول ۔ ریاستِ بنگال
فون:+917679258619

زیرِ نظر کتاب ڈاکٹر داؤد محسنؔ کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔اس سے قبل موصوف کا شعری مجموعہ ’’ سوادِ شب ‘‘ اور تنقیدی و تحقیقی کتاب ’’ نقد و نظریات ‘‘ شائع ہو کر مقبولِ خاص و عام ہو چکے ہیں۔محسنؔ ایک اچھے مترجم بھی ہیں انہیں کنڑا زبان پر کافی دسترس حاصل ہے۔مشترکہ ادبی تہذیب کی واقفیت سے ان کا اپنا فن کافی نکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے اردو کی نمائندہ کہانیوں کو کنڑا میں اور کنڑا زبان کی عمدہ کہانیوں کو اردو میں ترجمہ کر کے دونوں ادب کے فروغ میں کار ہائے نمایاں انجام دیا ہے۔

شاعر یا ادیب اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے اور یہی عصری حسّیت اس کی نگارشات کو حیاتِ انسانی کی مرقع سازی کا شعور بخشتی ہے۔محسنؔ کے افسانے اسی زمرے میں آتے ہیں۔1980 ء کی دہائی میں افسانوی کوچہ میں قدم رکھنے والا محسنؔ آج کرناٹک کی نئی نسل کے پیش رو کہا جاتا ہے۔
1980 ء کی دہائی افسانوی تاریخ کے لئے بڑی اہم رہی ہے۔اس لئے کہ اس دہائی میں اردو افسانہ اسلوب اور ہیئت کے کئی تجربوں سے گذرا۔گویا یہاں سے اردو افسانے نے ایک نئی کروٹ لی جس سے افسانوں کے اندر ایک بار پھر خام مواد کی گنجائش نکل آئی اور اس طرح اردو افسانے میں ایک بار پھر Readability واپس آگئی۔
محسنؔ اس دور کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ان کے یہاں کہانی کا پلاٹ نہایت چست اور گھٹا ہوا ہے۔بیانیہ بھی دلچسپ ہی نہیں بلکہ زندگی سے بہت قریب ہے ۔ان کے یہاں افسانہ میں انسانی اقدار کی جھلکیاں نمایاں ہیں ۔مصنف کے بیشتر افسانوں کا مرکزی خیال اور مقصدیت عام قاری کی حدِ تفہیم کے قریب ہے جو خوش آئندہ کی نشاندہی کرتا ہے۔
اردو افسانے کی عمر تقریباً سو سال سے زائد ہونے کو آئی۔کئی نشیب و فراز سے گذرنے کے بعد افسانہ عہدِ حاضر میں ایک نئی شکل میں آکھڑاہوا ہے جہاں افسانہ صرف حقیقت کا اظہار او ر زندگی کی قدروں کا نوحہ لگتا ہے۔محسنؔ اسی عہد کا ایک افسانہ نگار ہے۔موصوف کے یہاں بھی زندگی اور اس کے بے ثمر حیات کا ذکر ملتا ہے۔
محسنؔ نے اپنی کتاب کے پہلے صفحہ کو اپنی شریکِ حیات سمیرہ بانو کے نام معنون کیا ہے ساتھ ہی ساتھ اپنے نورِ نظر محمد عاقب اور لختِ جگر عائشہ انجم کے نام انتساب کرکے اپنی گھریلو اور ازدواجی زندگی کے خوشگوار ماحول کو اپنے افسانوی سفر کا ایک جز قرار دیا ہے۔
’’ افسانہ کے جواز میں ‘‘ کے عنوان سے شامل مضمون میں موصوف نے اپنی بات کو نہایت سنجیدگی سے رقم کیا ہے۔لکھتے ہیں کہ۔
’’مجھے شعر و شاعری کے علاوہ کہانیوں سے دلچسپی شروع سے ہی رہی ہے۔ اب رہی بات ان افسانوں کی تو یہ میرے مشاہدات ،تخیلات اورتصورات کے آئینہ دار ہیں۔ان میں بہت سی کہانیاں حقیقت سے قریب تر ہیں۔اس میں پائے جانے والے کردار ہمارے سماج اور معاشرے کے ہیں اور جو زندگی کاٹ رہے ہیں اسی کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘
موصوف کے اس مجموعہ میں کل پندرہ افسانے شامل ہیں ۔افسانوں سے قبل پروفیسر م۔ن سعید ، آفاق عالم صدیقی ، سید قمرالدین قمرؔ اور ڈاکٹر غضنفر اقبال کے آرا درج ہیں۔ڈاکٹر م۔ن سعید سابق پروفیسر و صدر شعبۂ اردو بنگلور یونیورسٹی نے موصوف کے سلسلہ میں لکھا ہے۔
’’ڈاکٹر داؤد محسنؔ کے افسانے اسی درد کا اظہار ہیں جس میں وہ اپنے مخاطبین کوشریک کرنا چاہتے ہیں۔ان کے افسانوں میں ’سسکتی تہذیب،سنّاٹے بول اٹھے، بھوک ،اڑواڑ وغیرہ عصری انسان کی پستی کا نوحہ ہیں۔داؤد محسنؔ نے ان افسانوں کے ذریعے اپنے پڑھنے والوں کے شعور کو جلا بخشنے اور ان کے فکر و اندیشے کو مہمیز کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔‘‘
آفاق عالم صدیقی (شکاری پور)کے خیال میں محسنؔ کے افسانوں میں ایسا نہیں کہ تنوع نہیں ہے ۔موصوف لکھتے ہیں کہ۔
’’ ایسا نہیں ہے کہ داؤد محسنؔ کے افسانوں میں تنوع نہیں ہے۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان کا ہر افسانہ آئیڈیل اور وہ بھی روایتی آئیڈیل نظام کی تائید کرتا ہے۔ان کے یہاں اپنی تہذیب ، اپنی ثقافت اور شرافت سے عاری لوگوں کا انجام ہمیشہ غلط ہی ہوتا ہے۔جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے افسانے لکھنے کا ایک اہم مقصد اصلاح ہے۔‘‘
سرقاضی سید قمرالدین قمرؔ (ہری ہر) رقم طرا ہیں۔
’’ریاست کرناٹک کے قلم کاروں نے بھی افسانوں کی دنیا میں غیر معمولی کام انجام دیئے ہیں۔ جنہوں نے برصغیر میں اپنی افسانہ نگاری کی روشنی بکھیرتے ہوئے ریاست کرناٹک کا نام اونچا کیا ہے۔ان کے بعد یعنی 1990 ء کے بعد جو نئی نسل افسانوی میدان میں آئی ان کے پیشوا اور امام ڈاکٹر داؤد محسن ؔ ہیں ۔ ‘‘
آخر میں ڈاکٹرغضنفر اقبال کا یہ اقتباس بھی قابلِ غور ہے۔
’’شعبۂ افسانہ کے مبادیات سے داؤد محسنؔ واقف ہیں۔اسی لئے وہ افسانوں میں زبان و بیان کو سلیس اور با محاورہ بناتے ہیں۔ان کے افسانوں کی اٹھان روایت سے تشکیل پاتی ہے۔وہ روایت کی پاسداری کرتے ہوئے معاشرے میں ہونے والی سرگرمیوں کا بیان اچھا کرتے ہیں۔‘‘
محسنؔ کے یہاں علامت نگاری یا تجریدیت کا سراغ نہیں ملتا اور نہ ہی اس کی گنجائش نظر آتی ہے۔ان کے افسانے مکمل بیانیہ ہیں اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محسنؔ کی کہانیوں میں مقصدیت روح کی حیثیت رکھتی ہے۔کردار ، پلاٹ اور واقعات سے کہانی کی فضابرقرار رہتی ہے۔ان کے کردار زندہ جاوید اور کامیاب نظر آتے ہیں۔ملاحظہ کیجئے ’’ اڑواڑ‘‘ کایہ اقتباس۔
’’رامو بھیا ! میں سچ کہہ رہا ہوں، رادھا نے سچ مچ شادی کرلی ہے۔وہ جو صاحب جلسہ میں سری کانت بابو کے نام رادھا کے ہاتھ میں دو لاکھ کا چیک دیئے تھے۔رادھا انہیں کی ہو گئی۔کل ہی میں نے انہیں ایک خوبصورت اور بڑی کار میں ان کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا ۔مجھے دیکھ کر رادھا نے اپنی نظریں نیچی کر لیں ۔‘‘ ( افسانہ۔ اڑواڑ )
ان کے افسانوں کے مطالعے سے قاری کے ذہن میں بے شمار چیزیں منعکس ہو اٹھتی ہیں۔جن میں نہ صرف زندگی کی تلخیاں ، محرومیاں اور مجبوریاں پائی جاتی ہیں بلکہ معاشرے میں پیدا ہونے والی مختلف النوع برائیاں اور کمزوریاں بھی سامنے آتی ہیں۔
اچھے افسانہ کی بنیادی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ وہ پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لے ۔ملاحظہ کیجئے ’’ عکس در عکس ‘‘ کا یہ اقتباس ۔
’’ پاگل خانہ میں شیخو دوسروں سے الگ تھلگ گم سم رہتا، اس پر اکثرپاگل پن کے دورے پڑ تے تھے ۔جب بھی دورے پڑتے ردی کے کاغذات اکٹھا کر فائل کی مانند بنالیتا۔ کبھی پاگلوں سے ،کبھی ملازمین سے اورکبھی ڈاکٹروں سے ملازمت کی گذارش کرتے ہو ئے ادھر ادھر پھرنے لگتا تھا۔‘‘ ( افسانہ۔ عکس در عکس)
ایک کامیاب فن کار کی پہچان ہے کہ وہ اپنی کہانی سے قاری کے ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں لئے رہے جہاں قاری اختتام پہ کچھ پالینے کی جستجو کے ساتھ مطالعہ میں غرق رہے۔
محسنؔ کے افسانوں کے تمہیدی بیان بڑے سحر انگیز ہوتے ہیں جس سے پڑھنے والا شروع سے آخر تک کہانی سے پوری طرح چمٹا رہتا ہے۔ملاحظہ کیجئے ’’ دم دار لوگ ‘‘ کا یہ تمہیدی ٹکڑا۔
’’قدرت نے آدمی کے قد و قامت اور جسامت کو ہر اعتبار سے نہ صرف خوبصورت بنایا ہے بلکہ مکمل طور پر مزیّن بھی کیا ہے۔اس کے باوجودکبھی کبھی یہ گمان اور خدشہ لاحق ہو تا ہے کہ تمام انسانی اعضاء ہونے کے ساتھ ساتھ اگر دم بھی ہوتی تو کیا ہوتا اور آدمی کیسا لگتااور کیا کیا کرتا۔کیونکہ دم کے بغیر ہی آدمی عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے۔‘‘( افسانہ۔ دم دار لوگ)
محسنؔ کے افسانے ’ سناٹے بول اٹھے ‘‘ جہاں فسادات پر کاری ضرب لگاتے ہیں وہیں ’’ مراجعت ‘‘ حسن و جمال کے مظاہر ہیں جہاں رومانیت اور جذباتیت کی دھوپ چھاؤں پوری طرح نمایاں ہے۔افسانہ ’’ مراجعت‘‘ ایک طرح سے محبت نامہ ہے۔ جس میں مثلث نما تین کردار ہیں۔حامد، شاذیہ اور فوزیہ ۔۔۔۔افسانہ میں یہ تینوں کردار کے تکرار سے زندگی کے اتار چڑھاؤ کو پڑھا جا سکتا ہے ۔افسانہ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے۔
’’کالج میں پڑھائی کے دوران حامد اور فوزیہ کی دوستی محبت میں تبدیل ہو چکی تھی دونوں ایک ساتھ جینے مرنے کے عہد و پیمان کرنے لگے تھے۔مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔تعلیم مکمل ہونے کے بعد فوزیہ حسرتیں ، امنگیں اور ڈھیر ساری امیدیں اپنے دامن میں سمیٹے اپنے شہر لوٹ گئی۔ ‘‘ ( افسانہ ۔مراجعت)
مجموعہ میں شامل بیشتر افسانے فنّی احتیاط اور اہتمام سے تراشے گئے ہیں ۔کتاب بھی خوبصورت چھپی ہے اور قیمت بھی مناسب ہی ہے۔لہذا اردو دوستوں کو چاہئے کہ کتاب کی ایک جلد اپنی ذاتی لائبریری کے لئے محفوظ کرلے۔
—–

Share
Share
Share