میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 22 – – فیضؔ – – – پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 22
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
فیض احمد فیضؔ

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

——–
میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 21 ۔ کے لیے کلک کریں

فیض احمد فیضؔ (۱۹۱۲۔۱۹۸۴ء)

فیض احمد فیضؔ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ان کی ابتدائی تعلیم مشرقی انداز میں ہوئی، انھوں نے فارسی اور عربی زبانیں سیکھیں، لاہور سے عربی اور انگریزی میں ایم اے کے امتحانات پاس کئے ۱۹۳۶ء میں امرتسر میں انگریزی کے لیکچرر مقرر ہوئے، بعد میں کچھ دنوں فوج میں ملازمت بھی اختیار کی ، تقسیم ہند کے بعد انگریزی اخبار پاکستان ٹائمس کے مدیر رہے، اور پھر راولپنڈی سازش کیس میں ان کو گرفتار کیا گیا، اور انھوں نے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں.

ان کی شاعر ی مقبول خاص وعام ہوئی، انھوں نے روس انگلینڈ اور متعدد ممالک کا سفر کیا، چونکہ وہ ترقی پسند تحریک کے سر خیل اور ممتاز شاعر تھے، اس لئے روسی حکومت کی نظر کرم ان پر رہی ، روسی حکومت نے ان کی نظموں کے ترجمے شائع کئے، اور بین الأقوام’’ لینن امن انعام‘‘سے انھیں سرفراز کیا، فیض کی شاعری کو جس چیز نے مقبولیت اور شہرت عطا کی وہ ان کے خاص نظریات ہیں اور اسی کے ساتھ خیا لات کی بلندی ہے، نوع بشر کی فلاح بھی ان کا خاص موضوع ہے، اور وہ اپنے مقصد کے لئے ہر رنج ومحن کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں، اور پھر اپنے احساسات کا اظہار نہایت خوبصورتی کے ساتھ کرتے ہیں:

متاع لوح وقلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے

فیضؔ کی پرورش شعر وادب کے ماحول میں ہوئی، کالج کی تعلیم کے زمانے سے شعر کہنے لگے تھے، شروع شروع میں ان کی شاعر ی کا موضوع عشق مجازی تھا، جو اکثر نو جوان شاعروں کا موضوع رہتا ہے، ان کے زمانے میں حسرت موہانی اور جو ش ملیح آبادی نے عام انسان کے محسوسات کا ذکر کیا تھا، اور غلامی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی، دنیامیں ایک طرف سامراجی نظام کے خلاف تحریک شروع ہوکر دنیا کے بہت سے حصوں میں پھیل گئی تھی، فیض احمد فیض ؔ بھی اس تحریک سے متأثر ہوئے، اور ترقی پسند تحریک میں شامل ہوئے ، اور مزدوروں اور کسانوں کی مظلومیت کو اپنی شاعری کا موضوع بنانے لگے، انھوں نے نوع بشر کی فلاح کے لئے جس راستہ کو چنا تھا، اس راستہ پر وہ اس لئے گامزن ہوئے کہ یہی راستہ ان کے نزدیک حقیقی مسرت کا سر چشمہ تھا، ان کا ایک شعر ہے:

شمع نظر ، خیال کے انجم، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں تری محفل سے آئے ہیں

فیض احمد فیضؔ نے ا پنے فن کو اپنی تحریکی زندگی کا حصہ بنا دیا، انھوں نے اپنے خیالات اور محسوسات کو فن کی تمام روایات کو برتتے ہوئے لوگوں کے سامنے پیش کیا، انھوں نے کبھی شدید تنہائی کا احساس بھی کیا، ان کی نظم تنہائی رموز وکنایات کا ایک خوبصورت مرقع ہے:

پھر کوئی آیا، دل زار نہیں کوئی نہیں
راہ رو ہوگا ، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہراک راہ گذار
اجنبی خاک نے دھندھلا دئے قدموں سراغ
گل کرو شمعیں ، بڑھادو مے ومینا وایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا

فیض کا محبوب بہت دل کش تھا، جب اس سے ملنے کے لئے جاتے تھے ، تو جو احساسات ہوتے تھے وہ کچھ اس طرح تھے:

رنگ پیراہن کا ، خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

دوستو اس چشم ولب کی کچھ کہو جس کے بغیر
گلستاں کی بات رنگیں ہے نہ مے خانے کا نام

پھر نظر میں پھول مہکے ، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام

غم جاناں کے بارے میں اور حسن محبوب کے بارے میں تو اشعار سیکڑوں شعراء نے کہے ہیں، لیکن انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کا رشتہ ایک نیا تجربہ تھا، اور یہاں فیض کی ایک منفرد آواز بلند ہوتی ہے :

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت میر ی محبوب نہ مانگ

فیض کے پانچ شعری مجموعے ہیں ، نفس فریادی، دست صبا، زندان نامہ ، دست تہہ سنگ، اور سر وادیء سینہ فیض کی غزلوں میں تغزل اور ترنم بہت زیادہ ہے، کچھ منتخب اشعار درج ذیل ہیں:
ویران مے کدہ خم وساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

شیخ صاحب سے رسم وراہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی

آخر شب کے ہم سفر فیض نہ جانے کیا ہوئے
رہ گئی کس جگہ صباصبح کدھر نکل گئی
مقام فیض کو ئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھأ
وہ بات ان کو بہت نا گوار گذری ہے

نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہارگذری ہے

کررہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

نہ رہا جنون رخ وفا، یہ رسن یہ دار کروگے کیا
جنھیں جرم عشق پہ ناز تھا ، وہ گناہ گار چلے گئے
——–

Share
Share
Share