کانوں سے دیکھنے والی عجیب و غریب مخلوق
چمگاڈر ۔ Bat
ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی، ورنگل
موبائل : 09866971375
والانعام خلقھا لکم فیھا دفء و منافع و منھا تاکلون (النحل ۔۵)
اس نے جانور پیدا کئے جس میں تمہارے لئے پوشاک بھی ہے خوراک بھی اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔(النحل۔ ۵)
قرآن میں چمگاڈر کا ذکر نہیں ہے لیکن جانوروں سے ہونے والے فوائد کا ذکر ضرور ہے چمگاڈر بھی ایک ایسا ہی جاندار ہے جو طبی اعتبار سے انسانوں کے لئے فائدہ مند ہے، اس کا لعاب دہن قلب پر حملے کو روکنے میں مدد دیتا ہے۔کئی درختوں میں زیرگی کا عمل ان ہی جانداروں کی وجہہ سے انجام پاتا ہے۔ حدیث میں اس جاندار کو قدرت کا ایک معجزہ قرر دیا گیا ہے۔قدیم عربی ادب میں بھی اس جاندار کا تذکرہ موجود ہے ،عربی تہذیب میں اس کا تذکرہ عام طور پر خطرے کے اظہار کے لئے کیاجاتا ہے۔ بائیبل میں چمگاڈر کا ذکر موجود ہے، انجیل اور توریت میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے ، (Leviticus 11:19) ۔
بائیبل میں اس جانور کا تذکرہ پرندوں کے ساتھ کیاگیا ہے عام طور پر ہر اڑنے والے جانور کو پرندہ کہا جاتا ہے اسی لئے اس کو بھی صفات کے اعتبار سے تقسیم کیا جاکر پرندہ کہا گیا حالانکہ کہ یہ سائنسی اعتبار سے پستانیہ ہے۔ بائیبل میں اس جانور کو ظلمت کی علامت کہا گیا اور اس کے وجود کو کھنڈروں سے وابستہ کیا گیا۔یہ ہر قسم کی غذا کھاتا ہے جس میں اکثر کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں۔تاریخ میں حضرت سلیمانؑ کا ایک دفعہ سورج کی گردش کے سلسلے میں چمگاڈر سے گفتگو درج ہے۔نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ رات کی تاریکی اس کے لئے دن کی روشنی کے مانند کام کرتی ہے اور وہ اسی ظلمت بھری تاریکی میں غذا ڈھونڈ نکالتا ہے۔ چمگاڈر کو تیلگو میں Gabbilum (گبّی لم)اورعربی میں ’’الخفاش‘‘ کہا جاتا ہے۔ہندو مذہب میں بھی اس جاندار کی اہمیت ہے ،چمگاڈر Rudraksha درخت کے پھل کھا کر اس کے بیج نیچے پھینکتا ہے ان پھلوں کو لارڈ شیواؔ کے آنسو قرار دیا گیا ، ہندو عقیدے کے مطابق یہ درخت بھگتوں کے گناہوں کو دھوتا ہے۔ویسے یہ پھل دل کی بیماریوں، بلڈ پریشر اور دماغی صحت کے لئے مفید ہے۔جزیرہ بالی میں ہندؤں کا ایک مقدس مقام ہے جس کا نام Goa Lawah ہے اس کے معنی خود ’’چمگاڈروں کی غار‘‘ ہے،یورپی روایات میں لکھا ہے کہ فرشتے پرندوں کے ’پر‘ اور جنات چمگاڈر کے ’پر‘ رکھتے ہیں ۔ چینی تہذیب میں چمگاڈر اچھی قسمت کی علامت ہے۔
چمگاڈر ایک پستانیہ ہے ، جو خاندان Chiroptera سے تعلق رکھتا ہے ، اس اصطلاح کے معنی ’’ہاتھوں میں پر‘‘ ہیں۔ان کی مدد سے یہ جاندار حقیقی معنوں میں اڑتا ہے۔ ان کا سائز دیڑھ انچ سے لے کر 17 انچ تک ہوسکتا ہے ،بڑے سائز کے چمگاڈر کے پروں کے درمیان فاصلہ دیڑھ میٹر تا دو میٹر تک ہوسکتا ہے اور کم سے کم فاصلہ 6 انچ ہوتا ہے۔بڑے سائز کی چمگاڈر Giant Fox bat ہے جس کے پروں کے درمیان فاصلہ تقریباً 7فٹ تک ہوتا ہے۔ایک عام تصور ہے کہ یہ صفائی کو پسند نہیں کرتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نفاست پسند جاندار ہیں۔ان کی طبعی عمر 20تا30 سال ہوتی ہے، ان کی بعض انواع جیسے میکسیکن چمگاڈر 10,000 فٹ اونچائی تک پرواز کرسکتی ہے۔ چمگاڈر کی تقریباً ایک ہزار انواع کو سائنسدانوں نے بیان کیا ہے،سوائے Artic علاقے کے ،یہ دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں ،عام طور پر یہ غاروں، درختوں یا قدیم عمارتوں میں پائے جاتے ہیں۔ان کی غذا نوع کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔لیکن عام طور پر یہ پھول ،پتے ،کیڑے مکوڑے ، مچھلیاں،مینڈک، چھوٹے پستانیے، چھوٹی چڑیا وغیرہ کھاتے ہیں اور ان کی بعض انواع خون چوستی ہیں ۔یہ زہریلے جانداروں جیسے زہریلے مینڈکوں کو کھانے سے پہلے پرکھتی ہے اور کھائے بغیر چھوڑدیتی ہے،یہ طرز عمل ان کی ذہانت کو بتاتا ہے۔ چمگاڈر میں ایک عجیب و غریب خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ منہ سے نہ صرف کھاتا ہے بلکہ فاضل مادّے بھی منہ سے خارج کرتا ہے، یہ سماجی جاندار ہے جو کالونی میں رہنا پسند کرتا ہے۔ ان کی دنیا میں سب سے بڑی کالونی Bracken Cave ہے جہاں تقریباً 20ملین چمگاڈر ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہ دن کے وقت آرام کرتے ہیں ،ان کی بعض انواع درختوں کی شاخوں پر مضبوط پکڑ کے ساتھ کثیر تعداد میں الٹا لٹکے رہتے ہیں۔ان کے پیر زمین پر چلنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ ہوا میں اڑنے اور شاخوں پر لٹکنے کے لئے مناسب ہوتے ہیں ۔بعض چمگاڈر تنہائی پسند بھی ہوتے ہیں۔ان کی سماجی زندگی کے لئے مناسب اصطلاح Fission-fusion social structure ہے اس طرح کی سماجی زندگی میں جاندار آرام کرتے وقت ایک ہی چھت کے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں لیکن جب تلاش معاش کا معاملہ درپیش ہوتا ہے تو یہ علحدہ علحدہ گروہوں میں بٹ جاتے ہیں یا تنہائی پسند ہو کر اکیلے ہی نکل جاتے ہیں،یہی وہ طریقہ ہے جس پر خود انسان عمل کرتا ہے یہی سماجی ساخت انسان کی سماجی زندگی کے طریقہ کار کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔
ان کے بچے کو Pup کہا جاتا ہے، نوع کے اعتبار سے ان میں مدت حمل علیحدہ ہوتی ہے،جو پانچ تا نو مہینے ہوسکتی ہے،یہ ہر سال ایک جھول میں یہ ایک ہی بچہ دیتے ہیں ان میں بچے دینے کا عمل دوسرے جانداروں کے مقابلے میں سست ہوتا ہے ۔ کیونکہ سوائے موسم خزاں کے دوسرے دنوں میں نر اور مادہ علیحدہ رہتے ہیں۔ یہ حشرات کی طرح زیرگی کے عمل میں مددگار ہیں خصوصاً کھجور،آم،موز اور کاجو کے درختوں میں زیرگی کا عمل ان ہی کی وجہہ سے انجام پاتا ہے، چونکہ ان کی غذا زیادہ تر کیڑے مکوڑے ہوتی ہے اور ایک منٹ میں یہ کئی سو مچھر وغیرہ کھا جاتے ہیں اسی لئے اہل زمین ان کے شکر گذار ہیں کہ ان کی باعث دنیا میں ان حشرات پر کنٹرول ہے بالفرض محال اگر دنیا کے تمام چمگاڈر ختم ہوجاےءں تو پھر یہ دنیا انسانوں کے رہنے کے قابل نہ رہے گی۔ اس طرح ماحولیاتی نظام کی برقراری میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ چمگاڈروں کی ایک کالونی ایک رات میں کئی ٹن کیڑوں کو کھا جاتی ہے۔ غاروں میں رہنے والے چمگاڈر وں کا اپنا ماحولیاتی نظام ہوتا ہے جس سے وہ دنیا کے ماحولیاتی نظام کی بہتر اور صحت مند برقراری میں مدد دیتے ہیں۔ یہ غاروں سے باہر رات کے وقت غذا کی تلاش میں نکلتے ہیں۔یہ اپنے پروں کی ساخت اور سہارے دینے والی جوارح کی ہڈیوں کی وجہہ سے دوران پرواز شکار کرنے کے قابل ہوتے ہیں،ان کی ہڈیوں میں کیلسیم اور معدنیات کی مقدار کم پائی جاتی ہے اسی لئے ان کی ہڈیوں میں لچک پائی جاتی ہے،کبھی کبھی ان کی بعض نواع تقریباً 800 کلو میٹر دور تک شکار کی تلاش میں نکل جاتی ہیں۔
چمگاڈر کا لعاب دل پر حملے سے بچاتا ہے:
ایک نوع کی چمگاڈر کا نام Vampire Bat ہے ، جو بطور غذا جانداروں اور بعض دفعہ انسانوں کا خون چوستی ہے اور یہ قدرت کا عجیب انتظام ہے کہ خون چوسنے سے قبل یہ اپنے انسان یا شکار کے جسم بالخصوص خون کی نالیوں میں لعاب دہن داخل کرتی ہے، اس لعاب میں ایک کیمیائی مرکب Desmoteplase یا DSPA پایا جاتا ہے، اس مرکب کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ خون کو منجمد ہونے نہیں دیتا۔ تاکہ خون چوستے وقت شکار کے خون کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ اور شکار کا خون آسانی سے چوسا جاسکے،اس مرکب پر تحقیق جاری ہے 2009 میں اس تعلق سے جو ریسرچ کیا گیا تھاوہ بہت حد تک کامیاب ہے اور انسانی زندگی بالخصوص دماغ اورقلب پر حملے کے تدارک کے لئے مسلمہ حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے ۔جب قلب یا دماغ پر حملہ (Stroke) ہوتا ہے تو خون کی نالیوں میں خون کاانجماد واقع ہوتا ہے اور خون کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جس کی وجہہ سے خون دماغ تک نہیں پہنچ پاتا اور دماغ کے خلیے مردہ ہوجاتے ہیں اور بالآخر انسان مر جاتاہیلیکن نئی تحقیق کے مطابق یہ دوا ایسے کسی بھی حملے سے انسان کو بچاتی ہے اور خون کو منجمد ہونے سے روک کر پتلا (Thin) بناتی ہے ۔ علاوہ اس کے قدرتی طور پر حاصل کی جانے والی یہ دوا انسان کی بنائی کسی بھی کیمیائی دوا کے مقابلے محفوظ ہے۔
چمگاڈر اندھے نہیں ہوتے بلکہ انہیں نظر آتا ہے جبکہ عام طور پر یہ مشہور ہے کہ انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ان کی آنکھیں دوسرے حواس کی طرح زیادہ کارکرد نہیں ہوتیں لیکن ان کے دیکھنے کی صلاحیت مناسب ہوتی ہے ،چمگاڈر رنگوں کے ما بین تمیز نہیں کر سکتے۔چمگاڈر دوران پرواز راستہ تلاشنے کے لئے اپنی آنکھوں سے کام نہیں لیتا بلکہ دوسری صلاحیت کو بروئے کار لاتا ہے،یہ گونج کے ذریعے اشیاء کو پہچاننے کی صلاحیت ہے جس کو (Echo technology) کہا جاتا ہے ، علاوہ اس کے چمگاڈر میں Desmoteplase نامی مرکب بھی پایا جاتا ہے جو طبی نقطہ نظر سے کافی اہم ہے اور یہی وہ خصوصیات ہے جس کے باعث میں نے چمگاڈر کو سات
حیوانی عجوبوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
Echolocation (حیاتی مقاحد) :
آواز کی گونج سے شئے کو پہچاننے کی تیکنک کو Echolocation کہا جاتا ہے ، اس ٹیکنک کو نہ صرف چمگاڈر بلکہ دوسرے اور جاندار بھی اپناتے ہیں جس میں وھیل اور ڈولفن اہم ہیں۔بلکہ بعض اوقات خود انسان بھی اس کو استعمال کرتا ہے خصوصاً اندھے افراد اپنے ماحول میں جب نکلتے ہیں تو کسی شئے یا لاٹھی وغیرہ سے مسلسل آواز پیدا کرتے ہیں جو پلٹ کر ان کی سماعتوں سے ٹکراتی ہے اور وہ اندھے احباب راہ کی رکاوٹوں کا اندازہ لگا لیتے ہیں اور سبل انداز میں آگے بڑھتے ہیں۔ Echolocation کی اس اصطلاح کو Griffin نے وضع کیا ،اس کو Biosonar یعنی’’ حیاتی مقاحد‘‘ بھی کہا جاتا ہے، چمگاڈر دوران پرواز شکار کرنے اور سمت کو متعین کرنے کے لئے اسی طراز (Technique) کا سہارا لیتی ہے اور یہ طراز اس قدر حساس ہوتی ہے کہ نہایت باریک بال بلکہ اس سے بھی چھوٹی شئے چمگاڈر بآسانی جانچ لیتا ہے۔ چمگاڈر عام طور پر ہر لمحہ آواز کی دس لہریں خارج کرتی ہے ، ان ہی دس لہروں سے پلٹنے والی گونج اس جاندار کو محفوظ طریقے سے پرواز انجام دینے کے لئے کافی ہوتی ہیں ۔ لیکن جب یہ جاندار کسی کیڑے کو پکڑنے کے لئے تعاقب کرتا ہے تو آواز کی لہروں کے اخراج کی رفتار میں یکلخت اضافہ کردیتا ہے، اس وقت یہ ایک لمحے میں مسلسل دو سو لہریں خارج کرتی ہے اور کامیاب انداز میں آگے بڑھتی ہوئی شکار کو پکڑ لیتی ہے ۔ جب اس شدت کی لہروں کا اخراج عمل میں آتا ہے اطراف و اکناف کا ماحول اس آواز سے گونجنے لگتا ہے جس کو اکثر حشرات محسوس کرتے ہیں اور اس علاقے میں آنے سے بچتے ہیں ، چونکہ خارج ہونے والی آواز کی سمعی شدت زیادہ ہوتی ہے اسی لئے انسانی کان اس کو سن نہیں پاتے،حیاتی اصول کے مطابق انسانی کانوں کو سنائی دینے کے لئے ایک حد مقرر ہے اس حد سے آگے کے تعدد کو انسانی کان نہیں سن سکتے۔انسانی کان 20 Hz تا 20,000 Hz تعدد کی آواز سن سکتے ہیں جب کہ چمگاڈر 1,00,000 Hz تعدد کی آواز کی لہریں خارج کرتا ہے جو بالائے سمعی (Ultrasound)ہوتی ہیں، یہ لہریں چمگاڈر کے منہ خصوصاً Larynx سے خارج ہوتی ہیں علاوہ اس کے بعض انواع ناک سے بھی ایسی ہی لہروں کا اخراج عمل میں لاتے ہیں۔ ان لہروں سے پلٹنے والی گونج چمگاڈر کے بڑے کان وصول کرتے ہیں اورپرواز کے سمت کا تعین اور شکار کو پکڑنے کی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔اسی لئے چمگاڈر کو دنیا کے تمام جانداروں میں سب سے بہتر انداز میں سننے والا جاندار قرار دیا گیا ہے۔ ان کے کانوں میں ایک مخصوص ساخت tragus پائی جاتی ہے جو وصول ہونے والی آوازوں کوصحیح سمت میں پہنچانے میں مدد دیتی ہے۔ چمگاڈر کے کان اپنی نوعیت کے اعتبار سے نہایت حساس اورمنفرد ہوتے ہیں،عام طور پر اس خصوصیت کا اظہار کرنے والے جانداروں میں دو کان ہوتے ہیں ۔لہروں کے اخراج کے بعد پلٹنے والی گونج ہلکے سے وقت کے فرق کے ساتھ واپس آتی ہے،گونج کے واپس پلٹنے کی رفتار کا انحصا اس شئے کے فاصلے پر ہوتا ہے جس سے خارج کردہ آواز کی لہریں ٹکراتی ہیں۔چمگاڈر Object (کوئی بھی شئے) کی دوری کا اندازہ شئے سے ٹکرا کر واپس پلٹنے والی گونج کے درمیان موجود ہلکے فرق سے لگاتی ہے۔اس کام کی انجام دہی کے لئے ان کے دماغ میں مخصوص اعصابی خلیے ہوتے ہیں جو آپسی تال میل کا مکمل مظاہرہ کرتے ہیں اور مطلوبہ شئے کو حاصل کرنے کا صحیح اندازہ لگانے میں مدد دیتے ہیں۔ اسی لئے غذا کی تلاش کے اس طریقہ کار میں ماحول کا اندھیرا رکاوٹ نہیں بنتا۔چمگاڈر کی گونج کے تجزیے سے دیکھنے کی صلاحیت کو جانچنے کے لئے گذشتہ کچھ برس قبل ایک تجربہ کیا گیا جس میں ایک بڑے کمرے میں تقریباً نہ دکھائی دینے والے تاروں کو جا بجا لٹکایا گیا جب چمگاڈر کو اس کمرے میں چھوڑا گیا تو سائنسدانوں کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ چمگاڈر آدھے ملی میٹر سے کم موٹائی رکھنے والے تاروں سے الجھے بغیر اہنے ہدف تک بآسانی پہنچ گئی۔ اسطرح اس جاندار کے تعلق سے یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ’’چمگاڈر وہ جاندار ہیں جوآنکھوں سے نہیں بلکہ اپنے کانوں سے دیکھتے ہیں‘‘ ۔چمگاڈر میںEcholocation کا طریقہ کار خود اس قدر پیچیدہ ہے کہ انسان آج بھی اس کی مکمل حقیقت سمجھنے میں لگا ہوا ہے ، اس موڑ پر غور کیجئے کہ آواز کی لہریں پلٹتی ہیں تو وہ جاندار اشیاء سے ٹکرا کر پلٹتی ہیں اور اکثر اوقات بے جان اشیاء سے ٹکرا کر بھی یہ آواز کی لہریں پلٹتی ہونگی ، اب اس بات پر توجہہ دیجئے کہ رات کا اندھیرا ہے اور چمگاڈر ہے کہ صرف چھوٹے چھوٹے جاندار اشیاء کو کھائے جارہی ہے کبھی غلطی سے اس نے کسی بے جان شئے پر منہ نہیں مارا اور کبھی بے جان شئے کو کھانے کے لئے آگے نہیں بڑھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے چمگاڈر جاندار اشیاء کو پہلے سے پہچانتی ہے اور صرف انہی اشیاء کو کھانے کے لئے سو جتن کررہی ہے یہاں ہم سونچیں کہ چمگاڈر میں شئے کی حقیقت کو پہچاننے کی یہ حس کسی قوت کی جانب سے کنٹرول کی جاتی ہے کیونکہ چمگاڈر کا مقاحدی نظام (Sonar)آج کے ترقی یافتہ سائنسی دور میں بھی زیر بحث ہے،اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی جاندار دوران ارتقا اپنی خواہش کے مطابق تغیر یا ماحول کے زیر اثر تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا یہ یقیناً ایک مخفی قوت کی کارسازی ہے اور یہی مخفی قوت وحدہ لاشریک ہے جونہ صرف ان جانداروں کابلکہ تمام کائنات کا خالق ہے۔***