میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 21 – جوش – – – پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

Josh جوششعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 21
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
جوش ملیح آبادی

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 20 ۔ کے لیے کلک کریں

جوش ملیح آبادی (۱۸۹۶۔ ۱۹۸۲ء)
جگرمرادآبادی اگر غزل کے اہم ستون تھے تو جوش ملیح آبادی اردو نظم کی شوکت عمارت ،ذخیرہ الفاظ ان کے پاس جس قدر تھا، اتنا کم شعراء کے پاس ہوتا ہے، میر انیس کے بعد سب سے زیادہ جس شاعر کے یہاں شوکت الفاظ کاگھنگرج ہے وہ جوش ملیح آبادی ہیں، انہوں نے ایک عظیم ذخیرہ ادب نظم ونثر کی شکل میں چھوڑا ہے، ابتداء میں جو ش کے لئے لوگوں نے مصور جذبات کا لقب استعمال کیا تھا، اور بعد میں بعض لوگوں نے انھیں شاعر فطرت کہا، اور کچھ لوگوں نے شاعر شباب کا نام بھی دیا، اور پھر شاعر اعظم اور شاعر انقلاب کا اعزاز بھی انھیں بخشا گیا

جوش ملیح آبادی کا نام شبیر حسین خان تھا، عربی فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ملیح آباد میں حاصل کی، فارسی انھوں نے مرزا محمد ہادی رسوا سے پڑھی ، سیتا پور لکھنؤ اور علی گڑھ اور آگرہ کے مختلف اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی، ان کی رسمی تعلیم تو بہت زیادہ نہ ہو سکی، لیکن مطالعہ کتب کا شوق نے ان کو ایک بڑا عالم اور دانشور بنا دیا تھا، زندگی کے رموز اور فطرت کے اسرار پر غور وفکر کی عادت نے ان کے اندر فکر وخیال کی بلندی پیدا کردی تھی، جوش نے نو سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا، ان کے والد نے شروع میں ان کو شاعری سے روکا لیکن جب ان کے شوق بے نہایت کو دیکھا تو عزیز لکھنویؔ سے تلمذ اختیار کرنے کی تلقین کی ، اور جس کی وجہ سے ان کو زبان اور عروض کے رموز ونکات معلوم ہوئے، بعد میں سلیم پانی پتی نے ۱۹۱۴ء میں جو ش کو تنگ نائے غزل سے نکل کر نظم کے وسیع سمندر میں کود پڑنے کی تلقین کی ، ۲۰ ۱۹ء میں ان کے مجموعہ کلام ’’روح ادب ‘‘کی اشاعت ہوئی، بعد میں اعزاء کی بے گانہ روش اور بعض دوسرے اسباب کے تحت انہوں نے ملیح آباد چھوڑنے کا فیصلہ کیا، ۱۹۲۴ء میں حیدرآباد کے مہاراجہ کرشن پرشاد کے نام علامہ اقبال ؔ ،مولانا عبد الماجد دریابادی، اکبر الہ بادی اور مولانا سلیمان ندوی کے سفارشی خطوط لیکر جو ملیح آبادی حیدر آباد آگئے ، انگریزی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنے کے لئے جامعہ عثمانیہ کے دار الترجمہ میں ان کو ملازمت ملی ، بعد میں وہ ناظر ادبی کے عہدے پر مقرر کئے گئے، بعد میں ایک غلطی کی وجہ سے وہ معتوب ہوئے اور ان کو ۱۹۳۴ ء میں حیدرآبا د چھوڑنا پڑا، انھوں نے دار الترجمہ میں نو برس تک کام کیا تھا، جو ش ملیح آبادی دہلی میں قیام پذیر ہوئے اور وہاں سے انھوں نے کلیم کے نام سے ایک ادبی رسالہ نکالہ اور دہلی ہی سے ان کے دو مجموعے ’’نقش ونگار ‘‘اور ’’شعلہ وشبنم‘‘بھی شائع ہوئے، جو ش ملیح آبادی کے یہاں انقلابی اشعار بھی بہت ہیں، ان کی ایک نظم ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں کے نام‘‘بہت زیادہ مقبول ہوئی ہے، ۱۹۴۷ء کے بعد آزاد ہندوستان کے حالات نہایت دلشگن تھے، جس کا اظہار انھوں نے اپنی نظم ’’ماتم آزادی‘‘ میں کیا ہے، جو ش ملیح آبادی دہلی سے نکلنے والے سرکاری ماہنامہ’’ آج کل ‘‘کے مدیر اعلی بھی رہے، ۱۹۵۶ ء میں بعض حالات کی وجہ سے وہ پاکستان ہجرت کر گئے ، اور یہیں سے ان کا زوال شروع ہوا ، پاکستان پہونچ کر وہ حکومت کے معتوب رہے، اور تمام سرکاری تقریبات اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے دروازے ان پر بند کردئے گئے، آخر میں وہ بہت بیمار ہوئے ، حکومت کا عتاب جوش پر اتنا زیادہ رہا کہ ان کے انتقال کے بعد ان کے اعزاء سے کہا گیا کہ اگر میت کو گھر لیجانا ہے تو امبولینس میں پٹرول ڈلوالیں، ان کا سوگ پاکستان سے زیادہ ہندوستان میں منایاگیا، جوش ملیح آباد ی کے اٹھارہ شعری مجموعے اور چار نثری کتابیں شائع ہوئی ہیں، نثر میں ان کی خود نوشت سوانح حیات ’’یادوں کی برات‘‘بھی شامل ہے ، اس میں انھوں نے اپنی زندگی کے تمام واقعات بیان کئے ہیں، جوش ملیح آبادی کے کچھ اشعار دیکھئے:
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب وانقلاب وانقلاب

اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا

ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لئے
اگر رسول نہ ہوتے صبح کافی تھی

نظر اٹھی تو گلاب دیکھا پلک جو جھپکی تو خواب دیکھا
سنا فصل گل آرہی ہے چمن میں پہونچے تو جارہی تھی

نظر نے دیکھا تو شوخ تتلی فضامیں پرواز کررہی ہے
نگہ جمائی تو گرد ٹپکی ہواؤں میں تھر تھرا رہی تھی

سوز غم دیکے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جاتجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا

مجھ کو تو کجھ ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

خورشید افق میں ڈوب گیا ظلمت کانشاں لہرانے لگا
مہتاب کو دیکھو بادل سے چاندی کے ورق برسانے لگا

پردہ جو اٹھایا بادل کا دریا کا تبسم دوڑ گیا
چلمن جو گرائی بدلی کی میدان کا دل تھرانے لگا
——
mohsin osmani

Share
Share
Share