خواجہ اعظم حضرت معین الدین حسن چشتی رحمۃ اللہ علیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

Share
habibi  حضرت
ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

خواجہ اعظم حضرت معین الدین حسن چشتی رحمۃ اللہ علیہ
اورآپ کا روحانی مشن

ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985

آج کا انسان ترقی کی اعلیٰ و ارفع منزلوں پر فائز ہے۔‘‘ اس فقرے سے ہر کوئی اتفاق کرے گا، کسی کو اس میں کوئی اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی، لیکن کیا صرف تسخیر کائنات، ایجادات و اختراعات ہی انسان کی ترقی کی معراج کہلائیں گی؟ اگر ایسا ہوتا تو ساری دنیا امن و سلامتی کا مسکن ہوتی۔ مساوات انسانی کا گہوارہ ہوتی، سماجی انصاف کی پاسداری ہوتی اور حقوقِ انسانی کا اتلاف نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی افتراق و انتشار اور جنگ و جدل کی صورتِ حال کا سامنا ہوتا اور نہ ظلم و استبداد کا دور دورہ ہوتا اور نہ اخلاقی پستی اور بے راہ روی دیکھنے کو ملتی۔

معلوم ہوا کہ انسانی ترقی و تہذیب کا پیمانہ کچھ اور ہے ، جسے علامہ اقبال نے ’’اصل تہذیب احترام آدم است‘‘ کہا ہے۔ یہ احترام آدم است‘‘ والی بات دراصل اقبال نے قرآن ساری انسانیت کے لیے توحید ربانی کے ذریعہ وحدتِ انسانی کا درس دیتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ اور اعمالِ حسنہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں میں یقین کی حرارت اور ایمانی قوت کے ذریعہ سسکتی اور دم توڑتی انسانیت کے لیے آج بھی حیاتِ جاویداں کا مژدہ جانفزاء ہے ، جو مساوات، سماجی انصاف اور روحانی اقدار کا سرچشمہ ہو۔ اسلام ظاہر کی درستگی کے ساتھ ’’باطن‘‘ کی اصلاح پر زور دیتا ہے۔ جدید نفسیات کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’’فرد‘‘ کی تہذیب اس کے ’’اندرون‘‘ کی درستگی کے بغیر ناممکن ہے۔ شعور ہی نہیں تحت الشعور میں تبدیلی آنا ضروری ہے۔ عبادات ، اذکار و نوافل ہمارے اعمالِ صالحہ کو جلا بخشتے ہیں اور اعمالِ صالحہ کی پاسداری سے ’’حقوق العباد‘‘ کی تحریک ملتی ہے۔ اس طرح ’’حقوق اللہ‘‘ اور حقوق العباد کے امتزاج سے وہ ’’روحانی اقدار‘‘ تشکیل پاتی ہیں جس کے ذریعہ دلوں کو فتح کرلیا جاتا ہے۔ یہی روحانی مقاصد تھے جس کی تبلیغ و اشاعت کے لیے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں کامل مردِ مؤمن ، رہبر و ہادی ، مصلح و محسن انسانیت، مدبر اور علمبردار امن و سلامتی کی حیثیت سے تشریف لائے اور خصوصیت کے ساتھ تزکیۂ نفس اور تصفیہ قلب کی تعلیم و تدریس مرحمت فرمائی۔ یہی مشن خلافتِ راشدہ کے دور میں بھی جاری رہا۔ کیا ہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت و معرفتِ الٰہی کو نہیں جانتے، کیا ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سادگی ، انصاف اور دنیا کی بیزاری سے واقف نہیں، کیا ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زہد و تقویٰ کو بھول گئے ہیں؟ کیا ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حکمت و شجاعت ہمارے علم میں نہیں؟ خلافتِ راشدہ ’’دین و دنیا‘‘ کا معتدل و متوازن امتزاج تھی۔ یہ جہاں دینداری کی علمبردار تھی وہیں دنیا میں زندگی گذارنے اور انسانی گروہوں کے ساتھ تعلقات کے قرینے بھی سکھلاتی تھی۔ دوسرے معنوں میں ’’مادّی‘‘ اور ’’روحانی‘‘ ترقی کی ضامن تھی۔ ’’ظاہر‘‘ کے ساتھ ’’باطن‘‘ کی اصلاح بھی ہوتی تھی۔ خلافتِ راشدہ کے سو دو سو سال کے اندر ہی جب فتوحاتِ اسلامی کی توسیع ہوتی چلی گئی تو آہستہ آہستہ ’’خلافت‘‘ ملکویت کا روپ دھارنے لگی اور ’’مادّیت‘‘ و ’’روحانیت‘‘ پر غلبہ حاصل کرنے لگی۔ یہی وہ موڑ تھا جب ’’تصوف‘‘ کی بنیادیں استوار ہونے لگیں اور اس روحانی مشن کے علمبردار ’’صوفیاء‘‘ اور ’’اولیاء‘‘ کہلائے۔ تابعین اور تبع تابعین کے دَور میں ایک سے بڑھ کر ایک زاہد کامل اور عابد شب زندہ دار جیسے حضرت اویس قرنی، حسن بصری، جنید بغدادی، ابراہیم بن ادہم، اوربایزد نظامی رحمہم اللہ وغیرہ اکابر اولیاء عظام رشد و ہدایت کی شمعیں جلاتے رہے، پھر اس کے بعد کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ عرفان و احسان کے دو بڑے سمندر یعنی حضرت غوث اعظم عبدالقادر محی الدین جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ اعظم معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ وجود میں آئے ، جن سے فیض پاکر کئی افضال و انوار کے دریا اسی روحانی مشن کی تبلیغ و سیرابی کے لیے دنیا کے ہر حصہ میں پھیل گئے۔
حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ ۵۳۷ھ ؁ میں اس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے اور ۶۳۳ھ ؁ میں اصل الاصول سے وابستہ ہوگئے۔ آپ نے اپنے عرصۂ حیات میں آنحضرت کے روحانی مقاصد کی تبلیغ و اشاعت فرمائی اور نہ صرف مسلمانوں کی ایمانی قوت کو تقویت پہنچائی، بلکہ آپ کے دستِ حق پرست پر کوئی ۹۹ لاکھ غیرمسلم ، اسلام کی سعادت سے فیض پائے۔ یہ تبلیغ کسی تلوار کے زور سے نہیں، بلکہ آپ کے اعلیٰ اسلامی نمونہ سے ہوئی، حالانکہ مسلمانوں نے ہندوستان پر کوئی ایک ہزار سال کے قریب حکومت کی، مسلمان حکمراں چاہتے تو ہندوستان میں کوئی غیرمسلم نہ ہوتا، لیکن یہ صرف اعلیٰ انسانی کردار اور روحانی اقدار ہی تھے جس کے باعث آپ نے دلوں پر حکومت کی اور ’’سلطان الہند‘‘ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ کے ہندوستان آنے کو تائید مصطفوی حاصل تھی، کیوں کہ یہاں ہر جگہ کفر و الحاد اور چھوت چھات کا دور دورہ تھا۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر ہی آپ نے اجمیر کو اپنا تبلیغی مسکن بنایا۔ آپ نے اپنے روحانی مشن کی تبلیغ کے لیے جہاں اپنے اخلاقِ حسنہ کی مثال پیش کی وہیں ہمارے استفادہ کے لیے کئی تصانیف بھی عطا کیں، جن میں گنج الاسرار، حدیث المعارف اور رسالہ در کتب نفس اور رسالہ وجودیہ و دیگر مشہور ہیں۔ حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ جو آپ کے خلیفہ مجاز نے ’’دلیل العارفین‘‘ میں آپ کے ملفوظات مرتب کیے ہیں، جو ’’اخبار الاخیار ‘‘ مصنفہ حضرت شیخ عبدالحق دہلویؒ کے حوالے سے استفادہ کے لیے درج کیے جاتے ہیں، جس سے آپ کے روحانی مشن کے خدوخال کا اندازہ ہوتا ہے۔
(۱) فرماتے ہیں اللہ کا دوست وہی ہوتا ہے جس میں تین خصلتیں یعنی (الف) سمندر جیسی سخاوت (ب) آفتاب جیسی شفقت (ج) اور زمین جیسی تواضع پائی جائے۔ ظاہر ہے ایسی بے پناہ سخاوت، بے کراں شفقت اور عظیم تواضع کسی انسان میں ہو اور خاص طور پر مسلمان میں پائی جائے تو اس کے کردار کا اور حسن اخلاق کا کیا عالم ہوگا۔)
(۲) صحبت: نیک لوگوں کی صحبت نیکی کرنے سے بہتر اور بد لوگوں کی صحبت برائی کرنے سے بدتر ہوتی ہے۔
(۳) عارف: محبت میں عارف کا یہ مقام ہے کہ ادنیٰ درجہ ہی میں سہی اس میں صفاتِ باری تعالیٰ پیدا ہونے چاہئیں (اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا رئیس احمد جعفری ندوی نے لکھا ہے کہ انسان حق تعالیٰ کا مظہر ہے، جس قدر یہ آئینہ صاف ہوگا اسی قدر صفائی کے ساتھ حق تعالیٰ کی صفات اس میں جلوہ گر ہوں گی جیسے شیشہ جتنا صاف ہوگا اتنا ہی صفائی کے ساتھ انسان کے خدوخال نظر آئیں گے، اسی طرح خواہشاتِ نفسانی کے زنگ سے دل کا آئینہ مکدر ہوجاتا ہے اور صفاتِ الٰہیہ اس میں جلوہ گر نہیں ہوتیں حضرات صوفیائے کرام سب سے پہلے اس انسانی آئینہ کو صاف کرتے ہیں اور خواہشاتِ نفسانیہ کو مٹا دیتے ہیں، تاکہ صفاتِ الٰہیہ کا عکس نمودار ہو۔)
عارف کی تعریف کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا کہ عارف وہ ہے جو اپنے دل سے ’’غیر اللہ‘‘ کو نکال دے ، اسی طرح اکیلا ہوجائے جیسے اس کا محبوب اکیلا ہے۔
(۴) تمہارا کوئی گناہ اتنا نقصان نہیں پہنچائے گا جتنا کہ کسی مسلمان کی بے عزتی کرنے سے ہوگا (آج ہمارا یہ حال ہے کہ باہمی بغض و عناد اور کینہ و حسد کے ساتھ ساتھ کسی کی بھی ’’بے عزتی‘‘ عام روش ہوگئی ہے۔)
(۵) جس نے بھی نعمت پائی وہ سخاوت کی وجہ سے پائی۔
(۶) درویش وہ ہے کہ جس کے پاس جو بھی حاجت لے کر آئے اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرے۔
(۷) درحقیقت متوکل وہ ہے جس کو مخلوق سے تکلیف و اذیت پہنچے، لیکن وہ کسی سے شکایت نہ کرے، نہ کسی سے ذکر کرے۔
(۸) عارف کی علامت یہ بھی ہے کہ موت کو پسند کرے، عیش و راحت کو چھوڑ دے اور یادِ الٰہی سے انس پیدا کرے۔
(۹) علم بے پناہ سمندر ہے اور معرفت ایک دریا ۔ سو کہاں خدا اور کہاں بندہ۔ علم اللہ کے لیے ہے اور معرفت بندہ کے لیے ہے۔
(۱۰) لوگ منزل گاہ قریب کے نزدیک صرف اس وقت جاسکتے ہیں جب نماز میں مکمل فرمانبرداری کریں کہ مؤمن کی معراج یہی نماز ہے (یعنی نماز میں خشوع و خضوع اور کامل سپردگی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ ہے، جس کو یہ بات میسر آگئی اس کی گویا معراج ہے ، یعنی اعلیٰ درجات پر فائز ہے۔)
(۱۱) بدبختی کی علامت یہ ہے کہ گناہ کرتا رہے پھر بھی مقبولِ بارگاہ ہونے کا امیدوار ہو اور عارف کی یہ علامت ہے کہ خاموش اور غمگین رہے گا۔
(۱۳) فرماتے ہیں کہ پاس انفاس اہل معرفت کی عبادت اور معرفتِ خداوندی کی علامت یہ ہے کہ مخلوق سے بھاگے اور معرفت میں خاموش رہے۔
الغرض سادگی، سخاوت، شفقت، تواضع ، غرباء پروری، راحت رسانی ، انسانوں کا احترام، مساوات، سماجی انصاف، یکجہتی، اور وسیع القلبی ایسے اوصافِ حمیدہ ہیں جو کامل سپردگی اور اخلاقِ عمل سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ یہی غریب نواز کے مشن کا لب لباب ہے۔

Share
Share
Share