9؍تا 12؍فیصد تحفظات کی سفارش
جی۔ سدھیر کمیشن کی 331؍صفحات کی رپورٹ
جائزہ : یحییٰ خان
سہارا نیوزبیورو
ریاست تلنگانہ میں مسلم طبقہ کی حالت ایس سی اور ایس ٹی طبقہ سے بھی پیچھے
گزشتہ 40؍سال میں حالات ابتر ،43؍فیصد مسلمان کرایہ کے مکانات میں مقیم ، کرایہ پر مکانات کا حصول بھی مشکل
تعلیمی ، معاشی حالات اور آمدنی بہت کم ،بیمار ہونے پر سرکاری ہسپتال ہی سہارا، 16؍فیصد مسلمانوں نے اسکولوں کی شکل ہی نہیں دیکھی ۔ جی۔ سدھیر کمیشن کی 331؍صفحات کی رپورٹ میں کئی ایک انکشافات اورحکومت کوصلاح و مشورے
ریاست کی ٹی آر ایس حکومت نے ریاست میں مسلمانوں کی "معاشرتی ،معاشی ،اور تعلیمی صورتحال کا جائزہ لینے کی غرض سے 5؍مارچ 2015ء کو اپنے جی او نمبر 84کو جناب جی ۔ سدھیر آئی اے ایس (موظف) کی صدارت میں ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا جسے اندرون 6؍ماہ اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی اس تحقیقاتی کمیشن میں جناب محمد عبدالباری ،ڈاکٹر عامر اللہ خان اور پروفیسر عبدالشعبان بحیثیت اراکین شامل تھے اس کمیشن نے اپنی تحقیقات کے ضمن میں ریاست تلنگانہ کے دس اضلاع ( سال حال ان اضلاع کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے جملہ31؍اضلاع کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے ) کے تمام شہروں اور ٹاؤنس کا دؤرہ کرتے ہوئے انتہائی باریکی کے ساتھ مسلمانوں کی مؤجودہ حالات کا جائزہ لیا اور اس سلسلہ میں تلنگانہ کے مسلم قائدین ، مسلم تنظیمو ں اور مسلم نمائندوں نے بھی اس کمیشن سے رجوع ہوکر اس کمیشن کی معیاد میں حکومت تلنگانہ نے 30؍ستمبر 2016ء تک توسیع کی تھی ۔ 12؍اگست 2016ء کو سدھیر کمیشن نے 331؍صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ حکومت کے حوالے کی ہے۔ سدھیر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہیکہ ریاست تلنگانہ میں مسلمانوں کی معاشرتی ،معاشی ،اور تعلیمی صورتحال ایس سی اور ایس ٹی طبقات سے بھی پیچھے ہے اس رپورٹ میں لکھا گیا ہیکہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست تلنگانہ کی جملہ آبادی 3.51 کروڑ ہے جس میں مسلمان 44.64؍ لاکھ ہیںیعنی جملہ آبادی کا 12.68؍فیصد ۔اس تحقیقاتی رپورٹ میں کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کی معاشرتی ،معاشی ، تعلیمی ،ملازمتوں اور طبی صورتحال انتہائی ابتر ہے، سدھیر کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہیکہ گزشتہ 40؍سالوں میں مسلمان تمام محاذوں پر پیچھے چلے گئے ہیں ، کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہیکہ گزشتہ 40؍سالوں میں مسلمانوں کی حالت انتہائی ابتر ہوگئی ہے جبکہ چند معاملات میں تو مسلمانوں کی حالت ایس سی اور ایس ٹی طبقہ سے بھی بدتر ہوگئی ہے ، سدھیر کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ نیشنل سامپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او) کے اعداد و شمار کی رؤشنی میں 1999ء میں مسلمان دیگر شہریوں کی بہ نسبت کسی حدتک کمزور تھے لیکن اب او بی سی طبقہ کے لوگ بڑی ذاتوں کے برابر پہنچ گئے ہیں اور اس وقت اوبی سی کے مساوی رہنے والے مسلمانوں کی حالت اب کمزورہوگئی ہے ۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہیکہ مسلمان ہندوایس سی طبقہ سے بھی خطہ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں سدھیر کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہیکہ معاشی طور پر کمزور رہنے کے باعث ریاست تلنگانہ کے مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی بھی پائی جاتی ہے رپورٹ میں کہا گیا ہیکہ مسلمان درمیان میں ہی اپنی تعلیم منقطع کرنے پر مجبورہیں اس رپورٹ میں کہا گیا ہیکہ 16؍ فیصد مسلمانوں نے اسکولس کی شکل ہی نہیں دیکھی ۔ سدھیر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہیکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مسلمانوں کا تناسب مزید بدتر ہے تلنگانہ کی یونیورسٹیز کے تمام کورسس میں مسلم طلبہ کاتناسب انتہائی کم ہے ان یونیورسٹیز سے حاصل کئے گئے اعدادو شمار سے انکشاف ہوا ہے ۔ حکومت کو پیش کی گئی سدھیر کمیشن رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہیکہ مسلمانوں میں جنسی تفریق دیگر مذاہب کی بہ نسبت زیادہ ہے اسکی مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہیکہ 21؍ تا 29؍سال کی حامل 71.5؍فیصدمسلم لڑکیاں درمیان میں ہی اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کررہی ہیں اسی طرح مسلمانوں میں 18؍تا 20؍سال کی عمر کی حامل52.8؍فیصد لڑکیاں تعلیمی سلسلہ منقطع کررہی ہیں اس طرح 21؍تا 29؍سال کی حامل جملہ 85.2؍فیصد مسلم خواتین اپنا تعلیمی سلسلہ درمیان میں ہی منقطع کررہی ہیں ۔
سدھیر کمیشن کی رپورٹ میں یہ افسوسناک انکشاف بھی کیا گیا ہیکہ غربت کے باعث مسلمانوں کی زیادہ تعداد بیمار ہونے پر سرکاری دواخانوں کا ہی رخ کرتی ہے ناموزوں طبی سہولتوں ،غربت اور سلم علاقوں میں رہنے کی وجہ سے مسلمانوں کو صحت کے مسائل بھی درپیش ہیں اور یہی وجہ ہیکہ 62؍فیصد ہندوؤں ، 49.6؍فیصد عیسائیوں کیساتھ تقابل کیا جائے تو 66؍فیصد مسلم حاملہ خواتین خون کی کمی کا شکار رہتی ہیں تاہم دوسروں کی بہ نسبت مسلم بچوں کی صحت دیگر اقوم کے بچوں سے بہتر رہا کرتی ہے اور مسلمانوں میں حاملہ اور نومولودوں کی شرح اموات بہت کم ہے ۔ سدھیر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ان حقائق کو بھی واضح کیا ہیکہ ہاوزنگ مارکیٹ میں مسلمانوں سے تعصب برتے جانے کا احساس بھی پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہیکہ مسلمانوں کو کرایہ پر مکانات حاصل کرنے کیلئے پریشانیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہیکہ 43؍فیصد مسلمان کرایہ کے مکانات میں مقیم ہیں کمیشن نے حکومت کو صلاح دی ہیکہ وہ اس سلسلہ میں جائزہ لے ۔ سدھیر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ریاستی حکومت سے سفارش کی ہیکہ وہ مسلمانوں کے تحفظات میں 12؍فیصد تک اضافہ کرے یا پھر کم سے کم 9؍فیصد تحفظات فراہم کرے اس رپورٹ میں حکومت تلنگانہ کو صلاح دی گئی ہیکہ وہ قانونی ماہرین سے صلاح و مشورہ کے بعد ٹاملناڈو حکومت کی طرز پر مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کیلئے قانون وضع کرے ۔ اس کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اندرا ساہنی کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کیجانب سے جاری کردہ وضع کردہ رہنمایانہ اصول پر غور کیا جائے تو ریاست کے مسلمان چند معاملات میں پچھڑے ہوئے ہیں اور سماجی و تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں یہی وجہ ہیکہ حکومت انہیں تحفظات فراہم کرے اسی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے انہیں دئے جارہے 4؍فیصد تحفظات میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 12؍فیصد کیا جائے یا پھر کم سے کم 9؍فیصد تحفظات کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے ۔ سدھیر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو مشورہ دیا ہیکہ سماجی ، مذہبی ،ذات پات ،اور لسانی تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خانگی اور سرکاری سطح کے بشمول تمام جگہوں پرتمام طبقات و مذاہب کے لوگوں کیلئے یکساں حقوق کی فراہمی کو ممکن بنانے کیلئے ایک کمیشن بنایا جائے اور یہ کمیشن تمام سطحوں بشمول تعلیم ، ملازمت ، مکانات کی سہولت،طبی سہولت اور ترقی کے معاملہ یہ کمیشن جائزہ لیتا رہے ۔ اس رپورٹ کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے سدھیر کمیشن نے حکومت کو فوری اور دیرپا اقدامات کیلئے سفارش کی ہے جس میں اسکولوں میں داخلہ کیساتھ ساتھ سرکاری ملازمتوں ،اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو خصوصی ترجیح دی جانی چاہئے ،سرکاری ملازمتوں میں مسلم خواتین کا تناسب بڑھایا جائے اور مسلم تحفظات میں مسلم خواتین کو 33؍فیصد تحفظات فراہم کئے جائیں ، جہاں مسلم آبادی زائد ہو وہاں مسلم لڑکیوں کیلئے خصوصی طور پر پرائمری ،ہائی اسکولس اور کالجس قائم کئے جائیں ، اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مسلم لڑکیوں کے کم تناسب کو دیکھتے ہوئے انکے لئے انگریزی میڈیم ہائی اسکولس اور کالجس کے قیام کو ممکن بنایا جائے ۔ سدھیر کمیشن نے مسلمانوں کی ترقی کیلئے فوری طور پر کئے جانے والے اقدامات کی سفارش کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا ہیکہ ریاست کے بجٹ میں مسلمانوں کیلئے خصوصی سب پلان بنایا جائے ،تمام سرکاری محکمہ جات مسلمانوں کی ترقی کیلئے فنڈس میں اضافہ کو یقینی بنائے ،اور ان فنڈس کے غلط استعمال پر نظر رکھی جائے ،سدھیر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہیکہ غیر معیاری تعلیم،بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور اساتذہ کی عدم مؤجودگی کے باعث اردو میڈیم اسکولس کی حالت انتہائی خراب ہے اس لئے فوری طورپر ان اردو اسکولس میں اساتذہ کے تقررات عمل میں لائے جائیں ،غریب طلباء کو اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کیلئے اوردرمیان میں ہی تعلیمی سلسلہ کے منقطع کئے جانے کو روکنے کیلئے تعلیمی وظائف کی رقم میں اضافہ کیا جائے ،ایس سی ، ایس ٹی طلباء کی طرز پر مسلم طلبہ کو بھی تعلیمی اداروں میں بلاء رقمی داخلوں کے مواقع فراہم کئے جائیں ،سدھیر کمیشن نے حکومت کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہیکہ مسلمانوں میں اپنے تحفظ قانون اور پولیس کے متعلق مکمل بھروسہ ہے اس بھروسہ اور یقین کو مزید مضبوط بنانے کی غرض سے پولیس کے طرزعمل میں تبدیلی پیدا کی جائے اور مسلم نوجوانوں کی مجرم ، دہشت گردوں ، غیر سماجی عناصر کے طور پربیجا گرفتاریوں کو روکا جائے، اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کے طور پر عمل آوری کی جائے ، سرکاری دفاتر کے سائن بورڈس اردو ، تلگو اور انگریزی میں آویزاں کئے جائیں ۔ سدھیر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو صلاح دی ہیکہ ایس سی ،ایس ٹی کی طرز پر مسلمانوں کو بھی صنعتوں کے قیام میں مراعات دی جائیں اور ٹی ایس آئی آئی سی کے ذریعہ مسلمانوں کو 12؍فیصدصنعتی اراضی منظور کی جائے ،حکومت کی امکنہ اسکیم میں مسلمانوں کیلئے شہری علاقوں میں 20؍فیصد اور دیہی علاقوں میں10؍فیصد کوٹہ دیا جائے،آل انڈیا سرویس کی ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب انتہائی کم ہے اسکے لئے اسٹیٹ سرویس سے ترقی دیکر اس تناسب کو کم کیا جائے ،مسلم خاندانوں اور مسلم صنعتکاروں کیلئے قرضہ جات کا حصول ممکن نہیں ہے جسے آسان بنایا جائے ، ملازمین کے تقررا ت انجام دینے والے سیلکشن پیانل میں ایک مسلم نمائندہ کو ضرور شامل کیا جائے،ریاستی مینارٹی کارپوریشن کو مضبوط کیا جائے ریونیوڈویثرنس اور بلدیات میں اسکے دفاتر قائم کئے جائیں اور عملہ کا تقرر کیا جائے ،مینارٹی ریسیڈنشیل اسکولس کے معیار کو بہتر بنایا جائے اور مکمل بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ سدھیر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت تلنگانہ کویہ بھی صلاح دی ہیکہ مدرسوں کے نصاب میں بناء کسی مداخلت انہیں بھی تعلیمی ادارے متصور کرتے ہوئے ان مدرسوں میں سائنس اورحساب کے مضا مین بھی پڑھانے کیلئے تیار کروایا جائے اور مدرسہ بورڈ کا قیام عمل میں لاتے ہوئے اس میں تمام مدرسوں کو شامل ہونے کا مؤقع دیا جائے اور مدرسہ کے کورس کو ریگولرکورسس کے مساوی قراردیا جائے۔