افسانوی مجموعہ : سنّاٹے بول اٹھے
مصنف: ڈاکٹرپی داؤد محسنؔ
مبصر : ڈاکٹرسلیمان اطہرجاوید
حیدرآباد
افسانہ بھی غزل کی طرح نہایت سخت جان صنفِ ادب ہے۔غزل اور افسانے کی زندگی میں کئی انقلابات آئے ۔ یہ اصناف نشیب و فراز سے گذریں اوبی معاشرتی اور تہذیبی حالات بدلے بدلتے رہے لیکن ان اصناف کی بنیادیں متاثر نہیں ہوئیں ۔ ادھر غزل ، آزاد غزل ، نثری غزل اور دوہا غزل پڑھنے کو ملیں ۔ شاعر دوست احباب سے کچھ زیادہ ہی پڑھنے کو ملا۔افسانہ کا بھی یہی حال رہا تجریدی افسانہ ، اشاریتی افسانہ ،پلاٹ لس افسانہ ، اینٹی افسانہ اور نہ جانے کیا کیا کچھ مطالعے میں آئے۔جن کا ادبی ہاضمہ ٹھیک نہیں تھا ان کا حشر جوبھی ہوا ہو جن کا ادبی ہاضمہ اچھا تھا ان کی صحت بھی متاثر ہوئی ۔ کہنے کو تو ان اصناف میں اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے والے آج بھی اپنا قلم چلا رہے ہیں لیکن بنیادی طور پر غزل بدلی اور نہ بدلے گی۔اسی طرح افسانہ بھی افسانہ ہی رہے گا۔
افسانہ میں افسانہ پن ہونا اساس شرط ہے اور بیانیہ بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ کبھی ماتم کرنے والوں نے ماتم بھی کیا کہ افسانہ سے افسانہ پن رخصت ہو چکا ہے اور بیانیہ کی بھی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے لیکن افسانہ میں افسانہ پن لوٹ آیا اور بیانیہ بھی اور باقی سب خیر خیریت ہے۔ایسے میں تھوڑے بہت روایتی انداز کے افسانے مل جاتے ہیں جن میں افسانہ پن لوٹ آیا ہواور بیانیہ کی چلت پھرت ہو تو صورتِ حال اطمینان بخش ہو جاتی ہے۔ روایتی افسانہ میں زیادہ تر اصلاحی اور مقصدی افسانے رہے۔ افسانے کی روایت کا احترام کرتے ہوئے فن پر ٹھیک ڈھنگ سے توجہ دیتے ہوئے افسانہ پن اور بیانیہ کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے تحریر کردہ افسانے پڑھنے کو ملیں تو غیر معمولی اطمینان نہ ہوتا ہو تھوڑی بہت تشفی ضرور ہو جاتی ہے اور مستقبل کے تعلق سے پُر امید رہا جا سکتا ہے ۔ اس نوعیت کے افسانوں کے مجموعے کچھ زیادہ ہی شائع ہو رہے ہیں ۔ ڈاکٹر بی محمدداؤدمحسنؔ کے افسانوں کا مجموعہ ’’ سنّاٹے بول اٹھے ‘‘ ان میں سے ایک ہے ۔ ڈاکٹر داؤد محسنؔ کرناٹک کے ممتاز شاعروں میں ہیں ۔ ’’ سوادِ شب ‘‘ ان کا شعری مجموعہ ہے ۔ تحقیق اور تنقید میں بھی ان کا پایہ بلند ہے وہ ایک مبصّر کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ ’’ نقد اور نظریات ‘‘ اور ’’ نقد و بصیرت ‘‘ ان کی تحقیقی و تنقیدی کاوشیں ہیں ۔ ادبی دنیا میں ایک معتبر محقق اور ذمہ دار ناقد کی حیثیت سے ان کو دیکھا جاتا ہے۔ یہی نہیں کہ اب انہوں نے اپنا قلم طاق پر رکھ دیا ہے ۔ ’’ سنّاٹے بول اٹھے ‘‘ افسانوں کے اس مجموعے کے علاوہ جو شائع ہو چکا ہے ان کی متوقع تصانیف میں ’’ کرناٹک کے منتخب اردو تراجم ‘‘، ’’ اقبال کا نیا شعری تناظر ‘‘ ، ’’ اردو میں ترجمہ نگاری ‘‘ اور کنڑا میں ترجمہ کی ہوئی پریم چند کی کہانیاں ۔کئی جہات میں اپنی تحقیقی و تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتیوں کو داؤد محسنؔ نے کام میں لایا ہے بلکہ ان کو وزن و وقار بخشا ہے۔’’ سناٹے بول اٹھے ‘‘ داؤد محسنؔ کے پندرہ افسانوں کا مجموعہ ہے ۔ جہاں تک تکنیک کا تعلق ہے یہ افسانے انشائیے کی روایت سے رشتہ رکھتے ہوئے بھی روایتی پیرائے سے ممیز کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ’’ شوہر کا خط بیوی کے نام ‘‘ اور’’ بیوی کا خط شوہر کے نام‘‘ خطوط کی تکنیک میں ہیں ۔ یہ تکنیک اردو میں بہت زیادہ استعمال ہوتی رہی ہے اور آج بھی جہاں تہاں پڑھنے میں آجاتی ہے اور کچھ نہیں۔ اس موقع پرقاضی عبد الغفار کے لیلیٰ کے خطوط مجنوں کے نام یاد آجاتے ہیں۔ داؤد محسنؔ نے معاشرے کے ادبی تہذیبی اور اقتصادی پہلوؤں پر نظر رکھی ہے۔ شاعر کا بے نیازانہ لا ابالی پن بلکہ غیر ذمہ دارانہ مزاج اہلِ خاندان سے اس کا تغافل ، زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری نہ کرنا ، بس ہوائی قلعہ بناتے رہنا ، شادی سے پہلے جو منظر دکھائے گئے شاعرانہ اور جذباتی انداز سے کام لیا گیا۔ شادی کے بعد سب حرف غلط چابت ہوئے۔ داؤد محسنؔ نے خیال آرائی سے بھی کام لیا ہوگا۔ تھوڑا بہت افسانہ پن بھی رہا ہو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پچاس فی صدی سے زیادہ تو اس میں حقیقت ہے۔ ایک حقیقی معاشرہ کے خد و خال ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ یہ اصلاحی اور مقصدی افسانے ہیں۔ داؤد محسنؔ کے زیادہ افسانے گھریلو زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ معاشرہ مسلم معاشرہ ہے اور ہندو معاشرہ بھی ۔شوہر کی فوجی ملازمت ، وہ لڑائی میں کام آجاتا ہے ۔حکومت اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے لاکھوں روپئے پانے کے باوجود بیوہ کی زندگی ایک سوالیہ نشان بنی رہتی ہے پیاسی زندگی۔ بیوہ اپنے جذبات پر قابو نہیں پاتی ۔ کوئی اس کا سہارا نہیں۔ والدین اور سسرالی رشتہ داروں کو بتائے بغیر بیوہ دوسری شادی کر لیتی ہے۔ پہلے شوہر کے رشتہ داروں سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ افسانہ نگار کے زاویہ سے ایک ا صلاحی، مقصدی افسانہ ہے معاشرہ کا مزاج کہئے ۔ کبھی ایسا نہ ہو سکتا ہے اب تو ایسا ہو سکتا ہے۔ منظر نگاری تو خوب ہے ۔ ’’ عکس در عکس ‘‘ کی کہانی پاگلوں اور پاگل خانے کے گرد گھومتی ہے۔ طنز کی کاٹ کاری ہے۔ ایک شخص جو پاگل نہیں ہے اس کو پاگل قرار دینا اس سے فزوں پاگل پن اور کیا ہوگا۔ہم جس مغربی تہذیب کو اچھی سمجھ کر اختیار کر رہے ہیں اور اپنی اعلیٰ اقدار کی حامل تہذیب سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔یہ ہماری زندگی کا المیہ ہے۔ سالِ نو کی تقاریب کے پس منظر میں’’ سسکتی تہذیب ‘‘ میں داؤد محسن ؔ نے نئے نئے گوشے نکال کر افسانہ کی تاثیر کو دو چند کر دیا ہے۔ ارشد کا انجام نئی نسل کے لئے لمحۂ فکر ہے ۔ کاش نئی نسل اس سے سبق لے۔ سچ پوچھئے تو مشرقی نہیں مغربی تہذیب اپنے آخری دن گن رہی ہے۔ اقبال ؔ نے بلا کسی تکلف کے کہا تھا۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
بہرِ کیف سالِ نو جیسی تہذیب ہمارے مصلحین اور معاشرتی قائدین کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ کبھی اس موضوع پر بہت زیادہ لکھا گیا ہو لیکن جیسا کہ فسادات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا اس موضوع پر لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ سناٹے بول اٹھے کا موضوع ہی فسادات نہیں ۔ یہاں کردار نگاری بھی متاثر کرتی ہے۔احمد مرزا اور آ نند راؤ کے کردار مثالی ہیں ۔’’ بھوک ‘‘ ہماری معاشرتی زندگی کے ایک پہلو کا آئینہ ہے۔داؤد محسنؔ کے افسانوں کا ماحول وہ ہے جس میں وہ زیست کر رہے ہیں ۔ان کے افسانوں کے واقعات سے کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے یہ انہونی ہیں اور کہیں لگتا ہے ارے یہ تو ہمارے ہاں ہو چکا ہے ، ہو رہا ہے یا آگے چل کر کبھی ہو سکتا ہے۔’’اجنبی‘‘پڑھتے ہوئے مجھے سریندر پرکاش کا افسانہ ’’ دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ یاد آگیا اور ’’ مراجعت‘‘ جیسے افسانوں میں حقیقت نگاری غضب کی ہے۔داؤد محسنؔ نے افسانے کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے۔معاشرہ میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں ۔’’ اشکوں کی بارات‘‘ درندہ صفت انسانوں کا کچا چٹھا ہے۔ہمارے معاشرہ میں نہ جانے ایسے کتنے زینت ہیں جو درندہ صفت انسانوں کی ہوس کا نشانہ ہوئی ہیں۔ دونوں افسانے عبرت انگیز ہیں ۔’’ سالگرہ شادی کی ‘‘ ہلکا پھلکا اور اچھا مزاحیہ ہے۔ یوں تو انشائیوں کا رنگ داؤد محسنؔ کے افسانوں میں کم یا زیادہ پایا جاتا ہے لیکن خاص طور پر ’ بھوک ، آوارہ کتے ، دم دار لوگ اور مچھروں کی کانفرنس‘ تقریباً سر تا پا انشائیے ۔بس کہیں کہیں افسانویت در آئی ہے۔
افسانہ اور انشائیہ دو جدا گانہ اصناف ہیں اور جدا گانہ اصناف ہونے کے باوجود دونوں کی سر حدیں اس قدر ملی ہوئی ہیں کہ ان دونوں کو واضح طور پر ایک دوسرے سے الگ کرنا انتہائی دشوار ہے۔ افسانہ میں انشائیہ پن در آسکتا ہے لیکن انشائیہ میں افسانہ پن در آئے ضروری نہیں۔بات سے بات نکلتی جاتی ہے۔یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور آخر میں بات بن جاتی ہے۔افسانہ کے لئے مرکزی خیال اور موضوع وغیرہ ضروری نہیں۔انشائیہ کے لکھنا آنا ضروری ہے ۔ داؤد محسنؔ نے انشائیہ پردازی کا حق ادا کیاہے۔ان کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے،لکھنے کے فن سے وہ بخوبی آگہی رکھتے ہیں ۔یہاں تک کہ الفاظ کے تخلیقی استعمال پر بھی انہیں دسترس ہے۔انشائیہ نگار الفاظ کا پارکھ ہوتا ہے وہ الفاظ کا مزاج داں ہوتا ہے کہ قاری اس کی تحریر کے سحر میں کھو جاتا ہے۔وہ بظاہر کوئی پیغام نہ دیتا ہو لیکن کہیں نہ کہیں اور کچھ نہ کچھ اپنی بات کہہ جاتا ہے۔ وہ تشبیہات سے کم اور استعارات سے زیادہ کام لیتا ہے۔ معاشرہ کے منفی اور فرسودہ پہلوؤں پر اس کی گہری نظر ہوتی ہے اور طنز کی تلوار ہاتھ میں۔ڈاکٹر داؤد محسنؔ اچھے افسانہ نگار ہیں ممتاز افسانہ نگار۔ان کی انشائیہ نگاری ان افسانوں کو اور نکھار دیتی ہے۔’’ سنّاٹے بول اٹھے‘‘کہنے کو افسانوں کا مجموعہ کہا گیا ہے لیکن ہر افسانہ میں تھوڑی بہت انشاء پردازی اور تین چار مکمل اور بھرپور انشائیے اس کوانشائیوں کا مجموعہ قرار دینے کے حق میں ہیں اور ہے بھی یہ افسانوں اور انشائیوں کا ایک اچھا مجموعہ۔
——