شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 20
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
جگرؔ مراد آبادی
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 19 ۔ کے لیے کلک کریں
جگرؔ مراد آبادی (۱۸۹۰۔۱۹۶۰ء)
انسان زمین پر رہنے والی ایک مخلوق ہے اور وہ صاحب عقل مخلوق ہے ، اور اس کی فطرت میں ایک اور کیفیت ہے جس کو عشق کہا جاتا ہے ، عشق وہ جذ بہ ہے جو اپنے سے بر تر ہستی کا قرب چاہتا ہے بلکہ اس میں سما جانا چاہتا ہے ، یہ وہ جذبہ ہے جو بے مقصد زندگی کو با مقصد بناتا ہے، انسان کی فطرت میں یہ جذبہ ودیعت کیا گیا ہے، تاکہ انسان برتر ہستی سے قرب کی کو شش کرے یہی وہ عشق حقیقی ہے جس کی تلاش میں اور جس کے حصول میں تمام صوفیہ کرام کو ششوں میں لگے رہے-
ہماری اردو شاعر کا بڑا حصہ عشق اور داستان عشق پر مشتمل ہے، یہ عشق عشق حقیقی بھی ہو سکتا ہے اور عشق مجازی بھی ہو سکتا ہے، اس عشق کی نغمہ سرائی میں جن شاعروں نے اپنی پوری شاعری کو وقف کیا ان میں ایک بہت اہم نام حضرت جگر مراد آبادی کا ہے، انہوں نے عشق کے ہر عنوان کو اپنی غزل کا موضوع بنایا اور اسی لئے ان کے کلام کا بڑا حصہ غزلوں پر مشتمل ہے، انھوں نے اپنی کیفیت عشق کو غزل میں ڈھال دیا، بیسویں صدی میں غزل کے چار ستون تسلیم کئے گئے ہیں، ایک حسرت موہانی ، دوسرے اصغر گونڈوی، تیسرے فانی بدایونی ، اور چوتھے جگر مراد آبادی۔
جگرؔ کا پورا نام علی سکندر تھا، ان کے آباء واجداد مغلیہ دور میں دہلی میں مقیم تھے، ان کے موروث اعلی مولوی محمد سمیع دہلی کی سکونت تر ک کرکے مراد آباد آگئے تھے، جگرؔ مراد آبادی مراد آباد سے منتقل ہو کر کے لکھنؤ آگئے تھے، لکھنؤ کا ماحول شعر وادب کا ماحول تھا، ابھی ان کی عمر تیرہ چودہ برس کی تھی کہ انھوں نے غزلیں کہنا شروع کردی تھیں، ان کی غزلوں کی اہم خصوصیت ان کا سہل ممتنع ہونا ہے، جگر کے یہاں عشق کا جذبہ بہت شدید ہے، انھوں نے سادہ زبان میں اپنے محسوسات کو منعکس کیا ہے، جگرؔ کی شاعری میں درد کا عنصر کم ہے، لیکن اس کی ہلکی سی لہر محسوس ہوتی ہے، جگر کا دل محبت کا شیدائی رہا ہے ، انھوں نے عشق مجازی کی راہ سے عشق حقیقی تک پہونچنے کی کو شش کی ہے اور صنم خانے کی راہ سے کعبہ کی شاہراہ تلاش کی ہے، ساقی کوثر تک پہونچنے کی طلب میں ان کے نعتیہ اشعا ر بھی موجود ہیں، جگر مراد آبادی کو شہنشاہ متغزلین کہا جاتا ہے، اور شاعر فطرت شاعر محبت کے نام سے بھی ان کو جانا جاتا ہے، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے ان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی تھی، ان کے اشعار نمونے کے طور پر حسب ذیل ہیں:
اک لفظ محبت کا ادنی یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
کیا عشق نے سمجھا ہے کیا حسن نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے
ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
جگرؔ مراد آبادی نے اپنی زندگی میں جو آخری غزل کہی تھی، اس کا ایک شعر ہے ، جو ترجمان حقیقت بن گیا :
جان کر منجملہ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
جگرؔ مراد آبادی کے تیں مجموعے شائع ہو کر بہت مقبول ہوچکے ہیں ایک کا نام ہے داغ جگر ، دوسرے کا نام ہے شعلہ طور اور تیسرے کانام ہے آتش گل، ان کا آخری مجموعہ کلام آتش گل ہے، جس کی چھوٹی بحر کی ایک غزل کے چند اشعار یہ ہیں:
پھول کھلے ہیں گلشن گلشن
لیکن اپنا اپنا دامن
عشق ہے پیارے کھیل نہیں ہے
عشق ہے کا ر شیشہ وآہن
خیر مزاج حسن کی یا رب
تیز بہت ہے دل کی دھڑکن
ہستی شاعر اللہ اللہ
خاک نشیں اورعرش نشیمن