امریکہ میں انتخاب کے بعد خوف و دہشت کا ماحول
ڈاکٹرسید احمد قادری
email :
امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس کے ہر عمل و دخل پر پوری دنیا کی نگاہ رہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ 8نومبر16ء کو ہونے والے امریکی صدر کے انتخاب پر بھی دنیا کے تقریباََ ہر ملک کی نہ صرف گہری نظر بلکہ گہری دلچسپی تھی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع کامیابی سے جہاں چند ممالک میں خوشی کی لہر نظر آئی، وہیں بیشتر ممالک کی حکومت اور عوام کے درمیان مایوسی دیکھی گئی۔ خدشات اور مایوسی کی وجہ امریکہ کے صدر کے انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کے وہ متنازعہ بیانات تھے ، جو بلا شبہ ان لوگوں کے لئے خوف زدہ اور سراسیمہ کر دینے والے تھے ، جو ان بیانات سے براہ راست متاثر ہونے والے تھے ۔ اس لئے ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ایسے لوگ فطری طور پر پریشان نظر آئے۔ خاص طور پر امریکہ میں بسنے والے مختلف ممالک سے آئے 33 لاکھ سے زائد مسلمان سخت اضطراب میں مبتلا ہیں ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر کے انتخاب کی مہم کے دوران ٹرمپ اور ہیلری کے درمیان جتنے سیاسی مباحث ہوئے ان تمام مباحث میں ہلری کا پلڑا بہت بھاری تھا نیز ہلری کی سیاسی بصیرت افروز تقاریر کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت میں انتظامی تجربات کا بھی پرتو بہت واضح تھا ۔ جن کے باعث میڈیا اور سیاسی تجزیہ نگار ہلری کی کامیابی کو یقینی مان رہے تھے ۔ لیکن انتخاب کے نتیجہ نے تمام اکزٹ پول اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے دعوے کو غلط ثابت کر دیا ۔
لیکن ایک طرف جہاں پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ اور سیاسی تجزیہ نگار ہلری کا وھائٹ ہاؤس پہنچنا یقینی بتا رہے تھے ، وہیں دوسری جانب میڈیا میں 23 ؍ ستمبر کو شائع ہونے والے ایک شخص کی پیشنگوئی سامنے آئی تھی کہ صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی فتح یقینی ہے ۔ جس وقت یہ پیشن گوئی سامنے آئی تھی اس وقت لوگوں نے اسے کوئی خٰاص اہمیت نہیں دی تھی کہ اس وقت ہر چہار سمت ہلری کی کامیابی کا ڈنکا بج رہا تھا ۔ لیکن لوگ یہ بھول گئے کہ پیشن گوئی کرنے والے اس امریکی تاریخ داں اور سیاسی تجزیہ نگارپروفیسر ایلن لچٹ مین
(Allan Lichtman) نے اپنی کتاب The Keys to the white House میں بہت قبل ہی ٹرمپ کی کامیابی کی پیشن گوئی کر دی تھی۔ اس کتاب میں 1984 سے2016 ء تک کی امریکی وھائٹ ہاؤس کے سلسلے میں پیشن گوئیاں شامل ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اب تک اس کتاب میں شامل پروفیسر ایلن کی، کی گئی کوئی بھی پیشن گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی ہے ۔ ٹرمپ کی کامیابی کی پیشن گوئی کے ساتھ ساتھ پروفیسر ایلن نے یہ بھی پیشن گوئی کی ہے کہ ٹرمپ کو ان کے مزاج اور جارہانہ سلوک کے باعث نہ صرف امریکی عوام بلکہ ری پبلیکن پارٹی کے لوگ بھی زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کریں گے اور جلد ہی ان کے خلاف مواخزے کی تحریک لائی جائے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع فتح کے بعد یوں تو بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں ، لیکن ایک بات جو بہت زیادہ تشویش میں مبتلا کرنے والی ہے ، وہ یہ کہ ہر جانب سے ٹرمپ کی یقینی شکست اورہیلری کی کامیابی کے برعکس جونتیجہ سامنے آیا ہے ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔وہ کون سی طاقت ہے جو گزشتہ کئی ماہ سے ٹرمپ جیسے غیر سیاسی اور عدم تجربہ کار شخص کو سامنے رکھ کر اس کی کامیابی کو یقینی بنانے کی منظم اور منصوبہ بند کوششیں اندر ہی اندر بڑی خاموشی سے جاری رکھی گئیں ۔ اس ضمن میں جس طرح کی باتیں سامنے آ رہی ہیں ، وہ ٹرمپ کی حیرت ناک کامیابی سے بھی زیادہ حیران کن اور تشویشناک ہیں ۔
ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر امریکہ کے اندر بہت سارے شہروں مثلاََ نیو یارک، واشنگٹن، اوکلینڈ، شکاگو، لاس اینجلیس، فلاڈیلفیا،ایکواڈ،سان فراسسکو اور برکلے وغیرہ میں ٹرمپ کے خلاف کئی دنوں تک احتجاج اور مظاہرے ہوتے رہے اور’’ ہم ٹرمپ کو صدر نہیں مانتے‘‘ جیسے نعرے لگتے رہے۔مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس نے آنسو گیس کے ساتھ ساتھ ربڑ کی گولیوں کا بھی استعمال کیا ۔ اس کے باوجود مظاہرین کا احتجاج اور مظاہرہ جاری رہا۔ نیو یارک کے مین ہٹن میں ٹرمپ ٹاور کے باہر بھی کئی دنوں تک ٹرمپ کی مخالفت میں لوگ نعرے بازی کر اپنا احتجاج درج کراتے رہے۔ ان مظاہروں اور بڑھتے احتجاج کے جواب میں نو منتخب صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے انٹرویو میں کہا ہے کہ مظاہرین مجھ سے خوفزدہ نہ ہوں ۔ ٹرمپ نے مذید کہا کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ہراساں کئے جانے کی میں مزمت کرتا ہوں، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات کو پھر دہرایا کہ 30 لاکھ جرائم پیشہ غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ سے باہر نکالنا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ان ہنگاموں کے درمیان امریکہ کے موجودہ صدر براک ابامہ نے ٹرمپ کی کامیابی کے بعد آئے دن احتجاج اور مظاہرے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ایک پریس کانفرنس میں خیال ظاہر کیا ہے کہ پہلے ٹرمپ کو صدر کی ذمہ داری سنبھالنے دیں اور انھیں کام کرنے دیا جائے اور انھیں ان لوگوں تک رسائی حاصل کرنی چاہیے جو ان کی کامیابی سے تشویش میں مبتلا ہیں ۔ اس درمیان میں میڈیا میں یہ بھی خبر آئی ہے کہ 19دسمبر کو الیکٹورل ارکان اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دے کر مہر تصدیق ثبت کرینگے اور ری پبلکن پارٹی کے بھی متعدد ممبران بغاوت کرتے ہوئے ہیلری کو ووٹ دے سکتے ہیں ۔ جس سے ہیلری کی ناکامی کو آئینی طریقہ سے کامیابی میں بدل جانے کی امید لوگ لگائے ہوئے ہیں ۔
امریکہ میں ٹرمپ کی غیر متوقع کامیابی کے بعد بدلتے منظر نامہ میں طرح طرح کے واقعات اور بیانات سامنے آ رہے ہیں ۔ ان میں ایک جانب جہاں نیو یارک اور لاس اینجلیس کے بعد شکاگو کے مئر راھم نے بھی اپنے شہر کو اقلیتوں کی جنت قرار دیا ہے، وہیں دوسری طرف ٹرمپ کے اقلیتی مخالفت بیانات کے خلاف مزاہمت اور احتجاج کے بعد برنی سینڈرز نے بھی امریکہ کے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اپنا مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے ۔ ٹرمپ کے مسلم مخالف بیانات کے بعدامریکہ میں بسنے والے والے مسلمانوں کی بڑھی پریشانی اور تشویش کے درمیان واشنگٹن پوسٹ اور دی ٹینیسین وغیرہ اخبارات کی ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ امریکہ کے مختلف شہروں میں بسنے والے امریکی شہریوں نے اپنے مسلم پڑوسیوں اور دوستوں کی حمایت میں مختلف شہر کی مساجد اور اسلامک سینٹروں کے باہر واک لائن(walk line) پر چاک سے بڑے بڑے حروف میں we see you and we want you here, we love you, we are with you وغیرہ جیسے پیغامات دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ نیشویلے کی ایک خاتون Benson sceaee نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد یہاں مقیم تمام مسلم فرقہ کے لئے تعاون چاہتی ہوں ۔ اس لئے کہ ٹرمپ نے اپنے انتخابی مہم کے دوران مسلم بیانات دیا تھا ۔ ایک دوسری گے خاتون نے ایک ٹی وی چینل پر بتایا کہ ٹرمپ کی کامیابی نے انھیں اپ سیٹ کر دیا ہے اور وہ بہت پریشان ہیں مقامی مسلمانوں کے لئے ۔
یہ خبر بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ ٹرمپ کو ووٹ دینے والوں کی اچھی خاصی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے اور ٹرمپ کے ان مسلم حمایتیوں کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ وہ چونکہ ری پبلکن پارٹی کے حمایتی ہیں ، اس لئے انھوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے ۔ اسی طرح ٹرمپ کو ووٹ دینے والی ایک مسلم خاتون اسأا نعمانی نے کہا ہے کہ وہ امیگرنٹ ہیں ، لیکن ٹرمپ کی حامی ہیں ۔ وال اسٹریٹ جرنل کی سابق رپورٹر اسرا نعمانی نے واشنگٹن پوسٹ شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ میں نے مسلمان ہونے کے باوجود ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امریکہ میں رہنے والے مسلمان اور دیگر اقلیتی فرقہ کے لوگ خوف و دہشت کے درمیان جی رہے ہیں کہ امریکہ میں نئی حکومت اور نئے مزاج کے حکمراں کا رویۂ نہ جانے ان کے ساتھ کیسا رہے گا ، ویسے ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں جس طرح اقلیتی فرقہ کے لوگوں کو زدو کوب کئے جانے پر مزمت کی تھی اور یہ کہا ہے کہ لوگ مجھ سے خوف زدہ نہ ہوں۔ ویسے بھی الیکشن کے درمیان ایسے بہت سارے بیانات اور واقعات سامنے آتے ہیں جو بہرحال ناپسندیدہ ہوتے ہیں ، جن کی بعد میں کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ہے ۔ اس لئے توقع کی جا سکتی ہے کہ ٹرمپ جب اپنے صدر کے عہدہ کو بہت ساری ذمّہ داریوں کے ساتھ قبول کرینگے تو اس وقت ان کے سامنے اپنے ملک کی شان و شوکت کو نہ صرف برقرار رکھنا ہوگا بلکہ اس کی ترقی اور خوشحالی میں مزید اضافہ کرنا ہوگا اور یوں بھی امریکہ میں دنیا کا شائد ہی ایسا کوئی ملک ہوگا ، جہاں کے لوگ یہاں نہ بستے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو’ میلٹنگ پوڈ‘ کا نام دیاگیا ہے ، جس میں ہر ملک کے لوگ یہاں آ کر اس ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کر تے ہیں ۔ موجودہ امریکی صدر براک ابامہ کی یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ٹرمپ کو صدر کی ذمّہ داری پہلے سنبھالنے دیں اور انھیں کام کرنے دیں۔ ساتھ ہی ساتھ ترمپ کو بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ انھیں ان لوگوں تک رسائی حاصل کرنا چاہئے ، جو ان کی کامیابی کے بعد تشویش میں مبتلا ہیں ۔ امریکہ کی یہ یقینی اور بے یقینی کی صورت حال آنے والے دنوں میں کون سا کروٹ لیتی ہے ، اس کا دنیا بھر کے لوگوں کو شدت سے انتظار ہے ۔
***********