اردوزبان کا تحفظ اورہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر و صدرشعبۂ اردو
گورنمنٹ ڈگری اینڈ پی جی کا لج ، سد ی پیٹ – تلنگانہ
انسان جس ما حول اور سماج میں آنکھ کھو لتا ہے، وہا ں کے رسم ورواج ، تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب سے ما نوس ہو تا ہے، اور رفتہ رفتہ غیرمحسوس طر یقہ پر و ہی زبان اور تہذیب و ثقافت اختیار کر نا شر وع کر دیتا ہے۔چنان چہ بچے کو اس کی ما دری زبان سکھا نے کی ضرورت پیش نہیں آتی ، بلکہ وہ فطری اور الہا می طو رپر خا لق کا ئنات کی و دیعت کر دہ صلا حیت کی بنیادپر پید ائش کے دن سے اپنے گر دوپیش کی زبان سیکھنا اور اسے اخذکر نا شر وع کر دیتا ہے، اور تین سال کے اند ر اندر اپنے ما فی الضمیرکو ادا کر نے کے لا ئق ہو جا تا ہے۔
یو رپ میں چند فرانسیسی اور چند جرمن شیر خو ار بچوں پر تحقیق کی گئی اور یہ نتیجہ اخذکیا گیا کہ بچے اپنی ما دری زبان میں روتے ہیں ، کیوں کہ فر انسیسی بچوں کے رونے کی آوازمیں شدّت اور جو ش تھا، جب کہ جر من بچوں کے رونے کے آواز میں نر می اور پستی تھی ، جن پر ان دونوں زبانوں کا اثر تھا، فر انسیسی زبان بو لنے والوں کے لہجہ میں شدّت اور جو ش ہو ا کر تا ہے، جب کہ جر منی زبان بولنے والوں کے لہجہ میں نر می اور دھیماپن ہو تاہے۔
اس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ زبان کا حصول ایک فطری عمل ہے اور زبانوں کا اختلاف بھی فطری طورپر سماجی و جغرافیائی حالات کی بنا پر رونما ہو تا ہے، زبانوں کے اختلاف کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشا نی بتا ئی ہے۔ ( سورۃ الروم : ۲۲ ) تاکہ ہر خطہ و علاقہ کی تہذیبی شناخت اور لسانی خصوصیات با قی ر ہیں، اگر اللہ تعالی چا ہتا تو پر رے خطہ ء ارضی پر بسنے والوں کو ایک ہی زبان عطا کر تا، اس سے عالمی رابطہ میں آسانی بھی پیدا ہو تی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا ، وہ اپنے بند و ں کی فطرت سے بخوبی واقف ہے، اسے معلوم ہے کہ ہر خطہ کے لو گ ایک ہی زبان اور ایک ہی تلفظ کی ادا ئیگی سے قا صر ر ہیں گے۔
جس طر ح طبعی طورپر زمین کے خطے مختلف ہیں ، انسان کے سماجی و جغرافیائی حالات مختلف ہیں ، اور ان میں یکسا نیت پیدا کر نے کے کو شش غیر فطری ہے، اسی طرح ایک ہی زبان کو تمام لو گوں پر مسلط کر نے یا مسلط کر لینے کی کو شش غیر فطر ی عمل ہے، اور فطرت سے انحراف کے جو بھیا نک نتا ئج فر د اور قوم کو بھگتنے پڑتے ہیں ، اس سے زبان بھی مستثنیٰ نہیں ہے، چنان چہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسکول و کالج سے غیر مادری زبان میں پڑ ھ کر نکلنے والی نسل گو نگی اور بہری ہو کر نکل رہی ہے، وہ کسی بھی زبان میں اپنی بات کہنے ، لکھنے اور سمجھنے سے معذورہے۔
یورپ کے لو گو ں کو مادری زبان کی اہمیت کااندازہ بہت پہلے ہو گیاتھا ، انہوں نے اپنی ما دری زبانوں میں تعلیم حا صل کر کے دنیا میں تعلیمی ، صنعتی اور معاشی انقلاب پر پا کیا، چین اور جاپان نے بھی ان کے نقش قدم پر چل کر معا شی بر تری حاصل کر لی، لیکن ہم نے ترقی یا فتہ ممالک کی کا میابی کے راز کو جا ننے کے بجا ئے ان کی زبان کے پچھے دیوانہ وار بھا گنا شروع کر دیا، ہم نے زبان اور علوم کے فر ق کو نہیں سمجھا اور صرف انگلش کو ہی علم سمجھ کر اس کے پیچ و خم میں الجھے رہے، نتیجتہً سا ئنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ہم ترقی یا فتہ قوموں سے بہت پیچھے رہ گئے ۔
برّ صغیر میں ر ہنے والے بیش افر ادکی ما دری زبان اردو رہی ہے، مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد یہ زبان فارسی کی جگہ لے لیتی ہے اور تر قی کر تے ہو ئے انگر یزوں کے عہد ۱۸۳۱ء میں پورے ملک کی سر کا ری زبان قرار پا تی ہے۔
حیرت کی با ت ہے کہ غلام ہند وستان میں جو زبان تر قی کی بلندیوں تک پہونچ جا تی ہے، اور جنگ آزادی کے دوران سو سال سے زائد عر صہ مین صحا فت وادب کی شا ند ار خدمت کے ذریعہ پورے ملک میں مقبول ہو جا تی ہے،آزاد ہندوستان میں وہی زبان رفتہ رفتہ زوال پذیر ہو تی جا ر ہی ہے، اس کی بنیادی و جہ کیا ہے ؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ غلام ہند وستا ن میں ہم ذہنی طورپر آزاد تھے، ہم اپنی زبان اور تہذیب کے بارے میں حساس اور سنجیدہ تھے، جب کہ آزاد ہند وستان میں ہم ذہنی غلام بنے ہو ئے ہیں ، ہم اپنی زبان ، تہذیب ، ثقافت اور تاریخ کے بارے میں مر عویبت کے شکار ہو گئے ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی سے پہلے جو زبانیں پس ما ندہ تھیں، آزادی کے بعد وہ تر قی یا فتہ ہو گئیں ، جیسے ، تمل، تیلگو ، مر اٹھی ، گجراتی اور بنگالی و غیرہ ، جب کہ اردو رفتہ رفتہ انحطاط پذیر ہو تی گئی، گو یا آز ادی کے بعد علاقائی زبانیں تر قی پا تی ر ہی ہیں ، اور صرف ملک میں اردو ہی واحدزبان ہے، جو ترقی سے تنزل کی طرف گا مزن ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اردو نہیں پڑھ رہی ہے، ہمارے بچے اردو نہیں پڑھ رہے ہیں ، نہ اسکول میں ، نہ مکتب میں ، نہ گھر میں ، ہم اپنے بچوں کو ایسے انگر یزی اسکولوں میں داخلہ دلارہے ہیں جہاں اردو زبان اوّل کے طورپر نہیں پڑھائی جا تی ہے، جب کہ غیر مسلموں کے بچے بھی انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں ، لیکن وہ زبان اول کے طورپر ما دری زبان :تیلگو ، تمل، مر اٹھی، کنڑ، گجراتی، بنگالی اور ہندی وغیرہ پڑھتے ہیں، ہم اپنے گھروں میں زیادہ سے زیادہ مو لوی صاحب سے اپنے بچوں کو قرآن شر یف پڑھا دینے پر اکتفا کر تے ہیں ، اور مساجد میں بھی صباحی یا مسا ئی مکا تب میں عربی اور دینیات پر اکتفا کیا جا تا ہے۔ اکبر الہ آبادی نے ہماری حالت کا تجزیہ بہت پہلے کر لیا تھا، اور اس پر اچھا طنز کیا تھا:
چھوڑلٹر یچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق تر ک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے، کو فت سے کیا فائدہ
کھاڈبل روٹی ، کلر کی کر، خو شی سے پھول جا
ہمارے کچھ لوگ اردو اخبارات ورسائل خرید نا اپنی تو ہین سمجھتے ہیں، حالاں کہ زبان سیکھنے میں اخبارات ورسائل بہت معاون ثابت ہو تے ہیں ، مجھ سے کئی اصحاب نے بتا یا کہ انہوں صرف اخبار کی مدد سے اردو زبان سیکھی ہے۔
اردو زبان کا تحفظ نہ صر ف اپنی زبان کا تحفظ ہے، بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت، مذہب، شا ندار علمی و ادبی وراثت ، قا بل رشک تاریخ، اسلاف کے روشن کا رنامے اور اعلی اقدار کا تحفظ ہے، یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ ایک اردو زبان کو نظر انداز کر کے ہم کتنے بڑے نقصان کا سو دا کر ر ہے ہیں، اردو زبان کا تحفظ ہمارا اخلاقی ، ملی ،شر عی اور اجتماعی فر یضہ ہے، جسے نظر انداز کر نا ہما رے لئے کسی طور مناسب نہیں ہے۔
مادری اور قومی زبان کے تحفظ کے سلسلہ میں ہمیں اسرائیل سے سبق حا صل کر نا چا ہئے ، اسر ائیلیوں نے اپنے نا جا ئز ملک اسر ائیل میں عبرانی جیسی مر دہ زبان کا احیاء کیا ، اور قومی و مذہبی جذبہ اور جدو جہد کے ذریعہ اسے سر کا ری ، ادبی اور صحا فتی زبان کی صف میں لا کھڑ ا کیا ۔
اردو زبان کے تحفظ کی خا طر ہم پر مند رجہ ذیل ذمہ دار یاں عا ئد ہو تی ہیں:
(۱) ہم اپنے اپنے علاقوں میں معیا ری طر ز پر اردو میڈیم اسکول قا ئم کر نے کی عملی کو شش کر یں ۔
(۲) اپنی اولاد کو اردو میڈیم اسکول میں شر یک کر ائیں ، جہاں زبان اوّل یا ایک زبان کے طو رپر اردو پڑھا ئی جا تی ہو۔
(۳) کیثر مسلم آبادی والے علاقوں میں قائم انگلش میڈیم اسکولوں میں اردو زبان اول کے طورپر ر کھی جا نے کی تحریک چلا ئیں ۔
ّ(۴) ہم اپنے گھر وں میں بچوں کو قر آن مجید اور دینیات کی تعلیم کے ساتھ اردو زبان کی تعلیم کا بھی اہتمام کر یں۔
(۵) مساجد کے ذمہ داروں کو اردو زبان کی اہمیت کا احساس د لا ئیں اور مکا تب میں مفت اردو تعلیم کا نظم کر ائیں ۔
(۶)مساجد یا دیگر مقامات پر تعلیم با لغان میں اردو کو بھی ضر ورشامل کر ائیں ۔
(۷) ہم اپنے گھر وں میں کم سے کم ایک اردو اخبار اور بچوں کا ایک اردو رسالہ ضر ور خرید یں۔
(۸) اسکولوں میں اردو اخبارات ، بچوں کے ر سائل اور بچوں کی کہا نیوں، نا ولوں ، ڈراموں اور شاعری پر مشتمل کتا بیں خرید نے کی کو شش کر یں۔
(۹) ہر محلہ کی مسجد یا کمیونیٹی ہال میں کتب خا نہ اور دار المطالعہ قا ئم کر نے کی کو شش کر یں۔
(۱۰) ہم اپنے گھر اور دکانوں پر اردو میں تختی اور بورڈ تحریر کر یں۔ اردو زبان کے تحفظ کے سلسلہ میں ہمیں بنیا د کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے، ہمیں بڑوں سے زیادہ بچوں پر تو جہ دینی چا ہئے، اپنے بچوں کو ہم اردو سکھا کر اور اردو سے شوق دلاکر زبانِ اردو کا تحفظ اور اس کی بنیاد کو مستحکم کر سکتے ہیں، اور اس سلسلہ میں اپنی ذمہ دار یوں سے کسی حد تک سبک دوش ہو سکتے ہیں، عصر جد ید کے مشہو ر ومقبول شاعر احمد فر ازؔ کا ایک شعر نقل کر کے اپنی بات ختم کر تا ہو ں:
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصہ کی کو ئی شمع جلا تے جا تے
——–
Dr. SYED ASRARUL HAQUE
Asst. Professor
Dept of Urdu
Govt. Degree College
Siddipet – 502 103 (T.S)
09346651710