تصوف اورتصورِعشق : صوفیانہ شاعری کے حوالہ سے – – – – ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

Share

habibi عشق
تصوف اور تصورِعشق : صوفیانہ شاعری کے حوالہ سے

ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985

محبت کے انتہائی درجہ کا نام ’’عشق‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ ایک مقام بلند ہے، جسے مل گیا سو مل گیا، پھر مل گیا تو بامراد ہوگیا۔ ’’عشق‘‘ ایک شدتِ رغبت، کشش، لگاؤ اور لگاوٹ ہی کا نام نہیں، بلکہ اپنی رضا معشوق کی رضا کے مطابق ، اپنی آرزو حبیب کی آرزو پر نثار، اپنی تمنا یار کی تمنا پر نثار اور خود کو ’’یار‘‘ کے لیے خودرفتہ کرلینے اور یار پر فریفتہ فدا ہوجانے کا نام ہے۔ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب جانے کا نام ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے ؂

عاشقی چیست بگو بندۂ جاناں بودن
دل بدست دگر دے دادن و حیراں بودن
عشق انسان ہی کے لیے خاص ہے، وہ بھی انسان کامل کے لیے ۔ یہ عشق ’’بندہ‘‘ اور ’’رب‘‘ کے درمیان کا عشق ہے، جو معرفت کا طلب گار ہے، جو قربِ الٰہی کا آرزومند ہے، جمالِ یار کا مشتاق ہے۔ یہ دیدۂ دیدار طلب، یہ تمنائے قرب یار، یہ اضطراب، یہ تب و تاب، فرشتوں کو بھی نصیب نہیں ہے ؂
قدسیاں را عشق ست و درد نیست
درد را جز آدرمی در خورد نیست
یہ اضطراب، یہ سوز و سازِ نہانی، یہ دولتِ درد صرف انسان ہی کا حصہ ہے، اس لیے عشق کی مدح سرائی یوں کی گئی ہے ؂
مرحبا اے عشق سودائے ما
اے طبیب جملہ علت ہائے ما
عشق کی صوفیانہ تعریف ہی کی معنویت نے ہر سالک یا عارف کو ’’عاشق‘‘ بنا دیا، کیوں کہ وجودِ حقیقی ایک ہے اور کائنات میں سب کچھ اسی کی صفت کا کسی نہ کسی صورت میں ’’پرتو‘‘ ہے ؂
حسن خویش از روئے خوباں آشکارا کردہ
پس بہ چشم عاشقاں خود را تماشہ کردہ
گویا معلوم ہوگیا کہ شاہد اور مشہود اور طالب و مطلوب کی اصل ایک ہی ہے تو صوفیانہ نقطۂ نظر سے ’’عشق حقیقی، اپنے کمال کی جانب میلان و رجحان رکھے گا ؂
عشق صورت نیست عشق معرفت
صوفیانہ مقامات میں ’’عشق، عشق ’’ذات‘‘ میں ذات سے سروکار رکھتا ہے۔ تمکین و استقلال اور قرار و ثبات میں عاشق متمکن ہوتا ہے۔ جلال و جمال ’’عاشق‘‘ ہر حال میں لطف اندوز ہوتا ہے اور ’’تموجِ عشق‘‘ کے سکون سے آشنا ہوتا ہے اور تلاطمِ بلاخیز بھی ہو تو صدمے سہتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ قیامت کب ہوگی؟ آپ نے فرمایا تو نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے کہا تیاری تو کچھ نہیں، صرف اتنی بات ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت (عشق) رکھتا ہوں۔ ارشادِ عالی ہوا قیامت میں ہر شخص اسی کے ساتھ ہوگا جس سے کہ اس کو محبت ہے۔ (بخاری و مسلم) دوسری حدیث جو احمد اور ابوداؤد میں آتی ہے اس کے مطابق تمام اعمال میں افضل عمل اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لیے بغض رکھنا ہے۔ پھر اس آیت کریمہ ’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ‘‘ (آل عمران) (اے محمد! کہہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔) راہِ عشق کی منزلوں کا پتہ دیتی ہے اور مذکورہ بالا قرآن اور حدیث کے حوالے ’’مسلکِ عشق‘‘ کی معرفت کے چراغ ہیں۔ حضرت مخدوم شرف الدین بہاریؒ نے اپنے ایک مکتوب میں عشق کے نظریہ پر بڑے عالمانہ انداز سے تفکر کیا ہے۔ کہتے ہیں:
’’آب و گل کا اقبال کچھ کم نہیں اور آدم و آدمیوں کا مرتبہ کچھ معمولی نہیں۔ عرش و کرسی ، لوح و قلم، آسمان و زمیں ، انسان کے طفیل میں ہیں۔ استاد بو علی دقانؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا خلیفہ کہا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ کہا،حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا ہم نے تم کو منتخب کیا، لیکن مؤمنین کے متعلق ارشاد ہوا کہ یُحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ لوگوں نے کہا کہ اس حدیثِ محبت والوں کو اگر دلوں سے مناسبت نہ ہوتی تو دل ، دل کہلانے کے مستحق نہ ہوتا اور اگر آفتاب محبت آدم اور اولادِ آدم کی جان و دل پر خالق ضیاپاشی نہ کرتا تو آدم کا معاملہ بھی دوسری موجودات ہی کا طرح ہوتا، کیوں کہ اس خاکی ہیولیٰ کے اندر ایک پاک جوہر محبت آگ کی صورت میں بھڑکا دیا گیا ہے اور وہی عشق ہے ؂
آتش محبت در دل ہائے ایشا زدہ است
جس کا منظر خواجہ حبیب نے بڑی خوبی سے کھینچا ہے
عشق آں شعلہ است کہ چوں برفروخت
ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
(حبیب)
صوفیائے کرام کے افکار کا مطالعہ کرنے پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک گروہ ’’خوفِ الٰہی‘‘ سے تقویٰ قائم کرنے کا قائل ہے تو دوسرا محبت کے نغمے گاتا ہے اور الوہی نغمات کے وسیلہ سے انس حاصل کرتا ہے، کرم و فضل کا تمنائی ہے، ظاہر ہے خوفِ الٰہی کا گروہ جلال و جبروت و کبریائی کے آگے لرزہ براندام ہے اور سرمو غفلت نہیں برتنا نہیں چاہتا، جب کہ محبت و عشق و فریفتگی کا گروہ اپنی بے سروسامانی اور آشفتہ سری کے ساتھ جمالِ الٰہی سے اقتباسِ نور کرتا ہے، منور ہوتا ہے ،روشنی بھی بانٹتا ہے، سرمست و بے خود ہوجاتا ہے۔ صوفیانہ شاعری میں یہ تخویف، یہ حزن و ملال اور یہ سرمستی ، سرشاری اور یہ ہجر و وصال کے نغمے برابر گونجتے ہیں۔
حضرت رابعہ بصری کی یہ مناجات تو زبان زد خاص و عام ہے ؂
’’اے میرے معبود و مسجود! اگر میں تری عبادت جہنم کے خوف سے کرتی ہوں تو مجھے نارِ جہنم کا لقمہ بنادے ۔ اگر میں تری عبادت جنت کی لالچ سے کرتی ہوں تو مجھے ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کردے۔‘‘
اگر میں صرف تجھ سے تری ذات سے ترے لیے محبت کرتی ہوں تو اے میرے مولیٰ مجھے اپنے ’’جمالِ ازلی‘‘ سے محروم نہ کیجیو!
گویا رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا نے صوفیوں کو عشق حقیقی کا درس دیا۔ جب ہی تو ہم دیکھتے ہیں عشق کی یہی روح متاخرین صوفیائے کرام میں سرایت کرگئی ، چاہے وہ صوفی باصفا ہوں یا صوفی شعراء ہوں، سبھوں نے اسی مسلکِ عشق کی شدت کے ساتھ اتباع کی۔
ان عاشقانِ راہِ طریقت کی فہرست بڑی طویل ہے۔ موضوع کی مناسبت سے چند کا انتخاب کیا گیا ہے اور تقدیم و تاخیر کا بھی حتی المقدور خیال رکھا گیا ہے، پھر بھی روانی میں کچھ نفس مضمون زیر و زبر ہوسکتا ہے۔ پانچویں صدی ہجری کے بڑے صوفی شعراء میں شیخ ابوسعید الوالخیر قدس سرہ اپنی رباعیات کے حوالہ سے خاص مقام رکھتے ہیں۔ حکیم سنائی ’’حدیقہ اور سیر العبا سے پہچانے جاتے ہیں۔ نظامی خمسہ نظامی کے ذریعہ اور فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ ’’منطق الطیر‘‘ کی وساطت سے صوفیانہ شاعری میں بلند مقامات پر فائز نظر آتے ہیں۔ مثنوی مولانا روم کا تو کیا کہنا وہ تو ’’ہست قرآن در زباں پہلوی‘‘ والی بات ہے۔ رنگ و تغزل میں یہ وہ صوفی شعراء ہیں جو ’’وصول الی اللہ‘‘ کی منزلوں سے باریاب ہوئے تھے۔ یہ صرف ’’مستِ قال‘‘ نظر نہیں آتے، بلکہ ’’صاحبانِ دل اور اربابِ حال‘‘ اور علم تصوف کے اولو الالباب تھے۔
یہ ’’روح بیدار‘‘ دلِ زندہ کی صفت کے حامل تھے، جو ’’ہوش یاری بیچ کر عشق کی حیرانی اور مستی خرید لیتے تھے۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا حال یہ تھا کہ آتش محبت میں غرق رہتے، ان کا سارا سراپا مجاہدۂ نفس کی آگ میں جھلسا رہتا اور دل دمشاہدات میں جما رہتا۔ اس مجاہدانہ ماحول میں مناجات سے جو روشنی چھن چھن کر پردہ کے باہر نکلتی ، وہ عشق کی جلوہ سامانیوں کی یہ سوغات لے آتی۔ سننے والا، سنانے والا سب ہی مدہوش ہوتے بے ہوش جاتے ، بلکہ درجۂ فنا تک پہنچ جاتے اور حق کے ساتھ باقی رہ جاتے۔ سنئے شب کی تنہائی میں سجدہ ریز ہوکر بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کیا مانگ رہے ہیں:
اے میرے مولیٰ اے میرے مالک! اے میرے رب! یہ ’’من وتو‘‘ یہ ’’میں اورتو‘‘ کب تک؟ یہ ’’من و تو‘‘ درمیان سے ہٹا دے۔ اب ہٹا ہی دے کہ میرا ’’من‘‘ تجھ سے جڑ جائے اور ’’میں میں نہ رہوں۔ پروردگار ! میں سب سے زیادہ اور طاقت ور ہوں جب تک تو میرے ساتھ ہے اور جب اپنے ساتھ ہوں کمزور ہوں، ضعیف ہوں۔ الٰہی یہ زاہدی مجھے درکار نہیں، یہ عالمی کی حاجت نہیں!
ہاں اگر تو چاہے کہ میں بھی ترے اہلِ خیر میں شامل ہوجاؤں جنہیں تو پہلے سے پہنچا رکھا ہے تو پھر مجھے ان دوستوں تک پہنچا دے کہ میں ہی تجھ پر نازاں رہوں۔
مرے مولیٰ ! فطرتِ دل پر ترے یہ الہام کتنے بھلے لگتے ہیں۔‘‘
(بحوالۂ کائنات تصوف)
حضرت بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ مناجات ، عشق کی مناجات ہے، دل کی پکار ہے ، عشق و سرور میں ڈوبے ہوئے اور کشف و وجدان میں ڈوبے ہوئے الفاظ ہیں، جو الہامی تاثیر و تاثر کے ساتھ ادا ہوئے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے راز و نیازِ عشق دیکھئے ؂
و لا تنظر العین الا إلیہ
و لا یقع الحکم الا علیہ
نحن لہ و بہ فی یدیہ
و فی کل حال فانا لدیہ
(آنکھ دیکھتی ہے تو بس اسی کو دیکھتی ہے، حکم لگتا ہے تو اسی پر لگتا ہے، ہم اسی کے لیے ہیں، اور ہماری پہچان اسی سے ہے، ہم اسی سے ہیں، اسی کے دستِ قدرت میں اور ہر حال میں اس کے پاس ہیں۔)
کیا قرب ہے، کیا ناز ہے، کیسی سپردگی ، کیا شیفتگی اور فریفتگی کا عالم ہے، بندہ نیاز مند ہے اور ’’بے نیاز‘‘ کو منا رہا ہے، اپنا تعلق جتا رہا ہے، قدیم رشتہ کی بات کررہا ہے کہ ’’ہم تم تو ایک ہی تھے‘‘ تم کو پہچان کی تڑپ ہوئی تو ہماری تخلیق ہوئی ، پھر ہم ہی پر عاشق ہوئے۔ کون عاشق ہے، کون معشوق ہے، کون ساجد ہے، کون مسجود ہے، کس نے عالمِ ارواح میں ’’الست بربکم‘‘ کہہ کر پکارا تھا اور کس نے ’’قالو بلی‘‘ کا پرشگاف نعرہ کہلوایا تھا ، کس نے ملائک سے سجدہ کروایا تھا ؂
ملائک بھی ہمیشہ چومتے تھے پائے اقدس کو
نہیں معلوم کیا رکھا تھا حق نے ذاتِ انساں میں
(حبیب)
حکیم سنائی جب عشق کی بارگاہ میں آئے تو رفتار ہی بدل گئی :
طلب اے عاشقاں خوش رفتار
طرب اے نیکواں شیریں کار
کہ ایک عاشقانِ خوش گفتار و رفتار اپنے کشکول تمنا لیے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلائے اور خوش کاری کے عمل کو خوش انجامی تک پہنچائے یہ ایک طرب انگیز و مسرت بخش کام ہے کہ تو مانگتا جا اور داتا دیتے جائیں‘‘
فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے ’’منطق الطیر‘‘ کیا لکھ دی ، گویا پرندوں کی زبانی ’’اسرارِ عشق‘‘ کھول کر رکھ دیئے، کبھی وادئ حیرت کی سیر کرادی، کبھی وادئ محبت میں آگ لگادی ، وادئ قرب میں بھٹکا دیا ۔ مولانا روم جیسا عارف العارفین عطار کے مشام جاں سے معطر ہوکر کہہ اٹھتا ہے ؂
ہفت شہر عشق را عطار گشت
ما ہما اندر خم ایک کوچہ ایم
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا تو کہنا ہی کیا پوری مثنوی ’’وحدت الوجود‘‘ کی بنیادوں پر کھڑی ہے اور زبانِ حال سے کہہ رہی ہے: ’’میں کہاں تو ہی تو ، ہمہ اوست ہمہ اوست ‘‘
’’خونِ شہیداں راز آب اولیٰ تراست
ایں گناہ از صد ثواب اولی تراست
ملت عشق از ہمہ ملت جدا ست
عاشق را ملت و مذہب خدا است
سعدی علیہ الرحمہ کے عاشقانہ ارتسامات اور ’’حقیقتِ محمدی‘‘ جو ’’معرفتِ الٰہیہ‘‘ کے لیے لازمی ہے ، اس کے اظہار کے لیے یہ دو بیت ہی ہم تمام کے لیے ایک عظیم نعتیہ سوغات ہے ؂
بلغ العلیٰ بکمالہ
کشف الدّجی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلّوا علیہ و آلہ
حضرت سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر جو ’’محبتِ الٰہی‘‘ کا آئینہ دار ہے ، زبان زد خاص و عام ہے، بلکہ حیدرآباد کی قدیم روایات کے مطابق اس کے طغرے گھروں میں آویزاں رہتے تھے:
برگ درختاں سبز در نظر ہوشیار
ہر ورقے دفتریست معرفتِ کردار
(سعدی)
شیخنا شمس تبریز نے والہانہ انداز میں فرمایا :
آرزو دارم کہ مہمانت کنم
جان و دل اے دوست قربانت کنم
گہ یقیں دانم کہ برمن عاشقی
بر جمال خویش حیرانت کنم
اس بزمِ عشق میں حضرت اوحدی کی بھی آواز گونجتی ہے ؂
جز نیستی تو نیست ہستی بہ خدا
اے ہوشیارانِ خوش مست مستی بہ خدا
(اوحدی)
خاقانیؔ کی آب و تاب بھی دیکھئے ؂
عشق بیش فرد پا ، بر نمط کبریا
برو بہ دست نحست ہستئ مارازما
ما و شمارا بہ نقد بے خودی خوارست
زآنکہ نہ گنجد ما و شما
(خاقانی)
ان ہی بادہ کشوں میں ایک اور ’’مست مئے‘‘ اور ’’مخمور میکدہ‘‘ حبِ الٰہی سیف الدین باخزری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بابرکات بھی ہے، جو پیر شیخ نجم الدین کبری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہیں، کہتے ہیں:
منم عاشق مرا غم ساز وا راست
تو معشوقی ترا باغم چہ کارست
حضرت عثمان مروندیؒ کے اس معروفِ زمانہ صوفیانہ اور عاشقانہ تغزل کی کس طرح داد دی جائے ، کیفیت و کمیت ، نقد و نظر ، قال و حال، خیال آرائی و مضمون آفرینی، شوکتِ اسلوب، لطفِ بیان اور عشق کے راز و نیاز کے اظہار کا انداز ہی منفرد و ممتاز ہے، بلکہ عہد آفریں ہے۔ کہتے ہیں:
نمی دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیش یارمی رقصم
بیا جاناں تماشہ کن کہ در انبوہ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
اس والہانہ انداز سے متاثر ہوکر کسی نے خوب کہا ہے:
خلق ہے عاشق تری عالم ہے دیوانہ ترا
رنگ لایا ہے یہ رہنا بے حجابانہ ترا
واہ کیا انداز ہے اے حسن جانانہ ترا
پیچھے پیچھے خلق ہے، آگے ہے دیوانہ ترا
امیر خسرو ، طوطئ ہند کے لیے کس طوطئ گفتار کو لایا جائے کہ ان کے تفکر و تدبر کے مقامات کو متعین کرکے ان کی وجدانی اور الہامی کیفیات کی ترجمانی اور ان کی ماورائی خودرفتگی کو ہمارے اسالیب بیان احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ بس حظ اٹھائیں:
گفتم طریق عاشقاں ، گفتا وفاداری بود
گفتم مکن جور و جفا ، گفتا کہ ایں کارِ منست
گفتم کہ مرگ ناگہاں، گفتا کہ دردِ ہجرِ من
گفتم علاجِ زندگی، گفتا کہ دیدارِ منست
(خسرو)
’’خم خانۂ تصوف‘‘ میں مست و بے خود کردینے والا صوفی شاعر حافظ نہ ہوتا تو شاید نہ کوئی سرشار ہوتا نہ کوئی مخمور، میکدے بند رہتے، میکدہ سازی نہ ہوتی اور نہ میکدہ بردوشی ہوتی۔ پیرمغاں اپنی پہچان کھودیتا ، رندِ خدا مست نظر نہ آتے، ’’خمریات‘‘ میں صوفی مصطلحات کو سمونے والا یہ عظیم شاعر عجیب و غریب نکتہ آفرینی کرتا ہے ۔ رموز و اسرار کی ایسی باریکیاں پیش کرتا ہے کہ جان پر بن آتی ہے اور بعض نادانوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ :
ہوشیار از حافظؔ بادہ گُسار
دیکھئے! ’’جذبۂ عشق‘‘ اور اس کا فطری اسلوبِ اظہار اپنی معراج پر نظر آتا ہے:
اے نسیم سحر آرام گہ یار کجا است
منزل آں مہ عاشق کش عیار است
عاشق سوختہ دل درِ غم عشق توبہ سوخت
خود نہ پرسی تو کہ آں عاشقی غم خوار است
(حافظ)
دوسری طرف زاہد خشک کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ؂
زاہد تو دان و خلوت تنہائی و نیاز
عشاق را حوالہ بہ عیش مدام رفت
(حافظ)
ایک مقام پر تو بڑی خوشی سے فرمایا کہ آرزوئے وصال تو ہے اور بے نیازی بھی ہے، گویا ایسا ہی ہے جیسے طوافِ کعبہ تو ہو مگر ’’بے وضو‘‘ ؂
حافظ ہر آں عشق نو رزید وصل خواست
احرامِ طوافِ کعبۂ دل بے وضو بہ بست
(حافظ)
مولانا جامی تو ان مشاہیر صوفی شعراء میں ایک مقام بلند رکھتے ہیں جن کو عربی و فارسی دونوں زبانوں پر کامل دسترس تھی۔ آپ کا عاشقانہ کیف و سرور تو بس محسوس ہی کیا جاسکتا ہے ؂
آمد سحراں دلبر خونیں جگراں
گفت اے ز تو بر خاطر من بار گراں
شرمت بادہ کی من سویت نگراں
ماشم، تو کنی، چشم سوئے دگراں
(جامی)
یہی جذبات عشق جب فارسی سے زبان اردو میں آئے تو سراج اورنگ آبادی نے کہا:
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو ، رہا ، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
وہ عجب گھڑی تھی ، میں جس گھڑی لیا درسِ عشق
کہ کتاب عقل کی طاق میں جوں دھری تھی سو دھری رہی
(سراج)
درد کا تو صوفی شعرائے اردو میں ا یک خاص مقام ہے۔ بھلا وہ اس عشق کی آگ میں کب نہ جلتے؟
برنگِ شعلہ، غمِ عشق ہم سے روشن ہے

کہ بے قراری کو ہم برقرار رکھتے ہیں
ہے عشق سے میرے ، یہ ترے حسن کا شہرہ

میں کچھ نہیں، پر، گرمئ بازار ہوں ترا
(درد)
غالب، گلشن نا آفریدہ کا عندلیب جو ٹھہرا ، بھلا وہ عشق کی جناب میں نغمہ خواں کیوں نہ ہوتا۔ اُس نے پردے اٹھائے بھی ہیں اور پردوں کو چاک بھی کیا ہے۔ تعینات کو تک متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ پتہ نہیں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ فنا ملی ، بقا ملی، یہ صرف فنا ہوکر رہ گئے؟ وہ بھی منصور کی طرح ’’انا الحق‘‘ کے طرفدار ہیں، لیکن اس عاشق کا انداز جداگانہ ہے:
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلیدِ تنک ظرفی منصور نہیں
پھر یہ شعر دیکھئے کس طرح کس طرح کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق (میں ایک مخفی خزانہ تھا، مجھے اس بات سے محبت ہوئی کہ میں پہچانا جاؤں، لہٰذا میں نے مخلوق پیدا کی)
حدیثِ نبویؐ کی ترجمانی کردی :
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبیں
پھر دوسری جگہ ’’الوہی عشق‘‘ کا اظہار جس تعلقِ خاطر سے کیا ہے یہ غالب ہی کا اوجِ سخن ہے جس پر وہ اکیلے ہی فائز نظر آتے ہیں:
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا
غالب کے بعد ہم صرف ان کے قریبی دور کے شاعر خواجہ حبیب علی شاہ حبیب (۱۲۳۶ھ ؁ تا ۱۳۲۳ھ ؁ کے کلام معرفت نظام سے چند اشعار پیش کریں گے، ورنہ بیسویں صدی کے کئی اہم شعراء جیسے اقبال، سیماب، فانی ، جگر، اصغر، حسرت ، ریاض، خیرآبادی، امجد حیدرآبادی اور کامل شطاری ایسے بہت سے نام ہیں جو اس مضمون میں عدم گنجائش کے باعث جگہ نہ پاسکیں گے، جس کے لیے ایک علیحدہ مقالے کی ضرورت ہے، جو انشاء اللہ مستقبل قریب میں پیش کیا جائے گا، ویسے حبیب الارشاد میں خواجہ حبیب ارشاد فرماتیہیں: ’’طالب صادق را دو چیزے کار است یکے عشق و دیگر ادب‘‘ یعنی طالبِ راہِ طریقت کو دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک عشق دوسرے ادب یا حسن خلق ۔ جب سالک عشق سے دوچار ہوتا ہے تو پا برہنہ ، چاک گریباں، چہرۂ خاک آلود، بادل سوختہ ، چشم گریاں، آہ سوزاں اور نالہ و فریاد کرتا ہوا وا شوقا وا حسرتا کا نعرہ مارتا ہوتا کہتا ہے:
من در فراقت چوں شدم دیوانہ و مجنوں شدم
صد پارہ دارم پیرہن در عشق تو دیوانہ ام
(حبیب)
ایک اور مقام پر کہا ہے ؂
عشقت از ماہ و سال می دارم
آرزوئے وصال می دارم
(حبیب)
راہِ عشق میں داغ ہائے سینہ و سوزِ جگر کی بھی پرواہ نہ کی اور اپنی دیوانگی اور وارفتگی کو ظاہر کیا ؂
منم آں عاشقِ دیوانہ ہستم
بہ شمع روئے خود پروانہ ہستم
(حبیب)
’’عشق‘‘ ایک کائناتی حقیقت ہے ، جو ماورائی قدروں سے متعلق ہوتی ہے، جہاں بعض قدریں بھی اپنی وسعت کے ساتھ نظر آتی ہیں ؂
حبیب از اوّلیں پابند عشقم
مسلماں نیستم نے بت پرستم
’’جذبۂ عشق‘‘ حبیب کی نس نس میں ایسا سمایا ہوا تھا کہ ایک پوری غزل ’’در عشق تو دیوانہ ام‘‘ کی ردیف میں ملتی ہے، جس کے چند اشعار ہیں ؂
اے جانِ من جانانِ من در دل بیا سلطانِ من
خالیست بے تو انجمن در عشق تو دیوانہ ام
رؤیت چو گل اندر چمن و آں قامتست سروِ رواں
مانندِ بلبل نالہ زن در عشق تو دیوانہ ام
’’عاشق ، عشق، معشوق، محب، حب اور ’’حبیب‘‘ عشق اور محبت سے متعلق جو بھی اسمیہ و فعلیہ امکانات ہوسکتے تھے وہ مندرجہ ذیل شعریں اس طرح پیش کیا ہے کہ گویا ’’دبستان‘‘ کو ’’فسانہ‘‘ میں بند کردیا ہے ؂
عشق و عاشق ، محب و حب و حبیب
در سوال و جواب می بینم
حبیب کا دستورِ عشق ہے کہ عاشق کا جلوۂ بے حساب‘‘ اور ’’بے حجاب‘‘ دیکھا جائے ؂
ہست چوں یار ما ست ہر جائے
عاشقاں بے حساب می بینم
آفتابِ حقیقت احدی
ہمہ جہ بے حجاب می بینم
آپ کے مرشد و ہادی حضرت حافظ سید محمد علی شاہ خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے تین خلفائے مجاز تھے: (۱) خواجہ حبیب علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ (۲) حضرت سردار بیگ صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ (۳) مولانا احسن الزماں صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ تینوں ہم عصر تھے اور اپنے مرشد سے ایک ایک نعمت پائے تھے۔ حبیب علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ وسلم کو ’’عشق‘‘ کی نعمت ملی ، سردار بیگ صاحب رحمۃ اللہ علیہ وسلم کو ’’جامِ توحید‘‘ اور مولانا احسن الزماں صاحب رحمۃ اللہ علیہ وسلم کو ’’علومِ شریعت‘‘ ۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ حبیب جلوت و خلوت میں قال و حال میں ، بہرحال ہر کیفیت میں ’’عشق‘‘ کے مغلوب نظر آتے ہیں۔ ’’عشق‘‘ ہی ان کا رہنما ، رہبر اور ’’پیر مغاں‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس ارادت مند کا مرشد عشق ہو اس کو جمالِ یار ہی نہیں ’’وصالِ یار‘‘ کا مقام بھی مل جاتا ہے۔ خود کہتے ہیں ؂
عشق تو رہنمائے حریم جمال تست
دردِ یکہ داد دولت دایم بدست مفت
یہی سبب ہے کہ ان کی صوفیانہ شاعری میں حقیقی جذبۂ عشق کا عنصر غالب ہے، جو سارے دیوان کے رنگِ تغزل کو اور چوکھا کردیتا ہے۔ ان کے ہاں قوتِ اظہار کی تابش اور اسالیب کے لطفِ بیاں کی کیفیت کچھ اور ہی ستم ڈھاتی ہے اور خود قاری کو مضطرب و بے چین کردیتی ہے ؂
عشق بازی ، جان بازی ہے حبیب
پاتے ہیں کیا کیا دلِ بسمل میں ہم

Share
Share
Share