شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 19
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
فانیؔ بدایونی – اصغرؔ گونڈوی
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 18 ۔ کے لیے کلک کریں
فانیؔ بدایونی (۱۸۷۹۔ ۱۹۴۱ء)
فانیؔ بدایونی ان شعراء میں ہیں جن کے یہاں غم کی زیریں لہر بہت تیز ہے، محرومی اور ناکامی کا احساس بہت گہرا ہے وہ اپنے آپ کو دنیا کے بلا کشان مصیبت میں سے ایک سمجھتے ہیں ، ان کی اپنی زندگی گھٹن میں گذری ، انھوں نے جبر واختیار مسرت والم اور ہستی اور نیستی کے تصورات کو اپنے اشعار میں سمو دیا ہے۔
فانیؔ کا پورا نام محمد شوکت علی خاں تھا، فانی کے اجداد کابل سے ہجرت کرکے ہندوستان آکر مغربی اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں سکونت پذیر ہوئے، عربی فارسی کے علاوہ انھوں نے علی گڑھ سے بھی تعلیم کی اور ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا، وکالت کا پیشہ اختیار کیا، لیکن ان کی ساری توجہ شعر وادب کی طرف تھی ، ۱۹۲۷ میں وہ حیدرآباد آئے، مہاراجہ کشن پرساد سے ان کے اچھے مراسم ہوگئے، ایک مدرسہ کے صدر مدرس ہوگئے، یہاں ان کی شریک حیات اور ایک جواں سال لڑکے کا انتقال ہوگیا، ان کی زندگی معاشی پریشانی میں گذری، اس کی وجہ سے ان کی زندگی مایوسی اور اداسی بہت تھی، چنانچہ زندگی سے متعلق ان کا رویہ منفی نظر آتا ہے، ان کے یہ اشعار دیکھئے :
مری حیات ہے محروم مدعائے حیات
وہ رہ گرز ہوں جسے کوئی نقشہ پا نہ ملا
ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
ہر نفس عمر گذشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
اور آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امنڈ آتا ہے
دل پہ گھٹا سی جھائی رہے کھلتی ہے نہ برستی ہے
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچہ ء دہلی چھوٹ گیا
ساری امیدیں ختم ہوئیں دل بیٹھ گیا جی چھوٹ گیا
فصل گل آئی یا اجل آئی کیوں در زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آپہونچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
منزل عشق پر تنہا پہونچے کوئی تمنا ساتھ نہ تھی
تھک تھک کر اس راہ میں آخر ایک ایک ساتھی چھوٹ گیا
فانیؔ ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گوروکفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا
رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ فانیؔ اتنے غمگین شخص نہیں جتنے غمگین شاعر ہیں ، غم کا ذکر جس رکھ رکھاؤ سے انھوں نے کیا ہے اس سے غم غم نہیں رہا، ایک انداز فکر ، آرٹ اور عبادت بن گیا۔فانی ؔ کے یہاں موت ایک انفرادی رد عمل اور سارے غموں کا حل ہے ، ان کے یہاں زندگی کی نفی پائی جاتی ہے، شاید وہ چاہتے ہیں کہ اس سے درد کا احساس کم ہوجائے، وہ موت کی حسرت کرتے ہیں اور اس کا انتظار کرتے ہیں ، چنانچہ کہتے ہیں :
آج یوم وصال ہے فانیؔ
موت سے ہورہے ہیں راز ونیاز
اصغرؔ گونڈوی(۱۸۸۴۔۱۹۳۶ء)
عصر حاضر میں اقبال کے عہد کے بعد اردو کے چار مشہور غزل گو شعراء ہوئے ، جنھیں غزل کے ستون کہا جتا ہے ان میں ایک اہم ستون اصغر گونڈوی ہیں، ان کی شاعر ی عظیم ہے اور اس عظمت کا دارو مدار زبان وبیان پر قدرت کے ساتھ قوت متخیلہ پر ہے ، اور اچھا شعر در اصل حسن تخیل اور حسن بیان کا مجموعہ ہوتا ہے، بیسویں صدی کے ممتاز سائنس داں ڈاکٹر آئن اسٹائن سے جب کسی نے یہ سوال کیا کہ انسان کے لئے علم کی زیادہ اہمیت ہے یا عقل کی؟ انھوں نے جواب دیا کہ نہ علم نہ عقل بلکہ سب سے زیادہ اہم چیز انسان کی قوت متخیلہ ہے اور قوت خیال کے بغیر نہ علم سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے اور نہ عقل سے ۔ نمونے کے طور پر اصغر گونڈوی کے یہ اشعار دیکھئے :
بہت سمجھے ہوئے ہیں شیخ راہ و رسم منزل کو
یہاں منزل کو بھی ہم جادہ منز ل سمجھتے ہیں
کہہ کے کچھ لالہ وگل رکھ لیا پردہ میں نے
مجھ سے دیکھا نہ گیا حسن کا رسوا ہونا
تم سامنے کیا آئے اک طرفہ بہار آئی
انکھوں نے میری گویا فردوس نظر دیکھا
آلام روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ملا اسے غم جاناں بنا دیا
یہاں کوتاہیء ذوق عمل ہے خو د گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتاہے
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
ردائے لالہ وگل پردہ مہ و انجم
جہاں جہاں وہ چھپے ہیں عجیب عالم ہے
اصغرؔ گونڈوی کی شاعر ی میں یاس اور محرومی کے شکوے کے بجائے شگفتگی ،رنگینی، روحانیت، بلند ہمتی ، تخیل کی بلندی اور مفکرانہ گہرائی ہو تی ہے، اصغر کو تصوف سے بڑا تعلق خاطر تھا، اکثر وہ اوراد اور ریاضت روحانی میں مشغول رہتے تھے، نہایت متقی اور پرہیزگار تھے ، شاہ عبد الغنی منگلوی کے حلقہ ارادت میں شامل تھے، انھوں ایک سہ ماہی رسالے ’’ہندوستانی‘‘کی ادارت بھی انجام دی، لوگ ان کے رشحات قلم کو نہایت دلچسپی سے پڑھتے تھے ، سر تیج بہادر سپرو اور مولانا آزاد بھی ان کے زور قلم کے معترف تھے، اور جب اصغر گونڈوی کا دیوان ’’نشاط روح اور سرود زندگی‘‘شائع ہوا تو اس پر ان دو حضرات نے تقریظ لکھی اور اصغر کے کلام کی عظمت کا اعتراف کیا، مولانا آزاد ؔ نے یہ جملہ لکھا:’’اگر تقریظ لکھنے کی فرمائش خود صاحب کلام کرتے تو میں شاید معذرت کردیتا لیکن یہاں خود کلام یہ فرمائش کر رہا ہے اس لئے معذرت نہیں کر سکتا‘‘۔