جھارکھنڈ اور بہار کے اہم اہل قلم – – – – مبصر: پروفیسرمجید بیدار

Share

bedarM جھارکھنڈ
ظہیر غازی پوری کے تنقیدی مزاج کی یادگار
جھارکھنڈ اور بہار کے اہم اہل قلم

پروفیسرمجید بیدار
(سابق صدر شعبۂ اردو ‘جامعہ عثمانیہ ‘ حیدرآباد)

اردو اب کے کہنہ مشق اور ممتاز شاعر کے علاوہ ممتاز محقق‘ نقاد‘ مقالہ نگار اور ماہنامہ ’’صریر‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے ادبی صحافی کا مقام حاصل کرنے والے ظہیر غازی پوری کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے ایک نئی صنف ’’غزل نما‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنی تحقیقی و تنقیدی کتابوں کی پیشکش کے ذریعے اردو ادب کی تاریخ اور تدوین کو فروغ دینے میں اہم کارنامے انجام دےئے۔ وہ پرُگو شاعر ہونے کے علاوہ قابل اعتبار محقق اور منفرد نقاد کی حیثیت سے شہرت کے حامل ہیں۔

نظم اور نثر میں انفرادی شناخت رکھنے والے ظہیر غازی پوری نے اپنی حالیہ کتاب ’’جھارکھنڈ اور بہار کے اہم اہل قلم‘‘ کے توسط سے نہ صرف دو مختلف ریاستوں کی شعری اور ادبی ہم آہنگی کو نمائندگی دی ہے بلکہ اردو ادب کے منظر نامے میں جھارکھنڈ اور بہار جیسی ریاستوں کے عصری ادبی کارناموں کے تجزیہ پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے توسط سے سرورق پر جہاں جھارکھنڈ کا نقشہ پیش کیا ہے‘ وہیں بہار کے نقشے کے توسط سے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو شعر و ادب کی صالح روایت کی آبیاری ان دونوں ریاستوں کے اردو قلمکاروں کے توسط سے جاری و ساری ہے۔ دور حاضر میں ان دونوں ریاستوں سے وابستہ اہل قلم حضرات کے علمی و ادبی کارناموں کو نمائندگی دینے کے لئے کتاب کی جلد اول میں بیس شاعروں اور ادیبوں کے کارناموں کو کے تجزیہ کا احاطہ کیا گیاہے۔ بلاشبہ اس کتاب کو ادبی گلدستہ سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کتاب کو نہ تو تذکرہ کی صنف میں جگہ دی جاسکتی ہے اور نہ ہی یہ کتاب خاکوں کے مجموعے کی حیثیت سے شہرت رکھتی ہے‘ بلکہ اندازہ ہوتا ہے کہ محقق اور نقاد نے حقائق کے تجزے اور ہر قلم کار کی تخلیقات کے تنقیدی محاکمہ کے توسط سے ایسا اہم کارنامہ بھی انجام دیا ہے۔ جس سے ہر اہل قلم کی نمائندگی ممکن ہے۔ ہر مضمون کی ابتداء میں اہل قلم کی تاریخ پیدائش اور جن ادیبوں نے اس دنیا سے کنارہ کشی کی ‘ ان کی تاریخ وفات بھی درج کردی گئی ہے۔ اس یادگار کتاب کے مطالعہ سے ’’جھارکھنڈ اور بہار کے اہم اہل قلم‘‘ کے شعری و نثری کارناموں کے عصری منظر نامے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ظہیر غازی پوری کی بیشترتحریروں میں فکر کی گہرائی ‘ تنقید کی گرفت اور دقیقہ سنجی کے علاوہ سخن فہمی کے ساتھ ساتھ جرأت اظہار اور تنقیدی ژرف نگاری کا ثبوت ملتا ہے۔ ظہیر غازی پوری نے معروضی انداز میں نہ صرف نقاد کی حیثیت سے ہر اہل قلم کے طرز تحریر اور اس کی سنجیدہ اور عالمانہ فکر کو زیر بحث لایا ہے بلکہ اہل قلم کی تحریر میں موجود زبان و بیان کی خوبیوں اور خصوصیات کو بھی زیر بحث لایا ہے۔ ظہیر غازی پوری نے کتاب کا انتساب ان ناقدوں‘ ادیبوں اور شاعروں کے نام معنون کیا ہے جو نظریاتی اختلاف اور نسلی امتیاز سے بالاتر ہوکر سوچنے ‘ سمجھنے اور لکھنے کے کام میں مصروف ہیں۔ اس انتساب کا اطلاق خود ظہیر غازی پوری پر ہوجاتا ہے کیونکہ انہوں نے علاقہ واریت کے حصار کو توڑتے ہوئے بیک وقت جھارکھنڈ اور بہار کے شاعروں اور ادیبوں کے کارناموں کو منظرعام پر لانے پر توجہ دی ہے‘ جس کے لئے بلاشبہ علاقائی حدود کو پار کرکے دوسروں علاقوں کے شاعروں اور ادیبوں کی خدمات کا اعتراف انجام دینے کی وجہ سے ظہیر غازی پوری کو بہرحال مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔
عام طور پر کتاب کا پیش لفظ صاحب کتاب کا تحریر کردہ ہوتا ہے لیکن یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ظہیر غازی پوری نے اردو کی کتابوں کی عام روایات سے ہٹ کر نئی روایت کی داغ بیل ڈالتے ہوئے یہ کوشش کی ہے کہ کتاب کا دیباچہ یا پیش لفظ بذات خود تحریر کرنے کے بجائے دیباچہ کی ذمہ داری اردو کے نامور ادیب اور نقاد ہی نہیں بلکہ ممتاز صحافی ڈاکٹر ہمایوں اشرف کے حوالے کی جائے‘ چنانچہ انہوں نے ابتدائی دو صفحات میں ’’دو لفظ ‘‘کے توسط سے مقدمہ لکھنے کا حق ادا کیا ہے جسے تقریظ کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ اب تک ظہیر غازی پوری کے سات شعری مجموعے اور دو تنقیدی و تحقیقی کتابوں کی اشاعت عمل میں آچکی ہے۔ جن میں فن اور معاصر شاعری کے محاسن کا حق ادا کیا گیا ہے ظہیر غاز ی پوری کی شعری حسیت اور تنقیدی شعور کا احترام کیا جانا چاہئے کہ انہوں نے عمیق‘ دقیق اور گہرے فلسفیانہ نظریات کو شاعری میں شامل کرنے کے بجائے عام زندگی کے تجربوں کو شعری حصہ بنا کر اپنی شاعری کو عمومی نہج سے ہٹ کر جدید لفظیات کا پیراہن بخش دیا ہے‘ چنانچہ ان کی شعری حسیت میں حوصلہ مندی اور تخلیقی رنگوں کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ ’’دو لفظ‘‘ کے توسط سے پروفیسر ہمایوں اشرف نے آج کے ہنگامی حالات کے پس منظر میں تفصیل اور وضاحت کو نظر انداز کرتے ہوئے دو ٹوک طریقے سے ظہیر غازی پوری کی خدمات کا عالمانہ انداز میں اقرار کیا ہے۔ جس کے بعد فہرست کے توسط سے سب سے پہلے پروفیسر وہاب اشرفی کے فن اور ان کی خدمات کو نمائندگی دیتے ہوئے ظہیر غازی پوری نے مختلف رسائل و جرائد اور کتابوں کے حوالوں کے توسط سے ڈاکٹر وہاب اشرفی کی ادبی خصوصیات کو منظر عام پر لایا ہے۔ ان کی تحقیق ‘ ساخت شکنی اور تنقید کے علاوہ ادیبانہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ خطیبانہ خصوصیت کو بھی اس مضمون کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔ اس مضمون میں وہاب اشرفی کی شخصیت اور ان کے کارناموں کو اہمیت دینے کے بجائے مختلف کتابوں کے حوالے جات اور رسائل کے ماخذات کے ذریعہ ظہیر غازی پوری نے بھرپور انداز سے وہاب اشرفی کی ہمہ جہت خدمات کی نشاندہی کی ہے‘ جس میں خصوصی انداز یہی ہے کہ کہیں بھی سوانحی پہلو اور شخصی انداز کی جھلک دکھائی نہیں دیتی ‘ بلکہ وہاب اشرفی کے ادبی نظریہ ‘ رویے اور رجحان کی مخصوص پیش کش کو عہد کے تقاضوں کی روشنی میں جانچا اور پرکھا گیا ہے‘ جس کی وجہ سے وہاب اشرفی کو متوازن استدلال کے مالک اور تحقیق و تنقید کے اعلیٰ اقدار کے نمائندہ ادب نواز کی حیثیت سے اہم مقام و مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے۔
اردو کی افسانوی نثر میں عصر حاضر کے ناول نگاروں اور تخلیق کاروں میں الیاس احمد گدی کا شمار ہوتا ہے ۔ ان کے تخلیقی سفر کو ظہیر غازی پوری نے اپنی کتاب کے دوسرے مضمون کی حیثیت سے شامل کیا ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش اور وفات کی تاریخ درج کرکے کسی حد تک الیاس احمد گدی کے سوانحی حالات کا احاطہ کیا ہے۔ پھر ان کی زندگی اور مشاغل کے جائزے کے ساتھ علم و ادب اور اخلاقی اور تہذیبی رویے کا محاکمہ انجام دیتے ہوں الیاس احمد گدی کے فن کے جواہر کی نشاندہی کی ہیجس میں عصری رجحان اور جدید ادبی تقاضوں کا انداز دکھائی دیتا ہے۔ الیاس احمد گدی کا ایک مجموعہ ’’آدمی‘‘ اور اس کے زبان و بیان کے تجزیے پر توجہ دیتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے دو ناول ’’مرہم ‘‘اور ’’زخم‘‘ کی اشاعت عمل میں آچکی ہے۔ غیاث احمد گدی کی وفات کے پانچ چھ سال پہلے انہوں نے ایک ناول ’’ٹریڈ یونین ازم‘‘ تحریر کیا تھا‘ جسے تلف کردیا گیا۔ الیاس احمد گدی کے افسانوں میں فکری ‘اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر اختلاف کی گنجائش ہے اور اکثر جگہ پر ان کے افسانوں میں اصل روح متاثر ہوتی یا مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ غرض الیاس احمد گدی اور ان کے بھائی غیاث احمد گدی کی تحریروں کے فرق کو بھی نمائندگی دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ الیاس احمد گدی نے بھی ابتداء میں رومانی یا کمرشیل انداز کے افسانے لکھے‘ پھر رفتہ رفتہ ان کی افسانہ نگاری میں انسانی قدروں‘ انسانی مسائل اور انسانیت نوازی کے علاوہ انسانوں کے دکھ درد اور مظالم ہی نہیں بلکہ تشدد اور استحصال کا عنصر بھی غالب ہونے لگا۔ ان کا مشہور ناول ’’فائر ایریا‘‘ کو معیاری‘ اچھوتا اور منفرد ناول کا درجہ دیتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ اس ناول کی کہانی حقیقت میں الیاس احمد گدی کے گھر اور اس کے پاس پڑوس کی نشاندہی کرتی ہے۔ اردو کے ممتاز نقادوں جیسے پروفیسر عبدالمغنی‘ شمس الرحمن فاروقی‘ نارنگ ساقی‘ علقمہ شبلی اور علی حیدر ملک کی رائے کو مضمون میں کو شامل کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اردو ناولوں میں جس طرح ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’خدا کی بستی‘‘ کو عظمت و وقار حاصل ہے‘ اسی طرح اردو ناول کی تاریخ میں ’’فائرایریا‘‘ بھی تابندہ و پائندہ تاول کا درجہ رکھتا ہے۔ اس طرح الیاس احمد گدی کی شخصیت اور فن کو ظہیر غازی پوری نے خصوصی اہتمام کے تحت دوسرے کا درجہ دیاہے۔ کتاب کا تیسرا مضمون ’’مظہر امام کا تنقیدی شعور‘‘ سے متعلق ہے ۔جس میں اردو کے مستند نقاد آل احمد سرور‘ گوپی چند نارنگ‘ کرامت علی کرامت‘ شمیم حنفی‘ پروفیسر انور صدیقی‘ ڈاکٹر انور سدید‘ جمیل الدین عالی کے نظریات کو شامل کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مظہر امام نہ صرف کلاسیکی بلکہ جدید اور مابعد جدیدیت کے رویے سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے طریقۂ نقد میں باخبری کو ضروری سمجھا ہے۔ ان کی تنقیدی تصنیف ’’ایک لہر آئی ہوئی‘‘میں شامل سولہ مضامین پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ ہر نقاد کسی مخصوص نظریہ ‘ عقیدہ اور مسلک کا پروردہ ہوتا ہے لیکن مظہر امام نے اپنے مضامین کو ’’تنقیدی نوعیت‘‘ سے مالا مال رکھا ہے۔ ظہیر غازی پوری کی خوبی یہی ہے کہ وہ ہر تخلیق کار کے فن کے تجزیے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ چنانچہ اپنے تیسرے مضمون میں بھی انہوں نے مظہر امام کی تنقیدی اظہارات اور ان کے شعر و ادب میں شامل فنی خصوصیات کے تجزیے پر توجہ دی ہے۔ مظہر امام کی خوبی یہی ہے کہ وہ جملے کی تعبیر اور توضیح نہیں کرتے بلکہ اسی میں حقائق کے ادراک کو پیوست رکھتے ہیں۔ غالب کی مضمون نگاری کا تجزیہ بھی اس مضمون کا حصہ ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ مظہر امام نے اپنی شاعری کی طرح تنقید کے دوران بھی اپنی علیحدہ شناخت کو برقرار رکھا ہے۔ کتاب کا چوتھا مضمون ’’ماہر اقبالیات ۔محمد بدیع الزماں کی ادبی فتوحات‘‘ کے توسط سے علامہ اقبال اور ان کے فن ہی نہیں بلکہ ان کے تصورات کے بارے میں منطقی استدلال اور انکشافات کو پیش نظر رکھ کر تحریر کیا گیا ہے کیونکہ اقبال تعمیری صلاحیتوں کے مالک رہے۔ اقبال کی شاعری میں سری کرشن اور سری رامانج کی نظموں کے حوالے سے بھی یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام نے بت پرستی کی مخالفت کی ہے اور اقبال نے ان دانشوروں کا احترام کیا ہے جو بت پرستی کی مخالفت اور انسانیت دوستی کی نمائندگی کرتے رہے۔ یہ حقیقت بھی واضح کردی گئی ہے کہ محمد بدیع الزماں نے علامہ اقبال پر 465مضامین لکھ کر ساری دنیا میں ریکارڈ قائم کیا کہ بدیع الزماں کی طرح اردو کے کسی ادیب نے یہ کام انجام نہیں دیا۔ اقبال کی شاعری کی تمام اصناف حتی کہ بچوں کے ادب‘ ان کی نثر اور نظم اور شاعری کی ندرتوں اور تصورات کو منظر عام پر لاتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اقبال نے عورت کو ماں ‘ بہن‘ بیٹی اور بہو کے روپ میں دیکھا ہے۔ ان کی شاعری میں ذہن کی زرخیزی اور ادب کی تیز گامی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری کا شعور اور قرآنی افکار کا ظہور علامہ اقبال کی شاعری کا وصف بن جاتا ہے۔ ظہیر غازی پوری نے کتاب کے پانچویں مضمون کی حیثیت سے ’’اختر پیامی کی نظمیں۔ ایک اجمالی جائزہ‘‘ کے توسط سے نظم کی مختلف جہتیں اور نظموں کی شعری کیفیات میں شامل نغمگی اور ترنم ریزی کے علاوہ تجزیہ اور احتساب کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اختر پیامی نے اپنی نظموں میں ان ہی خصوصیات کی مکمل نمائندگی کی ہے۔ اس مضمون کے ذریعہ شاعر کی اولولعزمی‘ سرشاری‘ ذہنی شگفتگی اور خوش مزاجی کے تمام عوامل کو ذات اور حیات کے مختلف گوشوں کے ذریعہ تخلیق کردہ نظموں میں پیش کیا ہے۔ ظہیر غازی پوری نے ان کی نظموں کا تجزیہ اور ان کے احساسات کی گہرائی کو بھی نمائندگی دی ہے۔ اختر پیامی نے اپنی شاعری کو نظم کے حصار میں باندھے رکھا اور ان کی بیشتر نظمیں جہاں پابند شاعری کی علمبردار ہیں تو وہیں آزاد اور معری نظم کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کی پابند نظموں میں موجود اسلوب نگارش اور طرز اظہار کو یک رنگی سے تعبیر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ ان نظموں میں بے باک شعور کی تمکنت اور خاص قسم کی گدازیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ترقی پسند شعراء کی فکر کے پیش نظر اختر پیامی کو غنائی کیفیت کے نمائندہ شاعر قرار دے اور تخلیقی شعور کی بے باکی کے ذریعہ عصری تلازموں کی سحر انگیزی کو معنویت ‘ جدت طرازی اور تازہ کاری سے مربوط رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ علم و فن کے معیارات میزان بن کر اختر پیامی کی نظموں میں تخلیق کا حق ادا کرتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترقی پسند نظم نگاروں کی فہرست میں اختر پیامی ایک عہد ساز نظم نگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ظہیر غازی پوری کی کتاب ’’جھارکھنڈ اور بہار کے اہم اہل قلم‘‘ میں ’’ڈاکٹر نادم بلخی۔ ہمہ جہت شخصیت فن ‘‘کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش اور وفات تحریر کرنے کے بعد یہ ثابت کیا گیا ہے کہ نادم بلخی بلند قامت نثر نگار ہی نہیں بلکہ بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ انہوں نے ’’شعاع نقد‘‘ جیسے مجموعے میں تنقیدی مضامین شامل کئے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’متاع نقد‘‘ اور ’’مقالات نادم‘‘ زیر ترتیب ہیں۔ تخلیقات ان کے توسط سے ان کی نثری خدمات اور شعری مجموعوں کے توسط سے ان کی لکھی ہوئی نظمیں‘ غزلیں‘ رباعیات‘ قطعات‘ سانیٹ‘ دوہے‘ ماہیے‘ ہائیکو اور آزاد غزلوں کا تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ ان کے شعری مجموعے ’’ضیائے عرفان‘‘ اور ’’چودہ طبق‘‘ کے علاوہ ’’جیون درشن‘‘ اور ’’میٹھی میٹھی بولیاں‘‘ کے توسط سے ظہیر غازی پوری نے نادم بلخی کی شاعری اور اس کے کارناموں کے تجزیے کا کارنامہ انجام دیتے ہوئے اپنے عہد کے مشہور نقادوں جیسے پروفیسر عبدالمغنی کے تاثرات کے ساتھ ساتھ پروفیسر علیم اللہ حالی کے نظریات کو بھی جگہ دی ہے اور بتایا ہے کہ نادم بلخی نے قطعہ اور رباعیات جیسی اصناف کو ہی اپنے فن کا اظہار نہیں بنایا بلکہ دوسری زبانوں سے منتقل ہونے والی شعری اصناف جیسے سانیٹ‘ دوہے‘ ماہیے‘ ہائیکو اور آزاد غزلوں کے تجربوں سے اپنی شعری کائنات کو سجائے رکھا اور ہر عہد کی بدلتی ہوئی ادبی اور تہذیبی خبروں کو نمائندگی دیتے ہوئے صالح ادب کی تخلیق کی اور ان کا یہ کارنامہ بھی واضح کیا ہے کہ انہوں نے بے شمار ریسرچ اسکالرز کی قدم قدم پر رہنمائی انجام دے کر ان کے کام کو معیاری بنانے میں اپنا حق ادا کیا۔
جھارکھنڈ اور بہار کے منتخبہ اور معیاری شعراء کی حیثیت سے ناوک حمزہ پوری‘ علقمہ شبلی‘ فرحت قادری‘ پرکاش فکری اور وہاں دانش کو امتیازی مقام حاصل ہے۔ ان شعراء کے کلام کی خصوصیات اور ان کے فن کی نمائندگی پر توجہ دیتے ہوئے ظہیر غازی پوری نے حقائق کا اعتراف کیا ہے۔ شاعری اور اس کے اہم نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے ظہیر غازی پوری نے ناوک حمزہ پوری‘ علقمہ شبلی‘ فرحت قادری اور پرکاش فکری کے فن کی نمائندہ خصوصیات کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ہی ایک اور شاعر وہاب دانش کی نثر نگاری کے تجزیے پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ جھارکھنڈ اور بہار کے شعری منظر نامے کی نمائندگی کرتے ہوئے ظہیر غازی پوری نے دو اہم خواتین ڈاکٹر انوری بیگم اور ڈاکٹر خورشید جہاں کے ادبی کارناموں کی طرف توجہ مرکوز کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ انوری بیگم نے تنقید ‘ شاعری ‘ افسانہ نگاری اور تحقیق میں امتیازی مقام حاصل کیا۔ ان کی تحقیقی کتاب ’’قدیم دکنی شاعری میں مشترکہ کلچر‘‘ اہمیت کی حامل ہے۔ جبکہ افسانوی مجموعہ ’’خاموش شکوے‘‘ اور دو شعری مجموعے ’’طائر خوں فشاں‘‘ اور ’’درد آشنا‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ ظہیر غازی پوری نے یہ لکھا ہے کہ ڈاکٹر انوری بیگم قلم اور روشنائی کے تقدس کو برقرار رکھنے والی تیزگام قلمکار ہیں اور ان کی شاعری ‘تنقید اورتحقیق میں ذہنی آسودگی کا دار و مدار دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے غزلوں اور نظموں کے علاوہ افسانہ نگاری کے ذریعہ اردو کے ادبی منظر نامے کو خوش عقیدگی سے وابستہ رکھا۔ جھارکھنڈ اور بہار کی دوسری اہم نثر نگار کی حیثیت سے خورشید جہاں کا تعارف تنقید اور انشائیے کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہے اور نامور اساتذہ کے حوالوں کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر خورشید جہاں بے باک انداز میں اپنی بات پیش کرتی اور حقائق کی نمائندگی کرنے میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ جس کے بعد ظہیر غازی پوری کا تنقیدی منظرنامہ ’’رونق شہری‘‘ ، ’’عطا عابدی‘‘ ڈاکٹرشمیم ہاشمی ‘ فراغ روہوی اور شان بھارتی کے علاوہ ڈاکٹر جلیل اشرف کے کارناموں کی نشاندہی کرتا ہے۔ رونق شہری کے غزل کے امتیازات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ مہملیات سے گریز برتتے ہوئے تخلیقی توانائی کے توسط سے انہوں نے مطالعے کی وسعت اور تجربے کی شدت کو بڑے سلیقے سے اپنی غزلوں میں شامل کیا ہے۔ ان کی غزلوں کے تجزیے کو شامل کرتے ہوئے ظہیر غازی پوری نے جدید غزل گو عطا عابدی کی جدت اور جدیدیت کی استعاراتی کیفیت کو نمائندگی دیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اس شاعر نے بیان کی دلکشی اور تخلیلات اور تفکرات کے اوصاف کو غزل میں شامل کردیا ہے۔ اسی طرح شمیم ہاشمی کی نئی غزل کے جہات کی نمائندگی بھی اس کتاب کا حصہ ہے جس میں غزل کی فضاء بندی اور مفہوم اور معنی کی ترسیل کو عرفان کا درجہ دیتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ شاعر نے اپنی غزل کو اجتماعیت کا محاکمہ بنادیا ہے۔ اسی طرح فراغ روہوی کی غزل میں تازہ کار تلازموں کی دلفریبی اور رنگینی کو ثابت کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی شاعری زماں و مکاں کی مقید نہیں۔ شان بھارتی کی شعری حسیت کو نمائندگی دیتے ہوئے ظہیر غازی پوری نے یہ لکھا ہے کہ تخلیق شعر کے ذریعہ انہوں نے ادبی دنیا کو دو مختصر مجموعے پیش کئے جس میں الفاظ کا روایتی انداز موجود ہے۔ ان کے کلام میں شاعری کی مستحکم روایت جلوہ گر نظر آتی ہے۔ ظہیر غازی پوری نے شان بھارتی کی شاعری کو فکری اجتہاد سے تعبیر کیا ہے۔ کتاب کا آخری مقالہ ’’ڈاکٹر جلیل اشرف کے تحقیقی مقالے کا اجمالی جائزہ‘‘ اس حیثیت سے اہمیت کا حامل ہے کہ جلیل اشرف بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور منی کہانیاں لکھتے رہتے ہیں۔ ان کی نظموں کا مجموعہ ’’کہرے کی دھول‘‘ شائع ہوچکا ہے اور ان کی کتابیں ایک درجن سے زیادہ ہیں‘ جن میں ’’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘ کے علاوہ ’’افسانہ۔ ’’حقیقت سے علامت تک‘‘ اور ’’باغ بہار کا تخلیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘ ہی نہیں بلکہ’’ انشائیے کی بنیاد ‘‘ اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے اپنا مقالہ ’’ڈاکٹر سلیم اختر بحیثیت نقاد‘‘ پیش کیا جس کی اشاعت کتابی شکل میں پیش کی جاچکی ہے۔ تحقیقی پس منظر میں ظہیر غازی پوری نے انہیں مشعل راہ اور نیا سنگ میل سے تعبیر کیا ہے اور بتایا ہے کہ سلیم اختر کی ادبی کاوشوں کو جس متوازن انداز سے ڈاکٹر جلیل اشرف نے پیش کیا ہے وہ منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ کتاب کے آخر میں مختلف مشاہیر ادب کے تاثرات پیش کرتے ہوئے ظہیر غازی پوری کی تصانیف کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ خوبصورت سرورق اور مجلدکور سے آراستہ 208 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 200روپئے مقرر کی گئی ہے۔ اس کتاب کو نرالی دنیا پبلی کیشنز‘ دریا گنج ‘ نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ کتاب میں شامل مواد اور اس کی اصابت کے اعتبار سے اس کی قیمت حد درجہ مناسب ہے۔ کتاب کے جیکٹ کے دونوں جانب اہم اہل قلم حضرات کی آرا کو جگہ دی گئی ہے اور آخری صفحہ پر ظہیر غازی پوری کی رنگین تصویر اور ان کا مختصر سا تعارف شامل کرکے کتاب کے حسن میں اضافہ کیا گیا ہے۔ جھارکھنڈ اور بہار کی ادبی تاریخ کو مدون کرنے والے محققین اور ناقدین کے لئے یہ کتاب نعمت غیر مترقبہ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لئے توقع ہے کہ اس کتاب کی ادبی دنیا میں خوب پذیرائی ہوگی اور یہ کتاب جامعات کی حوالہ جاتی لائبریری ہی نہیں بلکہ ریسرچ اسکالرز کے لئے مطالعہ کا اہم وسیلہ بنے گی۔ دو ریاستوں کے عصری ادیبوں اور شاعروں کے کارناموں کو منظر عام پر لانے اور ان کی خدمات کو یکجا کرکے ’’جھارکھنڈ اور بہار کے اہم اہل قلم‘‘ جیسی کتاب لکھ کر ادبی قرض چکانے کا کام انجام دینے پر ظہیر غاری پوری کو دلی مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔ توقع ہے کہ اس کتاب کی نکاسی کو اردو داں طبقہ اپنی ذمہ داری تصور کرکے دور دور تک پہنچانے کا کارنامہ انجام دے گا۔

Share
Share
Share