طنزومزاح : وہ زمانے – – –
سید عارف مصطفیٰ
کراچی
یار من میر شمس الدین خیالی المعروف خیالی صاحب کا یہ قول تشخیص کا درجہ رکھتا ہے کہ جو کوئی پاکستانی اگر عمر کی 50 بہاریں دیکھ چکا ہے یا اس کی پیدائش کا ارتکاب اسی کے لگ بھگ ہوا ہے اور اگر پھر بھی وہ کمپیوٹر انٹرنیٹ اور موبائل سے قبل کے زمانے کو خوبصورت نہیں سمجھتا یا کبھی کبھی اسے یاد کرکے لمبی ٹھنڈی سانسں نہیں بھرتا اور اس سے بھی طویل تر گرم آہ خارج نہیں کرتا تو اس سے ڈرنا اور بچنا بہت ضروری ہے کیونکہ ایسا کوئی بھی فرد دماغی علاج بروقت نہ ہوسکنے کے سبب ماحول کے لیئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔۔۔
میر خیالی کے اس خیال سے کوئی اور متفق ہو نہ ہو ، میں اور خواجہ تو اس سے پوری طرح اتفاق کرتے ہیں ،، انہیں بھی میری طرح کبھی کبھی ناسٹیلجیا گھیر لیتا ہے بلکہ اکثر ہی ان دنوں کی یادوں کی بلبل ہم دونوں کے من کے چمن میں بڑی شدت سے اندر ہی کہیں کوکتی ہے ،،، اور ہم ان بیتے دمکتے دنوں کی سندر جادو نگری میں اترتے ہی چلے جاتے ہیں کہ جب ہر طرف سادگی کا راج تھا اور جب موبائیل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ہماری زندگیوں میں نہیں در آئے تھے ۔۔۔ یہاں میں نے معصومیت کا لفظ جان بوجھ کے استعمال نہیں کیا کیونکہ بچوں کی پیدائش تو ان دنوں بھی ہوا کرتی تھی بلکہ نصف درجن بچوں سے کم کا باپ تو کسی سے آنکھ بھی نہیں ملا پاتا تھا اور دروازوں پہ چقیں بھی بڑی اہتمام سے شاید اسی سبب لٹکائی جاتی تھیں کہ اچانک گھر کا دروازہ کھلے تو دشمن سے لڑنے کے لیئے اندر خانے خامشی سے تیار کیا گیا
لشکر جرارکہیں کسی حاسد کی نظر بد کا شکار نہ ہوجائے ۔۔۔۔
اس زمانے میں زندگی کتنی سادہ اور خالص تھی اور ساتھ ہی کس قدر بے تحاشا و
بیحساب فارغ تھی ۔۔۔ لوگ کہیں پہروں یونہی بھی بیٹھے رہ سکتے تھے اور اکثر یہ تک بھول بھول جاتے تھے کہ وہ وہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں ،،، دن بھی شاید چوبیس نہیں ایک سو چوبیس گھنٹے کا ہوا کرتا تھا ۔ سب کام کرچکنے بعد بھی بہت زیادہ بچا سا رہتا تھا ۔ گرمیوں کی دوپہر میں توسورج بھی آسمان کے درمیان پہنچکر بڑی لمبی ٹھیکی لیتا تھا اور نہانے والے بھی نہا تے نہاتے سفید پڑجاتے تھے ۔۔۔اس وقت سڑکوں پہ گاڑیاں بہت کم ہوا کرتی تھیں ہر طرف یکوں اور تانگوں کا راج تھا ،،، فضاء ہمہ وقت گھوڑوں کی باس لید کی دھانس اور بزرگوں کی کھانس سے معمور رہتی تھی ۔۔۔ تانگہ چلاتے کوچوان رستے ہی میں بہت کھینچ کر بیڑی کے بھرپور کش لگاتے تھے اور اسی سبب "بچنا بابو” کی صدا لگانے میں اکثر لیٹ ہوجاتے تھےاور عموما انکی آواز سنے جانے سے پہلے ہی پیچھے سے انکا گھوڑا اپنا منہ کسی غافل بابو کے کندھے پہ رکھ کر تشکر کی رال گرا چکا ہوتا تھا
سائیکلیں البتہ وافر ہوا کرتی تھیں اور جابجا تانگوں کے ساتھ ڈوئیٹ کرتی لہراتی سی چلتی تھیں اور کچھ اس مساواتی جذبے سے رواں رہتی تھیں کہ اوور ٹیک کی نوبت بھی کم ہی آتی تھی اوردونوں باہم پیچھے چلتی اکا دکا کسی واویلا کرتی موٹر کی بخوبی ناکہ بندی کیئے رکھتے تھے کیونکہ کسی موٹر کا فوراً ہی تانگے و سائیکل سے آگے نکل جانا گویا اک طرح کی سفری بدشگونی تھی ۔۔۔ کہنے کو تو سائیکلیں بہت تھیں لیکن اس زمانے میں کم ہی خوش نصیب اپنا پورا سفر سائیکل پہ طے کرپاتے تھے اور کبھی وہ سائیکلوں پہ سوار دکھتے تھے تو کبھی سائیکلیں انکے کاندھوں پہ سوار نظر آتی تھیں ۔۔۔ اوریوں انکی بدولت سوار کو آج کی باضابطہ ورزشی سائیکلوں سے کہیں زیادہ ورزشی مواقع میسر آ پاتے تھے ۔۔۔ تاہم سائیکل بھی اس زمانے میں مکمل مفلس کی سواری نہ تھی ،، جانا مانا غریب تو پہلے بھی صرف اپنی دونوں کھڑی ٹانگوں پہ سواری کرتا تھا اور آج بھی اسکی یہ قابل بھروسہ سواری سلامت ہے کہ جس میں پنکچر کی ناگہانی کا بھی کوئی دخل نہیں ۔۔۔ اور اس زمانے میں تو غریب غرباء بغٰیر کرائے کے جھنجھٹ میں پڑے پیدل ہی چل پڑتے تھے اور اکثر تانگے سے ذرا پہلے ہی اپنی منزل پہ پہنچ جایا کرتے تھے ۔۔۔ لیکن اس غریبانہ پیدل چلائی سے وہ مفلس کم اور گھر کے بچے زیادہ تھکتے تھے کہ انہیں ابا کی خستہ حال ٹانگیں اس وقت تک دبانی پڑتی تھیں کہ جبتک کوئی ایک جان بوجھکر یا خستہ ہوکر ان پہ گرنہ پڑے اور وہ گھبرا کر ” بس کر ، بس کر” کا نعرہ نہ ماردیں ۔۔
اس زمانے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ عام طور پہ کسی سے کوئی بھی سوال کرنا گناہ کبیرا کے ہم وزن سمجھا جاتا تھا اور ‘سوالیوں’ کے بارے میں آخرت میں نہایت دردناک حشر کی وعیدیں سخت لرزہ خیز انداز میں بار بار بیان کی جاتی تھیں اور انکی تشریح کا دائرہ کھینچ کر بچوں کےسوالات تک بھی دراز کردیا جاتا تھا اور بچے سہم سہم کر اپنے آپ سے یہ ‘گناہ کبیرا’ کبھی نہ کرنے کا پکا عہد کر بیٹھتے اور تا عمر یہ عہد نبھاتے تھے اور یوں انکی عاقبت اور بڑوں کی علمیت کو کوئی خطرہ نہ رہتا تھا – اس حفظ ما تقدم کا اضافی و ضمنی فائدہ یہ بھی تھا کہ بچے اپنی شادی سے کچھ ہی عرصہ پہلے تک اس کہانی کی حقیقت نہیں جان پاتے تھے کہ انہیں کوئی سنہری پروں والی پری انکے گھر کے باہر ایک پھولوں کی ٹوکری میں کیسے اور کیوں رکھ کر گئی ،،، اس عہد کے بچے بڑوں کی میراث میں کچھ پائیں نہ پائیں یہ پری والی یہ کہانی ضرور مل جاتی تھی اور پوری ذمے داری سے اگلی نسل کو بھی منتقل ہوتی تھی ، لیکن اب اس کئی نسلوں کو بہلانے والی فرسودہ کہانی کو سنانے کا کوئی فائدہ نہیں رہا ، اب بچے کہانی کی ابتداء ہی میں بڑوں کو قابل رحم نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں اور کہانی کا درمیان آتے آتے نارمل ڈیلیوری نہ ہوسکنے پہ آپس ہی میں برملا افسوس کا اظہار بھی کرنے لگتے ہیں ۔۔۔
ویسے اس زمانے میں عام طور پہ بھی کہانیاں پڑھنے کا چلن عام تھا ۔۔۔ اور اکثر کہانیاں کسی ایسے غفلت شعار بادشاہ سے متعلق ہوتی تھیں کہ جسکے گھریلو معاملات کسی نابکار دیو کی وجہ سے بگڑے رہتے تھے کیونکہ اس سرکش نے اسکی لاڈلی شہزادی کو اغواء کررکھا ہوتا تھا ، لیکن عجب بات یہ کہ خود اس شرپسند دیوکی جان ایک طوطے میں ہوتی تھی اور یہی خاص راز کی بات ظل سبحانی کے علم میں نہ ہوتی تھی کیونکہ اسے دربار میں بے تحاشا تالیاں بجاتے رہنے اور اپنے درباریوں کو بار بارآداب بجا لاتا دیکھنے کا سرور کشید کرنے سے فرصت نہ ملتی تھی ،، دیو کی جان کے راز والی بات بھی عام طور پہ صرف ایک نوجوان چرواہے کو معلوم ہوتی تھی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مارکونی وائر لیس کا حقیقی موجد نہیں ۔۔۔ یہ چرواہا بکریاں بھی شاید شاہی محل کے پاس ہی چراتا تھا کیو نکہ وہاں وہ ہمیشہ وہاں کی اپ ڈیٹ سے واقف رہتا تھا اور اسی سبب جیسے ہی اسے مفسد دیو کے ہاتھوں شہزادی کے اغوا کا علم ہوتا وہ کہانی میں چپکے سے پیدل نمودار ہوتا اور بادشاہ کی مایوسی پہ ترس کھاکے وہیں ہاتھ کے ہاتھ دربار سے گھوڑا ادھار لے کر جاتا اور آناً فاناً کشتوں کے پشتے لگا کر طوطے کی گردن مروڑ کر دیو کو فنا کے گھاٹ اتار دیتا اور یوں کہانی میںً ایک طوفانی نکاح کی گنجائش نکل آتی ،،، اسکے بعد عام طور پہ یہ کہانی جاری رکھنا فضول سمجھا جاتا تھا ورنہ جاری رکھے جانے سے قوی خدشہ رہتا کہ شہزادی کے نخروں کی تاب نہ لا کے بعد میں ہیرو خود ہی کسی دیو کو التجاء کرکے نہ بلا لائے
جیسا کے پہلے بھی بیان کیا گیا، اس زمانے میں دن بہت لمبے ہوا کرتے تھے اتنے طویل کہ انہیں کاٹنے کے لیئے ایک آدھ عشق ضروری ہوجاتا تھا اور نہایت سلیقے سے ممنوعہ اشیاء کی طرح سو پردوں میں چھپا کر برتا جاتا تھا ۔۔۔’رائج الوقت’ دقت یہ تھی کہ ایک دلرباء کو رجھانے کیلیئے اسکے سارے ٹبر کو پرچانا پڑتا تھا اور بعض اوقات آخری رکاوٹ سے نپٹنے تک نامراد عاشق کی آخری پونجی اور مطلوبہ مہ لقاء کی ڈولی کہیں اور اٹھ جایا کرتی تھی ۔۔۔ اس زمانے میں عشق کے سلسلے میں کہیں کہیں تو احتیاط کا یہ عالم ہوتا تھا کہ خود اس باؤلی دلرباء کو بھی کئی برس تک اس رومانی پروجیکٹ کی خبر نہ پہنچ پاتی تھی – ان دنوں شاید عاشق ہی سب سے ستم رسیدہ لوگ ہوا کرتے تھے کیونکہ ون پوائنٹ ایجنڈہ کے تحت سارا ہی زمانہ ان سے نپٹنے کو باعث سعادت باور کرتا تھااور کسی کے ساتھ عشق کا گمان ہوتے ہی ہر خاص و عام آن کی آن اپنے باہمی اختلافات بھلا کر اور یکسو ہوکر اسکی محبوبہ کی کہیں اور شادی کرانے کیلیئے کمر کس لیتا تھا اور یوں اس نامراد عاشق کو نئے سرے سے کسی اور موزوں زمین میں پیار کی پنیری لگانی پڑتی تھی۔۔ اس زمانے میں عشق کی فصل لہلانے کا سبب دن ہی نہیں ، راتیں بھی ہوا کرتی تھیں جو کہ دن ہی کی مانند خاصی لمبی ہوتی تھیں جن سے نیند کے ماتے خوب سرشار ہوا کرتے تھے ۔۔۔ رات کے کھانے کا آخری نوالہ پیٹ میں پڑتے پڑتے نیند آنکھوں میں جا بیٹھتی تھی اور دسترخوان سمیٹنے میں مستعدی نہ کی جائے تو خالی رکابیاں سوئے ہوؤں کے نیچے سے کھینچنی پڑتی تھیں ،،، بس اسکے بعد تمام شب وارفتگان نیند کے خراٹے اور وابستگان پریم کے فراٹے جاری رہتے تھے ۔۔۔۔ یوں بس یہاں وہاں چند الو جاگتے تھے یا کہیں کہیں کوئی خارش یا کالی کھانسی کا مارا کسی گھر میں کہیں پڑا کھجاتا یا کھانستا رہتا تھا لہٰذا دل چرانے والوں اور مال چرانے والوں کو بڑے سکون سے اپنا اپنا کام کرپانے کے وافر مواقع ملتے تھے اور وہ کھل کھلا کے کامل توجہ سے اپنی تمام ہنر مندیوں و صلاحیتوں کا اظہار کرپاتے تھے ،،، سوتے ہوئے لوگوں کے نصیب میں صبح خالی الماریوں سونے پلنگوں اور آہوں کے سوا کچھ نہ رہ جاتا تھا ،،،
یہ وہ عاجزی کا زمانہ تھا کہ جس کسی کی چال میں تمکنت ہوتی تھی ، اسکے گھر میں ٹیلی فون ہونے کا صاف پتا دیتی تھی اس چال میں وافر شاہانہ پن بھی جھلکتا ہو تو پھر ٹیلی فون کے ادارے سے وابستہ ہونے کا قیاس بھی اکثر صحیح نکلتا تھا ۔۔۔ ہر بستی میں ٹیلی فون والے گھر بھی الگ سے پہچانے جاتے تھے ،،، جس کسی گلی میں کسی خوش پوش کے معمولی سے لطیفے پہ بھی لوگ ہنستے ہنستے بیحال ہوجاتے تھے اس گھر میں ٹیلی فون لگا ہونا تقریباً یقینی ہوتا تھا – حتیٰ کہ اسکے دائیں بائیں کے پڑوسی بھی بڑے ناز سے اپنے مکان کا پتا اسی گھر کی نسبت کے حوالے سے بتاتے تھے ،،، اس دور میں اپنے اقرباء کے فون کسی اور کے نمبر پہ وصول کرسکنا بھی کوئی معمولی رعایت نہ تھی محلے میں کوئی کسی سے بھی لڑے ٹیلی فون والے سے لڑنا گناہ کبیرہ کے درجے میں تھا یہانتک کے ہواؤں سے لڑنے والا بھی اسکی تاب نہ رکھتا تھا کیونکہ جانتا تھا کہ اس درجہ ‘شدید گمراہی ‘ پہ سارا محلہ مل کے ٹوٹ پڑے گا – آج کل موبائل سے کسی بھی درجے میں نفرت کا اظہار کرنے والوں کے ماضی کو کریدیئے تو وہ زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہونگے کہ جو پرانے وقتوں میں بھی گھر میں ٹیلیفون رکھتے تھے اور بس اسی کے سہارے نہایت بلند مقام ہوا کرتے تھے – لیکن موبائل نے جنکا سب راج پاٹ ہی چھین لیا ،،،اس زمانے میں جمن دودھ والا بھی ‘ بالائی’ کے بل پہ اگر ٹیلیفون لگالے تو پھر اسے جان محمد سے کم پکارنا اسکو ہی نہیں کسی اور کو بھی گوارا نہ تھا
اس گئے زمانے کے شوقین لوگوں نے اپنی دلبستگی کیلیئے رنگیلی خانم یا طمنچہ جان جیسے سہارے ہی کھوج رکھے تھے جو ابھی کوٹھے سے کوٹھی میں نہ جا بیٹھیں تھیں ،، تاہم جن طمنچہ جانوں کی ڈبل تھوڑی نکل آئی تھی یا آنکھ ناک یا رنگ میں کسر رہ گئی تھی وہ جھنجھلا کر کسی سرکس کے تختے پہ پہنچ جاتی تھیں جہاں وہ خسروں کے سنگ نتھنے پھلا کرپیر پٹخ پٹخ کر دھما دھم ‘ رقص انتقام’ کرتی پائی جاتی تھیں ،،، اور وہ جو سرکس تھا تقریباً ہر قسم کے روزگار کماتے کے دسترس میں تھا جہاں ایک وقت کے کھانے کے پیسے بچا کر ہزار جلوؤں سے پیٹ بھرا جاسکتا تھا پھر بھی بہتیرے تھے کے ٹکٹ نہ خرید سکتے تھے اور اس رنگ برنگے بہت بڑے تنبو والے سرکس کی قناتوں اور تنبوؤں کے سوراخوں سے درجنوں چھوٹی بڑی آنکھیں چپکی رہتی تھیں ۔۔۔ سرکس کا نظارہ اس لیئے بھی بہت مقبول تھا کیونکہ اس زمانے عام طور پہ لوگ بھی زیادہ تر ڈھیلے ہوتے تھے اور کپڑے بھی ڈھیلے ہی پہنتے تھے لہٰذا چست کپڑوں کا نظارہ ، نظروں اور جسم میں چستی بھرنے کے لیئے بہت مجرب تھا ،، ان دنوں اس درجہ چست کپڑوں میں یا تو فائربریگیڈ والے ہوتے تھے یا پھر سرکسی حسینائیں جو کبھی اونچائی پہ کسی رسی پہ ایک پہیئے والی سائیکل چلاتی تھیں تو کبھی اس سے الٹی لٹکی پڑتی تھیں- نیچے بیٹھے تماشائیوں کی نگاہیں بھی انکے سائیکلوں کے پہیئوں کے ساتھ لپٹ کر گھومتی تھیں اور انہی کے ساتھ الٹی ہوئی دکھتی تھیں- ان چمتکار دکھاتی کرتبیلی دوشیزاؤں کے نزدیک کا ہر تماشائی کسی حادثے کی صورت میں انہیں لپک کر بچانے کیلیئے اپنی باری آنے کے امکان پہ کمربستہ ہوجاتا تھا لیکن ایسا کچھ نہ ہوتا تھا اور اخلاقاً ایسے امکان کے بل پہ ناحق اسے دوسرے شو کا ٹکٹ بھی لینا پڑجاتا تھا ۔۔۔ ایک جوکر بھی ہوتا تھا لمبی سی پھندنے والی تکونی ٹوپی اور بہت سارے شوخ رنگوں والا ماسک سجائے وہ نہایت عجیب و غریب حرکتوں سے سبھی کو ہنساتا تھا مگر اپنی اس حالت پہ جسکے آنسو اسکے اپنے دل پہ گرتے تھے اور جسکے اندر کے اندھیرے باہر کی روشنیوں کی برسات بھی نہ دھوسکتی تھی اور جس سے کہیں زیادہ دیکھ ریکھ اور سیوا وہاں کے بندر اور بھالو کی کی جاتی تھی
اس زمانے میں عام طور پہ ریڈیو ہی تفریح کا بڑا ذریعہ تھا اور نعمت شمار ہوتا تھا کیونکہ وہ بیویوں کی نوج سے شوہروں کو تا دیر محفوظ رکھتا تھا – پھر یہ کہ اسے کان اینٹھ کرخاموش کرنا بھی انکے بس میں ہوتا تھا- ان دنوں خواتین کو چونکہ کھانے پکانے آتے تھے اور خشکی بھی سروں کے بجائے آٹا گوندھنے کی پرات ہی میں پائی جاتی تھی لہذا ریڈیو پہ کھانا پکانے اور سر سے خشکی بھگانے کے پروگراموں کا رواج نہ تھا ،،، زیادہ تر تراکیب جو نشر کی جاتی تھیں ان کا تعلق جوؤں اور چوہوں کی عبرتناک موت یقینی بنانے والے گھریلو چٹکلوں یا کالی بلی اورکالی کھانسی بھگانے والے نسخوں سے ہوتا تھا اور لہسن شہد اور کلونجی وغیرہ کے فوائد والے پروگراموں کی بھرمار بھی رہتی تھی ۔۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ اس زمانے میں کھانا پکانے سے زیادہ اہم کام چولہا جلانا ہوتا تھا ۔۔۔ عام طور پہ زمینی چولہوں کا استعمال زیادہ تھا جن میں لکڑیاں جھونکی جاتی تھیں اور پھنکنی سے پھونک کر آگ بھڑکائی جاتی تھی بعد میں یہ پھونکنی بچوں اور زوجہ میں توانائی پھونکنے میں بھی وافر استعمال ہوتی تھی – چونکہ پکانے اور آگ سلگانے کے معاملات آج کی طرح آسان نہ تھے چنانچہ جس کسی بی بی کو خوف خدا بھی نہ رلائے اسے ایسے چولہے آٹھ آٹھ آنسو رلاتے تھے ،،، اس وقت گیس کہیں تھی اور کہیں نہ تھی تیل کے چولہے بھی تھے لیکن بہوؤں سے بخوبی و بروقت نپٹنے کے کام آتے تھے
اس دور میں ہر چند کے برائی زیادہ نہ تھی لیکن پھر بھی بچیوں بالیوں کو زمانے میں آنکھیں کھول کر چلنے کے الگ سے طویل تلقینی وعظ ضرور کیئے جاتے تھے اور حفظ ماتقدم کے طور پہ چٹیا ہی اتنی کس کر باندھی دی جاتی کہ انکی انکھیں خود بخود ہرممکن حد تک کھلی رہتی تھیں – کھانے پکانے کے بعد گھریلو خواتین دن کا زیادہ حصہ بچوں کو گھرکتے سرکھجاتے پان چھالی چباتے اور پڑوسنوں سے شوہر کو قابو کرنے کے گر سیکھتے سکھاتےگزارتی تھیں اگر پھر بھی وقت بچ رہتا توتازہ ترین بھڑکدار افواہوں و دیرینہ اندرونی غموں کا تبادلہ کرتے یا ریڈیو سنتے سمے بیت جاتا ۔۔۔ لیکن اب میں سوچتا ہوں کے ہائے وہ زمانے کہاں گئے ۔۔۔ وہ مہدی حسن کے خم کھائے گیت، نورجہاں کی تانیں اور ترانہ کے ترانے کدھر گئے ۔۔۔ اب تو وہ زمانہ عرصہ گزرا کے لد گیا ۔۔۔ اور نجانے کہاں گئے وہ سادگی کے دن ۔۔۔ اب تو شوہر بیچارے سہمے سہمے پھرتے ہیں کے خواتین کے جذبات کی نکاسی کے لیئے ٹی وی موبائل اور نیٹ انکا فوری مددگار بن کے آگیا ہے کہ جہاں پہ وہ آن کی آن ایک لاکھ روپے کی ساڑھی بچشم خود ملاحظہ کرسکتی ہیں اور اپنے شوہر کو ایک لاکھ طعنے مارکے اسکا بینک بیلنس فٹا فٹ ہلکان بھی کرسکتی ہیں تاہم اس نئے دور میں خواتین اب زیادہ مطمئن ہیں کہ اخراجات کے ملبے تلے دبے اپنے شوہروں کی اشک شوئی اور اظہار وفا کے لیئے وہ اب زیادہ بہتر پرفارمنس دے سکتی ہیں اور بھوکے شوہروں کے دل میں براستہ شکم اترنے کے لیئے فوری پزہ آرڈر کرکے خود کو بہت وفادار اور ذمہ دار ثابت کرنے کا جھٹ پٹ سامان بھی کرسکتی ہیں۔۔۔
—
S. Arif Mustafa
—