شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 18
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
آرزو لکھنوی. حسرتؔ موہانی
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 17 ۔ کے لیے کلک کریں
آرزوؔ لکھنوی (۱۸۷۲۔ ۱۹۴۹ء)
آرزوؔ لکھنوی لکھنؤ کے محترم اور معزز گھرانے میں پیدا ہوئے، اور انھوں نے اردو شاعر ی میں بعض ایسے شائستہ او راجتہادی کام انجام دیے جس کی وجہ سے اردو ادب کی تاریخ میں ان کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی اور ان کی شاعری ایک سنگ میل بن گئی انھوں نے اس بات کی کوشش کی کہ اردو میں فارسی اور عربی کے بھاری بھرکم الفاظ کو کم کیا جائے، اور زبان کو خالص ہندوستانی بنایا جائے، انھوں نے مشکل ، بوجھل اور دقیق لفظوں کے استعمال سے گریز کیا، ان کے یہاں زبان کی صفائی ہے، چنانچہ انھوں نے آسان زبان میں اور عربی وفارسی کے مشکل الفاظ سے پرہیز کرتے ہوئے غزلیں کہیں ہیں، جیسے یہ شعر :
اندھیرے میں کبھی چاندنی نہیں آتی
ہنسی کی بات پہ بھی اب ہنسی نہیں آتی
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے ہے جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی
حسن اور عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کا شعلہ جب لہرایا بڑھ کے چلا پروانہ بھی
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
دو تند ہواؤں پر بنیاد ہے طوفاں کی
یا تم نہ حسیں ہوتے یا میں نہ جواں ہوتا
کچھ کہتے کہتے اشاروں میں شرما کے کسی کا رہ جانا
وہ میرا سمجھ کر کچھ کا کچھ جو کہنا نہ تھا سب کہہ جانا
ہر برائی سے بچائے رکھتی ہے اتنی سے بات
آرزو ؔ ہر ایک کو اپنے سے اچھا جانئے
آرزوؔ لکھنوی کے اشعار سننے میں اور پڑھنے میں بہت مزا دیتے ہیں اور یہ اس لئے کہ ان اشعار میں عربی وفارسی کے ثقیل الفاظ نہیں آتے، شعر عام فہم ہوتا ہے، لیکن اس میں شعریت ہوتی ہے، اور اچھے شعر کی تمام خصوصیات اس میں پائی جاتی ہیں، ان کی زبان کوثر وتسلیم میں دھلی ہوئی ہوتی ہے، جہان آرزو اور فغان آرزو اور بیان آرزو کے نام سے ان کے اشعار کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
مولانا حسرتؔ موہانی (۱۸۸۲۔ ۱۹۵۱ء)
حسرتؔ موہانی کا نام سید فضل الحسن تھا، شاعری میں ان کا شمار غزل کے مجددین میں ہوتا ہے، کیوں کہ ان سے پہلے بہت سے مصلحین امت کا خیال تھا کہ اردو شاعر ی میں غزل ایک بے مقصد چیز ہے، کیوں کہ اس میں اصلاح کا کوئی پیغام نہیں ہے، مولانا حالی نے غزل کو بیکار قرار دیا، سر سید احمد خاں پھی مخالف ہوئے ، شبلی نعمانی اور محمد حسین آزادؔ نے بھی غزل سے بے اعتنائی برتی ، اور یہ محسوس کیا جانے لگا کہ غزل کا دور میر تقی میرؔ یا غالبؔ پر ختم ہوا، غزل مور د الزام ٹہری اور نظم کا چراغ روشن ہوا اس ماحول میں شادؔ عظیم آبادی نے پور ی طاقت کے ساتھ غزل کا چراغ روشن کیا، اور بیسویں صدی کے اوائل میں جب حسرتؔ موہانی نے دنیائے شاعری میں قدم رکھا تو تمام اصناف سخن میں غزل کو سب سے زیادہ موزوں پایا، اور انھوں نے غزل کو نئی زندگی، نیا آہنگ اور نیا وقار عطا کیا، حسرؔ ت موہانی کے دل میں حب الوطنی کا جذبہ ایک آتش کدہ بن گیا تھا، اور انھوں نے انگریزوں کی مخالفت کی اور اس کے لئے ان کو جیل بھی جانا پڑا ، اور قید با مشقت کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، اس لئے ان کا شمار مجاہدین آزادی میں ہوتا ہے، اور یہ ان کا شعر ہے:
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
جو چاہے سزا دے لو جی کھول کے کھل کھیلو
پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی
حسرت موہانی مطالعہ کے بے حد شوقین تھے، قدیم ادب اور شاعری کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا، اور اسی شوق کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے غالبؔ کے دیوان کی ایک شرح لکھ ڈالی، قید وبند کے مصیبتوں کے زمانے میں انگریزوں نے ان کا سارا کتب خانہ جلا ڈالا تھا، وہ انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے، پارلمنٹ کے رکن بھی بنائے گئے اور دستور سا ز اسمبلی میں بھی شریک ہوئے، لیکن ہر جگہ حق گوئی اور بے باکی کو اپنا شیوا بنایا۔
حسرتؔ سیاسی لیڈر اور مجاہد آزادی تھے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ان کی غزلوں میں بہت شوخی اور کہیں کہیں رنگینی بھی ہے، وہ محبت وعشق کی وارداتوں کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ یہ احساس ہوتا ہے کہ سامنے پردہ سیمی پر محبت وعشق کے مناظر دکھائے جارہے ہیں، انھوں نے محبت کے احساسات کو بے تکلف بیان کیا ہے ، لیکن فحاشی اور عریانیت سے اپنا دامن بچایا ہے ان کی ایک نظم نما غزل جو بہت مقبول ہوئی ہے یہ ہے:
چپ کے چپ کے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
با ہزاراں اضطراب وصد ہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگا نا یاد ہے
تجھ سے ملتے ہی وہ کچھ بے باک ہوجانا مرا
اور ترا دانتوں وہ انگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ مرا پردہ کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا منہ کو چھپانا یاد ہے
غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے
دوپہر کی دھوپ میں مجھ کو بلانے کے لئے
وہ ترا کوٹھے پر ننگے پیرآنا یاد ہے
آج تک نظروں میں ہے وہ صحبت راز ونیاز
اپنا جانا یاد ہے تیرا بلانا یاد ہے
حسرتؔ کی بہت سی غزلیں سادگی کے ساتھ پر کاری کا نمونہ ہیں جیسے یہ اشعار:
نگاہ ناز جسے آشنائے راز کرے
وہ کیوں نہ خوبیء قسمت پر اپنی ناز کرے
خرد کانام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
حسن بے پروا کو خود بین وخود آرا کردیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کردیا
غم آرزو کا حسرتؔ سبب اور کیا بتائیں
میری ہمتوں کی پستی میرے شوق کی بلندی
اور حسرتؔ موہانی نے خود اپنے بارمیں بجا طور پر کہا ہے :
دیار شوق میں بر پا ہے ماتم مرگ حسرت ؔ کا
وہ وضع پارسا اس کی وہ عشق پاک باز اس کا