ڈاکٹر پی محمد داؤد محسنؔ کی افسانہ نگاری
’’سناٹے بول اٹھے‘‘ کے حوالے سے
ڈاکٹرمحمد کلیم ضیاؔ
سابق صدر، شعبۂ اردو
اسمعٰیل یوسف کالج، جوگیشوری (مشرق)
ممبئی۔ ۰۶۰ ۴۰۰
اردو کے خدمت گاروں میں جہاں بڑے بڑے نام افقِ ادبِ اردو پر نظر آتے ہیں، وہیں میں انھیں بھی خادمِ اردو سمجھتا ہوں جو اپنی کم سے کم توانائی کو بھی اردو کے لیے صرف کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو اردو پڑھتے ہیں، وہ لوگ جو اردو لکھتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو اردو پڑھاتے ہیں سبھی خادمِ اردو کی فہرست میں شامل ہیں مگر میں اس شخص کو بھی اردو کا سچا خادم سمجھتا ہوں جو اپنے کسی دوست، احباب یا رشتہ دار کو دو جملے اپنے مکتوب میں اردو کے لکھتا ہے۔
ڈاکٹر بی۔محمد داؤد محسنؔ ان معنوں میں اردو کے ایک بڑے محسن بھی ہیں اور خدمت گار بھی کہ انھوں نے صنفِ شاعری کے ساتھ ساتھ اردو ادب کو بہت کچھ دیا اور نثری ادب میں تنقیدی، تحقیقی اور علمی نگارشات کے علاوہ کئی تراجم، خاکوں، تبصروں اور افسانوں سے بھی اردو ادب کو نواز اہے۔ اردو زبان و ادب سے ان کی محبت محض جذباتی نہیں، علمی و عملی بھی ہے۔ داؤد محسن افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ شاعر بھی ہیں اس لیے وہ اپنی شاعری اور افسانہ نگاری دونوں اصناف کو اپنے اظہار کا وسیلہ بناتے ہوئے سماج اور معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں پر اپنی بر افروختگی اور احتجاج درج کراتے ہیں۔ ان کے اندر جو ذمہ داری کے احساس کی شدت ہے یہی ان کے افسانوں کی روحِ حرارت بن کر دوڑ رہی ہے۔
ڈاکٹر داؤد محسنؔ کا افسانوی مجموعہ ’’سناٹے بول اٹھے‘‘ میں پندرہ افسانے ہیں۔ ایک ادیب مثبت اقدار کا نقیب ہوتا ہے۔ خود غرضیاں، تعصب، تنگ نظری اور اخلاقی پستی معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کا توازن بگاڑ دیتے ہیں۔ شاعر اور افسانہ نگار معاشرے کی وہ آنکھ ہے جو کسی بھی عضو کے مبتلائے درد ہونے پر رو پڑتی ہے۔ داؤد محسن کے افسانے اسی درد کا اظہار ہیں۔ اس بات پراظہار خیال کرتے ہوئے وہ بذات خود لکھتے ہیں:
دورِ حاضر میں ہمارے سماج میں ایک کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ اسی کنفیوژن کی بدولت ذہنی کرب، انتشار اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ در حقیقت یہ صورت حال کسی بھی ملک، کسی بھی قوم اور کسی بھی سماج کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔
یہ افراتفری، انتشار، بے یقینی، بے اطمینانی اور بے چینی زندگی کے ہر شعبہ میں ملے گی۔ اس کا عکس ہمیں ادبی شہ پاروں میں کچھ زیادہ ہی ملے گا کیوں کہ ادیب یا شاعر نہایت حساس ہوتا ہے اور وہ سماج کا ایک نباّض ہوتا ہے۔ سماج اور معاشرے میں رونما ہونے والے حالات و واقعات پر نظر رکھتا ہے۔ وہ اسے نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ اس سے متاثر ہوکر اپنے فن میں پیش کرتا ہے۔‘‘
(افسانہ کے جواز میں ۔۔۔۔۔۔سناٹے بول اٹھے)
داؤد محسنؔ کے افسانے مشاہدات، تجربات محسوسات اور حقائق پر مبنی ہیں۔ وہ گنگا جمنی تہذیب کے نقیب ہیں۔ قومی یک جہتی اور مساوات کو بڑھاوا دیتے ہیں اور آشتی و بھائی چارگی کی عکاسی کرتے ہیں، مگر ظاہر ہے کہ جب سماج اور سماجی قدریں، روایات اور روایتی تقدیس کے حامل رشتے بے معنی ہوچکے ہوں تو پھر دیس کہاں بچا اور جب دیس ہی اپنی قدروں اور اپنی ثقافتی شناخت سے محروم ہوچکا ہوتو اس کے نام پر لڑنا اور جان دینا، گنگا جمنی تہذیب کا خیال رکھنا اسے قائم رکھنے کی سعی کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
داؤد محسنؔ بدلتی تہذیبی قدروں سے بھی نالاں ہیں اور انھیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ کس طرح ہمارا معاشرہ اور ہمارا ملک بلکہ مذہبی روایات کو مغربی طرز معاشرت، رسم و رواج کھوکھلا کرتے چلے جا رہے ہیں اور ہمارا نوجوان طبقہ ان کی لائی ہوئی لعنت میں گرفتار ہوکر اپنی دنیا و آخرت تباہ کررہا ہے۔ افسانہ سسکتی تہذیب میں وہ معاشرے کے اسی پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مجموعہ کا پہلا افسانہ ’’اڑواڑ‘‘ ہے جو ایک غریب خاندان کی داستان ہے۔ جہاں اس میں وہ غریبی کی مجبوریوں پر اپنے طرز میں روشنی ڈالتے ہیں وہیں اس حقیقت سے پردہ بھی اٹھاتے ہیں کہ انسان اپنی خود غرضی کے لیے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ اس سے وابستہ افراد کس قسم کی قربانیاں دیتے ہیں اور ان قربانیوں کا انھیں کیا صلہ ملتا ہے۔
افسانہ’’ عکس در عکس‘‘ اس سماجی مجبوری کی عکاسی کرتا ہے جسے چند افراد نے اغوا کر رکھا ہے اور حقیقی مسائل سے افراد کی توجہ ہٹاکر مصنوعی مگر جذباتی مسائل پیدا کر دیے گئے ہیں، آپس میں نفرت پھیلانے والے اور ایک دوسرے کو بانٹنے والے ہیں، تاکہ مجبور اور غریب افراد ان میں الجھ کربے روزگاری، مہنگائی اور بھکمری کی طرف سے توجہ ہٹا لیں۔ اس کے لیے اگر ہندوستان کی قدیم گنگا جمنی تہذیب کا خون بھی ہوجائے تو اس کی انھیں کوئی پرواہ نہیں۔
افسانہ ’’سناٹے بول اٹھے‘‘ ایک بے حد جذباتی افسانہ ہے جو بیسویں صدی کی آخری دہائی کی یادگار محسوس ہوتا ہے۔ یہاں بھی اسی گنگا جمنی تہذیب کا خون ہوتے دکھایا گیا ہے۔ بیسویں صدی کا آخری عشرہ اور اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ ہندوستانی تاریخ کا خوفناک خونی باب ہے۔ ان بیس برسوں میں ہندوستانی فرقہ پرست سیاست دانوں نے جس قدر نفرت کی آگ بھڑکائی ہے، شاید تقسیم ہند کے وقت بھی نہ بھڑکائی ہوگی۔ اس آگ میں دوستی اور بھائی چارے کے تمام مقدس رشتوں کو پامال کیا گیا اور دوستوں کی نظریں بدلنے میں وقت نہ لگا۔ اس افسانہ میں بابری مسجد قضیے سے لے کر گجرات فسادات تک کی تصویریں صاف نظر آتی ہیں، جنھیں داؤد محسن نے اس افسانہ کو علامتی طور پر پیش کردیا ہے۔ یہ ان کے قلم کی واقعی عمدہ تخلیق ہے۔
افسانہ ’’بھوک‘‘ اس مجموعہ کا پانچواں افسانہ ہے جس میں شہر میں پائی جانے والی ایک ایسی بھوک کی طرف اشارہ ہے جس نے شہری ماحول کو بدنام اور خراب کر رکھا ہے۔ یہ جنسی بھوک ہے اور شہر میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس کے سودا گر ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جو ہر بڑے شہر میں پائی جاتی ہے۔
’’آوارہ کتے‘‘ یہ افسانہ بھی اس سماجی برائی پر ایک گہرا طنز ہے جس میں عوام کی فلاح و ترقی کے لیے حکومتی خزانے کو خالی کرنے کی ایک ترکیب ہے، جہاں حکومتی اداروں میں ایسے غیر سنجیدہ افراد کا قبضہ ہوتا ہے جو سرکاری خزانے کودیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور عوام حسبِ معمول روز مرہ کی پریشانیوں سے جھوجھ رہے ہیں۔ داؤد محسن نے طنز کے ساتھ ساتھ اس افسانہ میں مزاح بھی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسانہ ’’دم دار لوگ‘‘ اور ’’مچھروں کی کانفرنس‘‘ بھی اسی قبیل کے افسانے ہیں جن میں طنز و مزاح کا سہارا لیتے ہوئے داؤد محسن نے معاشرے اور سیاست دانوں پر گہری چوٹ کی ہے۔ افسانہ ’اجنبی‘ بھی معاشرے کے رنگ پر ایسی ضرب ہے جس کے تحت ایک شریف آدمی بھی غلط کار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ آج ایک انسان کا اعتماد دوسرے انسان پر سے کس طرح رخصت ہو چکا ہے اس کا اندازہ اس افسانہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ آخر کے تمام افسانے گھریلو معاملات پر مبنی ہیں اور خاندانی ہیجان، کرب، نفرت، محبت اور زندگی کے اتار چڑھاؤ کو پیش کرتے ہیں۔ داؤد محسن نے خطوط کی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے دو افسانے تحریر کیے ہیں ۔ دورِ حاضر میں یہ تکنیک ناپید ہوتی جارہی ہے۔ ’نصیب اپنا اپنا‘ اور ’اشکوں کی بارات‘ وغیرہ افسانوں میں معاشرتی مسائل کی عکاسی اس انداز سے کی گئی ہے کہ وہ ہماری اپنی کہانی محسوس ہونے لگتی ہے۔
داؤد محسنؔ بلاشبہ کمال کے افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے افسانوں کی قدیم روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مکمل افسانے تحریر کیے ہیں جن میں افسانوں کے اجزا کو بخوبی استعمال کیا گیا ہے اور اصولوں اور اجزائے ترکیبی کی پاسداری بھی کی گئی ہے۔ ان کے افسانوں میں واقعہ نگاری، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، منظر نگاری، زبان و بیان، زماں و مکاں، تصادم، عروج اور خاتمہ وغیرہ کی پوری رعایت رکھی گئی ہے۔اگرچہ ان کی تحریروں میں مقامی زبان کی آمیزش بھی جابجا نظر آتی ہے جس کی وجہ سے زبان کچھ کمزور ہوتی ضرور نظر آتی ہے۔ اسی طرح بعض مقامات پر قواعد کی کمزوری بھی محسوس ہوتی ہے۔ افسانہ کا ایک جز زماں و مکاں اور وحدت تاثر بھی ہے بعض جگہوں پر ان میں بھی کچھ فقدان سا نظرآتا ہے جس پر انھیں مزید محنت کی ضرورت ہے۔ افسانہ زندگی کی کہانی کا ایک وسیع کینواس ہے اسے نہ تو کہانی اور مکالمہ اور نہ موضوع کے اعتبار سے محدود کیا جاسکتا ہے اور نہ اس صنف کی کوئی واضح اور مکمل تعریف کی جاسکتی ہے۔ دنیا میں رونما ہونے والے تمام واقعات اور در پیش مسائل کو ایک حساس نظر افسانہ بنا کر پیش کر دیتی ہے، اسی کا نام دراصل افسانہ ہے۔ اسے کینواس پر کتنا پھیلایا جا سکتا ہے یہ افسانہ نگار کی اپنی استطاعت پر منحصر ہے کہ تاثر اور تاثیر کو قائم رکھتے ہوئے افسانہ کو طول دے یا مختصر کردے۔ دونوں صورتوں میں مقصدِ افسانہ فوت اگرنہ ہو اور تاثر اور تاثیر برقرار رہے، دراصل یہی افسانہ نگار کے فن کا کمال ہے۔ مقام خوشی ہے کہ داؤد محسن نے کما حقہ اس کا خیال رکھا ہے اور معاشرے کی نبض کو ٹٹول کر اس کی اصلاح کرنے کی پوری کوشش کی ہے جو ان کے افسانوں کی بڑی خوبی ہے۔ دعاہے کہ اﷲ تعالیٰ انھیں اسی طرح اردو کی خدمت گزاری پر قائم و دائم رکھے اور اردو ادب میں اضافے کا ذریعہ بنائے آمین۔
***
Dr.Md.Kaleem Zia