حضرت امجدؔ حیدرآبادی کی رباعیاں
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
حضرت سید احمد حسین امجدؔ حیدرآبادی کا شمار بلند پایہ حقیقت نگار شعراء میں ہوتا ہے ۔ آپ کی شاعری کا محور درحقیقت اخلاق اور روحانی تعلیم ہے شاعری کو ایسے سمندر سے تشبیہ دیں جس میں طوفان ‘ تلاطم برپا تو امجد اس سمندر کے ایسے شناور ہیں جن کی نظیر مشکل سے ملے گی ۔ امجدؔ اپنے پاکیزہ ‘ حکیمانہ کلام کے باعث آسمان شاعری کے مہر درخشاں ہیں۔
حضرت سید سلیمان ندوی ناظم دارالمصنفین نے اپنے ممتاز ومعروف رسالہ ’’ معارف‘‘ فروری۱۹۳۳ء کے شذرات میں رقم طراز ہیں کہ کسی بھی شاعر وادیب کے تعارف پر یہ شیوہ نہیں دیتا کہ انہیں خطابات بانٹے جائیں ۔ لیکن امجد کی نوبہ نو حکمت آموز شاعری نے انہیں اعتراف فضل پر مجبور کردیا کہ انہیں حکیم الشعراء سے یاد کیا جائے یہ دراصل امجد کی شاعرانہ خوبیوں کا اعتراف تھا ۔ لیکن ان کی اردو رباعیاں ایسی بلند پایہ نصیحت آموز درس عبرت کیلئے شاہکار ہیں کہ اردو ادب میں شاید ہی ان کا ثانی مل سکے ۔ البتہ فارسی ادب میں عمر خیام ‘ سلطان ابوسعید ابوالخیر سبحانی نجفی اور سرمد نے رباعی گوشعراء کی حیثیت سے اپنا اعلیٰ و ارفع مقام پیدا کیا پھر ان کا کوئی ثانی نہ ہوسکا ۔ باوجود اس کے اللہ رب العزت کو اپنی قدرت کا ثبوت دینا مقصود تھا لہٰذا قدرت نے سرزمین دکن سے مسلسل حادثات زندگی کی شکار شاعری کی صنفِ رباعی کو اس طرح ودیعت بخشی کہ اردو ادب کو صنف رباعی میں امجد حیدرآبادی پر ایسا فخر وناز حاصل ہوگیا کہ پھر کوئی ایسا منفرد رباعی گو شاعر پیدا نہ ہوسکا ۔ سچ پوچھئے تو امجد حیدرآبادی ہی پہلے شاعر ہیں جنھیں رباعی گوشعراء کی حیثیت سے خاص شہرت ملی ۔
امجدؔ حیدرآباد ی نے یوں تو تمام اصناف شاعری پرطبع آزمائی کی لیکن صنف رباعی کے باعث امجد کوشہرت دوام ملی بلکہ آج تک ایسا رباعی گو شاعر پیدا نہ ہوسکا ۔ اردو ادب کو امجد حیدرآبادی کی رباعی گوئی پر بڑا ناز ہے ۔
اصحاب سخن داں نے لکھا ہے کہ چوتھا مصرع خاص کر پہلے مصرعوں سے زیادہ شان دار اور اہم ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ اسی مصرع پر شاعر کی تان ٹوٹتی ہے ۔ یہ مصرع ایسا ہوتا ہے کہ سننے والے کے دماغ میں اس کی گونج دیر تک باقی رہتی ہے ۔ فارسی زبان میں کئی شعراء رباعی گوئی میں اپنا لوہا منواچکے ہیں۔ جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے یو ں توکئی شعراء نے رباعیاں کہی ہیں اور کہتے رہتے ہیں۔ میرانیس ‘ دبیر ‘ شادعظیم آبادی کی بعض رباعیاں بلا شبہ مایہ ناز اور دلچسپ وسبق آموز ہیں۔ مگر امجد حیدرآباد کی رباعیاں اردو دنیا میں جو شہرت و مقبولیت حاصل کرچکی ہیں شاید آج تک کسی اور شاعر نے ایسی رباعیاں نہیں کہیں ۔ بعض اہل فن کا خیال ہے کہ امجدؔ حیدرآبادی کی رباعیوں میں وہی رنگ ہے جو سرمد کی رباعیوں میں ہے ۔ اس لئے اکثر مداح انہیں ان کی زندگی میں ’’ زندہ سرمد‘‘ کہا کرتے تھے ۔ امجد کا رباعیاں سنانے کا انداز بھی عجیب مستانہ وار ہوتا تھا ۔ جس سے صاف معلوم ہوتا تھاکہ جو خیالات وہ پیش فرمارہے ہیں وہ ان کے دل کی آواز ہیں ۔
امجد ؔ کی رباعیوں کا تعلق ان کی اپنی ذات سے ہے اور تعارف اور ’’ تحدیثِ نعمت‘‘ کے طور پر آپ کی ہی زبان سے ادا ہوئی ہیں۔ فرماتے ہیں
سید احمد حسین ہو امجد ہوں
حسان الہٰذ ثانی سرمد ہوں
کیا پوچھتے ہو حسب نسب کومیرے
میں بندہ لم یلد ولم یولد ہوں
اسی طرح ایک دوسری رباعی
سید احمدحسین امجدؔ ہوں میں
امجد ہوں میں جواب سرمدہوں میں
گوندھی ہوئی ہے نور سے مٹی میری
خاک قدم پاک محمدؐ ہوں میں
ایک اور رباعی میں فرماتے ہیں
ہر نقطہ وحروف کا م کرجاتا ہے
دامن گل معرفت سے بھرجاتا ہے
امجد کا کلام کوئی خنجر تو نہیں
کیوں دل میں ہر ایک کے اتر جاتا ہے
امجدؔ کے کلام سے محظوظ ہونے والوں کے لئے خود امجدؔ حیدرآبادی کا پیغام ہے
اک خستہ جگر کی روح کو شاد کرو
ویرانہ دل کو اس کے آباد کرو
امجد کے پیام کا یہی مقصد ہے
امجد کو دعائے خیر سے یاد کرو
آج کا دور بظاہر ہر الحادودہریت ‘ بے دینی اور بیزاری ‘ مسلمانوں کے قول وفعل میں تضاد‘ بے راہ روی ‘ شرک‘ قبرپرستی وغیرہ کا ہے اس کو مدنظر رکھ کر امجد ؔ حیدرآباد نے مختلف رباعیاں قلم بند فرمائی ہیں جو قوم کے لئے عطیہ اکرم ہیں ۔ فرماتے ہیں
میری کوشش چل نہیں سکتی
تیری مشیت ٹل نہیں سکتی
میرے بنائے کچھ نہیں بنتا
لا الہ الا انت
دل ہے سینے میں دل میں ایمان نہیں
کہنے کو تو زندہ ہیں مگر جان نہیں
سب کہتے ہیں دنیا میں مسلمان ہیں تباہ
ہم کہتے ہیں دنیا میں مسلمان نہیں
تو کان کا کچا ہے تو بہرا ہوجا
بدبیں ہے اگر آنکھ تو اندھا ہوجا
گالی ‘ غیبت ‘ دروغ گوئی کب تک
امجد کیوں بولتا ہے گونگا ہوجا
غیر اللہ کے خاشاک کو جلانا اور ایک ہی ذات واحد اللہ پاک سے اپنی تمام ضروریات ‘ حاجات اور امیدوں کو وابستہ کرنا مومن کی زندگی کی سب سے بڑی پہچان ہے ۔ قرآن عظیم کی متعدد آیات اور نبی معظم صلعم کے ارشادات میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے ‘ امجدؔ حیدرآبادی نے اسی کو کتنے موثر انداز میں پیش کرنے کی سعی کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔
ذرے ذرے میں ہے خدائی دیکھو
ہر بت میں ہے شان کبریائی دیکھو
اعداد تمام مختلف ہیں باہم
ہرایک میں ہے مگر اکائی دیکھو
راز اپنااگر خدا پر ہو یدا ہوجائے
انسان فرشتوں سے بھی اونچا ہوجائے
امجد وہ شخص کیا نہیں کرسکتا
جس کو اللہ پر بھروسا ہوجائے
ہر دم اس کی عنایت تازہ ہے
اس کی رحمت بغیر اندازہ ہے
جتنا ممکن ہے کھٹکھٹا تے جاؤ
یہ دست دعا خدا کا دروازہ ہے
ہر چیرکا کھونا بھی بڑی دولت ہے
بے فکری سے سونا بھی بڑی دولت ہے
افلاس نے سخت موت آسان کردی
دولت کا نہ ہونا بھی بڑی دولت ہے
اسباب وعلل کا دور کرتے رہئے
اپنی فطرت پہ جرر کرتے رہئے
جوکچھ ہونا تھا ہوچکا رک نہ سکا
اب کیوں ہو ا اس پر غور کرتے رہئے
ہم راہ کرم حسن عمل تلتا ہے
احسان سے باب لطف حق کھلتا ہے
ہمدردی غیر میں ہے اپنا بھی بھلا
کپڑا دھونے سے ہاتھ بھی دھلتا ہے
ہر شخص کو خوش رکھو عید یہ ہے
ہرچیز اچھا کہو تحمید یہ ہے
مخلوق خدا ہے سب کی مخلوق
سب کو تم ایک سمجھ توحید یہ ہے
ہر ذی علم جانتا ہے کہ علم کے ساتھ عمل بھی ہونا ضروری ہے ۔ اس لئے جتنے بھی فنون سے متعلق علوم ہوتے ہیں نظری تعلیم ( تھیورٹیکل ایجوکیشن) کے ساتھ ہی عملی تعلیم ( پریکٹیکل ایجوکیشن) لازمی قرار پاتے ہیں۔ ایک بار ممتاز عالم دین یعنی حضرت علامہ مفتی محمد رحیم الدین ؒ نے اہل علم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ایسا نہ ہو کہ تم علم کی چاشنی لے لو اور عمل کی تلخی کو چھوڑ دو اسی لئے نبی ممتاز ومعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غیر نافع علم سے خدا کی پناہ مانگی ہے ۔ ایک صاحب دل بزرگ کا قول ہے کہ علم بڑاغیور ہے وہ پہلے عمل کے دروازے پر دستک دیتا ہے جب جواب نہیں ملتا تو واپس لوٹ جاتا ہے ۔ اسی کو امجد ؔ حیدرآبادی نے کس موثر انداز میں رباعی میں قلمبند کردیا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے
راہ خدا سے ہٹ نہیں سکتا کبھی قدم
انسان کے دماغ میں جب تک خلل نہ ہو
اس علم پر ہے علم کا اطلاق ہی غلط
جس علمن کا نتیجہ لازم عمل نہ ہو
ایک اور رباعی ملاحظہ فرمائیے
ہم صحبت بے خرد پریشان رہا
نافہم کو سمجھا کے پشیمان رہا
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہ گئی
نادان کو الٹا بھی تونادان رہا
عموماً حضرت انسان اپنی قدر ومنزلت اور وں سے طلب کرنے کے متقاضی ہوتے ہیں اور نہ ہونے پر شکوہ بھی کرنے لگتے ہیں ۔ امجد حیدرآبادی نے اسی کو اپنی دورباعیوں میں موثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے
دیتا نہیں جائے کامرانی کے لئے
مجلس یہ نہیں مرثیہ خوانی کے لئے
جب تک زندہ رہو واللہ خدا کہتا ہے
کیا روتے ہو اپنی قدردانی کے لئے
کیا فکر ہے کوئی قدرداں ہو کہ نہ ہو
جھوٹی دنیا میں عزوشان ہوکہ نہ ہو
اللہ مسرت حقیقی دے دے
ہم زندہ رہیں نام ونشان ہو کہ نہ ہو
کسی کا دل دکھانا گنا ہ عظیم ہے ۔ دل خانہ خدا ہے گویا دل تو ڑنا خانہ خدا کو توڑنا ہے ۔امجد حیدرآبادی فرماتے ہیں
مغموم کے قلب مضمحل کو توڑا
یا منزل فیض متصل کو توڑا
کعبہ ڈھاتا تو پھر بنالیتے
افسوس یہ ہے کہ تو نے دل کو توڑا
ایک اور رباعی ملاحظہ فرمائیے
وار اپنا پلٹ پڑا ہمیں پر
رونا پڑا غیر کو ستاکر
جلتی رہی شمع عمر ساری
دم بھر پروانے کو جلا کر
کوئی انسان ایسا نہیں جس کی زندگی مصائب اور مشکلات کا شکار نہ ہو ۔ سختی اور آسانیاں ہر انسان کو صبر کرنے کی تلقین کرتی ہیں ۔ اسی مفہوم کو امجدؔ حیدرآبادی نے کس عمدگی سے قلمبند کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو
بے صبر کی جان ہمیشہ گھبراتی ہے
تسکیں کسی طرح نہیں پاتی ہے
آسان ہوتی ہے صبر سے ہر مشکل
ہر فصل میں کلید ٹھیک آتی ہے
ایک اور رباعی ملاحظہ فرمائے
دل کی ہر خلش نکل جاتی ہے
آتی ہے اگر بلا تو ٹل جاتی ہے
سختی سے حوادث کے نہ گھبرا مجدؔ
یہ برف کوئی دم میں پگھل جاتی ہے
یہ رباعی بھی ملاحظہ فرمائیے
کچھ وقت سے اک بیج شجر ہوتا ہے
کچھ روز میں ایک قطرہ گہر ہوتا ہے
اے بندہ ناصبور تیرا ہر کام
کچھ دیر میں ہوتا ہے مگر ہوتا ہے
اس رباعی میں امجدؔ حیدرآبادی کی قادر الکلامی کا پتہ چلتا ہے
گیسو میں ہے بل کے میرخم کر دیکھ
رخ ہنستا ہے کہ اس ستم کو دیکھ
اظہار کمال میں ہر ایک کامل ہے
سب کی یہی خواہش ہے کہ ہم کودیکھ
وحدتِ وجود کے مسلک کو کس خوبی سے اس رباعی میں قلمبند فرمایا ہے
ہیں مست مئے شہود تو بھی میں بھی
ہیں مدعئ نمود تو بھی میں بھی
یاتو ہی نہیں جہاں میں یا میں ہی نہیں
ممکن نہیں وجود تو بھی میں بھی
فلسفہ نماز پر کچھ رباعیاں ملاحظہ فرمائیے
دامان گناہ چاک ہوجاتا ہے
نفس سرکش ہلاک ہوجاتا ہے
مومن کے لئے عجیب نعمت ہے نماز
سرخاک پہ رکھ کے پاک ہوجاتا ہے
پایا نہ حیات کا ثمر ایک دن بھی
ہم کو نہ ہو ا خدا کا ڈر ایک دن بھی
کیا حق ہے زمین پہ پاؤں رکھنے کا ہمیں
رکھا نہیں جب سجدے میں سر ایک دن بھی
امجد صاحب نے قرآن کی تفاسیر سے بھی استفادہ کیا بلکہ متعدد آیات کریمہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے رباعیاں قلمبند فرمائیں۔ ملاحظہ فرمائیے
سورہ آل عمران کی آیت’’ وتعزمن تشا وتزل من تشا‘‘( پارہ۳ آیت۲۶)
( ترجمہ : اور جس کو چا ہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل کرے )
ہر ذرہ پہ فضل کبریا ہوتا ہے
اک چشم زدن میں کیا سے کیا ہوتا ہے
اصنام دبی زبان سے یہ کہتے ہیں
وہ چاہے تو پتھر بھی خدا ہوتا ہے
سورہ شوریٰ کی آیت’’ وہوالذی نزل الغیث میں بعد ماقنطوا‘‘(پارہ۲۵۔ آیت۲۸) ‘ ( ترجمہ : اور وہی تو ہے جو لوگوں کے نامید ہوجانے کے بعد مینہ برساتا ہے)
اے قطرہ آب پھیل دریا ہوجا
اے طائر روح مرغ سدرہ ہوجا
اپنی ہستی کو خاک میں دفن نہ کر
اے تو دہ خاک اٹھ بگولہ ہوجا
سورہ انفال کی آیت ’’ حسبنااللّٰہ ونعم الوکیل ‘‘( پارہ۹آیت ۴۰)‘( خدا ہی تو تمہارا حمایتی ہے )
ہرچیز مسبب سبب سے مانگو
منت سے خوشامد سے ادب سے مانگو
کیو ں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو
بندے ہوگر رب کے تو رب سے مانگو
سورہ رحمن کی آیت ’’ کل من علیہا فان ‘‘ ( پارہ۲۷۔ آیت ۲۶)( جو ،(مخلوق) زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے )
ضائع فرمانہ سرفروشی کو میری
مٹی میں ملا نہ گرم جوشی کو میری
آیا ہوں کفر پہن کے اے رب غفور
دھبہ نہ لگے سفید پوشی کو میری
سورہ آل عمران کی آیت’’ وکفر عنا سیٰا تنا ‘‘(پارہ۳ ‘ آیت۱۹۳)( ترجمہ :۔ اور ہماری برائیوں کو ہم سے محوکر)
او دامن مدعا کے بھرنے والے
قرآں کی طرح دل میں اترنے والے
دل سے مرے دور کردے باطل خطرات
کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے والے
ہرانسان کے لئے قدرت نے اس کی ’’ ہونی ان ہونی ‘‘ روزاول سے ودیعت کردی ہے ۔ لہٰذا مقدر سے زیادہ وقت سے پہلے کوئی امر بھی ناممکن ہے ۔انسان کو چاہئے کہ ہر ممکن تدبیر کرتا رہے اور اپنے مقدر پرشاکر رہے ۔امجدؔ حیدرآبادی نے کس موثر انداز میں فلسفہ تقدیر کو قلمبند کیا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں
کھیتی میرے فلسفہ کی پکتی ہی نہیں
تدبیر سے تقدیر چمکتی ہی نہیں
کھاتی ہے ہمیشہ منہ کی لیکن پھر بھی
یہ ’’ کیا ‘‘ وہ ’’ کیوں ‘‘ سے عقل تھکتی ہی نہیں
ساری دنیا سے ہاتھ دھوکر دیکھو
جو کچھ بھی رہا سہاہے کھو کر دیکھو
کیا عرض کروں کہ اس میں کیا لذت ہے
ایک مرتبہ تم ایک کے ہو کر دیکھو
تقدیر سے کیا گِلہ خدا کی مرضی
جو کچھ بھی ہوا ‘ ہوا خدا کی مرضی
امجدؔ ہر بات میں کہاں تک کیو ں کیوں
ہر کیوں کی ہے انتہا خدا کی مرضی
حضور نبی معظم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النّبیین ہونے پر شعرائے کرام نے خوب طبع آزمائی کی ہے ۔ مگر امجدؔ حیدرآباد کی اس زوداثر رباعی کو ملاحظہ فرمائیے
رُخ مہر ہے قدخط شعاعی کی طرح
ہے جگہ اُمت میں وہ داعی کی طرح
اس خاتم الانبیاء کا آخرمیں ظہور
ہے مصرعہ آخری رباعی کی طرح
حیدرآباد کے مایہ نازوممتاز ومعظم منفرد لب ولہجے کے شاعر حضرت امجدؔ حیدرآبادی نے نہ صرف رباعی کو نقطہ عروج تک پہنچا یا بلکہ اپنے احباب و مداحوں کی شخصیتوں سے متاثر ہو کر اپنے گراں قدر کلام کے ذریعہ ان کی شخصیتوں کو بھی اجاگر کردیا جن پر تاریخ ادب اردو ہمیشہ ناز کرتی رہے گی ۔کچھ شخصیتوں پر امجد حیدرآبادی کا خراج عقیدت پیش ہے ۔
ممتازیار الدولہ نے مدرسہ آصفیہ ملک پیٹ حیدرآباد کا قیام عمل میں لایا اور بعد میں ممتاز کالج کی بنیاد بھی ڈالی ۔ آپ کا مقبرہ آج بھی ممتاز کالج کے میدان میں ہے ۔ بانی مدرسہ کو حضرت امجد کا خراج عقیدت پیش ہے
ہر وقت جو بج رہا ہے وہ ساز ہے تو
گھر کرتی ہے جو دل میں وہ آواز ہے تو
اے مدرسہ آصفیہ کے بانی
ہمدردی اسلام میں ممتاز ہے تو
ڈاکٹر مولوی عبدالحق صاحب امجد کے خاص دوستوں میں تھے جب کرنول میں کالج کا قیام عمل میں آیا تو کالج کو دیکھ کر فرمایا
کیا کالج بنا دیا ہے تم نے
سرسید کو جگا د یا ہے تم نے
اے عبدالحق خدا جزا دے تم کو
کیا حس عباد ادا کیا ہے تم نے
حیدرآباد کے مشہور ممتاز صنعت کار احمد علاؤ الدین صاحب نے قلب شہر میں وسیع بلند وبالا عمارت ’’ مدینہ بلڈنگ ‘‘ کے نام سے تعمیر کروا کر مدینہ والوں کے نام وقف کردی ۔۱۹۵۰ء سے پہلے کی بات ہے جو بھی حضرات حج کے لئے تشریف لاتے تو حاجیوں سے دامے درمے سخنے مدد واعانت حاصل کرکے اپنا گذار کرتے تھے ۔ اس حالات کو دیکھ کر فرمایا کیا بندہ مولاطلب اللہ نے پیدا کیا
جس نے خدا کی راہ میں جو کچھ تھا اپنا دیا دیا
لی ہیں دعائیں کس قدر طیبہ کے ہر مکیں سے
لے کوئی دنیا میں سبق احمد علاؤ الدین سے
اتفاق سے ایک دن احمد علاؤ الدین صاحب سخت علیل ہوگئے اور بفضل تعالیٰ شفایاب ہو کر غسل صحت فرمایاکر مجبور ولا چار افراد اور دوست و احباب کو طعام خاص پر مدعو کیا ۔ حضرت امجد صاحب کو مدعو کیا تو فرمایا
خدا دوست احمد علادین کا
بہ فضل خدا غسل صحت ہوا
رہوشادو آباد عزت کے ساتھ
جیودین و دنیا میں صحت کے ساتھ
نواب بہادر یارجنگ نے ایک کتب خانہ ’’ بیت الامت ‘‘ کے نام سے کھولا اور اس کے مطالعہ عام کے لئے انتظامات فرمائے تو امجد صاحب نے کہا
سرمایہ علم وقف ہرملت ہے
ہر طالب علم کے لئے نعمت ہے
یہ مخزن علم قائد ملت
بیت الامت میں علم کی دولت ہے
آج حضرت امجد ؔ ہمارے درمیان میں نہیں ہیں ۔ سچ پوچھئے تو بہت سوں نے جیتے جی ان کی قدر نہ جانی ۔حقیقت یہ ہے کہ آج بھی آپ کا یوم پیدائش یا ولادت اور یوم وفات ’’ زمین مردہ ‘‘ کی پردردہ ہماری بے حس قوم کے کیلنڈر سے ایسے محو ہوگئے ہیں جیسے ان دوتاریخی ایام کی کوئی اہمیت و معنویت بھی نہیں رہی ۔
———–
Md.Raziuddin Moazzam