نام کتاب : شیرازۂ افکار (مجموعۂ مضامین)
مصنفہ: تمنا شاہین
تبصرہ نگار: غلام نبی کمار
07053562468
زیرِ تبصرہ کتاب’’ شیرازۂ افکار‘‘ محترمہ تمنا شاہین کے مضامین کا پہلا مجموعہ ہے۔ 168 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں پندرہ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ مصنفہ و مرتبہ تحقیقی کام میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ فنِ مضمون نگاری ، مقالہ نگاری اور افسانہ نگاری میں بھی اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ زیرِ نظر کتاب ان کی تخلیق و تنقید کی پہلی کاوش ہے جو معتبر بھی ہے اور مستند بھی۔
تمنا شاہین نے فہرست مضامین کی ترتیب دینے کے بعداس کتاب کا ’’پیشِ لفظ‘‘ تحریر فرمایا ہے۔جس میں انھوں نے اپنے تحریر کردہ مضامین کوبے حد خوش سلیقگی سے کتابی شکل دینے کی وجوہات اور محرکات بیان کیے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کے آ غاز کا ذکر بھی چھیڑا ہے۔ اس کتاب کا پہلا مضمون’’ بنارس ماضی و حال کے آئینے میں(تاریخی، سیاسی و سماجی منظر نامہ)‘‘ کے عنوان سے قلمبند کیا گیاہے۔ چونکہ مصنفہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہے اس لئے بنارس میں ان کا اچھا خاصا وقت گذرا ہے اورجس کی بنیاد پر انہیں شہر بنارس کی خصوصیات کا عمومی طور پر جائزہ لینے کی سعادت بھی حاصل ہو چکی ہے۔اس لئے مذکورہ مضمون میں انھوں نے بنارس کے تئیں اپنی عقیدت کا والہانہ اظہار اپنے بھر پور فنی اور تخلیقی صلاحیت کے بل بوتے پر کیا ہے۔
مذکورہ کتاب کاسب سے طویل مضمون بھی ہے جو کہ اٹھائیس صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ موصوفہ نے اس مضمون میں بنارس کی تاریخی، مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور سیاحتی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ادبی حیثیت اور خصوصیات بھی بیان کی ہے۔ ملک کے ہر اہم واقعے کا بنارس چشم دید گواہ ہے اور اس کے ہر فعل میں اس شہر کا نہایت اہم کردار رہا ہے۔ بقول مصنفہ ’’ غدر کا زمانہ ہو یا پہلی جنگِ عظیم ، آزادئ ہند کی لڑائی ہو یا تقسیم ہندوپاک کا سانحہ ، ہندو مسلم فسادات ہو یا فرقہ پرستی۔ یہ عام واقعات اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور بگڑے ہوئے حالات کو سازگار بنایا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس نے جاں نثار بھی پیدا کیے ،جنھوں نے وطنِ عزیز کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ ایسے فنکاروں نے یہاں آنکھیں کھولیں جن کی صلاحیت کا اعتراف ساری دنیا کرتی ہے۔ ایسے شاعر و ادیب بھی یہاں کی فضاؤں میں پروان چڑھے جن کی کاوشوں نے قوم کو بیدار کرتے ہوئے ان کے اندر عزم جواں پیدا کیا۔ قلم کی طاقت سے انھوں نے ایسے کام کر دکھائے جسے تلوار نہیں کر سکتی‘‘۔
مذکورہ اقتباس سے بھی ہمیں بنارس سے متعلق بہت ساری واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ سب چیزیں جو بنارس کی خوبصورتی میں قابلِ قدر اضافہ کرتی ہے کا مضمون میں ذکر آیا ہے۔ وہ چاندنی راتوں میں گنگا کے کنارے کا دلکش منظر ہو یا مندروں،مسجدوں، گرجا گھروں،تیرتھ استھانوں وغیرہ کا ذکر ، مزید یہاں کی ریشمی ساڑیوں، پیتل کے برتنوں، آموں، پانوں وغیرہ کی دنیا میں کوئی شہر ہمسری نہیں کر سکتا۔یہ سب اس شہر کی شہرت اور رونق بڑھاتے ہیں۔ اس مضمون کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنفہ نے اس پر خامہ فرسائی کرتے وقت بنارس سے جڑی ہر چھوٹی بڑی معلومات سے استفادہ حاصل کیا ہے اور بیشتر اس کتب کا مطالعہ بھی کیا ہے جس میں بنارس شہر کا ذکر آیا ہے۔بنارس کی قدیم روایات کے علاوہ ہر اس بادشاہ کا ذکر مضمون کا خاصا ہے جس کا بنارس کو سنوارنے اور بگاڑنے میں کلیدی کردار رہا ہے یا جن کا ذکر کیے بغیر اس شہر کی تاریخ ادھوری ہے۔میلوں، ٹھیلوں، بازاروں، گلی، کوچوں، دریاؤں، گھاٹوں اور سیرو سیاحتی مقامات وغیرہ کا ذکر بھی بے حد خوبی سے کیا گیا ہے۔ مضمون کے آخر میں حوالہ جات کا اندراج بھی ہے۔
اردو ڈرما کے شیکسپئر کہلانے والے آغا حشر کاشمیری پر مضمون’’آغا حشر کاشمیری اور ان کی ڈراما نگاری‘‘ اس کتاب کا دوسرا مضمون ہے۔ اس میں روایتی طور پر آغا حشر کا شمیری کی ڈراما نگاری پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ بنارس اور بنارس سے آغا کا تعلق، پیدائش و موت، مختلف ڈراما کمپنیوں سے ان کی وابستگی، ڈراما کمپنیوں کی بنیاداور مختلف ڈراما کمپنیوں کے لئے ڈرامے لکھنے کا ذکر اس مضمون کا حصّہ ہے۔ اس کے بعد ڈراما کا تعارف، آغا حشر کے چوبیس ڈراموں کی تفصیل، ان ڈراموں میں اپنائے گئے اصول و ضوابط، کرداروں کا ذکر، فنِ مکالمہ نگاری، طنزومزاح کا فن، عورتوں کے حسن و جمال کی زیبائش، ہندوستانی ماحول، حالات اور عوام کے مسائل کی پیشکش، طوائفوں کی نمائندگی وغیرہ سبھی چیزوں کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔علامہ اقبال پر مصنفہ کا ایک سیر حاصل مضمون’’علامہ اقبال کا اصلاحی نقطہ نظر‘‘ بھی اس کتاب کی زینت بڑھاتا ہے۔ جس میں انھوں نے اقبالؒ کے ایسے اشعار حوالے کے طور پیش کیے ہیں جن میں اقبال ؒ کی دوراندیشی اور فکری بصیرت سے ملک و قوم کی مستقبل تک رسائی کا رنگ جھلکتا ہے اور قوم میں حب الوطنی، قومی یکجہتی اور عوامی بیداری کا بے ساختہ احساس بھی نظر آتا ہے۔ اقبالؒ کی شاعری میں غلامی کی شکنجی سے آزادی اور تہذیبی قدروں کی ہورہی پامالی کی الجھنیں بھی ہیں۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ انھوں نے قوم کو بے اعتدالی کے دلدل سے نکال کر اعتماد بخشا، ہندوستانیوں کے اندر موجود خامیوں کا احاطہ کیااور انھیں دور کرنے کے لئے شعروادب کا سہارا لیا، عوام کے اندر جوش و توانائی کے جذبے کا ابھارااور قوم کو ایک صحت مند احساس بخشا۔شاعر موصوف نے عوام کو حالاتِ حاضرہ سے باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں حالات سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ وہ ہمیشہ قومی ایکتا کے قائل رہے۔اقبالؒ نے فلسفہ خودی کا نظریہ پیش کیا تو اس کے پس پُشت ان کا اصلاحی نقطہ نظر ہی کارفرما ہے۔ بہرحال مذکرہ مضمون میں اقبالؒ کو مصلح قوم ثابت کرنے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔ ’’تحقیق اور اس کی اہمیت‘‘ بھی ایک اہم مضمون ہے جس میں تحقیق، تحقیق کے لغوی مفہوم، تعریفات اور اس کی اہمیت سے قارئین کو روشناس کرایا گیا ہے۔ فنِ تحقیق پر اگرچہ بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں تاہم مصنفہ کا یہ مضمون بھی عمدہ کاوش کا نمونہ کہا جا سکتا ہے۔اس میں لکھا گیا ہے کہ تحقیق میں کوئی بھی بات حرفِ آخر نہیں سمجھی جاتی بلکہ اس میں بڑی گنجائش ہوتی ہے۔ بنا کسی ثبوت کے پہلے سے طے شدہ حقائق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی انھیں غلط ثابت کیا جا سکتا ہے ۔ تحقیق ایک ایسا عمل ہے جس کی مدد سے محقق صدیوں پرانی ٹوٹی ہوئی کڑیوں کو دوبارہ جوڑ کر تاریخ میں ان حقائق کواز سرِ نو منظم و مربوط کرنے کا ایک اہم فریضہ انجام دیتا ہے۔ محقق کو دوسری دوسری زبانوں سے بھی واقفیت ہونی چاہئے۔ مصنفہ لکھتی ہیں ادب ہر زمانے میں نیا رہتا ہے اور اس میں نیا پن بھی تحقیق ہی کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ تحقیق کی بدولت ہم کسی فن پارے کی حیثیت کا اندازہ لگا تے ہوئے اس عہد کا تعین کر تے ہیں اوراس میں تنقیدی عناصر شامل کر کے فن پارے کی خوبیوں و خامیوں کا جانچ کرتے ہیں۔
کتاب کے ایک اور مضمون’’ٹیگور اور اقبال کا تقابلی مطالعہ‘‘ میں ہندوستان کی دو عظیم کثیر الجہات ،ادبی اور برگزیدہ شخصیات کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔دونوں کو عالمگیر سطح پر شہرت حاصل ہے۔ اپنے اپنے میدان میں دونوں کا کوئی ثانی نہیں ہوا۔اس طرح دونوں عظیم ہستیوں کی مضمون میں خصوصیات پیش کی گئی ہیں۔جہاں ٹیگور کو امن و آتشی کا پیامبر قرار دیا ہے وہیں اقبال کو فلسفی و مفکر قوم گردانا گیا ہے۔چونکہ اقبال و ٹیگور دونوں ایک ہی عہدکے پروردہ تھے اور جس عہد اور دور میں انھوں نے آنکھیں کھولیں وہ غلامی، سیاسی خلفشار، سماجی معاشی، اقتصادی اور تہذیبی بحران،خون ریز واقعات، سرمایہ دار طبقہ کا مزدور اور مفلوک الحال طبقہ پرظلم و جبر کا زمانہ تھا۔یہ دونوں ادباء و شعراء ان حالات و واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔ ان کے خیالات، جذبات اور احساسات اپنے سماج اور قوم کے تئیں دردمندانہ تھے۔ جس کے ثبوت کے طور پر ان کی تخلیقات کو بہتر طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اگر چہ بعض نظریات میں دونوں میں مماثلت پائی جاتی ہے لیکن چند افکار و نظریات میں ایک دوسرے سے بالکل جداگانہ ہے۔مصنفہ نے دونوں کے شعری ادب اور اسلوب کا جائزہ لے کر بڑی گہرائی سے ان کے افکار اور نظریات کے سبب انہیں ایک دوسرے غیر متشابہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے دونوں شخصیات کے فکرو فلسفہ،نظریات و خیالات، تخلیقی حُسن، جذبۂ عشق، وغیرہ کا تقابلی مطالعہ بڑی بے باکی سے کیا ہے۔ ’’ فیض کی ترقی پسندی‘‘ اس کتاب کا ایک دلچسپ مضمون ہے ۔فیض ترقی پسندی کے اہم شاعر تصور کیے جاتے ہیں۔ان کی حیات اور تصانیف کا سرسری جائزہ بہت اچھا لگا،مصنفہ نے لکھا ہے کہ فیض کی شاعری میں اپنائیت کا احساس کراتی ہے ۔ ان کے کلام میں جو فضا، ماحول اور زبان ملتی ہے وہ ہماری اپنی ہی ہے۔فیض نے ابتدا میں روایتی انداز میں اپنی تخلیقات میں حسن و عشق کے موضوعات اور قلبی واردات کو پیش کیا ہے لیکن بعد میں زندگی اور اس کشمکش کا بیان شدید ہو گیا۔فیض بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں اور رومان سے انقلاب کی جانب ان کا سفر پُرکشش ہے ۔ مجموعی طور فیض پر مصنفہ کا مذکورہ مضمون اپنا اثر چھوڑے جاتا ہے۔کرشن چندر اردو دنیا کے بہت بڑے افسانہ نگار ہیں جن کی افسانہ نگاری پر اب تک سینکڑوں مضامین قلمبند کیے گئے ہیں۔ مصنفہ کا مضمون’’کرشن چندر کی افسانہ نگاری‘‘ اس کڑی کو آگے بڑھاتاہے اس مضمون کی ابتدا میں فنِ افسانہ نگاری پر مختصراً گفتگو کی گئی ہے۔ اس کے بعد کرشن چندر کی ناولوں میں برتے گئے افسانوی حسن پر بھی بات کی گئی ہے۔ بنیادی موضوع میں کرشن چندر کے مختلف افسانوی مجموعوں کے افسانوں میں ان کے فنی اور تخلیقی معیار کو بڑے مؤثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ترقی پسندی کی روایت کو آگے بڑھانے میں مجازؔ نے ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ان پر ’’ ترقی پسند ادب اور مجاز‘‘ایک معنی خیز مضمون ہے۔ ابتداً ان کی حیاتِ زندگی کا مفصل جائزہ لینے کے بعد نظموں میں ترقی پسندی عناصر کا حوالہ دے کر مصنفہ نے انہیں ترقی پسند ادب کا اہم معمار قراردیا ہے۔جس کی نظم ’’آوارہ‘‘،’’انقلاب‘‘، ’’رات اور ریل‘‘،’’اندھیری رات کا مسافر‘‘، ’’ سرمایہ داری‘‘ وغیرہ بہترین مثالیں ہیں۔انور سجاد جو کہ جدیدیت کے نمائندہ افسانہ نگارہیں ۔ کتاب میں ان کے افسانہ ’’گائے کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ پر عمدہ مضمون رقم کیا گیا ہے۔ جس میں ان کے افسانوں کی موضوعی خصوصیات کو بھی پیش کیا گیا ہے اوراس کے علاوہ ان کے مذکورہ افسانے کے فنی و فکری لوازمات سے بھی روشناس کیا گیا ہے۔ مصنفہ نے اسے بہترین علامتی افسانہ قرار دیا ہے۔ جس میں افسانہ نگار نے علامتوں کے ذریعہ انسانی فطرت کو بے نقاب کرتے ہوئے مولانا صفت بزرگوں پر گہرا طنز کیا ہے۔تحقیقی و تنقیدی اور ادبی میدان کے پروردہ حنیف نقوی پرمصنفہ کاتاثراتی مضمون’’آئینۂ ذہن میں پیکرِ انسانیت‘‘ قارئین کو موصوف کی ذاتی صفات سے واقفیت بہم پہنچاتا ہے۔بنارس اور بنارس کے قلمکاروں سے مصنفہ کی گہری عقیدت کا اظہار مضمون’’سعید فریدی کی شاعری‘‘ سے اور بھی طول پکڑتا ہے۔یعقوب یاورؔ جو کہ عصرِ حاضر کے اہم ناول نگار تسلیم کیے جاتے ہیں زیرِ نظر کتاب میں ان کے ناول’’دل من‘‘ پر مضمون’’ دل من: ایک المیہ‘‘ سپردِ قرطاس کیا گیا ہے۔ اس میں ناول کا مطالعہ بڑی دیدہ ریزی سے کیا گیا ہے۔نسیم بن آسی کا چوتھا افسانوی مجموعہ ’’بند مٹھی میں ریت‘‘ ہے جس پر مصنفہ نے مضمون ’’نسیم بن آسی اور بند مٹھی میں ریت ‘‘کے عنوان سے تحریر فرمایا ہے جس میں ان کے مذکورہ افسانوی مجموعے میں افسانوی فن پر عمدہ بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح کتاب میں شامل دیگر مضامین’’رحمٰن عباس کی ناول نگاری‘‘ اور ’’بختیار نوازؔ کی غزل گوئی‘‘ جیسے مضامین بھی نہ صرف اس کتاب میں بلکہ ادب کے میدان میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔ مصنفہ نے کتاب کے سبھی مضامین میں اپنی تخلیقی صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے ۔ کتاب میں ہمیں چند مضامین روایتی لگے جیسے کرشن چندر کی افسانہ نگاری، تحقیق اور اس کی اہمیت، فیض کی ترقی پسندی وغیرہ۔کیونکہ ان عنوانات پر ابھی تک کافی خامہ آرائی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہر مضمون کی اپنی انفرادیت اور اہمیت ہوتی ہے اور ہر مضمون کوئی نہ کوئی نیا نقطہ نظر لے کر وجود میں آتا ہے لیکن اگر ان مضامین کے لئے نئے عنوانات قائم کیے جاتے توقارئین کی دلچسپی بھی مضامین کے مطالعہ کے تئیں قائم رہتی۔ بحیثیتِ مجموعی شاملِ کتاب مضامین کی زبان فصیح ہے ، سادگی اور تحقیقی بردباری کے ساتھ لکھے گئے یہ مضامین یقیناً قارئین کی معلومات میں اضافہ کریں گے۔ حوالہ جات کا استعمال بھی مضامین کی راست بازی کا ثبوت ہے۔ ہمیں یقین بھی ہے اور اعتماد بھی کہ موصوفہ کی یہ کتاب قارئین ہاتھوں ہاتھ لیں گے اور اپنے ادبی ذوق میں اضافہ کریں گے۔
اشاعت اوّل: 2015
ضخامت : 168صفحات
قیمت : 150روپے
ناشر : ایم۔ آر۔ پبلی کیشنز، نئی دہلی
———
GH NABI KUMAR
RESEARCH SCHOLAR, DEPTT. OF URDU
UNIVESITY OF DELHI
HOUSE NO B20, 3RD FLOOR, GAFOOR NAGAR, JAMIA
NAGAR, NEW DELHI 110025
MOBILE 7053562468