کرنسی نوٹوں کی منسوخی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
مولانا سید احمد ومیض ندوی
Email:
Mob: 09440371335
گذشتہ ہفتہ دو غیر متوقع واقعات ایسے پیش آئے جنھوں نے ساری دنیا کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرلیا، ایک واقعہ قومی سطح کا ہے جس کے اثرات صرف ہندوستانیوں تک محدود ہیں،دوسراواقعہ عالمی نوعیت کا ہے جس کے اثرات سارے عالم کو متاثر کرسکتے ہیں،عالمگیر نوعیت کا حادثہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں خلاف توقع شدت پسند شخصیت ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کی شکل میں پیش آیا،انتخابات میں کامیابی وناکامی کوئی نئی چیز نہیں ہے، آئے دن دنیا کے مختلف ممالک میں انتخابات کا سلسلہ جاری رہتا ہے،
کسی کو کامیابی اور کوئی ناکامی سے دوچار ہوتا ہے، لیکن حالیہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی نے ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے، شاید ٹرمپ ،کامیابی سے ہمکنار ہونے والے قائدین کے اُس کمتر تناسب سے تعلق رکھتے ہیں جن کی کامیابی پر ملک میں اظہار خوشی کے بجائے شدید اظہاربرہمی کیا جارہا ہے، حتی کہ ٹرمپ کے خلاف ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں ہلاکتیں تک ہوئیں اور تاحال احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اسلام ، مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف جس قسم کے نفرت آمیز خیالات کا اظہار کیا تھااس کے پیش نظر خود امریکیوں کی ایک بڑی تعداد ٹرمپ کی کامیابی کو امریکی سالمیت کے لئے خطرہ تصور کررہی ہے، لیکن جو لوگ اس حقیقت سے باخبر تھے کہ امریکہ مکمل طور پر صہیونیوں کی گرفت میں ہے ا نھیں ٹرمپ کی کامیابی پر کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔
ٹرمپ کی کامیابی کی اطلاع جوں ہی عام ہوئی، عالم اسلام اور مسلم حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، ہرمسلمان کے ذہن میں یہی سوال گردش کرنے لگا کہ اب امریکہ سمیت پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کا کیا ہوگا ، اب ضرور اُن کے لئے کے لئے عرصہ حیات تنگ کیا جائے گا، سب کے ذہنوں میں ٹرمپ کے وہ زہریلے بیانات گھوم رہے ہیں جو اس نے انتخابی مہم کے دوران دئے تھے،جہاں تک امریکہ کی خارجہ پالیسی اور بالخصوص عالم اسلام کے تعلق سے اُس کی اسلام دشمن پالیسی کا تعلق ہے تو سب ہی جانتے ہیں کہ صدر کی تبدیلی سے اُس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آتی،اسرائیل دوستی اور اسلام دشمنی امریکہ کی غیر متبدل پالیسی ہے، لیکن اب اِس میں مزید شدت پیدا ہونے کا ا ندیشہ ہے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی ملک میں کوئی ظالم حکمراں اقتدار پر فائز ہوتا ہے تو عام لوگ اُس کو کوسنے اور اس کے ظالمانہ اقدامات پر خدشات کا اظہار کرنے لگتے ہیں، سب کی زبان پر اِسی کا چرچہ ہوتا ہے، بیشتر لوگ اُس کے برے تذکرہ سے اپنی زبانوں کو آلودہ کرتے رہتے ہیں، لیکن ایک دین پسند اور قرآن وسنت کے پابند مسلمان کی سوچ اُن سے مختلف ہوتی ہے، ہر روز رونما ہونے والے نئے واقعہ پر اُس کی نظر قرآن وحدیث اور خدا ورسول کی تعلیمات پر جاکر رکتی ہے،احادیث شریفہ کے ذخیرہ میں ایک حدیث قدسی ہے جس میں اِس قسمکے حالات میں صحیح رہنمائی کی گئی ہے، نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں شہنشاہوں کا شہنشاہ ہوں، سارے حکمرانوں کے قلوب میرے قبضہ میں ہیں، جب روئے زمین پر بندے میری اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہیں اور میرے احکام کا پاس ولحاظ رکھتے ہیں تو میں اُن کے قلوب میں رعایا سے ہمدردیپیدا کرتا ہوں اور جب زمین پر میری نافرمانی ہونے لگتی ہے اور میرے احکام توڑے جاتے ہیں تو میں ان کے قلوب سخت کردیتا ہوں، پھر وہ لوگوں پر مظالم ڈھانے لگتے ہیں ،یہ واقعہ ہے کہ روئے زمین پر لوگوں کے جیسے اعمال ہوتے ہیں آسمان سے خدا کے فیصلے بھی اُسی اعتبار سے ہوتے ہیں، ظالم حکمرانوں کی کامیابی پر اُنھیں کوسنے کے بجائے اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہئے۔
دوسرا واقعہ جس نے سارے ملک میں ہلچل مچا رکھا ہے وہ پانچ سو اور ہزار کی نوٹوں کی منسوخی ہے، حکومت نے اچانک فیصلہ کیا کہ سارا ملک دہل کر رہ گیا، ملک کا ہر طبقہ اس سے متاثر نظر آرہا ہے، مذکورہ کرنسی نوٹوں کی منسوخی کے بعد جس قسم کے واقعات سوشل میڈیا میں گشت کررہے ہیں انھیں عام لوگ تبصرہ کا موضوع بنا کر دل لگی کا سامان کررہے ہیں، جب کہ اِس میں بے پناہ عبرت کا سامان ہے، آخرت سے غافل انسان کو پل کی خبر نہیں ہوتی، لیکن وہ صدیوں کی پونچی اکٹھا کرنے میں لگا رہتا ہے، حلال وحرام کے سارے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کروہ اندھا دھند سرمایہ جمع کرنے میں جٹ جاتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اُس کے کھربوں روپئے ہمیشہ کام آئیں گے، قرآن نے کیسا مؤثر نقشہ کھینچا ہے: یَحْسَبُ أَنَّ مَالَہُ أَخْلَدَہُ.(الھمزہ) جو لوگ کروڑوں کی بلاک منی کے مالک ہوکر مطمئن تھے پانچ سو اور ہزار کے کرنسی نوٹوں کی اچانک منسوخی سے ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی، سوشل میڈیا پر کیسی کیسی خبریں آئیں، کوئی کرنسی نوٹوں سے بھرے تھیلے کو قبرستان میں پھینک آرہا ہے تو کوئی انھیں دریا میں بہارہا ہے، انسانوں کو قرآن وحدیث میں بیان کردہ اس حقیقت کااب ادراک ہورہا ہے کہ دنیا اور اس کا مال ومتاع فانی ہے،یہاں کی کسی چیز کو دوام اور پائداری نہیں، دوام اور بقاء تو صرف آخرت کو ہے،اگر متاع دنیا کو دوام حاصل ہوتا تو کھربوں روپیوں کے مالک منسوخی کے فیصلے کے بعد کنگال نہ ہوتے، دنیا اور متاع دنیا کی بے ثباتی کا اس سے بڑا بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ برسوں سے جمع کی گئی پونچی اچانک بے حیثیت ہوگئی،یہ دنیا دار السرور نہیں بلکہ دارالغرور (دھوکہ کی جگہ) ہے، اس نے کب کسی کے ساتھ وفاداری نبھائی ہے، لیکن حضرت انسان کس قدر بھولا ہے کہ وہ دغا دینے والی دنیا ہی کے پیچھے دوڑ رہا ہے، قرآن نے کیسے مؤثر پیرایہ میں اس حقیقت کی منظر کشی کی ہے : بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا. وَالْآخِرَۃُ خَیْْرٌ وَأَبْقَی.(الاعلی) کتنے لوگ ایسے ہوں گے جنھوں نے فرض زکوٰۃ نہ دے کر روپیہ جمع کررکھا ہوگا، کتنوں نے بھائیوں اور بہنوں کا حق دبا کر پونچی میں اضافہ کیا ہوگا، کتنوں نے اُن روپیوں کی خاطر قتل جیسے جرم کا تک ارتکاب کیا ہوگا، لیکن کیا ہوا؟ کیا یہ دولت ان کے کام آئی؟آدمی کروڑوں روپیوں کا ذخیرہ کرکے سمجھتاہے کہ یہ میرا مال ہے،جب کہ حدیث رسول ﷺ کے مطابق آدمی کا مال وہ ہے جسے اس نے کھا کر ختم کردیا، یا پہن کر بوسیدہ کردیا، یا راہِ خدا میں خرچ کرکے آخرت کا ذخیرہ کرلیا،رسول اللہﷺنے ایک مرتبہ صحابۂ کرامؓ سے دریافت کیا کہ تم میں سے کون شخص ایسا ہے جس کو اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو، صحابہ نے عرض کیا، یارسول اللہﷺ ، ہم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جس کو اپنا مال اپنے وارث سے زیادہ محبوب نہ ہو، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کا اپنا مال وہ ہے جو اس نے آگے بھیج دیا اور جو چھوڑ گیا وہ اس کا مال نہیں، اس کے وارث کا مال ہے(بخاری شریف) ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آدمی کہتا ہے کہ میرا مال ،میرامال، جب کہ اس کے مال میں سے اس کے لئے صرف تین چیزیں ہیں، جو کھاکر ختم کردیا، یا پہن کر پرانا کردیا، یا اللہ کے یہاں اپنے حساب میں جمع کردیا، اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اس کا مال نہیں ہے، لوگوں کے لئے چھوڑ جائے گا(مشکوٰۃ شریف) اس حدیث کی صداقت بہت سے لوگوپر شاید اب کھل رہی ہوگی اور وہ حسرت کررہے ہوں گے کہ کاش میں جمع کرنے کے بجائے صدقہ خیرات اور نیکی کے کاموں میں خرچ کرکے اللہ کے یہاں بھیج دیا ہوتا، وہ ایسا پروردگار ہے جو پائی پائی لوٹانے والا ہے، بلکہ کئی گنا اضافہ کرکے لوٹائے گا، اس نے اپنے کلام پاک میں اعلان کردیا ہے : مَن ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافاً کَثِیْرَۃً(البقرۃ) کون ہے جو اللہ کو قرض دے، پھر وہ کئی گنا اضافہ کرکے لوٹائے گا۔ انسان کوایسے وقت اپنی جمع کی گئی پونچی ملے گی، جب کہ انسان پائی پائی اور نیکی نیکی کا محتاج ہوگا، لوگ دنیا کے بینکوں اور زمین کی تہوں میں محفوظ کرکے مطمئن ہوتے ہیں کہ ہمارا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکے گا، لیکن کرنسی نوٹوں کی منسوخی کا کیا اعلان ہوا سب کے ہوش وحواس اڑ گئے، عجیب مناظر دیکھے گئے، دکانوں، ریلوے اسٹیشنوں اور بسوں میں جہاں کہیں پانچ سو اور ہزار کے نوٹ دئے گئے انھیں مسترد کردیا گیا ، جس طرح دنیا کی کرنسی حکومت کی جانب سے بنائے گئے یہ نوٹ ہیں اسی طرح آخرت کی کرنسی نیک اعمال ہیں، اور جس طرح دنیا میں نقلی نوٹ مسترد کئے جاتے ہیں اور انھیں کوئی قبول نہیں کرتااسی طرح قیامت کے دن بھی ایسے نیک اعمال مسترد کئے جائیں گے جن میں کھوٹ ہوگا، قدیم زمانے میں سونے چاندی کی کرنسی ہوا کرتی تھی، سونے کے دینار اور چاندی کے دراہم ہوا کرتے تھے، ان دینارودراہم میں بعض کھوٹے ہوتے تھے، ایک اللہ والے کا قصہ کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ کسی دکان پر کوئی چیز خریدنے کے لئے پہونچے، جونہی دکاندار کو درہم حوالہ کیا اس نے ان درہموں کو ان کے منھ پر ماردیا، جس کے ساتھ ہی بزرگ بیہوش ہوکر گرپڑے، لوگوں کو حیرت ہوئی کہ کھوٹے درہم مسترد کردئے گئے تو اس میں ایسی کیا بات ہوئی کہ بزرگ بیہوش ہوگئے؟ اللہ والے نے کہا دکاندار نے جب میرے کھوٹے دراہم کو مسترد کردیا تو میری نگاہوں میں آخرت کا منظر گھوم گیا، اور میں سوچنے لگا کہ اگر اسی طرح کل کو آخرت میں میرے اعمال کھوٹے قرار دیکرمسترد کردئے جائیں تو وہاں میرا کیا ہوگا؟ ہر شخص کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ ایسے اعمال کرے جن میں کھوٹ نہ ہو، اعمال میں کھوٹ بے اخلاصی اور اتباع سنت کی رعایت نہ کرنے سے آتا ہے۔
بعض احباب نے سوشل میڈیا پر مشورہ دیا ہے کہ جن کے پاس اپنی حلال کمائی کا زیادہ ذخیرہ ہے و ہ اپنے سابقہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کریں، یا آنے والے برسوں کی پیشگی زکوٰۃ ادا کریں، یا مدارس میں اساتذہ کی تنخواہوں کا نظم کریں یا چند طلبہ کی تکمیل حفظ قرآن تک کی کفالت کریں یا کسی مقروض کا قرض ادا کریںیا اسی قسم کے دیگر خیر کے کاموں میں خرچ کریں، بہت سے لوگ اپنی زائد رقم دوسروں کے اکاؤنٹ میں منتقل کررہے ہیں ، کل قیامت کے دن ہر شخص کو وہی اعمال کام آئیں گے جو اس کے نامۂ اعمال میں محفوظ ہیں، دوسروں کے اعمال سے کوئی فائدہ نہیں پہونچے گا، قیامت کے دن کوئی شخص اپنے نامۂ اعمال میں سے دوسرے کو ایک نیکی بھی دینے کو تیار نہ ہوگا، نہ اولاد ماں باپ کو دے گی، اور نہ ماں باپ اولاد کو دیں گے، نفسا نفسی کا عالم ہوگا، قرآن مجید میں اس کی منظر کشی یوں کی گئی ہے: یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیْہِ . وَأُمِّہِ وَأَبِیْہِ. وَصَاحِبَتِہِ وَبَنِیْہ. لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ شَأْنٌ یُغْنِیْہِ.(عبس)
کرنسی نوٹوں کی منسوخی نے قیامت کی جھلک دکھا دی، کل قیامت کے دن سب سے زیادہ راحت میں وہ شخص ہوگا جو دنیا میں سب سے کم سرمایہ والا ہوگا، ایسے شخص کا حساب مختصر ہوگا، حدیث رسول کے مطابق فقراء، اہل ثروت کے مقابلہ میں پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے، اس وقت سارے ملک میں وہی لوگ سب سے زیادہ فکر مند ہیں جن کے پاس سب سے زیادہ سرمایہ ہے، انھیں یہ فکر دامن گیر ہے کہ اُن کے کروڑوں کے سرمایہ کا کیا ہوگا، اس کے برخلاف جن کے پاس کم سرمایہ ہے وہ خوش وخرم ہیں، انھیں کسی قسم کا غم نہیں ہے، رسول کریمﷺ نے اُس شخص کو قابل مبارکباد قرار دیا ہے جس کے پاس ایک دن کے بقدر روزی ہو جسے اللہ نے صحت وتندرستی عطا کی ہو اور جو ایسا گمنام ہو کہ اس کی جانب انگلیاں نہ اٹھتی ہوں، مومن کو قناعت پسند اور کفایت شعار ہونا چاہئے، اِسی میں راحت ہے۔
اِسی طرح بینکوں پر لگی طویل قطاروں نے میدان محشرکی یاد تازہ کردی، لوگ صبح سویرے ہی سے بینکوں پر قطار لگارہے ہیں، اُنھیں نہ کھانے کی فکر ہے اور نہ پینے کا احساس ہے، چار چار گھنٹے طویل انتظار کے بعد اُن کا نمبر لگ رہا ہے، لمبی قطاروں میں مرد بھی ہیں، خواتین بھی،بوڑھے بھی ہیں اور جوان بھی، بعضے ضعیف خواتین غشی کھاکر گررہی ہیں، بعض مقامات پر شدید بھیڑ کے سبب ہلاکتیں بھی ہورہی ہیں، جب دنیا کا یہ حال ہے تو میدانِ محشر کا کیا منظر ہوگا؟ جہاں حضرت آدم ؑ سے لیکر قیامت کے انسان جمع ہوں گے، جمعہ کے دن بعض بینکوں کے پاس یہ تکلیف دہ منظر بھی دیکھا گیا کہ بعضے مسلمان جمعہ کی نماز چھوڑ کر قطار میں لگے رہے اور جمعہ جیسے اہم فریضہ کو ضائع کردیا، آخر یہ کیسی مسلمانی ہے؟ کیا کسی مسلمان کے تعلق سے یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ و ہ جمعہ کی نماز چھوڑ ے گا؟ مسلمان بھائیوں کو چاہئے کہ وہ کسی صورت سے فرض نماز نہ چھوڑیں، بھلے کچھ مزید انتظار کی ضرورت پڑ جائے، مگر نماز کو ضائع نہیں کرنا چاہئے، جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والوں کا دین میں کوئی حصہ نہیں، لمبی قطاروں میں کھڑے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ایثار وہمدردی سے کام لیں، بوڑھوں، ضعیفوں اور خواتین کو پہلے موقع دیں، یہ ایثار امدادِ باہمی اور خدمتِ خلق کا موقع ہے، چار چار گھنٹوں سے قطار میں کھڑے لوگوں کو پانی پلائیں، ممکن ہو تو اُن کے لئے سایہ فراہم کیا جائے، قطار میں کھڑے افراد کو چاہئے کہ وہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں، دھکم پیل سے بدنظمی پیدا ہوگی، بسا اوقات بھگدڑ کے سبب قیمتی جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں۔
دوہزار کی نئی نوٹ کے تعلق سے سوشل میڈیا پر یہ خبر بھی وائرل ہورہی ہے کہ اس میں ایک چپ رکھی گئی ہے جس کا سٹلائٹ سسٹم سے تعلق ہے، آدمی اِن نوٹوں کی شکل میں جہاں کہیں غیر قانونی سرمایہ چھپائے گا سٹلائٹ کے ذریعہ حکومت کو اس کا پتہ چل جائے گا، اس قسم کی چپ سے زیادہ مؤثر نظام خدائی نظام ہے، اللہ نے ہربندے کے ساتھ کراماً کاتبین کی شکل میں فرشتوں کو رکھا ہے، جو انسان کے ہر عمل کو محفوظ کررہے ہیں، اس کے علاوہ انسان کسی لمحہ خدا کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہے، جب تک عقیدۂ آخرت اور اللہ کے غیبی نظام پر یقین نہیں ہوگا تب تک دنیا کی کوئی تدبیر انسانوں کو جرائم سے نہیں روک سکتی، آخرت میں جواب دہی کا احساس ہی وہ واحد تدبیر ہے جو انسانی معاشرہ کو جرائم سے پاک کرسکتی ہے۔
رہا مسئلہ کالے دھن کا جس کی خاطر کرنسی نوٹوں کو منسوخ کیا گیا ہے، تو کالے دھن کا خاتمہ محض نوٹوں کی منسوخی سے ممکن نہیں، کالے دھن کے انسداد کے لئے ملک کے سارے باشندوں کی اخلاقی سطح کو بلند کرنا ہوگا،جب تک دلوں سے مال کی محبت ، حرص وہوس اور طمع ولالچ کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک کالے دھن کا خاتمہ ممکن نہیں، کالا دھن عام لوگوں کے پاس نہیں ہوتا، سرمایہ کار، سیاستداں اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے قائدین کالے دھن کے معاملات میں پیش پیش ہوتے ہیں، ذرا بینکوں کے سامنے لگی قطاروں کا جائزہ لیجئے، مذکورہ بالا طبقوں سے تعلق رکھنے والا ایک فرد بھی نہیں ملے گا، خلافتِ راشدہ کے دور میں خلیفہ بیت المال کو قوم کی امانت سمجھتا تھا،اور ایسا لباس زیب تن کرتا تھا جس میں کئی جگہ سے پیوند لگے ہوتے تھے، جس زمانہ کے حکمراں ایسے نیک دل اور قناعت پسند ہوا کرتے تھے اُس زمانہ کے عام لوگوں میں کالے دھن اور ناجائز سرمائے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا،موجودہ دور میں خود سیاسی قائدین کالے دھن کے سب سے بڑے سرچشمے بنے ہوئے ہیں، ایسے میں کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کیونکر کارگر ہوسکتی ہے؟