گرونانک جینتی
محمد رضی الدین معظم
حیدرآباد ۔ دکن
فون : 914069990266+
گرونانک جی کی ولادت ایسے دور میں ہوئی جب ہندوستان ایک بھیانک سماجی سیاسی اور روحانی بحران سے گذر رہا تھا۔ انہوں نے جدید روحانی خیالات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے ذہنی بحران سے ہندوستانیوں کو نجات دلائی اور سرزمین ہند پر فرشتہ رحمت بن کر نمودار ہوگئے۔ انہوں نے حکمرانوں کی خود غرضانہ حکمرانی فرسودہ سماجی رسم و رواج‘ مصنوعی طرز زندگی‘ ذات پات کے تفرقہ اور سماجی اونچ نیچ کی چکی میں پس رہے ‘ غریب عوام کو نجات دلانے کے لئے خدا پرستی‘ بے لوث خدمت خلق انسانیت مساوات اور کردار سازی کی ترغیب دی ۔
گرونانک جی نے اپنے نئے روحانی خیالات اور وحدانیت کی تبلیغ سے دنیا کے نظریہ پر زبردست وار کیا۔ نامرادی و مایوسی کے اندھیروں کو ہندوستانیوں کے ذہن و دل سے دور کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ مذہبی خوشبو میں لئے ہوئے جدید نظریہ حیات سے پاکھنڈ کی جڑیں ہلاکر رکھ دیں۔
کنگھم کا خیال ہے کہ انہوں نے خدا شناسی خدا پرستی اور کردار سازی کی تعلیم دے کر فرسودہ رسم و رواج اور فرقہ واریت کی زنجیروں کو توڑنے والے عوام کا ایک گروہ تیار کیا ۔ اسے حکمرانی کا صحیح راستہ دکھا کر خدا پرستی کے ساتھ دنیاوی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی تعلیم دی۔ مشقت سے کمائی کی گئی دولت کو بانٹ کر کھانے کا سبق دیا۔ گرہست جیون کو اولیت عطا کی۔ مجہولیت کی لعنت سے نجات دلائی اپنے عہد کے دوسرے ہندوستانی سنتوں کے برخلاف حصول خدا کے لئے دنیا کو کارگاہ عمل قرار دیا۔ ترک دنیا اور پہاڑوں کی گپھاؤں میں سمادھی لگانے والوں کی خدمت کی دنیا میں رہ کر کیچڑ میں کنول کی طرح کھلے رہنے پر زور دیا۔
انہوں نے ایک بار اپنے عزیز شاگرد رباب نواز مردانا سے کہا تھا کہ ضرورت سے زائد اشیا کی ذخیرہ اندوزی باعث تکلیف ہوتی ہے۔ تازی روٹی جسے میسر ہو اسے باسی ٹکڑوں کے جمع کرنے سے صرف بیماری ہی ہاتھ آتی ہے۔ ان کے خیال کے مطابق ضرورت سے زیادہ چیزوں کی ذخیرہ اندوزی سے دوسروں میں حسد پیدا ہوتا ہے۔ یا پھر وہ چرالی جاتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ صاحبان ثروت کا دل ہمیشہ غیر مطمئن اور آزردہ رہتا ہے۔ گرونانک عہد وسطیٰ کے ہندوستان کی ایک تاریخ ساز شخصیت تھے‘ جس نے ہندوستان چند صدی قبل قائم ہونے والے مسلم دور حکومت کے بعد اپنے عہد میں بابر کے ذریعہ مغلیہ سلطنت کی بنیاد پڑتے ہوئے دیکھی اور اپنی روحانیت کی بنیاد عملی زندگی پر رکھی۔ انہوں نے دنیا کے سامنے ایک زبردست مصلح اور انسانیت دوست ہونے کی مثال پیش کی ۔ یہی نہیں اس طرح انہوں نے ہندوستانی قومیت کی تعمیر کے لئے جدید راہیں بھی ہموار کیں۔ گرونانک کی تعلیمات تمام عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں۔ وہ غلامی اور ذات پات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگوں کو انسان نوازی اور بھائی چارہ کا پیغام دیتے ہیں۔
وہ پیدائش کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کی دیوار کھینچنے کو گناہ عظیم قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے ’’ایک پتا ایکس کے ہم بارک‘‘ یعنی تمام حیوانات کا خالق ایک پتا پر میشور ہے۔ اس لئے کم سے کم ہم انسانوں کا رویہ ایک دوسرے کے تئیں برادرانہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ ہم سب اسی ایک رب کی اولاد ہیں۔ وہ اپنی اولاد کی آپسی محبت دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ بھائی چارہ ہی ایک ایسا جذبہ ہے جو رشک و حسد اور بغض و نفرت کو ختم کرکے محبت و یگانگت کی دوڑ میں بندھتا ہے۔
گرونانک جی نے سچ کہا ہے
اول اللہ نورا پایا کدرت کے سب بندے
ایک نور نے سب جگ الچیا کون بھلے کو مندے
گرونانک جی نے اپنے عہد کے سماج میں عورتوں کی زبوں حالی سے دل گرفتہ ہوکر اس کے اصل مرتبہ و مقام کو پہچاننے کی تلقین کی۔ سو کیوں مند آکھیلے ’’جت جمہے راجان‘‘ یعنی جس عورت نے اپنی کوکھ سے راجے مہاراجے سورما‘ بھگت‘ پیر‘ ولی اور اوتار پیدا کئے‘ اس کی بے عزتی اور تحقیر نہیں کرنا چاہئے۔
بابا گرونانک نے دنیا کے سبھی پیر پیغمبروں کی طرح سچائی پر مضبوطی سے جمے رہنے کی تعلیم دیتے ہوئے کہا
سچ ‘ سمنا ہوئی‘ ذارو پاپ کڑھے دھوئی یعنی سانچ کو آنچ نہیں ۔ یہ سب برے کامو ں کا علاج ہے۔ گناہوں کی گرد صاف کرنے کے لئے سچائی کے صابن سے زیادہ کارگرکوئی اور چیز نہیں۔ عدالت کے جھگڑوں ‘ بین الاقوامی مسئلوں‘ جنگ کے شعلوں‘ بغض و کینہ کی لپیٹوں کو سچ کے پانی سے دبایا جاسکتا ہے۔
———-
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340