شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط17
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
علامہ اقبال
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 16 ۔ کے لیے کلک کریں
علامہ سرمحمد اقبال (۱۸۷۵۔۱۹۳۸ء)
علامہ اقبال نے جو کچھ کہا وہ دل کی گہرائیوں میں ڈوب کر کہا اور دل سے نکلی ہوئی بات دل پر اثر کرتی ہے، انھیں کا شعر ہے:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
اقبال کا پور ا نام شیخ محمد اقبال تھا، ان کا خاندان کشمیری پنڈتوں کا خاندان تھا، ان کے جد اعلی مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، اقبال کے والد نے اقبال کو ہدایت دی تھی کہ قرآن مجید اس طرح پڑھو گویا یہ تم پر نازل ہوا ہے، اقبال نے اپنے والد کی نصیحت کو شعر کی زبان میں اسطرح کہا کہ:
تیرے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے، ابتدائی تعلیم ایک مکتب میں حاصل کی، اس کے بعد انگریزی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور انٹرنس کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا، پھر اس کے بعد مشن اسکو ل سیالکوٹ میں داخلہ لیا، یہاں سید میر حسن مشرقی ادبیات کے معلم تھے، پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے کر بی اے(فلسفہ )کی ڈگری لی، انگریزی اور عربی زبان میں ممتاز رہے، پھر پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا اور طلائی تمغہ حاصل کیا، گورنمنٹ کالج لاہور میں مشہور مستشرق پروفیسر ارنلڈ کے شاگرد رہے، ارنلڈ جب انگلستان چلے گئے تو اقبال کو بہت دکھ ہوا ، ان کے ان احساسات پر مبنی ان کی نظم نالۂ فراق ہے، اقبال اورینٹل کالج لاہور میں تاریخ فلسلفہ اور سیاسیات کے پروفیسر ہوگئے پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی اور فلسفہ کے استاذ مقرر ہوئے ان کے در س وتدریس کا انداز نہایت عالمانہ تھا، اقبال نے شعر کہنا شروع کیا اور بذریعہ مراسلت داغ دہلوی کو اپنا کلام دکھانے لگے، اور پھر لاہور کی انجمن حمایت الاسلام کے مشاعروں میں انھوں نے اپنی نظمیں پڑھیں ، جو بہت مقبول ہوئیں، ان نظموں میں تصویر درد ، نیاشو الا ، ترانہ ہندی، اور شکوی بہت زیادہ مشہور ہیں، اور لاہور کے اخبار مخزن اور سارے ہندوستان کے اردو اخبارات میں شائع ہوئیں، اقبال نے کئی انگریزی نظمیں منظوم آزاد ترجمے کئے پھر ۱۹۰۵ ء میں اقبال لندن کے لئے روانہ ہوئے اور کیمرج میں داخلہ لیا اور وہاں سے فلسفہ اور اخلاقیات میں ڈگریاں حاصل کیں، پھر جرمنی گئے اور فنون اور ادبیات کے مطالعہ میں مشغول ہوئے، دانایان فرنگ اور دانشوران مغرب کی صحبتوں میں رہے، لندن میں کچھ عرصے تک عربی کے پروفیسر مقررہوئے ، انھوں نے یورپ کی دانش گاہوں سے اور دانشوروں سے پورا استفادہ کیا، اقبال کے کلام میں پیکر تراشی بھی ہے منظر نگاری بھی ہے، ترنم اور موسیقیت بھی ہے ، ان کی تشبہات اور استعارات نئے انداز کے ہیں ، انھوں نے جلال الدین رومی کے متصوفانہ کلام سے خاص طور پر استفادہ کیا، اور تہذیب مغرب پر ایسی تیر بہ ہدف تنقیدیں کیں کہ اقبال ؔ کے کلام کے پڑھنے والوں پر سے مغربی تہذیب کا رعب ختم ہوا، اقبال نے اسلام کی تعلیمات کی طرف لوٹنے اور عشق نبوی کو دل میں بسانے کی اثر انگیز تلقین کی ، اور دنیا میں بلند مقام حاصلکرنے کے لئے خودی میں ڈوبنے کی نصیحت کی ، شاہین اقبال کا ایک بہترین استعارہ ہے، وہ یہ چاہتے تھے مرد مسلماں میں پھر عقابی روح پیدا ہوا اور طاقت سر چشموں تک پہونچنا ان کے لئے آسان ہو۔ اقبال کی تصنیفات میں علم الاقتصاد اور فلسفہ عجم بھی ہے اور ان کے وہ لیکچرس بھی ہیں جو انہوں نے مدراس میں ’’خطبات تشکیل جدید علوم الہیہ‘‘ کے عنوان سے انگریزی میں دئے تھے اور اس کے ساتھ فارسی میں ان کا دیوان’’ اسرار خودی‘‘ اور’’رموز بے خودی‘‘ پیام مشرق، زبور عجم ، جاوید نامہ ہے ان کے علاوہ بانگ درا ، ضرب کلیم ، اوربال جبریل ان کے اردو دیوان ہیں، اقبال ؔ عظیم شاعر ہی نہیں تھے، بلکہ بہت بڑے مفکر اور مسلمانوں کی نشأۃ ثانیہ کے محرک اور پیغامبر تھے۔
اقبال کاعہد وہ عہد تھا جس میں پہلے سر سید نے ماد ہی ترقی اور دنیوی فلاح کا نسخہ یہ تجویز کیا تھا کہ انگریزی زبان اور انگریزوں کی تہذیب اور ان کے علوم میں مسلمان دست گاہ حاصل کریں ، اس نسخہ کے خلاف ردعمل پہلے اکبر الہ بادی کا اور علامہ شبلی نعمانی کا سر سید کی زندگی میں آچکا تھا، بحیثیت مجموعی اس دور کے علماء نے جن میں سید سلیمان ندوی ، ابو الکلام آزادؔ ، مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہ نے بھی سر سید کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا تھا، ، ان شخصیتوں کے بعد علامہ اقبال ؔ کی ایک طاقتور شخصیت ابھری جنھوں نے افکار اسلامی کو ایک نئے اسلوب اور طاقتور پیرایہء بیان میں پیش کیا، اور مغربی تہذیب کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا ، اقبال کے یہاں مرد مومن ایک استعارہ ہے جس میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو عظمت رفتہ کی باز آفرینی اور طاقت وشوکت کے حصول کے لئے ضروری ہوتی ہے، مرد مومن کے بارے میں علامہ اقبال کے یہ اشعار دیکھئے:
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب وکار آفریں کا ر کشا کارساز
ہر لحظہ مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
خاکی وہ نوری نہاد بندہ مولی صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل نیاز
اقبال نے خودی کے بارے میں بہت سے اشعار کہے ہیں، مثال کے طور پر یہ اشعار:
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فشاں لا الہ الا اللہ
خودی کے سازمیں ہے عمر جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
اقبال نے ربط ملت کا تصور ابھارا اور تعمیر ملت کے لئے توحید پر ایمان اور رسالت پر ایقان کامل کی دعوت دی ، انھوں نے اسلامی غیرت وحمیت اور خود شناسی کا پیغام دیا، اقبال نے مغرب کے علوم نو سے بھی استفادہ کیا، لیکن بنیادی افکار قرآن وحدیث سے حاصل کئے، اقبال مجموعی طور پر ایک مینار نور کی حیثیت رکھتے ہیں، ان سے اکتساب فیض کرنے اور ان سے متأثر ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے، اور وسیع تر ہوتا جارہا ہے، انھیں بجا طور پر بیسویں صدی کا مفکر او رمجدد اور عہد آفریں شاعر تسلیم کیا گیا ہے، اور ان کے کجھ اور اشعار بطور مثال درج کئے جاتے ہیں:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اجھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
جمہور یت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
خود بہ خود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
دیکھئے گرتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک بہ آشیانہ بنے گا نہ پائیدار ہوکا
– – – – – – – – –