یومِ اقبالؔ کے موقع پر
فکراقبالؔ کے اساسی پہلو
ڈاکٹرمحمد ابرارالباقی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو
شاتاواہانا یونیورسٹی کریم نگر-تلنگانہ
ڈاکٹرشیخ محمد اقبالؔ (1877-1938)عالمی سطح پر انسانی فکر کو نئی روشنی عطا کرنے والے عظیم شاعر گذرے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اقبالؔ جیسی عظیم شخصیات کا ظہور زمانے کی ظلمت و تاریکی سے ہی ہوتا ہے۔ اقبالؔ ہم جیسے انسانوں میں سے ایک تھے۔ لیکن انہوں نے انسانیت کا مطالعہ فطرت کے اصولوں میں کیا اور اپنی پیامیہ شاعری کے ذریعے انسانیت کی رہبری کے عظیم نقوش چھوڑے۔ اقبالؔ ہم سے جدا ہوئے لیکن اپنی فکر و فلسفہ کے ساتھ ہمیشہ کیلئے ہمارے ساتھ زندہ جاوید ہوگئے اسی میں اقبالؔ کی مقبولیت کا راز چھپا ہوا ہے۔
عام آدمی سے اقبالؔ کے بارے میں پوچھا جائے تو کہے گا کہ اقبالؔ نے ہمیں ’’قومی ترانہ‘‘ جیسی نظم دی ہے جس سے وطن کی محبت اور جوش ولولہ پیدا ہوتا ہے ایک نقاد سے پوچھا جائے تو کہے گا کہ اقبالؔ نے اُردو شاعری کو فکر و فلسفہ دیا اور نوجوانوں کیلئے عمل کا پیغام دیا اور ان کا کلام ماضی کی یاد ہے اور مستقبل کا تصور ہے۔ ان کا کلام زندگی کا احساس دلاتا ہے عمل کیلئے راغب کرتا ہے ۔
کلام اقبالؔ قرآن کی تفسیر اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وصلم کی تعلیمات کا عکس ہے۔اقبالؔ نے اپنی فکر کو جلا بخشنے کے لئے مشرق اور مغرب کے حکماء اور مفکروں کے خیالات سے استفادہ کیا ہے ۔ان کا مطالعہ وسیع ہے اور نظر گہری ہے مغربی مفکروں میں اقبالؔ نیٹشے اور برگسان سے متاثرہیں اور مشرقی مفکروں میں جمال الدین افغانی‘ مجد دالف ثانی‘ اور بیدلؔ ‘ و غالبؔ کا بھی اثر قبول کیا۔اگر ہم اقبالؔ کے افکار کا خلاصہ پیش کریں تو وہ عشق‘جذبہ خودی‘مرد مومن کی صفات‘حرکت و عمل پر مشتمل ہیں۔ اقبال نے اپنے کلام میں زندگی سے متعلق مختلف تصورات پیش کئے جنہیں عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ اقبالؔ نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ غلامی اور مایوسی کا دور تھا۔ لوگ خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے تھے اور حرکت و عمل سے دور تھے۔ اور زندگی کی رفتار کم تھی ۔ اقبالؔ نے محسوس کیا کہ تعلیم کو عام کرتے ہوئے اور لوگوں میں حرکت و عمل کا جذبہ پیدا کرتے ہوئے انہیں خوابِ غفلت سے جگا یا جاسکتا ہے انہوں نے محسوس کیا کہ عشق کی چنگاری جلا کر لوگوں کو کچھ کرنے کیلئے راغب کیا جاسکتا ہے ۔ چنانچہ اقبالؔ نے خودی کا نظریہ پیش کیا جس میں فرد کی تعمیر و اصلاح ہوتی ہے اسی لئے خودی کے بارے میں اقبالؔ کہتے ہیں کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اقبالؔ کہتے ہیں کہ خودی کی تعمیر و اطاعت ‘ ضبط نفس اور نیابت الہی سے ہوتی ہے۔ فلسفہ خودی درحقیقت اقبال کی فلاسفی کا بنیادی نقطہ ہے ۔شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؔ کے پیغام و فکر کا مرکز ان کا ” فلسفہ خودی ” ہے ۔اقبال کے پیغام اور فکر کا مرکزی نقطہ ان کا تصور ” خودی ” ہے۔ یہ وہی تصور خودی ہے کہ جس نے اقبال کی شخصیت کو بقاء دوام بخشا اور ملت اسلامیہ کا عروج اسی میں مضمر ہے ۔بقول اقبال !
خودی کے ساز سے ہے عمر جاوداں کا چراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
خودی کیا ہے ؟ خودی درحقیقت خود سے آگاہی ہے ۔ اقبال کے اس پیغام کی اصل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا۔ اس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘‘۔گویا خودی کا یہ تصور خود شناسی سے شروع ہوکر بندے کو خدا شناسی تک لے جاتا ہے اور اس سفر میں بندہ کو بقاء و دوام تب نصیب ہوتا ہے کہ جب بندہ اپنی خودی کی حقیقت کو پہچان کر خود اپنی ہی خودی میں گم ہونے کی بجائے اپنی خودی کو خدا شناسی میں گم کردیتا ہے تب بندہ مقام فنا سے مقام بقا پر فائز ہوجاتا ہے ۔ یعنی انسان کا شعوری سفر اپنے احساس نفس سے اپنی معرفت اور پہچان کی حقیقت کے ساتھ جتنا آگے بڑھے گا اسے اتنا ہی اپنے رب کی معرفت حاصل ہوگی انسان جتنا اپنی ذات پر غور کرتا ہے، اپنی حقیقت کو پہچانتا ہے اتنا ہی اسے اپنے رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور یہ معرفت اس کو رب کی محبت میں فنایت پر مجبور کرتی ہے گویا جب بندہ اپنی خودی کو پہچانتا ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچتا کہ حقیقت میں وہ کیا ہے ایسے میں پھر وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔اقبالؔ کا فلسفہ خودی جاوید نامہ میں بھی پیش ہوا ہے۔اقبالؔ جاوید نامہ میں تصورِ خودی کو بڑے بلیغ اور واضح انداز میں بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔اس حوالے سے اگر بغور دیکھیں تو جاوید نامہ بنی نوعِ انساں کے ماضی حال اور مستقبل کے مقدر کی نشاندہی کرتا ہے۔ جاوید نامہ صرف علامہ اقبالؔ اور زبانِ فارسی کا ہی عظیم فن پارہ نہیں بلکہ فکرو خیال فلسفہ اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے بھی ایک منفرد اور ہمیشہ زندہ رہنے والا تخلیقی کار نامہ ہے۔جاوید نامہ کے پیش کردہ تصور سے انسان کا جو ہیولیٰ ابھرتا ہے وہ اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔علامہ اقبالؔ کی شاعری میں انسان کاجو عمومی تصور جا بجا بکھرا ملتا ہے وہ جاوید نامے میں اپنی انتہاؤں کو چھو لیتا ہے۔ علامہ اقبالؔ کو یقینِ کامل تھا کہ اس کرہِ ارض کا انسان اگر فلسفہ خودی پر عمل کر لے تو بلندیوں اور عظمتوں کی انتہاؤں کو چھو سکتا ہے اور لامکاں تک اسکی رسائی کو روکنا کسی فرد کیلئے ممکن نہیں ہو گا۔
اقبالؔ نے اپنے کلام میں جا بجا مرد مومن کی صفات پیش کی ہیں۔ اقبالؔ کے مرد مومن کی یہ پہچان ہیکہ وہ جنگ میں آگے بڑھ کر لڑتا ہے اور امن کی حالت میں سادگی کی زندگی گذارتا ہے۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہٰی،اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر تا ہے۔اقبالؔ کا مرد مومن حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر انکی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتاہے۔ وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضہ میں ہوتا ہے۔گویا کافرکا کمال صرف مادہ کی تسخیر ہے لیکن مردمومن مادی تسخیر کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتا بلکہ اپنے باطن سے نئے جہانو ں کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وہ زمان و مکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ عرفانِ خودی کے باعث اسے وہ قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے حیات و کائنات کے اسرار و رموز اس پر منکشف ہوتے ہیں اور اسکی ذات جدت و انکشاف اور ایجاد و تسخیر کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے عمل سے تجدید حیات کرتاہے۔ اسکی تخلیق دوسروں کیلئے شمع ہدایت بنتی ہے۔ع۔نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔ بندہ مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کو عشق کے تابع رکھے۔ نہ صرف خودی کا استحکام عشق کا مرہونِ منت ہے بلکہ تسخیر ذات اور تسخیر کائنات کیلئے بھی عشق ضروری ہے اور عشق کیا ہے ؟ اعلیٰ ترین نصب العین کیلئے سچی لگن ، مقصد آفرینی کا سر چشمہ، یہ جذبہ انسان کو ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی آرزؤں کو پورا کرنے کیلئے سر گرم عمل رکھتا ہے۔ یہ جذبہ مرد مومن کو خدا اور اسکے رسول کیساتھ گہری محبت کی بدولت عطا ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعہ سے اسکے اعمال صالح اور پاکیزہ ہو جاتے ہیں اسے دل و نگاہ کی مسلمانی حاصل ہوتی ہے اور کردار میں پختگی آجاتی ہے۔اقبالؔ کے مرد مومن کے تصورات کا ماخذ کیا ہے اس ضمن میں کالم نگار رانا اعجاز خان لکھتے ہیں:
’’ اقبال نے مرد مومن کا تصور کہاں سے اخذ کیا؟اس حوالے سے مختلف آرا ء ملتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی اساس خالصتاً اسلامی تعلیمات پر ہے اور اس سلسلہ میں اقبال نے ابن مشکویہ اور عبدالکریم الجیلی جیسے اسلامی مفکرین سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ایک گروہ اس تصور کو مغربی فلسفی نیٹشے کے فوق البشر کا عکس بتاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال نے خیال قدیم یونانی فلاسفرز سے حاصل کیا ہے۔ اور کچھ اسے مولانا روم کی دین قرار دیتے ہیں۔‘‘( اعجاز خان۔ بحوالہ۔ روزنامہ نوائے وقت ۔لاہور۔ 7مارچ 2016)
اقبالؔ نے جہاں کہیں فرد کی اصلاح کی بات کہی ہے ان کا مقصد فرد کے ذریعہ سماج کی اصلاح ہے یعنی اقبالؔ کسی ایک فرقہ یا مسلک کے شاعر نہیں ہے بلکہ وہ تمام انسانوں سے خطاب کرتے ہیں۔ اور ان کا پیام ساری انسانیت کیلئے ہے۔ اقبالؔ نے اکثر اپنی شاعری میں مرد مومن کو شاہین پرندے سے تشبیہ دی ہے۔ ان کے ہاں شاہین ایک استعارہ ہے حرکت و عمل کا۔ اقبالؔ نے جہاں کہیں شاہین کا استعارہ استعمال کیا ہے وہاں انہوں نے لوگوں کو عمل کا پیام دیا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کو ایک خاص علامت کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ یہ ان کا محبوب پرندہ ہے۔ اقبال کے ہاں اس کی وہی اہمیت ہے جو کیٹس کے لئے بلبل اور شیلے کے لئے سکائی لارک کی تھی، بلکہ ایک لحاظ سے شاہین کی حیثیت ان سے زیادہ بلند ہے کیونکہ شاہین میں بعض ایسی صفات جمع ہوگئی ہیں۔ جو اقبال کی بنیادی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں یوں تو اقبال کے کلام میں جگنو، پروانہ، طاوس، بلبل، کبوتر، ہرن وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔ لیکن ان سب پر شاہین کو وہ ترجیح دیتے ہیں۔ اقبال نے تشبیہات و استعارات میں بلبل و قمری کے بجائے باز اور شاہین کو ترجیح دی ہیں۔اقبال کے ہاں شاہین مسلمان نوجوان کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اقبال کو جمال سے زیادہ جلال پسند ہے اقبال کو ایسے پرندوں سے کوئی دلچسپی نہیں جن کی اہمیت صرف جمالیاتی ہے یا جو حرکت کے بجائے سکون کے پیامبر ہیں۔ شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خود دار اور غیرت مند ہے کہ کسی اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ بلند پرواز ہے۔ خلوت نشین ہے۔ تیز نگاہ ہے۔اقبال کے نزدیک یہی صفات مردِ مومن کی بھی ہیں وہ نوجوانوں میں بھی یہی صفات دیکھنا چاہتے ہیں۔ شاہین کے علاوہ کوئی اور پرندہ ایسا نہیں جو نوجوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ بن سکے اْردو کے کسی شاعر نے شاہین کو اس پہلو سے نہیں دیکھا۔شاہین سے متعلق اقبالؔ کے یہ اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں۔
جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب ، یہ پچھم ، چکوروں کی دنیا
میرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیا نہ؟
اقبالؔ کے فلسفہ میں حرکت و عمل کا پیغام اہم ہے خاموشی اور جمود سے نفرت کرتے ہیں اقبالؔ کے نزدیک شباب آرام کیلئے نہیں بلکہ کچھ کرنے کیلئے ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں۔
ہاتھ رکھے ہاتھ پر بیٹھے ہو کیا بے خبر
چلنے کو ہے کارواں کچھ تو کیا چاہئے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹہرے ذرا کچل گئے ہیں
اقبالؔ نے اپنی نظموں میں ابلیس کی تعریف کی ہے کیونکہ اقبالؔ محسوس کرتے ہیں کہ ابلیس ہمیشہ انسانوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے اور انہیں خدا کی نافرمانی پر اکساتا رہتا ہے ابلیس کے بہکاوے میں نہ آتے ہوئے لوگ نیکی کی طرف راغب ہوتے ہیں اس طرح اگر ابلیس نہ ہوتا تو لوگ کچھ نہیں کرتے۔اقبال نے ابلیس کے بارے میں اپنا فلسفہ مرتب کرتے وقت نہ صرف قدیم فلسفیوں ، صوفیوں اور شاعروں کے خیالات سے استفادہ کیا بلکہ اس میں اسلامی تعلیمات کو بھی مدنظر رکھا۔ اقبال کے ہاں ابلیس کا تصور ان کے فلسفہ خودی کا ایک جزو لاینفک ہے۔ نظم’’ تسخیر فطرت‘‘ میں ابلیس کے خدوخال اس طرح ہیں کہ شیطان جو رسمی مذہب میں بد ی کا مجسمہ ہے اسے اقبال نے اس حیثیت سے پیش کیا ہے کہ وہ جبر و تحکم کے علمِ بغاوت کو بلند کرنے والا اور بندہ ئے دام کے بجائے خود آزادانہ فیصلہ کرنے والا ایک منفرد کردار بن جاتا ہے۔ وہ اپنے اس اقدام سے ایک زبردست معرکہ چھیڑدیتا ہے جو افراد کے اندرونی رجحانات اورخارجی ماحول کے درمیان ہمیشہ جاری رہے گا۔ تمام فرشتوں میں یہ ایک اسی کی ذات تھی جس نے خدا کے حکم پر آد م کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور خدا کے اس سوال پر کہ اس نے یہ خطرناک جرات کیوں کی ، شیطان نے یہ جواب دیا میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔ بال جبریل کی نظم ’’جبریل و ابلیس‘‘ بھی اقبال کے تصور ابلیس پر روشنی ڈالتی ہے۔ نظم ایک دلچسپ مکالمے کی شکل میں ہے، جس میں جبرئیل اپنے ہمدم دیرینہ شیطان سے بڑے دوستانہ لہجے میں پوچھتا ہے کہ جہانِ رنگ و بو کا حال کیسا ہے؟ ذرا ہمیں بھی بتاؤ، شیطان اس کے جواب میں کہتا ہے کہ جہاں عبادت ہے سوز و ساز وردو جستجو ہے۔ جبریل اْسے کہتا ہے کہ آسمانوں پر ہر وقت تیرا ہی چرچا رہتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ تو خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے اور پھر سے ذات باری کا قرب حاصل کر لے؟ جواب میں شیطان کہتا ہے کہ میرے لئے اب یہ ممکن نہیں، میں آسمان پر آکر کیا کروں گا۔ وہاں کی خاموشی میں میرا دم گھٹ کر رہ جائے گا۔ آسمان پر زمین کی سی گہما گہمی اور شورش کہاں ہے۔ جبرئیل یہ باتیں سن کر بہت ناخوش ہوتے ہیں اور دکھ بھرے لہجے میں کہتے ہیں کہ اسی انکار کی وجہ سے تو نے اپنے مقاماتِ بلند کھو دیئے اور اسی سے تو نے فرشتوں کی بے عزتی کرائی، تمہارے اس اقدام کے بعد فرشتوں کی خدائی نظروں میں کیا آبرو رہی؟ اس پر شیطان چمک کر جواب دیتا ہے کہ تم آبرو کا نام لیتے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میری جرات سے ہی کائنات وجود میں آئی اور میری ہی وجہ سے عقل کی ضرورت پڑی۔ تیرا کیا ہے، تو تو ساحل پر کھڑا ہو کر تماشا دیکھنے والوں میں سے ہے۔ تو خیر و شر کی جنگ کو بس دور سے دیکھتا ہے۔ میری طرف دیکھو کہ میں طوفان کے طمانچے کھاتا ہوں، یہ میں ہی تھا جس کی بدولت آدم کے قصے میں رنگینی پیدا ہوئی، ورنہ یہ ایک بے روح داستان تھی۔ ابلیس و جبریل خیالات کی بلندی کے اعتبار سے اردو شاعری میں ایک معرکے کی چیز ہے۔
مغرب نے خودی کے فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے ترقی کی لیکن اطاعت الٰہی ضبط نفس اور نیابت الٰہی کا منصب چھوڑ دینے سے مسلمان روحانی طور پر پیچھے رہنے لگا۔ اقبالؔ روحانی ترقی پر بھی زور دیتے ہیں کیونکہ روحانی نظام کی بنیاد توحید پر قائم ہے اور توحید کا فلسفہ دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں کو رنگ و نسل وذات پات ادنیٰ وا علیٰ کی قید سے آزاد کرتے ہوئے ایک رشتہ میں پروتا ہے۔
اقبالؔ نے اپنی شاعری کے ذریعہ وطن کی آزادی پر زور دیا ہے کیونکہ غلامی انسان کی تمام خوبیوں کو مٹا دیتی ہے اور آزادی سے ترقی میں مدد ملتی ہے اقبالؔ آزادی کے ساتھ مساوات پر بھی زور دیتے ہیں وہ انسانوں کو مختلف طبقوں میں بانٹنے کے مخالف ہیں وہ انسانوں کے حقوق کی علم برداری کرتے ہیں وہ مزدور کاحق دلانا چاہتے ہیں اور انسانوں کے بنائے ہوئے مختلف ازم (Isms) کو نا پسند کرتے ہیں۔
فکر اقبال کا ایک اور اہم پہلو قومیت کا تصور ہے۔ اقبال ؔ نے اپنی شاعری کی ابتدا میں وطن سے محبت کے جذبے ابھارے ۔ اور لوگوں کو حب وطن کا پیغام دیا۔ بعد میں ان کا نظریہ قومیت آفاقی ہوگیا۔ اور وہ مذہب اسلام کو ایک آفاقی مذہب کے طور پر پیش کرنے لگے۔ اقبال قومیت کو اسلام کے دائرہ میں اس لئے رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک صحیح انسانی معاشرہ صرف اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے وجود میں آسکتا ہے۔ چنانچہ ان کے تصور قومیت کی بنیاد اسلامی اعتقادات پر ہے۔وہ کہتے ہیں۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
ملت کے لئے اخوت کی ضرورت اسلام نے عالمِ انسانیت میں ایک انقلابِ عظیم کو بپا کرکے انسان کو رنگ و نسل، نام و نسب اور ملک و قوم کے ظاہری اور مصنوعی امتیازات کے محدود دائروں سے نکال کر ایک وسیع تر ہیئت اجتماعیہ میں متشکل کیا۔ اقبال کے نزدیک یہ ’’ہیئت اجتماعیہ‘‘ قائم کرنا اسلام ہی کا نصب العین تھا۔ مگر بدقسمتی سے یہ وحدت قائم نہ رہ سکی اور مسلمان مختلف فرقوں، گرہوں اور جماعتوں میں بٹتے چلے گئے۔ اقبال مسلمانوں کو پھر اسی اخوت اسلامی کی طرف لوٹنے کی تلقین کرتے ہیں اور ایک ملت میں گم ہو جانے کا سبق سکھاتے ہیں۔ وہ ایک عالمگیر ملت کے قیام کے خواہشمند ہیں جس کا خدا، رسول کتاب، کعبہ، دین اور ایمان ایک ہو۔
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
ملت اور اخوت کا پیغام اسی جذبہ کے تحت اقبال مسلمانوں کو اخوت کا پیغام دیتے ہیں اور انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ رنگ و خون کو توڑ کر ایک ملت کی شکل میں متحد ہو جائیں۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ملک قوم ، نسل اور وطن کی مصنوعی حد بندیوں نے نوع انسانی کا شیرازہ منتشر کرکے رکھ دیاہے۔ اور اس کا علاج سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اسلامی معاشرہ کے تصور کو رائج کیا جائے اور کم از کم مسلمان خود کو اسی معاشرہ کا حصہ بنا لیں۔مگر وحدت کا یہ احساس اور اخوت کا یہ جذبہ اگر نوع انسانی کے اندر پیدا ہو سکتا ہے تو صرف اسلام کے ذریعہ ہی پیدا ہونا ممکن ہے۔ اقبال کی نظر میں اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں ، بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے۔ جو انسان کے قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔
فکر اقبالؔ میں ہمیں عورت کے تعلق سے بھی ان کے خیالات سے آگہی ہوتی ہے۔ ع۔ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ کہہ کر اقبالؔ نے عورت کی ہمہ گیریت کو واضح کیا ہے۔ اقبال چاہتے ہیں کہ عورت پردے میں رہ کر اپنے مقام کو پہچانے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گذارے۔
مجموعی طور پر اقبالؔ انسان کو حرکت و عمل کا پیام دیتے ہوئے اسے بلند مقام حاصل کرنے کی نصیحت کرتے ہیں ۔ یہی ان کے فلسفہ خودی کی روح ہے وہ مسلسل پرواز تلاش پیہم اور آگے بڑھنے کی بے پناہ آرزو کے قائل ہیں۔ اقبالؔ نے اپنی شاعری کو اپنے فلسفہ اور خاص پیام تعلیمات کا ذریعہ بنایا وہ بلاشبہ شاعر مشرق کے خطاب کے مستحق ہیں ان کی شاعری کا اثر بعد کے اُردو اور فارسی شاعروں پر پڑا۔
فکر اقبالؔ کے پہلو آفاقی ہیں اور ہر زمانے میں ان کی اہمیت مسلمہ ہے۔عہدِ حاضر میں جس قدر مادی استحکام حاصل ہوا ہے اس سے کئی گنا زیادہ اخلاقی پستی نے بھی انسان کو اندھیروں کی طرف ڈھکیل دیا ہے ، اقبال مغرب کی جس تقلید اور اندھی پیروی سے روک رہے تھے آج اسی نے اس خطہ کے مسلمانوں کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، اقبال کے نزدیک روحانیت ہی بقائے انسانی کا واحد ذریعہ ہے ، تقلیدِ غیر سے جہاں اپنی اخلاقی اقدار کا بیڑا غرق ہوتا ہے وہیں ایک ایسی تہذیب کی ترویج ہوتی ہے جو نہ صرف دینِ اسلام کے سراسر منافی ہے بلکہ انسانی فطرت سے بھی کسی طرح ہم آہنگ نہیں ہے۔ محض یہی وجہ ہے کہ اقبال یورپ کی اندھی تقلید کرنے والوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ۔۔اقبالیات کے فروغ کے لیے اقدامات کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کیونکہ معاشرہ جس تیزی سے مغرب کی یلغار کا شکار ہو رہا ہے اور روشن خیالی کے نام پر اسلامی افکار کی جس طرح دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں اس کی روک تھام اسی صورت میں ممکن ہے کہ یا دینِ فطرت یعنی اسلام کو نافذ کر دیا جائے یا پھر تعلیماتِ اسلامی سے استفادہ کیا جائے ، اقبال اس سلسلہ میں ایک اہم ترین کڑی ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے افکار محض فلسفہ، مذہب ، دین یا تاریخ پر بحث نہیں ہیں بلکہ انسان کو حقیقت سے روشناس کرانے کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔ اقبال نے اپنے ابلاغ کے لیے نثر کی بجائے نظم کو اپنا وسیلہ اظہار بنایا۔ برصغیر کے لوگوں کا طبعی میلان نظم کی طرف تھا اس لیے ایک ہلچل مچ گئی۔اب موجودہ دور میں اس خطہ کے لوگوں کے میلان کو پیش نظر رکھتے ہوئے افکارِ اقبال کی تبلیغ سے نہ صرف مسلم معاشرہ اپنا توازن قائم رکھ سکتا ہے بلکہ اقوامِ عالم پر بھی اپنا تشخص بہتر طور پر اجاگر کر نے کا اہل ہو سکتا ہے۔اقبال نے تمام عمر اسلامی شعار کی تبلیغ کو مقصدِ حیات بنا کر رکھا اور تصوف و فلسفہ کی پیچیدگیوں کے باوجود اسلام کا تشخص مجروح نہ ہونے دیا۔ دورِ حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کی فکر کو عام فرد تک رسائی دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ ایک تشکیل شدہ معاشرہ درست طور پر اپنے تشخص کی حفاظت کرسکے۔
———-
Dr.Md Abrarul Baqui