حیدرآباد کے ادبی اڈّے – – – – – – ڈاکٹررؤف خیر

Share

Rauf Khair  حیدرآباد
حیدرآباد کے ادبی اڈّے

ڈاکٹررؤف خیر
حیدرآباد ۔ دکن

مشرق سے مغرب تک ہر شہر میں کوئی نہ کوئی ایسا ’’ادبی اڈّہ ‘‘ ہوتا تھا جہاں شاعر ادیب عموماً شام کوجمع ہوا کرتے تھے اور اپنی اپنی تازہ تخلیقات پیش کرکے داد طلب ہوا کرتے تھے ۔مخلص احباب کے مشورے ان تخلیقات کو نکھارنے سوارنے میں مدد گار ہوتے تھے اس قسم کے مخلصانہ مشورے قبول کرتے ہوئے ادیب شاعر عار محسوس نہیں کرتا تھا کیوں کہ اخلاص ہر دوجانب ہوا کرتا تھا ۔ایسے خوش ظرف مخلص شاعر ادیب ہر شہر میں ہوا کرتے تھے ۔پٹنہ ہوکہ لاہور ،رانچی ہوکہ کراچی ،لکھنؤ ہوکہ دہلی ہر چھوٹے بڑے شہر میں ادبی اڈے شعر و ادب کی ترویج واشاعت کے مراکز شمار ہوتے تھے۔

بھوپال کا ادبی اڈہ احد ہوٹل تھا جس کے منیجر محمد علی تاج ؔ بھوپالی تھے جو بجائے خود بڑے اچھے شاعر تھے ۔ان کے دوشعری مجموعے ’’خیمہء گل‘‘ اور’’ سورج نما‘‘ ان کی یادگار ہیں ان کے کئی شعر ضرب المثل کی طرح مشہور ہیں ۔ان کا ایک شعر ہے :
پھول کیا ہے شبنم کیا شمع کیا ستارہ کیا
حُسن حُسن ہے تیرا اس میں استعارہ کیا !
حیدرآباد میں بھی شاعروں ادیبوں کے کچھ ٹھکانے تھے جہاں وہ بلا ناغہ جمع ہوتے تھے ۔ان سے ملنے کے مشتاق حضرات ان کے گھروں سے بھلے ہی ناواقف ہوں ان ٹھکانوں پر ہی ان سے رابطہ قائم کیا کرتے تھے ۔ہر شہر دو حصوں پر مشتمل ہوا کرتا ہے جیسے نئی دہلی پرانی دہلی ، کلکتہ کا ہوڑہ پیل خانہ اور Splendid Area۔اسی طرح حیدرآباد بھی پرانے شہر اور نئے شہر میں سانس لیتا ہے ۔پرانے شہر کے بعض ادیب و شاعر مدینہ ہوٹل محلہ پتھر گٹھی میں پائے جاتے تھے جیسے استاد شاعر اوج تعقوبی ،خواجہ شوق صلاح الدین نیر، فیض الحسن خیال رئیس اختر وغیرہ ۔استاد شاعر اپنے اپنے شاگردوں کے کلام پرا صلاح وہیں دیا کرتے تھے ۔اس طرح وہاں ان کے شاگرد ان کی خدمت بھی کیا کرتے تھے ۔
تاریخی عمارت چارمینار کے دامن میں ایک کیفے فراشا بھی ہے جہاں بعض شاعر آدھی پیالی چائے پلاکر پوری پوری سالم غزلیں ایک دوسرے کو سنایا کرتے تھے ۔اس کیفے میں جمع ہونے والوں میں روحی قادری ،رضا وصفی ،الطاف صمدانی ،غیاث متین وغیرہ تھے ۔فراشا کیفے کو اربابِ ذوق نے ’’غیبت کدہ ‘‘ کا نام دے رکھا تھا پرانے شہر اور نئے شہر میں خطِّ فاصل کھینچنے والی موسیٰ ندی ہے ۔جنوبی حصے میں جو شاعر ادیب تھے وہ بڑے قلندر مزاج واقع ہوئے تھے ۔وہ اپنی دنیا میں مست رہتے تھے ۔چوں کہ عصری تعلیم سے بھی کم کم ہی آشنا تھے اس لیے وہ زیادہ تعلیم یافتہ ادیبوں شاعروں کے لیے اجنبی سے تھے ۔وہ روایتی شاعری کو گلے لگا کے جیتے تھے ۔رات رات بھر روایتی مشاعرے برپا کرتے تھے ۔ان کی تخلیقات بہت کم شائع ہوتی تھیں ۔اس کے بر خلاف شمالی حصے میں واقع نئے شہر کے قلم کاروں کی تخلیقات ہندوپاک کے رسائل وجرائد میں جگہ پاتی تھیں اوران کی خوب شہرت تھی ۔نئے شہر میں ترقی پسند ی اور جدیدیت کے علم بردار پائے جاتے تھے ۔ان کی محفلوں میں نئے نئے مباحث اٹھائے جاتے تھے اور ان کی محفلیں زیادہ تر دن کے اوقات میں ہوتی تھیں یا زیادہ سے زیادہ آٹھ نوبجے رات کو اختتام پذیر ہوتی تھیں۔کیوں کہ اس کے بعد ان کی ’’فضیلت کا وقت ‘‘ شروع ہوجاتا تھا ۔
پرانے شہر کے شاعروں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان کو موسیٰ ندی کے آگے کوئی نہیں جانتا مگر پرانے شہر کے شاعر نئے شہر کے شعرا کی قدرو منزلت میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے قابلِ ذکر مشاعروں میں ترقی پسند اور جدید شاعروں کو مدعو کیا کرتے تھے جیسے مخدوم ،سلیمان اریب ،وحید اختر ،شاذتمکنت ،ابن احمد تاب ،عزیز قیسی وغیرہ جب کہ نئے شہر کی محفلوں میں پرانے شہر کے شاعر حصہ لیتے شرماتے تھے ۔جدیدیت اور ترقی پسند ی کے بارے میں پرانے شہر کے شاعروں کی رائے کچھ اچھی نہیں تھی وہ اسے گمراہی سمجھتے تھے ۔
پرانے شہر میں ادیبوں شاعروں کے دو مشہور اڈے تھے ۔جیسے مدینہ ہوٹل اور تاریخی عمارت چار مینار کے دامن میں فراشا کیفے ۔ نئے شہر کے پڑھے لکھے سیاست دانوں ،ادیبوں شاعروں کا مرکز اورینٹ ہوٹل تھا جو قلبِ شہر میں عابڈس کے مقام پر واقع ہوا تھا ۔مدینہ ہوٹل اور فراشا کیفے میں بیٹھنے والے کبھی اورینٹ ہوٹل کا رُخ نہیں کرتے تھے ۔اسی طرح اورینٹ ہوٹل میں اڈّہ جمانے والے پرانے شہر کے شاعروں کوچشم کم سے دیکھتے تھے جو زیادہ تر سیندھی خانوں اور خانہ ساز شراب پر گزارا کرلیا کرتے تھے ۔پرانے شہر کے ایک شاعر رضا وصفی کہتے تھے :
نظر کو آرزو ہے نیم زرد پھولوں کی
زباں کو ذائقہ بگڑی ہوئی شراب کا ہے
ہم نے اُن سے جب پوچھا کہ اچھی کمپنی کی اچھی شراب کے بجائے وہ بگڑی شراب کو کیوں پسند کرتے ہیں تو فرمانے لگے خانہ ساز شراب کی بھٹّی جب بگڑ جاتی ہے تو شراب اور بھی تیز اور زیادہ نشہ آور ہوجاتی ہے ۔بگڑی ہوئی شراب کا ذائقہ رکھنے والا کسی اچھی سے اچھی شراب کو خاطر میں نہیں لاتا۔ دراصل پرانے شہر کے شاعر اپنی اوقات کے مطابق نشہ کرتے تھے ۔جب کہ اورینٹ میں بیٹھنے والوں کا معیارِ زندگی قدرے بلند تھا ۔شاعرِ موصوف سے ہماری گفتگو 1970کے آس پاس ہوئی تھی گویا تقریباً پینتالیس سال پہلے ۔ہم اس وقت منہ پھٹ نوجوان تھے ۔’’نیم زرد پھولوں ‘‘ کی جو انھوں شرح فرمائی تھی وہ بھی خاصے کی تھی ۔فرمایا کہ میاں تم کیا جانو ادھیڑ عمر کی محبوباؤں سے جو پذیر ائی حاصل ہوتی ہے اس شعر میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
اورینٹ ہوٹل میں بیٹھنے والے وہاں سے اٹھتے بھی تھے تو رستم فرام بار میں زیر بار ہو کر ولایتی شراب کے مزے لوٹتے تھے ۔مشہور ترقی پسند مگر متمول شاعر راشد آزر کے گھر پر ہی باضابطہ بار بنا ہوا تھا ۔ بیشتر ادیب و شاعر ان کے اطراف منڈلاتے رہتے تھے ۔جب کہ صفی اورنگ آبادی کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی ساری زندگی سیندھی خانوں میں گزری ۔ان کے شاگر د اور چاہنے والے انھیں اس سے آگے بڑھنے نہیں دیتے تھے ۔ریڈیو سٹیشن سے صفی اورنگ آبادی کو کنٹراکٹ بھیجا گیا کہ وہ آکر اپنا کلام ریکارڈ کروائیں ۔وہ اپنا کلام ریکارڈ کروانے پر آمادہ بھی ہوگئے تھے مگر ان کے نادان ساتھیوں نے صفی سے کہا ۔’’صفی صاحب آپ اور ریڈیو سٹیشن جائیں! ریڈیو والوں کوچاہیئے کہ آپ کے پاس آئیں !! ‘‘اس زمانے میں چوں کہ ٹیپ ریکارڈ رایجاد نہیں ہوا تھا لہذا صفی کا کلام نشر ہی نہیں کیا جاسکا ۔ریڈیو سٹیشن میں ریکارڈ نگ ساؤنڈ پروف رو م میں ہوا کرتی ہے۔ اس میں شک نہیں صفی کی غزلیں سیندھی خانوں میں ،طوائفوں کے کوٹھوں پر اور قوالوں کے ذریعے کافی مقبول ہوئیں ۔گلی گلی ان کی سیدھی سادی غزلوں کی دھوم تھی مگر یہ ریڈیو جیسے طاقتور میڈیا سے محروم رہیں۔ ان کی غزلیں کہیں چھپتی بھی نہیں تھیں اِلا ماشاء اللہ ۔یہی سبب ہے کہ صفی کا واحد مجموعہء کلام ’’پرا گندہ ‘‘ ان کے انتقال کے برسوں بعد 1965 کے آس پاس شائع ہوا۔پاکستان میں ’’فردو سِ صفی ‘‘ چھپا مگر اس میں الحاقی کلام بار پا گیاہے
پرانے شہر کے شاعر جو زیادہ تر فراشا کیفے میں بیٹھتے تھے آپس میں الجھا بھی کرتے تھے ۔گروہ بندیاں بہت تھیں۔ بعض استاد شاعروں کا ذریعہء روزگار شاعری ہی تھا ۔ضرورت مند ہر قسم کا مال اُن سے لے کر اپنے نام سے پڑھتے پھر تے تھے ۔
ایک شاعر اعلی افسر تھے ۔وہ اکثر مشاعروں میں اپنی مسدس ’’محمدنامہ ‘‘ کے کچھ بند سنایا کرتے تھے ۔پرانے شہر کے ایک اور استاد شاعر روحی قادری نے Loose Talk میں کہیں کہہ دیا کہ محمدنامہ ان کا کہا ہوا ہے ۔اب کیا تھا علی افسر نے روحی قادری کے خلاف ازالہ حیثیتِ عرفی کا دعوا Defamation Suit دائر کردیا ۔اتفاق سے ہم اس زمانے میں رینٹ کنٹرول کورٹ میں سٹینو گرافر تھے ۔ہمارے کورٹ کے بازو میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کے اجلاس (کریمنل کورٹ ) میں ان کا مقدمہ چل رہا تھا ۔ وہیں ہم علی افسر کو ہر پیشی پر دیکھا کرتے تھے ۔مہینوں بعد مجسٹریٹ نے علی افسر اور روحی قادری کو مصالحت کرلینے کا مشورہ دیا ۔ اس طرح وہ مقدمہ داخلِ دفتر ہو گیا ۔
فراشا کیفے میں پابندی سے اڈہ جمانے والے ایک نوجوان شاعر الطاف صمدانی کلین شیو، بش شرٹ پینٹ میں ملبوس اکثر ان شرٹ کیا کرتے تھے ۔ان کے شاگرد وں کا ایک حلقہ بھی تھا۔ وہ غالباً کسی مرہم کی تیاری اور فروخت میں مصروف تھے ۔صاحبِ ذوجین تھے ۔اسی زمانے میں ہمارا ایک تحقیقی مقالہ ’’حیدرآباد کی خانقاہیں ‘‘ (1994میں ) منظر عام پر آیا تھا ۔جس میں ہم نے بتایا ہے کہ قادریہ ، چشتیہ ،سہرورد یہ اور نقش بندیہ سلسلے کے اصل بانی کون ہیں اور حیدرآباد میں یہ سلسلے کن صوفیہ کے ذریعے پھیلے اور ان کی خانقا ہیں کہاں کہاں موجود ہیں ۔اس وقت تک الطاف صمدانی محض ایک اپ ٹوڈیٹ شاعر تھے ۔ مگر اچانک انھوں نے اپنا رنگ ڈھنگ بدلا ،حلیہ بدلا ،ڈاڑھی چھوڑلی اور اب سیدشاہ الطاف صمدانی ہوگئے اور کسی سلسلے میں بیعت بھی لینے لگے تھے ۔اب سنا ہے ان کی بھی کوئی خانقاہ ہے جہاں ان کا بھی عرس منایا جاتا ہے ۔ان کا ایک شعر مشہور ہے :
ان کے صدقے میں جی رہا ہوں میں
جن کو صدقہ دیا نہیں جاتا
ہم نے اپنی کتاب میں الطاف صمدانی کا ذکر نہیں کیا تھا کیوں کہ اس وقت تک وہ ہماری طرح کے ایک عام آدمی ہی تھے ورنہ ہم اپنی کتاب میں ان کی ترقی کا ذکر ضرور کرتے ۔ بعض دیگر کتابوں کے ساتھ ہماری یہ کتاب ’’حیدرآباد کی خانقاہیں ‘‘ آج بھی گوگل ویب سائٹ پر ہمارا نام Raoof Khairٹائپ کرکے اور اس پر کلک کرکے پڑھی جا سکتی ہے ۔
فراشا کیفے میں بیٹھنے والے جُز معاش ادیب شاعر نئے شہر کے ادیبوں شاعروں کے ادبی اڈّے اور ینٹ ہوٹل کی طرف کبھی نہیں جاپاتے تھے ۔البتہ مدینہ ہوٹل کی بیٹھک والے بعض شاعر شام میں اورینٹ ہوٹل کی طرف جانکلتے تھے جیسے خورشید احمدجامی ، خیرات ندیم ، ستار چشتی وغیرہ ۔خیرات ندیم ایک نہایت زندہ دل شاعر تھے ۔ان کے قریبی دوست ستار چشتی تھے ۔یہ دونوں ٹیچر تھے اور غالباً ایک ہی سرکاری سکول میں تعینات تھے ۔ظاہر ہے دونوں کا رات دن کا ساتھ تھا ۔دونوں ہم مشرب بھی تھے ۔حیدرآباد کے مشہور و ممتاز ترقی پسند افسانہ نگار عاتق شاہ کی لڑکی عائشہ جبین کی شادی کی محفل میں ہمیں خیرات ندیم اکیلے دکھائی دیے۔ ہم نے اُن سے پوچھ لیا کہ آپ کے ساتھ آپ کے کونٹرپار ٹ Counter part دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔خیرات ندیم صاحب نے ہمیں بتایا کہ ایک زمین کے معاملے میں اُن کا ستارچشتی سے جھگڑا ہوگیا ہے ۔ہم نے پوچھا کیا زمین مشترکہ طور پر خریدی گئی تھی ؟ اگر ایسا تھا تو آدھی آدھی بانٹ لیتے ۔ خیرات صاحب نے انکشاف کیا کہ’’ غزل کی زمین‘‘ کے معاملے میں جھگڑا ہوگیا تھا ۔وہ زمین انھوں نے پہلے نکالی تھی پھر اس میں ستار چشتی نے غزل کہہ ڈالی اورا سے اپنی اختراع قرار دیا تھا ۔تب سے دونوں میں بول چال بند ہے ۔
’’زمیں ‘‘کھا گئی آسما ں کیسے کیسے
خیرات ندیم صاحب زندہ دل واقع ہوئے تھے ۔وہ سگریٹ بھی کثرت سے پیا کرتے تھے ۔چنانچہ گینگر ین مرض کی پاداش میں ان کا ایک پاؤں آخری آخری عمر میں گھٹنے کے نیچے سے کاٹ دیا گیا تھا ۔ وہ بیسا کھیوں کے سہارے چلا کرتے تھے ۔ایک سرکاری مشاعرے میں (جس میں ہم بھی مدعو تھے ) اس وقت کے چیف منسٹر این ٹی راما راؤ سے شاعروں کا تعارف کرایا جارہا تھا ۔ان کی باری آئی تو خیرات ندیم نے چیف منسٹر کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر کہا
’’کچھ کم خیرات ندیم سے ملیے ‘‘ ایسے زندہ دلوں سے حیدرآباد خالی ہوگیا ۔
اٹھ گئے دنیا سے فانی ؔ اہل ذوق
ایک ہم مرنے کو زندہ رہ گئے
جیسا کہ کہا جا چکا ہے حیدرآبا د کے نئے شہر میں پڑھے لکھے ادیبوں شاعروں ، سیاست دانوں کا مرکز اورینٹ ہوٹل تھا جو قلب شہرعابڈس جیسے پر رونق مقام پر واقع ہوا تھا ۔یہاں مخدوم محی الدین ،سلیمان اریب ، خورشید احمد جامی ،شاذ تمکنت ،مغنی تبسم ، عوض سعید ، اقبال متین ، وحید اختر ، مجتبیٰ حسین ، عزیز قیسی وغیرہ وغیرہ بلاناغہ جمع ہوتے تھے ۔ترقی پسند ادیب کا گروپ اپنے مسائل کے لیے ایک میزپر جمع ہوتا جہاں مخدوم مرکزی حیثیت رکھتے ۔سیاسی امور طے پا جاتے تو پھر ادبی معاملات کے لیے وہ دوسری میزوں کا رخ کرتے ۔
ٹی انجیا (سابق چیف منسٹر آندھرا پردیش ) چناریڈی (سابق چیف منسٹر آندھرا پردیش ) وینکیٹ سوامی ( مرکزی وزیر ) گوسوامی (مشہور سوشلسٹ سیاسیی پارٹی لیڈر ) ایم ایم ہاشم (سابق وزیر داخلہ آندھرا پردیش) سید رحمت علی (ایم پی ) وغیرہ وغیرہ جیسے سیاست دانوں کا آپس میں ملنے کا مقام بھی یہی اورینٹ ہوٹل ہوا کرتا تھا ۔خاطر تو اضع کرنے والے اہل عرض بھی وہیں آجاتے تھے ۔اورینٹ ہوٹل میں کھانے پینے اور پینے کھانے کاسب انتظام تھا ۔
عموماً ادیب شاعر کی جیبیں خالی ہوتی تھیں ۔یہاں کے بیرے بھی بڑے باذوق اور زندہ دل واقع ہوئے تھے ۔اورینٹ ہوٹل کے کئی لطیفے مشہور ہیں ۔ایک مرتبہ مخدوم محی الدین کے پاس ایک غزل ہوگئی اور وہ غزل سنانے کی خاطر اورینٹ ہوٹل پہنچ گئے ۔اتفاق سے اس رات کوئی ادیب شاعر و ہاں نہیں آپایا ۔اب مخدوم بے چین تو تھے ہی ایک بیرے قاسم کو تازہ غزل سنا نے لگے ۔وہ کچھ دیر تو سنتارہا پھر کہنے لگا
’’صاب آج آپ کو زیادہ چڑھ گئی ہے ۔چلیئے میں رکشہ دلا دیتا ہوں گھر جائیے آرام کیجئے‘‘ ۔
خورشید احمد جامی ؔ کبھی کسی مشاعرے میں شریک نہیں ہوتے تھے مگر ان کا کلام ہندو پاک کے معیاری رسائل میں کثرت سے شائع ہوا کرتا تھا ۔وہ کہتے تھے شاعری کوئی ایسی چیز نہیں کہ چھپا کر رکھی جائے صرف گناہ چھپا کر کرنے کی چیز ہے ۔یہاں گناہ کی جگہ انھوں نے ایک لفظ استعمال کیا تھا جس (گناہ ) کے بارے میں وہ مشہور تھے ۔جب کبھی ہندو پاک کے کسی رسالے میں جامی ؔ کی غزل شائع ہوتی تو وہ رسالہ بغل میں دابے وہ اورینٹ ہوٹل پہنچ جاتے ۔احباب کوچائے پلاتے اور اپنی غزل پڑھواتے ۔
صفی اورنگ آبادی کی موت کے برسوں بعد صفی کے واحد شعری مجموعے ’’پراگندہ‘‘ کی اشاعت کے موقع پر حیدرآباد کے کمال یارجنگ پیالیس میں کل ہند مشاعرہ ہوا تھا جس میں فراق ؔ گورکھپوری بھی شریک ہوئے تھے ۔شاذ تمکنت فراق پرجان دیتے تھے اور فراق بھی شاذ ؔ پر ۔دوسرے دن فراق گورکھپوری کے ساتھ شاذ ؔ تمکنت اورینٹ آئے۔ وہاں جامی ؔ صاحب تشریف فرماتے تھے ۔فراق گورکھپوری سے تعارف کراتے ہوئے شاذ نے کہا کہ فراق صاحب ان سے ملئیے یہ خورشید احمد جامی ہیں ۔فراق ؔ نے سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنکھیں گھمائیں ۔جامی ؔ بہت تیز آدمی تھے انھوں نے شاذ ؔ سے کہا ’’میاں تعارف یک طرف ہوگیا ۔یہ بھی تو بتاؤ کہ یہ صاحب کون ہیں ؟ ‘‘۔ اب فراق کا رنگ دیکھنے کے قابل تھا ۔!
اس زمانے میں سلیمان اریب کا رسالہ ’’صبا‘‘ اور اعظم راہی کا ماہ نامہ ’’پیکر ‘‘ ادبی دنیا میں تہلکہ مچا ئے ہوئے تھے ۔ان رسالوں کی مقبولیت دیکھتے ہوئے ایک صاحب کو پرچہ نکالنے کا شوق چرایا ۔ انھوں نے اورینٹ ہوٹل پہنچ کر مخدوم ،جامی ،خیرات ندیم ، ابنِ احمد تاب وغیرہ سے کہا کہ وہ صبا اور پیکر سے بھی زیادہ معیاری رسالہ نکالنے جارہے ہیں لہذا آپ حضرات سے کلام کی درخواست ہے ۔خیرات ندیم اور ابنِ احمد تاب نے اپنی اپنی غزلیں انھیں دے دیں ۔جامی ؔ صاحب نے اُن سے کہا کہ فی الوقت غزل نہیں ہے دو روز بعد آئیے ۔وہ دو دن بعد پہنچ گئے ۔جامی ؔ صاحب نے اُن سے پوچھا کہ وہ کس قسم کا منفرد رسالہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔مدیر موصوف نے فرمایا کہ وہ آرٹ پیپر پر تخلیقات شائع کرنے والے ہیں اور شاعروں ادیبوں کے نام بھی آرٹسٹک (فنکارانہ ) انوکھے انداز میں لکھوائیں گے جیسے آپ کا نام خورشید ہے ۔ہم آپ کی غزل کے اوپر سورج اتاریں گے اور اس کے بازو جامی ؔ لکھیں گے ۔جامی ؔ صاحب نے اُن سے پوچھا تو کیا خیرات ندیم کی غزل پر ایک بھکاری کوچپّے (کاسے) کے ساتھ دکھائیں گے اور بازو ندیم لکھ دیں گے ؟۔ اس پر زندہ دل خیرات ندیم اور ابنِ احمد تاب بھی قہقہے لگانے لگے ۔پھر یہ لطیفہ کئی دنوں تک ادبی حلقوں میں گردش کرتا رہا ۔
1968کے آس پاس کراچی کے احمد ہمیش حیدرآباد میں ہوا کرتے تھے جدیدیت کے حوالے سے ان کی بحثیں و حید اختر سلیمان اریب مخدوم وغیرہ کے ساتھ خوب ہوا کرتی تھیں۔وہ ان کے ’’ہم مشرب ‘‘ بھی تھے ۔یہ مباحث اورینٹ ہوٹل سے ’’صبا ‘‘ کے دفتر (مجردگاہ) تک پھیل جاتی تھیں۔حیدرآباد کے ایک جدید شاعر تاج مہجور شراب کی کمپنی میں منیجر تھے اور بقول غالب ؔ
مفت کی پیتے تھے مئے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ان کے بے تکلف دوستوں میں احمد ہمیش بھی تھے جنھیں اختر شیرانی کی طرح کی خیالی محبوبہ کے بجائے گوشت پوست کی حقیقی سلمیٰ میسر آگئی تھی تاہم احمد ہمیش کے دن کس مپرسی میں کبھی یہاں کبھی وہاں گزر تے تھے ۔ایک دن وہ سرِ شام تاج مہجور کے گھر پہنچ گئے ۔تاج ؔ بھائی جام و مینا سے شغل فرمارہے تھے ۔احمد ہمیش کو دروازے پر دیکھا تو خوش ہوگئے ۔اندر بلایا اور گھر والوں سے ایک اور گلاس منگوالیا اور جام تیار کرنے لگے ۔احمد ہمیش نے کہا ’’تاج بھائی بھوک لگی ہے ۔‘‘ تاج مہجور نے احمدہمیش کی طرف جام بڑھاتے ہوئے کہا ۔ ’’کھاناتو کتّا بھی کھاتاہے ۔لے شراب پی ‘‘
اورینٹ شعر و ادب کا ہی نہیں لطیفوں کا بھی اڈہ تھا ۔مجتبیٰ حسین اپنے دوست احباب کے ساتھ الگ میزپر قہقہے لٹاتے تھے ۔ان کی بذلہ سنجی اتنی شہرت پا گئی کہ سیاست کے مستقل کالم نگار شاہدصدیقی کی موت کے بعد طنز و مزاح کا مقبولِ خاص و عالم کالم شیشہ و تیشہ لکھنے کی ذمہ داری ان کے بھائی محبوب حسین جگر جیسے صحافی نے مجتبیٰ پر ڈالی ۔پھر تو کالم اتنامقبول ہوا کہ اس نے مجتبیٰ حسین کو مزاح نگاری کے آسمان پر پہنچا کے دم لیا ۔اب تو مجتبیٰ حسین مخدوم ،اریب ،شاذ ، عزیز قیسی ،وحید اختر ،مغنی تبسم ،اقبال متین وغیرہ کے ہم مشرب ہوگئے ۔ ان کی قربتوں کے بعد جب وہ دہلی پہنچے تو مخمور سعیدی ، بلراج کومل ۔کے یل نارنگ ساقی ،اندر کمار گجرال ، کنور مہندر
سنگھ بیدی سحر وغیرہ کے قریب ہوگئے ۔
اورینٹ میں مجتبیٰ حسین سے رونق آجاتی تھی ۔سلیمان اریب اپنی بیوی صفیہ کی علمیت کا ہر جگہ ڈھنڈورا پیٹتے تھے ۔چاہے کوئی سیاسی مسئلہ ہو ،سماجی معاملہ ہو یا ادبی بحث ہو ہر معاملے میں اریب کہتے کہ’’ صفیہ کا بھی یہی خیال ہے ‘‘۔ایک دوست نے زچ ہو کر اُن سے کہا یار یہ کیا ہر معاملہ میں صفیہ کا بھی یہی خیال ہے صفیہ کا بھی یہی خیال ہے کہے جاتے ہو ’’تم بڑے بے وقوف ہو ‘‘ ۔دوسری طرف سے ایک بے تکلف دوست نے لقمہ دیا’’ صفیہ کا بھی یہی خیال ہے‘‘ ۔اریب اس لطیفے کا خود بھی لطف لیا کرتے تھے۔
اور ینٹ کا ایک اور دل چسپ لطیفہ بہت مشہور ہے ۔پہلی بار شاذ تمکنت کو کشمیر میں کل ہند مشاعرہ پڑھنے کی دعوت آئی ساتھ ہی ہوائی جہاز کاکا ٹکٹ بھی انھیں بھیجا گیا ۔وہ دعوت نامہ اور ٹکٹ لے کر اورینٹ ہوٹل پہنچے تاکہ احباب پر رعب جمائیں ۔ادھر احباب نے نظر انداز کرنے کی سازش رچی ۔شاذ ؔ آئے اور احباب کی ایک میز پر کشمیری مشاعرے کا دعوت نامہ اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھی رکھا ۔چائے منگائی ۔بیرا جب پانی کے گلاس رکھ رہا تھا تو شاذ ؔ کہنے لگے۔ ذرا سنبھل کے ہوائی جہاز کا ٹکٹ رکھا ہوا ہے ۔چائے آئی تو پھر شاذ ؔ کہنے لگے ۔میاں ذرا سنبھال کے ہوائی جہازکا ٹکٹ کہیں زد میں نہ آئے ۔پھر بھی احباب نے چپ سادھے رکھی ۔بازو والی میزپر کسی نے زبردست قہقہہ لگایا ۔ مجتبیٰ نے کہا یارو ذرا سنبھل کے یہاں ہوائی جہاز کا ٹکٹ رکھا ہوا ہے کہیں اُڑ نہ جائے ۔اس پر پھر جو چاروں طرف قہقہے ابل پڑے دیکھنے کے تھے ۔شاذ تمکنت بُرا سامنہ بناکر اُٹھ کر چل دیئے ۔مذکورہ دونوں لطیفے مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں موجود ہیں ۔
غرض اورینٹ ہوٹل حیدرآباد میں گنگاجمنی تہذیب کا ایک انمول دل نواز مرکز تھا ۔جہاں کمیونسٹ اور ترقی پسند جمع ہوتے تھے جیسے مخدوم محی الدین ،راج بہادر گوڑ، سلیمان اریب ، اقبال متین ،عزیز قیسی وغیرہ کا نگریسی رہنما جیسے ٹی انجیا ،وینکٹ سوامی ،ایم ایم ہاشم ،رحمت علی وغیرہ جدید لب و لہجہ کے شاعروں میں خورشید احمد جامی ؔ جو حیدرآباد میں جدید غزل کے بنیاد گزاروں میں سے تھے ۔وحید اختر ،شاذ تمکنت وغیرہ ۔نئی نسل کے ابھر تے لکھنے والوں میں تاج مہجور ، رؤف خلش ،حسن فرخ ساجد اعظم ،محمود انصاری ،اعظم راہی وغیرہ آیا کرتے تھے ۔
شکیل بدایونی کے شاگرد کہلائے جانے والے اکمل حیدرآبادی بھی تھے جو کبھی ترقی پسندوں کی میز پر ہوتے تو کبھی جدید شاعروں کے ساتھ ہو جاتے ۔تمام ادیب شاعر ایک دوسر ے سے بے تکلف بھی تھے مگر حدو ادب بھی ملحوظ رکھتے تھے ۔کوئی شخص کسی کی دل آزاری نہیں کرتا تھا بلکہ لطیفوں کا ہدف بھی لطیفے سے لطف اندوز ہوتا تھا ۔سلیمان اریب تو ان کے تعلق سے پیش آنے والا لطیفہ خود ہی مزے لے لے کر سناتے تھے اور مجتبیٰ حسین سے کہتے تھے کہ وہ احباب کو سنائیں ۔
آج تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ادیب شاعر منہ پھلا ئے بیٹھتے ہیں بلکہ معمولی سی تنقیدبھی برداشت کرنے کی صلاحیت کسی میں نہیں۔
اورینٹ ہوٹل ،مدینہ ہوٹل ،فراشا کیفے کے حوالے سے ہم اور بھی لطائف و واقعات بیان کر سکتے ہیں مگر
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
ہزار ڈیڑ ھ ہزار گزپر مشتمل اورینٹ ہوٹل کی جگہ اب ایک بہت بڑا بزنس کامپلکس ہے ۔ادھر سے گزر ہوتا ہے تو ذرا سے تصرف کے ساتھ فنا نظامی کا شعر یاد آتا ہے ۔
یہ عمارت تو تجارت گاہ ہے
اس جگہ اک مئے کدہ تھا کیا ہو ا ؟

Dr. RAOOF KHAIR
Moti Mahal, Golconda, Hyderabad 500008
cell- 09440945645
email-

Share
Share
Share