میری اردوشاعری کی بیاض ۔ قسط 16- – ریاضؔ وصفیؔ – – – پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

%d8%b1%db%8c%d8%a7%d8%b6%d8%94-%db%94-riyaz
شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 16
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
ریاضؔ خیرآبادی – صفیؔ لکھنوی

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 15 ۔ کے لیے کلک کریں

ریاضؔ خیرآبادی (۱۸۵۴۔۱۹۳۴ء)

اردو شاعری میں خمریات کی ایک خاص اہمیت ہے، شراب نوشی اور اس کے لوازمات یعنی ساقی ،مے خانہ، جام سبو اور صراحی اور نشہ وخمار کے الفاظ کو بطور استعارہ استعمال کرکے شعراء نے روحانی مضامین اور صوفیانہ خیالات کو نہایت خوبی کے ساتھ باندھا ہے جیسا کہ غالب ؔ نے کہا:
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر

ریاضؔ خیر آبادی کا شمار ان شعراء میں ہے جو شراب اور مے خانے کے لوازمات کا استعمال اپنی شاعری میں بہت زیادہ کرتے ہیں ، لیکن وہ ہمیشہ اتنے پاک باطن اور پرہیزگار رہے کہ کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا، یہ سارا ہنگامہ ناو نوش فارسی شاعری کی روایات سے اردو شاعری میں منتقل ہوا، فارسی میں حافظ اور خیام ؔ کے اشعار بادہ وساغر میں ڈوبے ہوئے ہیں، حالی ؔ نے مقدمہ شعر وشاعر میں اس قدر شاعرانہ فرضی مے کشی پر تنقید کی ہے ، اور یہ اس لئے کہ اسلام میں نشہ حرام ہے، لیکن ریاضؔ خیر آبادی کہتے ہیں :
کچھ زہر نہ تھی شراب انگور
کیا چیز حرام ہوگئی ہے
چھلکائیں بھر کے لاؤ گلابی شراب کی
تصویر کھیچیں آج تمہارے شباب کی
ریاض ؔ خیرآبادی کے خمریات سے متعلق کچھ اور اشعار :
میرا یہی خیال ہے گو میں نے پی نہیں
کوئی حسیں پلائے تو یہ شے بری نہیں
دوسرے موضوعات پر بھی ان اشعار بہت اچھے ہیں :
کیوں جوانی آئی دو دن کے لئے
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے
ہم نے اپنے آشیانے کے لئے
جو چبھے دل میں وہی تنکے کے لئے
جام مے توبہ شکن توبہ میری جان شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے

صفیؔ لکھنوی(۱۸۶۲۔۱۹۵۰ء)

safi-lakhnavi-%d8%b1%db%8c%d8%a7%d8%b6%d8%94
صفیؔ لکھنوی

ہندوستان میں مغلیہ حکومت کا سورج جب ۱۸۵۷ء میں غروب ہوگیا ، اور صوبوں کے خود مختار حکمرانوں کی عمل داریاں بھی ختم ہوگئیں اور جب انگریزوں کا اقتدار قائم ہوتا چلا گیاتو ملک میں اور خاص طور پر سلطنت اودھ کے عوام وخواص جو بیسوں برس سے ایک پر سکون زندگی گذار کے آئے تھے، سخت کرب کا شکار ہوئے ، حکومت بھی گئی دولت بھی رخصت ہوئی اقتدار کا بھی خاتمہ ہوا، حویلیاں رہ گئیں جو ویران ہوگئیں اور محلات باقی رہ گئے لیکن ان کی ساری رونقیں ختم ہوگئیں، پرانے بازاروں کی رونقیں ختم ہوئیں ، نئے بازاروں میں چراغاں ہونے لگا، اور سپاہیوں کی چھاؤنیاں عوام پر خوف پیدا کرنے کے لئے ہر طرف قائم ہوگئیں، پرانی طرز معاشرت مٹتی گئی ایسے میں صرف ایک شاعر کا دل ہوتا ہے جس سے دھواں اٹھتا ہے اور زبان مرثیہ سرا ہو جاتی ہے، صفی ؔ لکھنوی کے کلام میں ان حالات کا عکس یوں نظر آتا ہے:
کل ہم آئینہ میں رخ کی جھریاں دیکھا کئے
کاروان عمر رفتہ کے نشاں دیکھا کئے

زور ہی کیا تھا جفائے باغباں دیکھا کئے
آشیاں اجڑا کیا ہم نا تواں دیکھا کئے

بستیاں ویراں ہوئیں آباد ویرانے ہوئے
شعبدے تیرے یہی اے آسماں دیکھا کئے

ہم تھے ایک آئینہ عبر ت کسی کی بزم میں
مہر باں دیکھا کئے نامہرباں دیکھا کئے
صفیؔ لکھنوی کا پورا نام سید علی نقوی تھا، لکھنؤ میں ابتدائی تعلیم عربی اور فارسی کی حاصل کی اور بعد میں انگریزی تعلیم کے لئے کالج میں داخلہ لیا اور انٹرنس کا امتحان پاس کیا، عدالت میں سرکاری ملازمت مل گئی جس میں وہ ترقی کرتے رہے، انھوں نے پوری توجہ ادب اور شاعری کی طرف لگادی، انھوں نے قومی جذبہ کو ابھارنے والی نظمیں بھی کہی ہیں اور مناظر قدرت کا نقشہ بھی کھینچا ہے، صفیؔ کے کلام میں درد اور یاس کا رنگ بہت گہرا ہے، اور اسی کے ساتھ عاشقانہ مضامین بھی ہیں، کلام میں سلاست ہے اور انداز بیان سادہ اور بے ساختہ ہے، چند اشعار ملاحظہ کریں:
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرہ عمر رفتہ کو آواز دینا

دل اجزاء پریشاں کوحقارت سے نہ دیکھ
کہیں صدیوں میں یہ سرمایہ بہم ہوتا ہے

بنائے ہستی ہے نیستی پرمگر تمہیں کچھ خبر نہیں ہے
یہ گلشن رنگ وبو ہے کیا شے اگر فریب نظر نہیں ہے
———
Prof Mohsin Usmani
mohsin osmani

Share
Share
Share