مولانا ابوالکلام آزادؔ : ایک کثیرا لحیثیات شخصیت – – – – الہان ریحانہ بشیر

Share

Maulana Azad ابوالکلام

مولانا ابوالکلام آزادؔ : ایک کثیرا لحیثیات شخصیت

الہان ریحانہ بشیر
ایم۔اے(اردو)، بی۔ایڈ
سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر

مولانا ابوالکلام آزادؔ بر صغیر کی تاریخ کی بہت ہی عظیم الشان شخصیت ہیں۔ مسلمانوں کے حقوق و اختیارات کے تحفظ کے علمبردار مولانا ابوالکلام آزاد ؔ کی زندگی کے کئی ایسے انیک پہلو ہیں جن پربہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔اُن کی ادبی کاوشیں، دانشورصلاحیت اورذہانت کو مد نظر رکھ کر اُن کی شخصیت صفحۂ تاریخ پردرخشاں ستارے کی مانند چمکتی نظر آرہی ہے۔

ابوالکلام آزادؔ کا تعلق افغانی خاندان سے تھاجو ہجرت کر کے بابر کے وقت ہرات سے ہندوستان آئے تھے۔۱۱؍نومبر۱۸۸۸ء کی صبح کو مقدس جگہ مکہ معظمہ میں مولانا آزاد تولد ہوئے۔مولاناآزادؔ پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔اُن کا تاریخی نام فیروز بخت تھا ۔ اصل نام محی الدین، ابو اکلام کنیت اورآزادؔ تخلص تھا۔مولانا آزادؔ کی شخصیت اتنی ہمہ گیر ہے کہ ہر سال اُن کی سالگرہ ۱۱؍ نومبر تعلیم کے دن کے طور منائی جاتی ہے۔
مولانا آزاد کی تعلیم بھی روایت زمانہ کے مطابق مسجد اور مدرسہ سے شروع ہوئی۔آزادؔ کی ابتدائی تعلیم اُن کے والد سے ہی ہوئی ہے۔آگے کی تعلیم کا سلسلہ اُن کے بڑے بھائی ابو النصر غلام یٰسین کے ساتھ مکہ میں ہی شروع ہوگئی۔والدہ محترمہ نے بھی اخلاق و مذہبی تربیت کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ یہی وجہ تھی کہ مولانا آزادؔ وقت سے پہلے ہی سنجیدہ ہو گئے اور کتابیں اُن کے کھلونے بن گئیں۔چوں کہ اُن کے والدمولانا خیر الدین عالم تھے؛ اس لیے عقیدت مند بہت تھے اور اپنے عقیدت مندوں کی خواہش کے اصرار پر وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ۱۸۹۸ء میں کلکتہ آئے ۔ یہیں آزادؔ کی والدہ کا انتقال بھی ہوا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا ابتدائی ماحول خالص اسلامی اور مذہبی تھایہی وجہ ہے کہ نوجوانی تک اُ ن کے ذہن پر مغرب کی پر چھائیں بھی نہ پڑی تھیں۔ اسلامی تہذیب اور اسلامی علوم کا آزادؔ کی ذہنیت پر اس قدر اثر تھا کہ اُن کی وادی افکار و احساسات میں تخلیقی قوتیں اس حد تک موجزن تھی کہ وہ بیسویں صدی کے صف اوّل کے عالم دین کے شرف سے مشرف ہوئے۔ اُن کی ادبی اور تصنیفی زندگی کا آغاز کم عمری میں ہی ہو ا۔ دس گیارہ برس کی عمر میں انھوں نے دنیوی تعلیم میں حیرت انگیز ترقیاں اپنے نام کر لی تھیں۔اسی زمانے میں شاعری کا شوق ہوا اور آزادؔ تخلص اختیار کیا۔ پہلے اردو اور پھر فارسی میں شاعری کرنے لگے۔ سب سے پہلی غزل بمبئی کے ایک رسالہ’’ارمغان فرخ‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ ’’خذنگ نظر‘‘ اور ’’ پیام یار‘‘ میں بھی اُن کی غزلیں شائع ہونے لگیں۔مولانا آزادؔ مطالعہ کے بے حد شوقین تھے۔ اکثر اپنی جیب خرچے سے کتابیں خرید لیتے اور بڑے غور و خوذ سے مطالعہ کرتے؛ جن میں فارسی،عربی اور اردو کی علمی کتابیں شامل ہیں۔ کتابوں کے تراجم اور رسالوں میں مضامین لکھنے کا بھی شوق رکھتے تھے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ بہت کم عمری میں ہی اس کی شروعات بھی کر دی تھی۔ محمد موسیٰ جو کہ ایک پریس کے مالک تھے نے ایک ہفت وار علمی و ادبی صحیفہ’’ المصباح‘‘ کے نام سے شائع کیااور آزادؔ کو اس کا ایڈیٹر منتخب کیاگیا۔ تب آزادؔ کی عمر بارہ برس تھی۔ پھر انھوں نے ۱۹۰۳ء میں اپنا سہ روزہ اخبار ’’لسان الصدق‘‘ کا اجرا کلکتہ سے کیا۔ چوں کہ اُس سے قبل ہی انھوں نے مضامین لکھنے کی روایت شروع کر دی تھی اور اُن کی نگارشات اُ س دور کے معیاری رسائل مثلاً مخزن ، خذنگ نظر اور احسن الاخبار میں شائع ہو چکی تھی۔ اُسی زمانے میں وہ سر سید سے کافی متاثر ہوئے اور اپنے رسالے میں سر سید کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے اُن کے مخالفین کی تردیدکرنے لگے۔ لیکن بعد میں انھوں نے سر سید کے خیالات سے کنارہ کشی کرنے میں ہی بہتری سمجھا۔ جس کی خاص وجہ سر سید کے انگریزوں کی مشروط وفاداری رہی۔ بعد میں اُن کی ملاقات شبلی نعمانی سے۱۹۰۶ء میں ہوئی اور اُن کی گہری دوستی کی بنیاد پڑی۔مولانا شبلی کی شخصیت نے اُن کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا۔اور انھیں ذہنی اور سیاسی طور پر بہت حد تک متاثر کیا۔ خود شبلی بھی آزادؔ کی ذہانت، دانشوری، دنیوی قابلیت اور خطابت سے متاثر ہوگئے اورانھوں نے اپنے مشہور ماہنامہ’’ الندوہ‘‘ میںآزادؔ کوشمولیت کی دعوت دی۔مولانا آزادؔ نے اُن کی اس دعوت کو سر خم ہو کر قبول کیا۔ ’’الندوہ‘‘ میں آزادؔ صرف ۶ ماہ نائب مدیر کی حیثیت سے رہے۔ اُ س وقت تک اُن کی قلمی کاوشوں کے نمونے دوسرے اخبارات و رسائل میں عوام الناس تک پہنچ چکی تھی۔لیکن شبلی نے اُن کی تخلیقی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کردیاجو کہ اُن کی تربیت گاہ میں ہی ممکن تھا۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مولانا آزادؔ اور مولانا شبلی ؔ کی بمبئی میں ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات تاریخی ثابت ہوئی کہ ابوالکلام کو مولاناابوالکلام بنا دیا۔ شبلیؔ اور آزادؔ کے آپسی تعلقات بہت ہی عمدہ درجہ کے رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے اتنی قربت تھی کہ دونوں کا رشتہ شبلیؔ کی حیات تک ہی نہیں بلکہ وفات کے بعد بھی قائم رہا۔ شبلیؔ اور آزادؔ کی قربت سے ہی آزادؔ اور سید سلیمان ندوی کے درمیان رشتہ قائم ہوا۔
مولانا ابوالکلام آزادؔ کواسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ مشرقی علوم پر بھی عبور تھا۔ وہ ایک بہترین خطیب بھی تھے۔ اُس کی ایک خاص وجہ تھی کہ اُن کو والد صاحب کے مریدوں کے مجمع میں تقریباً روزانہ بولنے کا موقع مل جاتا تھا۔ اِس مشق کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہترین مقرر و خطیب بن گئے۔ ایک بار لاہور میں قومی سطح کے ایک جلسے کو خطاب کر نے کے لیے آزادؔ کو دعوت دی گئی ۔۱۹۰۶ء میں لاہور اسٹیشن پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ وہ آزادؔ کے استقبال کے لیے آئے تھے۔ لیکن انھیںآزادؔ کو دیکھ کے تعجب اور حیرت ہوئی کہ یہ کم عمر پندرہ، سولہ سال کا نوجوان مولانا آزادؔ ہیں؟ لیکن جب آزادؔ نے اُس جلسہ میں ڈھائی گھنٹہ طویل یادگار تقریر کی تو اُس جلسے کے صدر مولانا حالیؔ نے انھیں گلے لگاتے ہوئے کہاکہ ’عزیز صاحب زادے!مجھے اپنی آنکھوں اور کانوں پر تو بہر حال یقین کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن حیرت مجھے اب بھی ہے۔
مولانا آزاد کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنے آپ میں ایک انجمن تھے توکوئی مبالغہ نہ ہوگا ۔ علم و فضل کی ہر بلندی اُ ن کی شخصیت میں سمائی ہوئی تھی جس کا اندازہ اُن کی عملی کا وشوں سے ہوتا ہے۔ اُن کی عملی کاوشوں کا سب سے بہتر اور عمدہ نمونہ ’’الہلال‘‘ ہے۔ ۱۳؍جولائی۱۹۱۲ء کو ’’الہلال‘‘ کا اجرا کلکتہ سے ہوا۔ اس میں آزادؔ نے ایسے موضوعات کو زیر بحث لایا گیا جس کے تحت کچھ الگ کرنے کی سعی کی گئی اور بہت حد تک اُنھیں اس میں کامیابی بھی ملی۔اِس اخبار میں روایتی موضوعات سے ہٹ کر قومی اور مذہبی مسائل بھی زیر بحث لائے گئے۔ اِس کا خاص مقصد مسلمانوں میں مذہبی اصلاح کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں حصہ لینے کی دعوت دینا تھا۔آزادؔ نے جس تحریک کا غلغلہ ’’الہلال‘‘ سے شروع کیا تھا ، وہ آخر تک مسلسل جاری رہا۔ آزادؔ جس قوم پرستی کی دعوت کا علم لے کر اُٹھے تھے؛ ’’الہلال‘‘ اُس دعوت کا وسیلہ تھا۔ آزادؔ اکا مقصد ’الہلال‘ کے ذریعے قوم کو جگانا اور ملت اسلامیہ کے ذہنی نقشے کو بدلنا تھا، جس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہے۔چند سیاسی وجوہات کی بنا پر ’’الہلال‘‘ کی ضمانت ضبط کر لی گئی۔ لیکن بعد انھوں نے ’’البلاغ‘‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا۔ یہ اخبار ’’الہلال‘‘ کا نقشِ ثانی تھا۔ ’’البلاغ‘‘ میں علم نفسیات کا درس اور فکر و بصیرت اور روحانی عزائم کا پیغام دیا گیا۔ چوں کہ ’’البلاغ‘‘ میں بھی تحریکِ آزادی کے حوالے سے مختلف مسائل کو زیر بحث لایاگیا تھا۔ اسی لیے ’’البلاغ‘‘ کا حشر بھی وہی ہوا جو ’’الہلال‘‘ کا ہوا یعنی۱۹۱۹ء میں یہ اخبار بند ہو گیا۔
تحریکِ آزادی کی جدو جہد میں آزادؔ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ جس کے لیے اُنھیں جیل بھی بھیج دیا گیا تھا۔ رانچی جیل میں نظر بندی کے دوران انھوں فضل الدین احمد کے اصرار پر اپنی سوانح عمری لکھنا شروع کی جس نے ایک ضخیم کتاب کی صورت اختیار کی اوراس کا پہلا حصہ ’تذکرہ‘ کے نام سے پہلی بار ۱۹۱۹ء میں کلکتہ سے شائع ہو ا۔اس دوران انھوں تراجم کا اہم کارنامہ انجام دیا۔ انھوں نے قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کی تفسیر و تشریح لکھنا شروع کیا۔ لیکن جس طرح ’تذکرہ‘ نامکمل رہ گیا تھا، اُسی طرح قرآن کریم کا یہ ترجمہ بھی پورا نہ ہو سکا اور صرف ۱۸ پاروں تک پہنچ کر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔۱۹۲۰ء میں رہائی کے بعد اُن کی سیاسی سرگرمیاں محض زبان و قلم تک محدونہ رہیں بلکہ سیاسی کشمکش کو دیکھتے ہوئے انھوں نے عزم لیا کہ عملی طور پر سیاست میں حصہ لیا جائے۔ تو اس سلسلے میں اُن کی ملاقات گاندھی جی سے ہوئی اور ۱۹۲۱-۱۹۲۰ء کے درمیان آزادؔ نے سینکڑوں تقریریں کیں۔ ۱۹۲۱ء میں اُنھوں نے صوبائی خلافت کانفرنس آگرہ میں ہندوستان کے مسلمانوں کو گاندھی جی کے اصول اختیار کرنے کی دعوت دی۔
’تذکرہ‘ اور’ترجمان القرآن ‘ کے علاوہ آزادؔ کی تصانیف میں’ خطبات آزاد ‘کو بھی ایک قابل لحاظ اہمیت حاصل ہے۔ ’خطبات آزاد‘ میں پندرہ خطبے شامل ہیں۔ جن میں سیاسی ، مذہبی اور سماجی مسائل نیز حالات حاضرہ پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے آزادؔ کے وہ خطبات بہت اہم ہیں جو انھوں نے ۱۹۲۰ ء اور۱۹۲۱ء کے دوران دیئے تھے۔ تذکرہ ، ترجمہ القرآن کے بعد آزادؔ کے قلعہ احمد نگر کی اسیری کے دوران ۱۹۲۲ء اور۱۹۲۳ء میں وہ خطوط بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں جو اُنھوں نے اپنے دوست حبیب الرحمٰن خان شیروانی کے نام لکھے تھے۔
مولانا آزادؔ ایک ادیب ، خطیب، صحافی، مترجم، تذکرہ نگار بہتر مہذب و مفکر ہی نہیں بلکہ منفرد طرز نگارش اور امتیازی و دلکش اسلوب کے مالک تھے۔ آزادؔ چوں کہ بچپن سے ہی بے حد ذہین تھے اور اُنھوں نے روایات سے ہٹ کراپنے افکار و خیالات کی ایک نئی دنیابسائی تھی۔ جس کا مقصود مسلمانوں کی ذہنی اصلاح اور قوم کے تئیں خدمات تھا ۔ آزادؔ کی سوچ، عمل و غور و فکر کا محور مذہب اسلام، قرآن اور سنت نبویﷺ تھی۔ اور اس پر وہ مرتے دم تک قائم رہے۔
مولانا آزادؔ نے اسلوب بیان کا ایک ایسا طرز اختیار کیا تھا جس کی مثال ملنا بہت حد تک ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ اُن کے ہم عصروں میں بھی اس نوع کے اسلوب کی مثال دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ اُن کے عہد میں ایسے ادیب اور دانشور موجود تھے جو علم و ادب ، مذہب و سیاست اور تعلیم و تدریس سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔جن میں خواجہ غلام السیدین اور ڈاکٹر ذاکر حُسین جیسی عظیم شخصیات بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ سید سلیمان ندوی، اور مولانا ماجد دریاآبادی جیسے عالم بھی موجود تھے۔ لیکن اُن کے اسلوب میں بھی الفاظ کی وہ گن گرج ، بلند آہنگی اور ادبی مرصع کاری نہیں پائی جاتی ہے جو آزادؔ کے اسلوب میں پائی جاتی ہے۔آزادؔ کے اس منفرد مگر دلکش اسلوب کا اعتراف مولانا ماجد دریاآبادی نے یہ کہہ کر کیا کہ آزادؔ اپنی تحریر و انشا میں اپنے اسلوب کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی۔اس ضمن میں سجاد انصاری کی محشر خیا ل کا معروف قول کہ ’’میرا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن نازل نہ ہوا ہوتا تو مولانا کی نثر اس کے لیے منتخب کی جاتی‘‘۔
ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے اپنی تصنیف’’ سنگ و ثمر‘‘ میں آزادؔ کی ہمہ جہت شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’مولانا نے مسلمانوں کی ترقی و تعلیم کے لیے بہت کچھ کیا تھا۔وہ مصلح قوم تھے، فن خطابت تو خاندانی تھا، نثر نگاری میں اُن کا ہمصر کوئی نہیں تھا۔ اردو اور فارسی پر زبردست عبور رکھتے تھے۔ ترجمان القرآن، تذکرہ، غبار خاطر، قول فیصل اورانڈیا ونس فریڈم اُن کی شہرہ آفاق تصانیف ہیں۔‘‘(سنگ و ثمر۔ ص ۱۱)
شعر وادب، مذہب و اخلاق ، حکمت و فلسفہ، سیاست و صحافت ہر جگہ مولانا آزاد کی انفرادیت اُن کا ذہنی کمال اور فکری عمق اپنی مثال آپ ہے۔ قدرت نے انھیں وہ ذہنی صلاحیت بخشی تھی کہ جس فن پر بھی انھوں نے توجہ کی اُسے بام عروج تک پہنچایا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ اسی کے لیے پیدا کئے گئے تھے۔ اُن کے اندرایک منتظم کی ساری خوبیاں موجود تھیں جس کے عوض میں اُنھیں کانگریس پارٹی کا صدر چنا گیا تھا۔ وہ جولائی ۱۹۴۲ء میں انگریزوں کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک میں پیش پیش رہے اور اپنی قوم کی آزادی کے خواہاں رہے۔ اُن کا مانناتھا کہ ’’آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے، کوئی شخص خدا کے بندے کو غلام نہیں بنا سکتا‘‘۔ آزادی کی جدوجہد اُن کے رگ و پے میں رچی بسی تھی اور ہمیشہ آزادی کی حمایت میں رہے اور کہا کرتے تھے کہ ’’ہندوستان آزاد ہوگا اور اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی‘‘۔ آزادؔ اپنے انہی خیالات اور اُن کی حب الوطنی کے جذبے کی بدولت کبھی بھلائے نہیں جاسکیں گے۔۱۹؍اگست کو انھیں گرفتار کیا گیا اوراُسی دوران ۱۹۴۳ء میں ان کی بیگم کا انتقال ہوگیا۔۱۹۴۶ء میں اُنھوں نے کابینہ مشن کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا اور آخر کار وہ خواب ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو پورا ہو ہی گیا جس کی منتظر ہندوستان کی پوری قوم تھی ۔ آزادی کے اس خواب کو پورا کرنے میں آزادؔ جیسے مجاہد آزادی کے بھر پور تعاون کو مد نظر رکھتے ہوئے اُنھیں ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کے اعزاز سے نوازا گیا۔ وہ ہندوستان میں جدید تعلیم کو فروغ دینا چاہتے تھے اور یہاں کے تعلیمی و تہذیبی نظام میں اہم تبدیلیوں کے خواہاں تھے۔اس ضمن میں اُنھوں نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ وہ جدید تعلیمی نظام اور عظیم تہذیب و تمدن کے بانی کہلائے۔ اُن کے ہی عہد حکومت میں ساہتیہ اکیڈمی، سنگیت ناٹک اکیڈمی، انڈین کونسل برائے تمدی تعلیمات اور نیشنل انسی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(این ۔آئی۔ ٹی) جیسے اہم تعلیمی اور ثقافتی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
بہر کیف آزادؔ ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے اہم رکن تھے۔ آزادی کے بعد وہ ایک سیاست دان کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور مہاتما گاندھی کے اصولوں کی حمایت کرتے رہے۔اُنھوں نے جہاں ہندومسلم اتحاد کے لیے کام کیا وہیں دوسری طرف خلافت تحریک کے اہم رکن کی حیثیت سے اپنا اہم کردار بھی ادا کیا۔ علم و ادب کا یہ روشن ستارہ ۲۲؍فروری۱۹۵۸ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
————

Share
Share
Share