مانو کا ششماہی جریدہ ’ادب و ثقافت‘ پرایک نظر- – – – پروفیسرمجید بیدار

Share

adab مانو
مانو کا ششماہی جریدہ
’’ادب و ثقافت‘‘ پرایک نظر

پروفیسرمجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو
جامعہ عثمانیہ ‘ حیدرآباد

ہندوستان میں زبان و ادب اور علوم و فنون ہی نہیں بلکہ سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیمات کو فروغ دینے والی جامعات کا طویل سلسلہ جاری ہے۔ ان جامعات میں فروغ پانے والی مختلف سرگرمیوں کی نمائندگی کے لئے جامعاتی اساس کے سہ ماہی ‘ ششماہی اور سالانہ جریدوں کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہندوستان کی دیگر جامعات کے مقابلے میں اس یونیورسٹی میں اردو ذریعہ تعلیم کے ذریعہ درس و تدریس کو فروغ دینے کا اہتمام کیا گیاہے۔

اس کے علاوہ اس مانو کا ایک اہم اعزاز یہ بھی ہے کہ اس یونیورسٹی نے تعلیم و تدریس کے علاوہ ٹیکنیکل تعلیم کو بھی اردو میں فروغ دینے کی طرف توجہ دی ہے‘ جس کے نتیجے میں بے شمار آئی ٹی آئی ‘ فارمیسی‘ انجینئرنگ اور تعلیمات کے شعبوں میں نئے نئے کورسس کی تدریس کو اہمیت دی گئیہے۔ پارلیمنٹ کے خصوصی قانون کے تحت حیدرآباد میں 1998ء میں قائم کردہ اس یونیورسٹی کی شاخیں ملک کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں اور علاقائی سنٹرس پر ٹیکنیکل تعلیم کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ علوم و فنون اور علوم السنہ کی تدریس کا اہتمام بھی جاری ہے۔ طویل عرصے سے حیدرآباد میں قائم اس اردو ذریعہ تعلیم کی یونیورسٹی میں عمارتوں کی تعمیر اور انتظامی امور کے کام انجام دےئے جاتے رہے‘ جن کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس یونیورسٹی سے وابستہ بنیاد گذار وائس چانسلر پروفیسر شمیم جیراجپوری اور ان کے بعد پروفیسر ایس ایم پٹھان اور کا دور ختم ہوا تو پروفیسر محمد میاں اور اب ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ سنبھالنے کے بعد محسوس کیاکہ اس مرکزی ہندوستانی یونیورسٹی میں درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کی سرگرمیوں کو بھی اجاگر کیا جانا چاہئے۔ اس سے قبل یونیورسٹی کی جانب سے اردو زبان میں کئی کتابیں شائع ہوتی رہیں‘ لیکن یونیورسٹی کی جانب سے کسی جریدے کی اشاعت اور اس کے توسط سے معیاری مضامین اور مقالات کو اشاعت کا وسیلہ بنانے کا خواب طویل عرصے سے شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ بڑی خوش آئند بات یہ ہے کہ اسی یونیورسٹی کے ’’مرکز برائے اردو زبان‘ ادب اور ثقافت‘‘کے توسط سے ششماہی تحقیقی جریدہ اور حوالہ جاتی مجلہ کی اشاعت عمل میں لائی گئی ہے۔ زائد از چھ ماہ قبل ’’ادب و ثقافت‘‘ کے اولین شمارہ کی اشاعت عمل میں لائی گئی اور اس شمارے کی دوسری اشاعت مارچ 2016ء میں منظر عام پر آنے کی نمائندگی کرتی ہے۔ ’’ادب و ثقافت‘‘ کے دوسرے شمارے کے سرپرست اعلیٰ عزت مآب ڈاکٹر محمد اسلم پرویز‘ وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی قرار پائے ہیں۔ مدیر کی حیثیت سے پروفیسر محمد ظفر الدین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ جبکہ نائب مدیر کی خدمات انجام دیتے ہوئے ڈاکٹر محمد ارشاد احمد نے اس معیاری اور پرُوقار مجلے کو منطر عام پر لانے کا حق ادا کیا ہے۔ اس ششماہی تحقیقی اور ثقافتی مجلے کی مجلس ادارت میں پروفیسر ایس اے وہاب قیصر‘ پروفیسر محمد نسیم الدین فریس اور پروفیسر نجم الحسن کے نام نامی شامل ہیں۔ جس کی طباعت حیدرآباد کے اے آر انٹرپرائزس کے سپرد کی گئی‘ جبکہ کمپیوٹرائز کتابت محمد زبیر احمد کی دلچسپی کا نتیجہ ہے۔ جریدے کی نشر و اشاعت کی ذمہ داری مرکز برائے اردو زبان‘ ادب و ثقافت مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی‘ گچی باؤلی‘ حیدرآباد نے نبھائی ہے۔ جس کے ساتھ ہی اس جریدے میں شامل مقالات کے موضوعات پر توجہ دی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے نامور ادیبوں اور قلمکاروں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ اس تحقیقی اور حوالہ جاتی جریدے کے حسن باطن میں اضافہ کیا ہے۔ ایڈیٹر کے شذرات کے علاوہ اس بھرپور اور مکمل مجلے میں 14 تحقیقی و تنقیدی مضامین کی اشاعت عمل میں آئی ہے۔ جن کے توسط سے تحقیقی و تنقیدی افکار کے جلوے نمایاں ہوتے ہیں اور روایتی تحقیق کی گرہیں کھلتی ہیں اور عصری تحقیق کے امکانات کے چراغ روشن ہونے لگتے ہیں۔ ہندوستان میں تحقیق کے مرد مجاہد پروفیسر شارب ردولوی کے تحقیقی مضمون ’’ایک درویش انقلابی۔ نیاز حیدر‘‘ کو رسالہ کے اولین مقالہ کی جگہ دی گئی ہے۔ جس میں انہوں نے نیاز حیدر کی شخصی خصوصیات کو نمائندگی دیتے ہوئے یہ بات واضح کی ہے کہ تصوف میں درویش کی جس بے نیازانہ صفت کی نمائندگی ہوتی ہے‘ اسی قسم کی ذاتی خوبیاں نیاز حیدر کی شخصیت میں موجود تھیں۔ اس لئے انہوں نے نیاز حیدر کو درویش انقلابی کی حیثیت سے متعارف کروایاہے۔ اس مقالے میں نیاز حیدر اور ان کی ترقی پسندی کے علاوہ ان کے لب و لہجہ کی دلچسپ تاثر انگیزی کو پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ نیاز حیدر نے نادر تشبیہات اور پیکر تراشی کے ذریعہ شاعری پر مہارت اور اظہار پر قدرت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ اس جریدے کے کا دوسرا مقالہ پروفیسر عتیق اللہ کی تحقیق کا نتیجہ ہے‘ جس کا عنوان ’’عابد سہیل۔ جو یاد رہا‘‘ کے توسط سے ممتاز محقق نے عابد سہیل کی سوانحی خصوصیات اور ان کی شخصی کامیابی و ناکافی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ عابد سہیل میں تنقید کا گہرا شعور موجود تھا۔غرض عابد سہیل کی نکتہ دانی اور نکتہ رسی کو نمائندگی دیتے ہوئے عتیق اللہ تابش نے یہ ثابت کیا ہے کہ عابد سہیل کی خصوصیت رہی کہ وہ بنجر زمین کو زرخیز بنانے کا ہنر رکھتے تھے۔ مجلے کا تیسرا مقالہ قدوس جاوید کا تحریر کردہ ’’اردو کا سماجی اور ثقافتی ڈسکورس‘‘ شائع کیا گیا ہے‘ جس میں انہوں نے ہندوستان کے طبقاتی سماج اور اس ملک کی دو بڑی قوموں کے توسط سے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو والوں کی سماجی ‘ تہذیبی اور سیاسی خصوصیات کو عبرتناک حد تک زوال سے آشنا کرنے کی سوچ و فکر اپنی جگہ مسلمہ ہے‘ لیکن اس ملک میں بستے ہوئے مسلمانوں کے زاویہ فکر کی نمائندگی دی ہے۔ اردو کے تخلیقی ادب کے حوالوں کے ذریعے کشمیر کی سرزمین میں اردو ادب کی آبیاری کرنے والے پروفیسر قدوس جاوید نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ رسائل اور جرائد ہی نہیں بلکہ اخبارات کے انتشار کے دور میں بھی ہندوستان کی اقلیت کی سماجی اور ثقافتی روش کو نمائندگی دی جاتی رہی۔ اردو والے اچھے دن آنے کے امکانات میں تمام دکھ درد کو سہتے ہوئے اس ملک کی مٹی کا حق ادا کرنے میں مصروف رہے۔ مکمل ادبی اور جامعاتی تحقیق کی اساس پر لکھا ہوا مقالہ ’’مسعود سعد سلمان کے ہندوی دیوان کے قدیم ترین حوالے ‘‘ کے توسط سے اردو میں لسانی تحقیق کی کڑیوں کو مستحکم کرنے والے مرزا خلیل احمد بیگ نے تمام بنیادی حوالوں کے توسط سے یہ ثابت کیا ہے کہ مسعود سعد سلمان کے ہندوی کلام پر بہرحال تشکیک کا رویہ برقرار ہے‘ اس دور میں ہندوی کا مطلب اردو نہیں بلکہ پنجابی اور دہلوی بھی ہندوی کے درجہ میں داخل تھی بلکہ لاہوری کو بھی ہندوی کی حیثیت سے شہرت رکھتی تھی۔ انہوں نے محمد ہوفی اور امیر خسرو کے حوالوں سے نتائج اخذ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ مسعود سعد سلمان کی ہندوی کو ابتدائی قدیم اردو کی حیثیت سے بھی قابل قبول نہیں سمجھا جاسکتا۔ اسی لئے انہوں نے ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ غزنویوں اور غوریوں کے دور میں پنجاب اور دہلی میں موجود زبان ’’بین قومی زبان‘‘ تھی۔ لسانی پس منظر میں شور سینی اپ بھرنش اور اس کے دور کی نمائندگی کرتے ہوئے مسعود سعد سلمان نے یہ ثابت کیا ہے کہ کھڑی بولی کے وجود سے ہی اردو کا نقطہ آغاز ہوا ہے۔ اس لئے 1193ء میں مسلمانوں کی دہلی کی فتح تک کھڑی بولی کا عروج ہوچکاتھا۔ چنانچہ مسعود سعد سلمان کی ہندوی کو بھی اردو کی حیثیت سے قبول کیا جانا چاہئے۔ تخلیقی ادب اور اس کی تحقیق کے پس منظر میں اردو فکشن کی تحقیق و تنقید میں انفرادی مقام کے حاملپروفیسر علی احمد فاطمی نے ’’ادب وثقافت‘‘ کے جریدے دوم میں اپنامضمون ’’راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں میں عورت‘‘ تحریر کیا ہے۔ جس میں مختلف حوالوں کے ذریعہ یہ بتایا گیا ہے کہ بیدی نے اپنے افسانوں میں عورت کو زیادہ تر مظلومیت اور بے جا جانبداری اور غضبناک رویہ سے دوچار ہونے والے وجود کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ افسانوی ادب میں نسوانی کرداروں کی تخلیق کے دوران ترقی پسند ادیبوں نے عورت کی آزادی کے لئے جو رویہ اختیار کیاتھا ‘ اسی رویہ کی گونج بیدی کے افسانوں کی عورت میں سنائی دیتی ہے۔ اس مجلے کی جامعیت یہی ہے کہ جہاں ادب کی اہم اصناف کی نمائندگی پر محققین اور ناقدین کے نظریات کو پیش کیا گیا ہے‘ وہیں جامعہ ملیہ نئی دہلی کے اردو کے استاد ڈاکٹر محمد سرور الہدیٰ کے مقالے ’’کلیم عاجز کی خود نوشت۔’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘ ایک ثقافتی بیانیہ‘‘ کے توسط سے خود نوشت کے فنی امکانات اور کلیم عاجز کی خود نوشت کے افادی پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے۔ کلیم عاجز کی اس خود نوشت میں کلکتہ کی سرزمین کے ان غریب انسانوں کی زندگی کا عکس ملتا ہے‘ جو بے بسی اور مجبوری کی زندگی گذارتے ہوئے دنیا میں حشرات کی زندگی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت غور طلب ہے کہ افسانوی نثر میں بیانیہ Narration کا وجود ہوتا ہے۔ خود نوشت سوانح Auto Biography کا تعلق افسانوی نثر سے نہیں تو پھر بیانیہ کے مزاج کو غیر افسانوی نثر سے وابستہ کرنا کس حد تک ادبی پس منظر کی دلیل بنتا ہے۔ حیدرآباد کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی افسانوی ادب کی ترقی پسند آواز قمر جمالی نے اپنی مقالہ ’’ترقی پسند اردو غزل میں سماجی سروکار‘‘ کے توسط سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہزاروں رکاوٹوں کے باوجود بھی ترقی پسند شاعروں نے غزل کی صنف کو عوامی آواز بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس خصوص میں انہوں نے مختلف شاعروں کے کلام سے حوالے دیتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ اردو غزل کی شاعری کو گو روایتی عشق اور تصوف کے موضوعات سے باہر نکال کر عوامی شاعری کے محور پر گردش کرنے کا کام ترقی پسند اردو غزل نے انجام دیا ہے۔ اس خصوص میں کئی حوالے اور کئی شعراء کے کلام کی نمائندگی کے ذریعہ قمر جمالی نے تنقیدی بساط کی نمائندگی کی ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر سید محمود کاظمی نے ’’کلیم الدین احمد کے تنقیدی نظریات‘‘ کا جائزہ ’’اقبال ایک مطالعہ‘‘ کے حوالے سے پیش کرکے علامہ اقبال کی عظمت کو قبول کیا ہے تاہم ان کی پیمبرانہ شاعری کی مخالفت کی ہے اور اسی یونیورسٹی کے دوسرے استاد شمس الہدیٰ دریا آبادی نے ’’اردو لغت کی تعین قدر ‘‘پر مقالہ لکھ کر علم لغت اور لغت نویسی کے فرق کو واضح کیا ہے۔ جبکہ جموں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد ریاض احمد کا مقالہ ’’اردو کے اہم مکتوب نگار( غالب کے علاوہ )‘‘ کی اشاعت سے غالب کے علاوہ اردو کے نامور ادیبوں اور تخلیق کاروں کے خطوط کے فن سے آگاہی ہوتی ہے۔ مقالہ نگار نے مرزاغالب کے علاوہ محمد حسین آزاد‘ مولانا حالی‘ ڈپٹی نذیر احمد‘ محمد اسمٰعیل پانی پتی‘ شبلی نعمانی‘ مہدی افادی اور مولوی عبدالحق کے علاوہ ابوالکلام آزاد کے خطوط کے مطالعہ سے یہ بات واضح کی ہے کہ ہر ادیب نے خطوط لکھنے کے ارادے سے ہی اپنی تحریروں کو نمائندگی دی ہے۔ اس لئے منٹو‘ بیدی اور دوسرے اہم مکتوب نگاروں کی تحریروں سے ثابت ہوتاہے کہ اردو کے مکتوب نگاروں نے اپنے خطوط کے ذریعہ انفرادی اور اجتماعی زندگی ہی نہیں بلکہ سیاسی‘ ثقافتی اور عائلی مسائل کی نمائندگی کا حق ادا کرکے اس صنف کی ہمہ جہت ترقی کا بھرپور جائزہ لیا اور ابوالکلام آزاد کے خطوط کو بھی ارادہ کی بنیاد پر صنف ادب میں مکتوب نگاری کا درجہ دیا ہے۔ الہ آباد یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مدرس کا پیشہ اختیار کرنے والے ڈاکٹر شاہنواز عالم نے منفرد انداز کا مقالہ ’’وقت کی کہانی۔ کبیر ‘ جوش اور اختر الایمان کی زبانی‘‘ تحریر کیا ہے‘ جس کے توسط سے انہوں نے ان شاعروں کی شعری حسیات کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ ہر شاعر کے فکری دھارے میں وقت کا تصور اور اس کے گذرتے رہنے کی صلاحیت کی نمائندگی موجود ہے۔ غرض انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان تینوں شاعروں نے وقت کی قدر و منزلیت سے متعلق مختلف سوالات کو اپنی شاعری کا وسیلہ بنایا ہے۔ شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر مزمل سرکھوت نے اپنے مقالے ’’دکنی شاعری کا قطب شاہی دور۔ ادبی و تہذیبی تناظر میں‘‘ کے توسط سے مختلف نئے امکانات کی نمائندگی کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ قطب شاہی دور میں لکھی ہوئی شاعری کے مطالبہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دور ادبی اور ثقافتی اعتبار سے کافی دولتمند تھا۔ مختلف کتابوں کے حوالے سے مقالے کو تحقیقی نوعیت سے وابستہ کیا گیا ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ڈاکٹر بدر سلطانہ کا مقالہ ’’مثنوی ’گلشن عشق‘ میں دکنی تہذیب و ثقافت‘‘ کی نمائندگی کا وسیلہ قرار پاتا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ عادل شاہی دور میں ایرانی اور ہندوستانی تہذیب کے توسط سے دکنی تہذیب و ثقافت اور سماجی روایات کو فروغ حاصل ہوا اور یہی خصوصیات گلشن عشق کی شاعری میں جلوہ گر ہیں۔اس ادبی جریدے کے آخری مضمون کی حیثیت سے حیدرآباد کے اردو کے مؤظف استاد ڈاکٹر رؤف خیر کا مقالہ ’’اقبال اور مادۂ تاریخ‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی ہے جس سے مادۂ تاریخ کی فنی خصوصیات کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کی لکھی ہوئی مادۂ تواریخ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مادۂ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے اقبال کی فارسی شاعری کے منظوم ترجموں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اقبال نے ٹیپو سلطان شہید‘ داغ دہلوی‘ امیر مینائی کی مادہ تاریخ کے علاوہ شبلی نعمانی اور حالی کی خدمات کو بھی خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ انہوں نے پیرزادہ محمد حسین عارف کی کتابوں کے مادۂ تاریخ بھی تحریر کی ہیں۔ اس طرح علامہ اقبال ؒ اور منشی محمد الدین فوق کے علاوہ سر راس مسعود کے انتقال کے بعد لڑکی کی پیدائش پر برجستہ تاریخ نکالی۔ غرض اقبال اپنے عہد کے تاریخ گو ہی نہیں بلکہ نامور مادۂ تاریخ برآمد کرنے والے شعراء میں بھی شمار کئے جاتے ہیں۔ اسی حقیقت کو ڈاکٹر رؤف خیر نے اپنے مقالے میں نمائندگی دی ہے۔ اس جریدے کے آخر میں تاثرات کا گوشہ بھی شامل کیا گیا ہے جس میں مختلف مکاتب خیال دانشوروں اور قلمکاروں کے تاثرات کو شامل کیا گیا ہے۔ غرض پیپر بیگ ایڈیشن کے ذریعہ خوبصورت کتابت اور طباعت کے علاوہ سرورق کی عمدہ تصویر سے وابستہ 220 صفحات پر مشتمل ہے ’’ادب و ثقافت ‘‘کے ششماہی رسالے کی دوسری اشاعت کے سرورق پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی انتظامی عمارت کی تصویر اور سرورق کے اندرونی حصہ میں تعلیم کی طاقت کانفرنس کی تصویر اور آخری صفحہ کے اندرونی حصہ پر زبیر رضوی کے خطاب کی تصویر شائع کی گئی ہے۔ پروفیسر محمد ظفر الدین کی ادارت میں شائع ہونے والے اس خوبصورت جریدے کے دوسرے شمارے میں شائع شدہ معیاری انداز کے مقالہ جات کی اشاعت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ رسالہ ہر ریسرچ اسکالر کے مطالعہ کی ضرورت ہے اور اس جریدے کو کتب خانوں میں محفوظ رکھا جانا چاہئے۔ جریدے کی کوئی قیمت مقرر نہیں اور اہل ذوق حضرات یہ جریدہ مرکز برائے اردو زبان ‘ ادب اور ثقافت ‘ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ‘ گچی باؤلی‘ حیدرآباد 500032(تلنگانہ) کے پتے سے حاصل کرسکتے ہیں۔
———
Prof.Majeed Bedar
bedarM

Share
Share
Share