دیپاولی یا دیوالی: روشنی کا تہوار
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘
شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
دیش میں دیپاولی یا دیوالی ہی شاید ایک ایسا تہوارہے‘ جو کسی نہ کسی صورت میں ہر صوبے میں منایا جاتا ہے۔ آج اس کی صورت صوبائی نہ رہ کر قومی ہوگئی ہے۔ ویسے ہر صوبے میں دیوالی کے بارے میں الگ الگ روایات اور پران کی کہانیاں رائج ہیں اور اسے الگ الگ صورتوں میں منایا بھی جاتا ہے۔ لیکن اسے روشنی کا تہوار ہر جگہ سمجھا جاتا ہے۔
شمالی ہندوستان میں دیوالی کے دن جوا کھیلنے کے رسم نہ جانے کب سے چلی آرہی ہے‘ کچھ لوگ اسے مذہبی کتابوں سے منسوب کرتے ہیں‘ تو بہت سے ایک روایت کا حوالہ دیتے ہیں‘ جس کے مطابق شیو جی نے پاروتی کے ساتھ پانسہ کھیلتے وقت اپنا راج داؤ پر لگا دیا اور ہار گئے۔ کئی بار ہار جیت ہونے بعد آخر میں پاروتی بازی ہار گئیں۔ تب سے انہوں نے دیوالی کے دن جوا کھیلنے کا دستور بنادیا۔
ایک دوسری روایت ہے کہ نشد دیش کے راجہ نل نے جوے میں اپنا سارا راج ہارا تھا۔ غریب لوگ پیسوں کے بجائے باداموں اور کھجوروں سے کام چلاتے ہیں۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ جوا کھیلنا برا سمجھتے ہیں‘ وہ بھی دیوالی کے دن اسے دھرم کا کام کہتے ہیں۔
بنگال کے اہیر قبیلے کے لوگ دیپاولی کے دن بستی کے میدان میں ایک سورنی کے پیر باندھ کر لٹا دیتے ہیں اور پھر بستی کے سارے مویشیوں کو اس پر دوڑاتے ہیں۔ سورنی کچلی جانے کے سبب مرجاتی ہے۔ اس کے بعد اسے بڑی شان سے آگ پر بھونا جاتا ہے اور گانا بجانا تو چلتا ہی ہے۔
بھیلوں میں اس دن اندر کی پوجا کی جاتی ہے۔
مہاراشٹرا کے تھانہ ضلع کے جنگلی قبیلے دیوار کے لوگ سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ سورج کو رولی اور پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ مرغی کی بھینٹ دی جاتی ہے۔ مرغی کو مارا نہیں جاتا‘ پاس کے جنگل میں ‘ چھوڑدیا جاتا ہے۔
گجرات کے پنواروں میں اس موقع پر بڑی عجیب رسم ہے۔ ہر کنبے کے لوگ شہر کی ندی یا کسی نالے سے چار پانچ پتھر چنتے ہیں اور انہیں گھر کے مویشیوں کے باڑے میں رکھ کر پوجا کرتے ہیں۔ اس کے بعد کسی بیل کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈال کر اسے ادھر ادھر دوڑایا جاتا ہے۔ جشن میں آئے لوگوں میں سے جو بھی بیل کی گردن سے ہار نکال لیتا ہے۔ اسے بڑا بہادر سمجھا جاتا ہے۔ رات میں مشغلیں لے کر ہر شخص اپنے جاننے والوں کے گھر جاتا ہے‘ جہاں رولی اور پھول سے اس بہادر کی پوجا کی جاتی ہے۔
کچھ ذاتوں میں تانترک اس رات اماوس کے اندھیرے میں شمشان میں گھیرے بناکر بیٹھتے ہیں۔ اور مرغی کی قربانی اور شراب سے دھارمک کام کرتے ہیں۔
مینا گجر قوم کے لوگ اس دن اپنے اپنے خاندان کے مرے ہوئے لوگوں کی یاد میں دان دیتے ہیں اور پوجا کرتے ہیں۔
انہیں سے ملتے جلتے ڈھنگ پر اڑیسہ کے لوگ دیوالی مناتے ہیں۔دن میں خاندان کے مرے ہوئے لوگوں کی یاد میں پنڈدان کیا جاتا ہے اور رات میں سوکھے سن کی گچھیاں جلا کر اوپر دکھائی جاتی ہیں تاکہ وہ لوگ اس روشنی میں نیچے آکر پنڈلے لیں۔ ویسے ہندوؤں میں شرادھوں کے لئے الگ دن مقرر ہوتے ہیں۔
متھرا‘ بندرا بن کے علاقوں میں دیوالی کرشن پوجا کے روپ میں منائی جاتی ہے۔ ہر دوار اور اس کے آس پاس کے ضلعوں میں دیوالی کی رات میں لڑکیاں پھولوں کی ٹوکریاں بناتی ہیں اور گیت گاتی ہوئی ان میں دیئے رکھ کر ندی میں بہادیتی ہیں۔
اگر کسی کی ٹوکری بیچ میں ڈوب جاتی ہے تو یہ مانا جاتا ہے کہ اگلا سال اس کے لئے اچھا نہیں رہے گا۔ اگر ٹوکری ندی کی رو میں آگے چلی جاتی ہے اور دیا جلتا رہتا ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگلا سال اس کے لئے اچھا رہے گا۔
مہاراشٹرا کے کچھ ضلعوں میں سات دن تک دیوالی کا تہوار منایا جاتا ہے۔ صبح اور شام بہت سی لڑکیاں سج دھج کر بیل کی مورت لے کر جلوس نکالتی ہیں۔ ایک لڑکی کرشن کا سوانگ بھرتی ہے‘ باقی گوپیاں بن جاتی ہیں۔ وہ ناچتی‘ گاتی کسی ندی یا تالاب کے کنارے جاکر اس مورت کی پوجا کرتی ہیں۔ دیوالی کے تہوار کے آخری دن گھر گھر کی لڑکیاں مل کر کسی مندر میں کھانا بناتی ہیں اور ناچتی گاتی ہیں۔
پنجاب میں اس دن لوگ چاندی کے روپیوں کی تلاش کرتے ہیں۔ انہیں لکشمی کا روپ سمجھ کر ان پر رولی لگاکر پھول چڑھاتے ہیں۔ پوجا کے بعد ایک برتن میں دودھ بھر کر یہ چاندی کے روپئے اس میں ڈال دیئے جاتے ہیں اور برتن کو لکشمی کی مورت کے آگے رکھ دیا جاتا ہے۔
ان دنوں خوب پتنگیں اڑائی جاتی ہیں۔ شمالی ہندوستان اور خاص طور پر لکھنؤ میں تو اس دن ہر جگہ کافی قیمتی پتنگیں اڑائی جاتی ہیں۔
راجستھان کے ناتھ دوارہ مندر میں عجیب طرح سے دیوالی منائی جاتی ہے۔ شری ناتھ جی کی مورتی کے آگے کھانے پینے کی چیزوں کا بہت بڑا ڈھیر لگا دیا جاتا ہے اور مورتی کی پوجا کی جاتی ہے۔
جنوبی ہندوستان میں شمال کی طرح اس تہوار کو رات میں نہیں منایا جاتا بلکہ صبح پوٹھنے سے پہلے منایا جاتا ہے۔ اس وقت خاندان کے سب لوگ تیل مل کر اشنان کرتے ہیں اور نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ بعد میں ہر گھر کے آگے آگ جلائی جاتی ہے۔ جس میں گھر کا کوڑا کچرا ڈال دیا جاتا ہے۔ اس دن آنکھ مچولی کا کھیل کھیلنے کی روایت بھی ہے۔ یہ رسم بال وواہ کے سبب بنی تھی۔ اب بال وواہ ختم ہوگیا‘ لیکن یہ کھیل روایت بن چکا ہے۔
جنوب میں اس تہوار کے پیچھے کرشن کی پتنی ستیہ بھاما کے ذریعہ نرکا سرراکشس کو مارنے کی پران کی کتھا ہے۔
ویسے تو دیوالی روشنی کا تہوار ہے۔
لیکن کچھ صوبوں میں اس دن ناچ کی روایت بھی ہے۔ ان میں اترپردیش کی اہیر قوم کا مردانہ ناچ بہت مشہور ہے۔ چست کپڑے پہن کر یہ لوگ ہاتھ پیروں میں چھوٹے چھوٹے گھنگرو باندھ لیتے ہیں اور ہاتھ میں چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے ڈنڈے لے کر ناچتے ہیں۔ ان ڈنڈوں میں بھی گھنگرو بندھے ہوتے ہیں۔
راجستھان کی عورتیں رنگ برنگے کپڑے پہن کر چھومر ناچتی ہیں۔ بہادروں کی دھرتی ہونے کے سبب اس دن تلواروں کا ناچ ناچنے کی روایت بھی وہاں ہے۔ عورت مردوں کی ٹولیاں تلواریں لے کرناچتی ہیں۔ جب مردانہ ٹولی کا ہیرو جیت جاتا ہے تو وہ زنانہ ٹولی کی ہیروئن کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔ اور اس طرح ناچ ختم ہوتا ہے۔
آج ہر صوبے میں اس تہوار کا رنگ پورا سماج ہوگیا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو یاد نہیں کہ اس کے پیچھے کون سی مذہبی کہانی ہے۔ آج دیوالی اندھیرے سے گھری زندگی میں نئی روشنی کی مظہر ہے۔ جسے مختلف صوبوں میں اپنے اپنے ڈھنگ سے پیش کیا جاتا ہے۔
———
Md.Raziuddin Moazzam