شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 15
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
اسماعیل میرٹھیؔ اور شادؔعظیم آبادی
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 14 ۔ کے لیے کلک کریں
اسماعیل میرٹھیؔ (۱۸۴۴۔۱۹۱۷ء)
اسماعیل میرٹھی یوں تو بچوں کے شاعر اور ادیب کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں، لیکن جن لوگوں نے اسماعیل میرٹھی کی اردو کی درسیات کی کتابیں پڑھی ہیں ان کو اعتراف ہے کہ اردو زبان و ادب کا ذوق ان کو اسماعیل میرٹھی کی اردو درسیات کی کتابوں سے حاصل ہوا، اسماعیل میرٹھی نے بہت سے لوگوں کو اردو کا ادیب اور انشاء پرداز بنا دیا،
انھوں نے اردو درسیات کی چھ کتابیں تیار کیں، اورجن نسلوں نے ان کی کتابوں کو پڑھا ان کی اخلاقی اقدارکی نشوونماہوئی اور ان کے اندر زبان وادب کا ذوق بھی پروان چڑھا۔
اسماعیل میرٹھی نے بچپن میں اردو کے ساتھ فارسی زبان میں دستگاہ حاصل کی، اور پھر انگریزی زبان میں بھی مہارت حاصل کی اور انجینئرنگ کا کورس بھی مکمل کیا، انھوں ہندوستان کی جنگ آزاد ی کا خون آشام منظر اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا، انھوں نے برطانوی سامراج کی بربریت اور ہندوستانیوں کی بے دست وپائی کے درد ناک منظر کا مشاہدہ کیا تھا، انھوں نے دیکھا کہ مسلمانوں میں دفاع کی کوئی صلاحیت نہیں ہے انھوں نے علم وقابلیت کے باوجود کئی حکومت کا انتظامی عہدہ قبول نہیں کیا،بلکہ درس اور تدریس کا معزز پیشہ اختیار کیا،تاکہ وہ قوم کی رہ نمائی کریں اور قوم کے نو نہالوں کی تربیت کریں، انھوں نے درسی کتابیں تیار کیں جو آگرہ اور اودھ کے صوبہ میں داخل نصاب رہیں ، ان کتابوں میں اردو زبان کی خوبصورت نثر بچوں کے لئے لکھی گئی ہے، اور اسماعیل میرٹھی کی نظمیں بھی ہیں، ان میں اخلاقی مضامین بھی ہیں، جن کی وجہ سے پڑھنے والا تعلیم کے ساتھ تربیت کے زیور سے بھی آراستہ ہوجاتا ہے، محمد اسماعیل میرٹھی نے پچاس سے زیادہ ایسی نظمیں لکھی ہیں جو بچوں کے لئے ہیں، زبان پر قدرت کے لئے دیکھئے کہ انھوں نے انگریرزی کی مشہور نظم’’ ٹیونکل ٹوینکل لٹل سٹار‘‘ کا ترجمہ غیر مقفی نظم میں اس طرح کیا ہے :
ارے چھوٹے چھوٹے تارو
کہ چمک دمک رہے ہو
تمہیں دکھ کر نہ ہووے
مجھے کس طرح تحیر
اس اونچے آسماں پر
جو ہے کل جہاں سے اعلی
ہوئے روشن اس طرح سے
کہ کسی نے جڑ دئے ہیں
گہر اور لعل گویا
یہ اسماعیل میرٹھی کاکما ل ہے کہ انھوں نے نظم تو گائے پر بچوں کے لئے لکھی ہے لیکن اس میں گاؤپرستی کے بجائے توحید کی دعوت دی گئی ہے، یہ اشعار دیکھئے:
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
دودھ دہی اور مٹھا مسکہ
دے نہ خدا تو کس کے بس کا
اردو کے کسی استاذ کے اتنے زیادہ شاگرد نہیں ہیں جتنے اسماعیل میرٹھی کے ہیں، اب بھی جو بچہ ان کی کتابوں کو پڑھے گا اردو زبان کاذوق اس کے اندر پیدا ہوگا اور اسی کے ساتھ اس کی اخلاقی تربیت بھی ہوگیاور اس اعتبار سے وہ بھی اسمعیل میرٹھی کا شاگرد ہوگا ۔
شادؔ عظیم آبادی(۱۸۴۶۔۱۹۲۷ء)
۱۸۵۷ ء کے بعد ہندوستان پر برطانوی سامراج کا تسلط ہوگیا تھا، بادشاہت ختم ہوچکی تھی، اور پہلے دربار میں اردو شاعر ی کی جو سر پرستی ہوا کرتی تھی وہ بھی قصہ پارینہ بن چکی تھی، شاعروں کا کوئی پرسان حال نہ تھا، انگریزی زبان وادب کی تعلیم پھیل رہی تھی ، شاعری اب فرسودہ سمجھی جانے لگی تھی، اس مایوسی کی فضاء میں محمد حسین آزاد ؔ ، اسماعیل میرٹھی اور مولانا حالیؔ وغیر ہ نے نئے انداز میں نئی باتیں اور نئی نصیحتیں شروع کردی تھی، اس دھند لکے میں عظیم آباد (پٹنہ)سے ایک نئی آواز سنائی دینے لگی جس نے شاعری پر اورغزل گوئی پر اعتماد بحال کیا، یہ آواز سید علی محمد شادؔ عظیم آبادی کی تھی،ان کی شاعری میں جذبات کا گداز ، فکر کی گہرائی اور طبیعت کی حساسیت پائی جاتی ہے، ان کی پر گوئی ایسی تھی کہ انھوں نے تمام اصناف سخن پر طبع آزامائی کی ہے، اور غزل کے سفر میں ان کا مقام ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، ان کو بچپن سے شاعری کاشوق تھا، اور انھوں نے فارسی ادب کا بھی مطالعہ کیا تھا، اور وہ شاعری میں سید شاہ الفت حسین فریادؔ کے شاگرد تھے، وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے، مکتوبات شادؔ عظیم آبادی معلومات کا ایک بحر بیکراں ہے، شاد عظیم آبادی نے مرثیہ نگاری بھی کی ہے، اور ان کے مرثیوں میں شہدائے کربلا کا صبر اور ایمان کی قوت کو خاطر خواہ نمایا کیا گیا ہے، ایک بند ملاحظہ کی کیجئے :
بچوں کو تین دن سے جو تھی انتہاء کی پیاس
بیٹھے ہوئے تھے ماؤں کی گودوں میں سب اداس
بازار موت گرم تھا تھی زندگی سے یاس
لیکن یہ کیا مجال کہ ظاہر کریں ہراس
رونے کو اضطراب کو ٹالے ہوئے تھے وہ
سیدانیوں کے گود میں پالے ہوئے تھے وہ
شاد ؔ عظیم آبادی کی مرثیہ نگاری معیار کے مطابق ہے، لیکن ان کی اصل شہرت ان کی غزلوں سے ہوئی، بہترین غزل گو شعراء میں ان کا شمار کیا جاتا ہے، میر تقی میرؔ کے یہاں جو سادگی ہے اور آتشؔ کے یہاں جو رنگینی ہے دونوں کے امتزاج کا نام شادؔ عظیم آبادی کی غزلیں ہیں، شاد عظیم آبادی نے غزل گوئی میں ایک نئی روش نکالی ہے، اور ان کا انفرادی اسلوب ہے جس میں غم اور الم بھی ہے، اور تخیل کا انوکھا پن بھی ہے، اور فکر کی گہرائی بھی ہے، ان کے چند اشعار دیکھئے:
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
نہ جاؤں کیوں لحد میں منھ چھپائے
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں
ہوں اس کوچے کے ہر ذرہ سے واقف
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
یہ بزم مے ہے یہاں کو تاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے
آجاؤ جو تم کو آنا ہے ایسے میں بھی شاداب ہیں ہم
سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہاء معلوم
لے کے خود پیر مغاں ہاتھ میں مینا آیا
مے کشو شرم کہ اس پر بھی نہ پینا آیا